حال ہی میں ودربھ کے سنگھ چالک شری دھر گھاڈگے نے ذات پر مبنی مردم شماری پر سوال اٹھاتے ہوئے کہاتھا کہ کچھ لوگوں کو اس سے سیاسی طور پر فائدہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ قومی اتحاد کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اب آر ایس ایس نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ تنظیم کی رائے تھی کہ اسے سماج کی ترقی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
نئی دہلی: اپنے ایک سینئر عہدیدار کی جانب سے ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کے بعد راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے جمعرات (21 دسمبر) کو کہا کہ ایسی کسی بھی مردم شماری کو سماج کی بہتری کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
سنگھ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کسی بھی وجہ سے سماجی ہم آہنگی متاثر نہ ہو۔
یہ بیان، جسے ڈیمیج کنٹرول کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، آر ایس ایس کے سینئر پرچارک اور ودربھ کے سربراہ شری دھر گھاڈگے کے ذات پر مبنی مردم شماری کی ضرورت پر سوال اٹھانے کے بعد آیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگرچہ کچھ لوگوں کو اس سے سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے لیکن یہ قومی اتحاد کے لیے اچھا نہیں ہے۔
گزشتہ 19 دسمبر کو ناگپور میں منعقدہ ایک پروگرام کے دوران گھاڈگے نے ایم ایل اے کی میٹنگ میں کہا تھا، ‘ہمیں اس میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان نظر آتا ہے۔ یہ عدم مساوات کی جڑ ہے اور اسے فروغ دینا درست نہیں ہے۔’
آر ایس ایس کی جانب سے ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے گزشتہ ماہ یہ تبصرہ کرنے کے بعد سامنے آئی ہے کہ بہار حکومت کے اس طرح کی مردم شماری کرائے جانے کے پیش نظر بی جے پی ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت نہیں کرتی ہے۔
شاہ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے گھاڈگے نے کہاتھا کہ سیاسی پارٹیاں کسی بھی معاملے پر اپنا موقف رکھ سکتی ہیں، لیکن آر ایس ایس یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ وہ ذات پر مبنی مردم شماری کی حمایت نہیں کرتی ہے۔
انہوں نے کہا تھا، ‘آر ایس ایس سماجی مساوات کو فروغ دے رہی ہے۔ ہمارے ملک میں ذات پات کے نام پر پھوٹ اور دراڑپڑتی ہے۔ اگر ذات پات سماج میں عدم مساوات کی جڑ ہے تو آر ایس ایس کا ماننا ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری جیسے اقدامات سے اس میں مزید اضافہ نہیں کیا جانا چاہیے۔’
دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق، سوشل میڈیا کے ذریعے آر ایس ایس کے موقف کو واضح کرتے ہوئے تنظیم کے پبلسٹی چیف سنیل امبیکر نے کہا کہ آر ایس ایس کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک اور عدم مساوات سے پاک ہندو معاشرے کی تشکیل کے اپنے مقصد کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے ۔
انہوں نے کہا، ‘یہ سچ ہے کہ مختلف تاریخی وجوہات سے سماج کے بہت سے طبقے معاشی، سماجی اور تعلیمی نقطہ نظر سے محروم رہ گئے ہیں۔ ان کی ترقی کے لیے حکومتیں وقتاً فوقتاً مختلف اسکیمیں بناتی ہیں اور آر ایس ایس نے ہمیشہ اس کی حمایت کی ہے۔’
انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کی رائے تھی کہ ذات پر مبنی مردم شماری کو سماج کی ی ترقی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے اور تمام جماعتوں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس سے سماجی ہم آہنگی اور اتحاد کو نقصان نہ پہنچے۔
آر ایس ایس دلت حقوق کے خلاف: کانگریس
کانگریس اور کچھ دیگر اپوزیشن جماعتیں ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کر رہی ہیں، جو حالیہ اسمبلی انتخابات کے دوران ایک انتخابی مسئلہ بھی بن گیا تھا۔
گزشتہ جمعرات کو کانگریس نے سوشل سائٹ ایکس پر گھاڈگے کے بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔
کانگریس کی جانب سے کہا گیا، ‘بی جے پی کو چلانے والی آر ایس ایس ہمیشہ ذات پر مبنی مردم شماری کے خلاف رہی ہے۔ اس پر آر ایس ایس اور بی جے پی کا موقف بالکل واضح ہے۔ دلتوں اور پسماندہ لوگوں کو ان کے حقوق کسی بھی قیمت پر نہیں ملنے چاہیے۔ اس نفرت انگیز سوچ کی وجہ سے پچھلے 100 سالوں میں دلت یا پسماندہ طبقے سے آر ایس ایس کا ایک بھی صدر نہیں بن سکا ہے۔’
"जातिगत जनगणना नहीं होनी चाहिए"
ये बात RSS ने कही है।
BJP को चलाने वाली RSS हमेशा से जातिगत जनगणना के विरोध में रही है।
RSS और BJP का इसपर स्टैंड एक दम साफ है। दलित और पिछड़े वर्ग को किसी भी कीमत पर उनका हक न मिले।
इनकी इसी घृणित सोच की वजह से 100 साल में RSS का एक भी अध्यक्ष…
— Congress (@INCIndia) December 21, 2023
اس میں کہا گیا کہ ملک میں سماجی اور معاشی عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے ذات پر مبنی مردم شماری بہت ضروری ہے۔ اس طرح کے سروے سے محروم، دلت اور پسماندہ طبقات کے لیے مساوی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے پالیسیاں بنائی جا سکتی ہیں۔ آر ایس ایس اور بی جے پی اسی بات سے خوفزدہ ہیں۔
دی ہندو کے مطابق ، آر ایس ایس کے ایک سینئر کارکن نے اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کو ہوم ورک کیے بغیر بولنے کی عادت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کئی مواقع پر پسماندہ طبقات کی ترقی کے لیے ریزرویشن کی حمایت کی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘پچھلے کئی سالوں سے اپنی سالانہ دسہرہ تقریر میں موہن بھاگوت ذات پات کے نظام سے متعلق سماج میں پھیلی ہوئی چھواچھوت اور دیگر برائیوں سے چھٹکارا پانے کے مقصد پر زور دیتے رہے ہیں۔’