گراؤنڈ رپورٹ: اتر پردیش کے رام پور ضلع میں گزشتہ21 دسمبر کو شہریت قانون کے خلاف ہوئے احتجاج کے بعد پولیس نے کئی لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ اس میں سے کئی لوگوں کے یہاں پبلک پراپرٹی کےنقصان کا ہرجانہ بھرنے کے لیے لاکھوں روپے کا نوٹس بھیجا گیا ہے۔
اتر پردیش کے رام پور ضلع میں شاہ آباد گیٹ واقع عیدگاہ اور ہاتھی خانہ چوراہا پر شہریت قانون کے خلاف 21 دسمبر کو ہوئے احتجاج کے اگلے دن روزانہ کی طرح ضمیر خان نماز پڑھ کر گھر آئے ہوئے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں کچھ پولیس والے گیٹ پیٹنے لگے۔الزام ہے کہ ضمیر کی اہلیہ کواڑ کھول پاتیں اس سے پہلے ہی پولیس والوں نے گیٹ توڑ دیا اور گھر میں گھس کر ضمیر خان کو اٹھاکر لے گئے۔
پولیس کے ذریعےدروازہ پیٹنے کی آواز سن کر محمد محمود بغل کے گھر سے نکل کر باہر آئے۔ وہاں کھڑا دیکھ پولیس نے انہیں بھی پکڑ لیا۔الزام ہے کہ ضمیر کے گھر کے دائیں طرف والے گھر میں گھس کر پولیس نے پپو نامی نوجوان کو گرفتار کر لیا اور ننگے پیر ہی انہیں مارتے پیٹتے لے گئے۔
ان تینوں گھروں کی عورتوں اور بچوں نے جب اس کی مخالفت کرنے کی کوشش کی تو پولیس اہلکاروں نے انہیں بھی جیل بند کرنے کی دھمکی دی۔اہل خانہ نے دی وائر کے ساتھ بات چیت میں یہ دعویٰ کیا ہے۔
یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعے مظاہرین سے ‘بدلہ لینے’ اورسرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی رقم وصول کرنے کی بات کہنے کے بعد اتر پردیش پولیس نے ضمیر خان، محمد محمود اور پپو کے گھر 262300 روپے کے ہرجانہ کا نوٹس بھیجا گیا ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ وہ جواب دےکر بتائیں کہ کیوں ان سے یہ رقم نہ وصول کی جائے۔
اس نوٹس میں پولیس کے ذریعے استعمال کئے گئے ٹیئر گیس، ربڑ بلیٹ، پلاسٹک پیلیٹ، میونسپل کے ذریعے کی گئی بیریکیڈنگ، پولیس کے بیریئر وغیرہ کے بھی خرچ کو وصول کرنے کی بات کہی گئی ہے۔
اترپردیش کے الگ الگ ضلعوں میں اب تک تقریباً400 لوگوں کو نوٹس دیے گئے ہیں۔ یوگی سرکار نے ایسا کرنے کے لیے دو دسمبر 2010 کو الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعے دیے ایک حکم کا سہارا لیا ہے جس میں توڑ پھوڑ کرنے والوں سے نقصان کے بھرپائی کی بات کہی گئی ہے۔
حالاں کہ اس طرح کے معاملے کو لےکر سپریم کورٹ کی ایک ہدایت ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ سرکار نہیں، بلکہ ہائی کورٹ اس طرح کی کارروائی کر سکتے ہیں۔
سردی میں ضمیر خان کے گھر کے مین گیٹ پر ان کی 60 سالہ ماں منی بیگم بیٹھی ہوئی تھیں۔ پولیس والوں کے ذریعے ان کا دروازہ توڑنے کے بعد انہیں جاگ کر گھر کی رکھوالی کرنی پڑتی ہے۔ انکا بیٹا ضمیر اس وقت جیل میں ہے، گھر میں کوئی اور ایسا نہیں ہے جو گیٹ ٹھیک کرا سکے۔
ضمیر کی اہلیہ تسلیم جہاں بتاتی ہے کہ شام میں کچھ پولیس والے گھر آئے تھے اور ایک نوٹس پکڑاکر کہا تھا، ‘کسی سے پڑھوا لینا اسے، پیسے بھرنے ہیں تمہیں۔’
گھر میں کوئی پڑھا لکھا نہیں ہے جو نوٹس کو پڑھ پاے اس لیے ضمیر کی ماں منی بیگم نے وہ نوٹس قاضی سے پڑھوانے کے لیے بھیج رکھا تھا۔
