قابل ذکر ہے کہ1921 کے مالابار بغاوت کے آس پاس کے واقعات پر مبنی ملیالم فلم ‘1921 پوزہ متھل پوزہ وارے’ کو سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن کے چیئرمین پرسون جوشی کی طرف سے قائم کی گئی جائزہ کمیٹی نے سات کٹ کے ساتھ ہری جھنڈی دی تھی، لیکن جوشی نے اسے واپس دوسری جائزہ کمیٹی کے پاس بھیج دیا تھا، جس نے فلم میں 12 کٹ لگا دیے۔ جس کے خلاف ڈائریکٹر نے کیرالہ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
پرسون جوشی، سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن (سی بی ایف سی) کے چیئرمین۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: کیرالہ ہائی کورٹ نے 1921 کے مالابار بغاوت کے آس پاس کے واقعات پر مبنی ملیالم فلم ‘1921 پوزہ متھل پوزہ وارے’ کوسینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن (سی بی ایف سی) یا سینسر بورڈ کے چیئرمین پرسون جوشی کی جانب سےدوسری جائزہ کمیٹی کے پاس بھیجنے کے فیصلے کو ‘غیر قانونی’ قرار دیا ہے۔
جسٹس این ناگریش نے . فلم کے پروڈیوسر-ڈائریکٹر علی اکبر کی عرضی پر غور کرتے ہوئے کہا کہ فلم کو دوسری جائزہ کمیٹی کے پاس بھیجنا سنیماٹوگراف ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔
فلم ڈائریکٹر اور ہندو گروپوں کا دعویٰ ہے کہ اس میں ہندوؤں کی ‘نسل کشی’ کی عکاسی کی گئی ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، ہائی کورٹ نے ہدایت کار کی دلیل سے اتفاق کیا کہ پرسون جوشی کا فلم کو دوسری جائزہ کمیٹی کو بھیجنے کا فیصلہ سنیماٹوگراف (سرٹیفیکیشن) رولز، 1983 کے تحت ان کے اختیارات سے باہر تھا، جس میں کہا گیا ہے کہ جہاں چیئرمین کمیٹی کے اکثریتی فیصلے سے متفق نہیں ہیں، ‘وہاں بورڈ خود فلم کی جانچ کرے گا یا کسی اور جائزہ کمیٹی سے فلم کی دوبارہ جانچ کرائے گا اور بورڈ یا دوسری جائزہ کمیٹی کا فیصلہ، جیسی بھی حالت ہو، کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ ‘
جوشی کے فیصلے کو ردکرتے ہوئے جسٹس این ناگریش کی ہائی کورٹ کی سنگل جج بنچ نے کہا کہ جب پہلی کمیٹی نے فلم کو سات ترامیم کے ساتھ اکثریتی ووٹ سے منظوری دی تھی، تو چیئرمین کے پاس یا تو کمیٹی کی سفارشات کو قبول کرنے کا آپشن تھا یا اگر وہ کمیٹی کے فیصلے سے متفق نہیں تھے فلم کے جائزہ کے لیے معاملہ بورڈ کے پاس بھیجنے کا آپشن تھا۔
ہائی کورٹ نے 24 دسمبر 2022 کے اپنے فیصلے میں کہا، ‘اس معاملے میں چیئرمین نے خود فلم کو دوسری جائزہ کمیٹی کو بھیج دیا ہے۔ مذکورہ کارروائی غیر قانونی اور سنیماٹوگراف ایکٹ 1952 اور سنیماٹوگراف (سرٹیفیکیشن) رولز 1983 کی خلاف ورزی ہے۔
فلم کے ہدایت کار اکبر نے 17 مئی 2022 کو اپنی فلم سی بی ایف سی کو سرٹیفیکیشن کے لیے پیش کی تھی۔
ضابطہ کے مطابق، بورڈ کے علاقائی دفتر نے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی۔ سی بی ایف سی کے چیئرمین کو اپنی سفارش میں، تین اراکین نے اس بنیاد پر فلم کو سرٹیفیکیشن دینے سے انکار کرنے کی سفارش کی کہ اس میں ‘ امن عامہ کو خطرے میں ڈالنے والے مناظر اورمکالمے ‘ شامل ہیں، جبکہ دیگر دو نے ‘یو اے سرٹیفیکیشن’ کی سفارش کی۔
سی بی ایف سی کے چیئرمین نے اس کے بعد فلم کو ایک جائزہ کمیٹی کے پاس بھیج دیا، جس نے اکثریت کے فیصلے سے کہا کہ فلم کو سات ترامیم کے ساتھ ایڈلٹ (اے) درجہ بندی کے ساتھ سند دی جا سکتی ہے۔ اس کمیٹی میں رکن کے طور پر انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ کے ایک مؤرخ بھی شامل تھے۔
تاہم،چیئرمین نے اسے دوبارہ ایک دوسری جائزہ کمیٹی کے پاس بھیجا، جس نے ‘متفقہ طور پر؛ فلم کو 12 کٹ کے ساتھ اے سرٹیفیکیشن دینے کی سفارش کی، جس کے بعد اکبر نے ہائی کورٹ کا رخ کیا۔
اکبر نے دلیل دی کہ اگرچہ دوسری کمیٹی کی طرف سے تجویز کردہ ترامیم کی تعداد 12 تھی، لیکن حقیقت میں کاٹ چھانٹ کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی اور وہ ‘فلم کی روح کو کمزور’ کر دے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘جواب دہندگان کی کارروائی آئین کے آرٹیکل 14 اور 19 کے تحت درخواست گزار کو فراہم کردہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔’