اس کو لےکر دائر کی گئی آر ٹی آئی پر صحیح سے کارروائی نہیں کرنے کو لےکر سی آئی سی نے مرکزی وزارت خزانہ کے محکمہ مالیاتی امور، محکمہ معاشی امور اور محکمہ ریونیو اور الیکشن کمیشن کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا ہے۔
نئی دہلی: سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے انتخابی بانڈ پراپنے ایک بےحد اہم فیصلے میں مرکزی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ ایسے لوگوں یا اداروں کے ناموں کا انکشاف کریں جنہوں نے چندہ دینے والوں کی شناخت مخفی رکھنے کی سفارش کی تھی۔کمیشن نے یہ بھی کہا کہ اس سے متعلق حکومت کو حاصل ہوئےتمام خطوط یا عرضی آر ٹی آئی کے تحت دی جانی چاہیے۔
اس موضوع کو لےکر دائر کی گئی آر ٹی آئی پر سنجیدگی نہیں دکھانے اور صحیح سے کارروائی نہیں کرنے کو لےکر سی آئی سی نے مرکزی وزارت خزانہ کے محکمہ مالیاتی امور، محکمہ معاشی امور اور محکمہ ریونیو اورالیکشن کمیشن کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا ہے۔ان محکمہ جات سے کہا گیا ہے کہ وہ بتائیں کہ آدھی-ادھوری اور گمراہ کن جانکاری دینے کو لےکر کیوں ان پر زیادہ سے زیادہ جرمانہ نہیں لگایاجانا چاہیے۔ انفارمیشن کمشنر سریش چندرا نے یہ فیصلہ دیا ہے۔
آر ٹی آئی کارکن وینکٹیش نایک نے 7 جولائی 2017 کو مرکزکے محکمہ معاشی امور میں آر ٹی آئی دائر کر کے سیاسی پارٹیوں کو چندہ دینے کےدوران شناخت کی رازداری برقرار رکھنے کے سلسلے میں چندہ دینے والوں کے ذریعے لکھے گئے خطوط یا عرضی یا درخواست کے بارے میں جانکاری مانگی تھی۔
نایک نے انتخابی بانڈ اسکیم کے مسودے کی کاپی یا اصل بھی مانگی تھی۔ حالانکہ محکمہ نے ان دونوں پوائنٹس پر کوئی جانکاری نہیں دی۔ اس کے بعددرخواست گزار نے 17 اگست 2017 کو پہلی اپیل دائر کی۔پہلےافسر نے نایک کے آر ٹی آئی کو محکمہ مالیاتی امور، الیکشن کمیشن اور محکمہ معاشی امور کے کوآرڈی نیشن سیکشن کو ٹرانسفرکرنے کی ہدایت دی۔
حالانکہ ان تینوں محکمہ جات کے پبلک انفارمیشن افسر نےکہا کہ ان کے پاس آر ٹی آئی کے تحت مانگی گئی جانکاری نہیں ہے اور انہوں نےدرخواست گزار کو سماعت کاکوئی موقع نہیں دیا۔ ان فیصلوں سے ناراض ہو کر نایک نے سی آئی سی کا رخ کیا۔اپنے آخری فیصلے میں سی آئی سی نے اس بات کو لےکر تشویش کا اظہار کیا کہ کس طرح سے کسی بھی محکمہ نے اس آر ٹی آئی درخواست کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور صحیح کارروائی نہیں کیا۔
انفارمیشن کمشنر چندرا نے اپنے فیصلے میں لکھا، ‘آر بی آئی کے ذریعے دی گئی جانکاری آدھی-ادھوری ہے۔ آر بی آئی کے پبلک انفارمیشن افسر کوہدایت دی جاتی ہے کہ آر ٹی آئی کے تحت اطلاع دیتے وقت اور احتیاط برتیں۔ انہیں ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ آر ٹی آئی درخواست کو پھر سے دیکھیں اور درخواست گزار کوایک دم واضح جواب دیں۔ ‘
وزارت خزانہ کے تین محکمہ جات اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سریش چندرا نے کہا کہ تمام تحریر شدہ وضاحت کمیشن میں تین ہفتے کےاندر آنی چاہیے۔معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی انتخابی بانڈ اسکیم کافی لمبے وقت سے تنازعات میں ہے۔ اس بانڈ کے ذریعے کسی بھی پارٹی کو چندہ دینے والوں کی شناخت کا پتہ نہیں چل پاتا ہے۔
پچھلے کچھ مہینوں میں انتخابی بانڈ کے سلسلے میں کئی انکشافات سامنے آئے ہیں، جس سے یہ پتہ چلا ہے کہ آر بی آئی، الیکشن کمیشن، وزارت قانون، آربی آئی گورنر، چیف الیکشن کمشنر اور کئی سیاسی جماعتوں نے مرکزی حکومت کو خط لکھکراس اسکیم پر اعتراض کیا تھا۔حالانکہ وزارت خزانہ نے ان تمام اعتراضات کو خارج کرتےہوئے انتخابی بانڈ اسکیم کو پاس کیا۔ اس بانڈ کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو چندہ دینےوالوں کی شناخت بالکل مخفی رہتی ہے۔
آر بی آئی نے کہا تھا کہ انتخابی بانڈ اور آر بی آئی قانون میں ترمیم کرنے سے ایک غلط روایت شروع ہو جائےگی۔ اس سے منی لانڈرنگ کی حوصلہ افزائی ہوگی اور سینٹرل بینکنگ قانون کے بنیادی اصولوں پر ہی خطرہ پیدا ہو جائےگا۔وہیں الیکشن کمیشن نے صرف وزارت قانون ہی نہیں بلکہ راجیہ سبھا کی پارلیامانی کمیٹی کو بھی خط لکھکر متنازعہ انتخابی بانڈ اسکیم کولےکر تشویش کااظہار کیا تھا۔ کمیشن نے کمیٹی کو بتایا تھا کہ یہ ایک پیچھے جانے والاقدم ہے اور اس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ سے جڑی شفافیت پر اثر پڑےگا۔
آر ٹی آئی کے تحت حاصل کئے گئے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہےکہ جب انتخابی بانڈ اسکیم کا ڈرافٹ تیار کیا گیا تھا تو اس میں سیاسی جماعتوں اورعوام کے ساتھ مشورےکا اہتمام رکھا گیا تھا۔ حالانکہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اجلاس کے بعد اس کو ہٹا دیا گیا۔اس کے علاوہ انتخابی بانڈ اسکیم کا ڈرافٹ بننے سے پہلےہی بی جے پی کو اس کے بارے میں جانکاری تھی۔ بلکہ مودی کے سامنے پیش کرنے سے چاردن پہلے ہی بی جے پی کے جنرل سکریٹری بھوپیندر یادو نے اس وقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی کو خط لکھکر انتخابی بانڈ اسکیم پر ان کی پارٹی کے مشوروں کے بارے میں بتایا تھا۔
یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ انتخابی بانڈ کے ذریعے سب سےزیادہ چندہ بی جے پی کو حاصل ہوا ہے۔انتخابی اصلاحات پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) نے تمام اہتماموں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے اور اس کو خارج کرنے کی مانگ کی ہے۔