تسلیم جہاں بتاتی ہیں،‘ہمیں نہیں پتہ کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ ہم سے تو پولیس والے انگوٹھا لے گئے۔ سنا ہے کہ کئی لاکھ روپے کا ہرجانہ دینا ہوگا۔ میرے بچہ اب بھی بھوکے ہیں۔ گھر میں کھانے کو پیسے نہیں ہے، اتنے لاکھ کا جرمانہ ہم کیسے دے پائیں گے۔’
ضمیر کی ایک چھوٹی سی کرانے کی دکان ہے۔ ساتھ ہی میں کبھی کبھی وہ سلائی کا کام بھی کر لیتے تھے۔ گھر کا خرچہ اسی کے سہارے چلتا تھا۔ منی بیگم گھر گھر قرآن پڑھاتی ہیں۔
انہوں نےکہا، ‘میرے بیٹے کا ایسا کوئی ریکارڈ نہیں ہے کہ اس نے کوئی غلط کام کیا ہو۔ اس پر کسی طرح کا کیس نہیں ہے۔ زندگی میں کبھی بھی اس نے جیل یا تھانہ دیکھا ہی نہیں تھا۔ اگر وہ روز کمائے نہ تو گھر کا خرچ بھی نہ چل پاے۔ اس کا ایک 10 سال کا لڑکا ہے، چار سال کی لڑکی ہے۔’
ضمیر کی ماں کہتی ہیں،‘جب ہم نے ان سے پوچھا کہ ہمارے بےقصور بچہ کو کیوں لے گئے تو انہوں نے کہا، ہمارے پاس اوپر سے آرڈر آیا تھا۔’
رام پور شہر کی نئی بستی میں ضمیر کے بغل میں رہنے والے محمد محمود کرایے کے گھر میں رہتے ہیں۔ وہ پھیری لگاکر مسالے بیچنے کا کام کرتے تھے۔ محمود کی اہلیہ شبنم نے کہا، ‘میرے شوہر کسی بھی مظاہرہ میں نہیں گئے تھے۔ وہ گھر میں تھے۔ بغل میں دروازہ پیٹنے کی آواز سنی تو باہر دیکھنے آ گئے۔ اتنے میں پولیس والوں نے انہیں دبوچ لیا۔ میں روئی چلائی تو دوخاتون پولیس مجھے ڈنڈا مارنے کے لیے آگے بڑھیں۔’
انہوں نے آگے بتایا، ‘میری دو سال کی بیٹی ہے۔ گھر میں اکیلی رہتی ہوں۔ جب پولیس نے میرے میاں کو گرفتار کیا تھا تو ان کی جیب میں 4340 روپے تھے۔ انہیں کسی کو پیسہ دینا تھا۔ اس کا پرچہ بھی اسی میں تھا۔ پولیس والوں نے یہ پیسہ لے لیا ہے، وہ انہیں کے پاس ہے۔ اب انہوں نے لاکھوں روپے کا نوٹس بھیج دیا ہے۔ بتائیے کہاں سے اتنے پیسے لائیں گے۔’
پولیس کی زیادتی کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ‘اس طرح کا ظلم ہو رہا ہے۔ جب وہ مظاہرےمیں نہیں گئے تھے، کچھ نہیں کیا تو پولیس کیوں انہیں پکڑکر لے گئی۔ کس نے پتھربازی کری ہے، ہمیں کیا پتہ۔ میرے شوہر تو ویڈیو میں بھی نہیں ملیں گے کیونکہ وہ گھر پر ہی تھے۔’
شبنم نے کہا کہ اگر پولیس اسی طرح ظلم کرتی ہے اور میرے شوہر کو نہیں چھوڑتی ہے تو وہ ہمیں بھی جیل میں ڈال دے۔ ہم کس کے سہارے زندگی بسر کریں گے۔ ہم سے تو بھرپائی کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے، جن کے یہاں کے لوگ مرے ہیں، ان کی بھرپائی کون کرےگا۔
پپو کی اہلیہ سیما کہتی ہیں کہ 22 دسمبر کے دن ان کے شوہر گھر میں لائٹ ٹھیک کر رہے تھے۔ تھوڑا بیمار ہونے کی وجہ سے وہ آرام کر رہے تھے کہ اچانک سے پولیس دروازہ پیٹنے لگی۔ وہ زبردستی گھر میں گھس گئی اور میرے شوہر جس حالت میں تھے، ویسے ہی انہیں گاڑی میں بھرکر اپنے ساتھ لے گئی۔
پپوویلڈنگ کرنے اور اے سی ٹھیک کرنے جیسے کام کرتے ہیں۔ ان کی اہلیہ نے کہا، ‘ہمارا روز کا کمانا روز کا کھانا ہے۔ میری ہمت نہیں ہے کہ میں اتنے پیسے بھر سکوں۔ تین دن ہو گئے ہیں، گھر میں چولھا نہیں جلا ہے۔ لڑکی کی طبیعت بہت خراب ہے، دوا کے بھی پیسے نہیں ہیں۔’
سیما کی چار لڑکیاں اور ایک لڑکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غریبی کی وجہ سے بچوں کی اچھی پڑھائی ہو نہیں پائی۔ دو سرکاری اسکول میں جاتے ہیں، باقی دو گھر پر ہی رہتے ہیں۔
تینوں گھر کے اہل خانہ نے یہ بھی الزام لگایا کہ جب انہیں پولیس نوٹس دینے آئی تھی تو نوٹس دینے کے لیے ان سے پیسے مانگے تھے۔ سیما نے کہا کہ پولیس نے ان سے 200 روپے مانگے تھے، لیکن اس وقت ان کے پاس صرف 50 روپے تھے، جو انہوں نے پولیس والوں کو دے دیا۔
محمودکی اہلیہ شبنم کہتی ہیں کہ پولیس کی اس بربریت کے بعد اگر ہم آواز اٹھاتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان ایسا کر رہا ہے، ویسا کر رہا ہے۔ ہم کچھ کہتے ہیں تو ہم سے ثبوت مانگ جاتا ہے۔
انہوں نےکہا، ‘ہمارے شوہر کو لے گئے ہیں تو کیا ثبوت ہے ان لوگوں کے پاس۔ ان پولیس والوں کے پاس۔’
وہیں کانگریس کے ممبر رہ چکے مقامی رہنما فیصل لالہ نے بتایا کہ پولیس نے بڑی تعداد میں بےگناہ لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔
جب دی وائر کی ٹیم ان سے ملاقات کرنے پہنچی تو اس وقت گرفتار کئے گئے دو لوگوں کے اہل خانہ فیصل لالہ کے گھر پر ہی تھے۔ وہ ان سے گزارش کر رہے تھے کہ کسی طرح ان کے بچوں جیل سے رہا کرا دیا جائے۔
یہ گھروالے اتنے ڈرے ہوئے تھے کہ انہوں نے اپنے بارے میں کچھ شائع کرنے سے د ی وائر کو منع کر دیا۔ پولیس کے ذریعے اٹھائے گئے ایک فرد کے والدنے کہا کہ اگر آپ کچھ لکھیں گے تو وہ میرے بچہ کو جیل میں بہت پیٹیں گے اور ماریں گے۔ نوجوان کی ماں باربار کہہ رہی تھیں،‘اللہ! میرے بچہ نے کچھ نہیں کیا۔ وہ وہاں تھا بھی نہیں۔ ایک بار میرے بچہ کی صورت دکھا دو۔’
اس نوجوان کی ماں ہارٹ کی مریض تھیں۔ اپنی پریشانی بیان کرتے ہوئے ان کی سانس پھولنے لگی اور وہ بے ہوش ہوکر گر پڑیں۔
فیصل لالہ نے کہا، ‘ان بچوں کی موبائل لوکیشن سے ان کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا کہ وہ وہاں نہیں تھے۔ ایسے کئی سارے لوگوں کو پولیس نے زبردستی پکڑ رکھا ہے۔’
رام پور پولیس نے آئی پی سی کی دفعہ307 سمیت کل 17 دفعات میں اب تک 30 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا ہے اور 116 لوگ نامزد ہیں۔ اس میں ہزاروں افراد نامعلوم ہیں۔ فیصل لالہ کا کہنا ہے کہ پولیس نے جان بوجھ کر ایف آئی آر میں ہزاروں لوگوں کونامعلوم کے خانے میں ڈالا ہے تاکہ اگر کوئی آواز اٹھاتا ہے تو اسے بھی نامزد کر دیا جائے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرےکے دوران سکیورٹی فورسز پر فائرنگ اور پتھراؤ کیا گیا اور ساتھ ہی تشدد کے دوران ہوئی توڑ پھوڑ اور آگ زنی میں پولیس محکمہ، دوسرے سرکاری محکموں اور دوسرے محکمے کو نقصان پہنچا ہے۔
رام پور کے ایس پی اجئے پال شرما نے کہا کہ ویڈیو سے پہچان کر ابھی فی الحال28 لوگوں کو یہ نوٹس بھیجا گیا ہے اور آنے والے وقت میں کچھ اور لوگوں کے یہاں بھی یہ بھیجا جا سکتا ہے۔
اجئے پال شرما نے کہا، ‘ان 28 لوگوں سے پوچھا گیا ہے کہ کیوں نہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ان کے جواب کی بنیاد پر ان میں سے جو بے قصور پائے جا ئیں گے، وہ چھوٹ جائیں گے۔ جوقصوروار ہوں گے ان سے یہ سارے پیسے وصول کیے جائیں گے۔’
حالانکہ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ نہ تو وہ اتنے پڑھے لکھے ہیں کہ اس کا صحیح سے جواب دے پائیں اور نہ ہی ان کے پاس اتنے پیسے ہیں کہ کوئی وکیل کرکے اس کا قانونی طورپر جواب تیار کر پائیں۔
ضمیرخان کی ماں منی بیگم نے کہا، ‘ہمارے ساتھ تو ہر طرح سے ناانصافی ہو رہی ہے۔ یہاں میرے بیٹے کے ساتھ انصاف ہو یا نہ ہو۔ اللہ سب دیکھ رہا ہے۔ وہ سب کا انصاف کرتا ہے۔’