امریکہ کے مسلم رکن پارلیامان آندرے کارسن نے کہا کہ رکن پارلیامان کے ذریعے ظالمانہ شہریت ترمیم بل کو منظورکرنے کے ساتھ ہی آج، ہم نے وزیر اعظم کا ایک اور مہلک قدم دیکھا۔ حالانکہ، مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی تاریخ اور فرقہ پرستی سے اس کے تعلقات کو دیکھتے ہوئے یہ کارروائی غیر متوقع نہیں ہے۔
نئی دہلی: امریکہ کے ایک مسلم رکن پارلیامان نے ہندوستان کے متنازعہ شہریت ترمیم بل پرتشویش ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ یہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش ہے۔ ہندوستان میں متنازعہ شہریت ترمیم بل کی لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں منظور ہونے کے بعد کارسن نے یہ بیان دیاہے۔ اس میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے مذہبی استحصال کی وجہ سے 31دسمبر 2014 تک ہندوستان آئے غیر مسلم پناہ گزینوں-ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اورعیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا اہتمام ہے۔
کارسن نے جموں و کشمیر سےخصوصی ریاست کا درجہ واپس لینے پر بھی تشویش کا ا ظہار کیا۔
Under PM Modi, India continues to veer down a dangerous path of nationalism that equates religion and ethnicity with an Indian identity. Its recently-passed 'Citizenship Amendment Bill' is the latest example. Read my statement on this reckless change: https://t.co/RSxTsJaTsc
— André Carson (@RepAndreCarson) December 11, 2019
انہوں نے کہا، ‘ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے جب پانچ اگست کو جموں و کشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ واپس لینے کا اعلان کیا تھا، میں نے تب بھی کشمیر کے مستقبل پر اس کے اثرات کولےکر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ‘ کارسن نے اس کو ایک خطرناک قدم اور عالمی اصول کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے کشمیر کےلوگوں کی جمہوریخواہشات کو نظرانداز کیا،ہندوستانی آئین کی عظیم روایت کو کمتر کیا اور ہندوستان کے مستقبل کو لےکرکئی سوال کھڑے کر دیے۔
غور طلب ہے کہ حکومت ہند نےپانچ اگست کو جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو ہٹاکر اس کو ایک یونین ٹریٹری بنانے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے، دو طرفہ تعلقات کو کم کر کے ہندوستانی سفیر کو برخاست کر دیا تھا۔وہیں ہندوستان لگاتار یہ کہتا رہا ہے کہ یہ واضح طور پر اس کا اندرونی معاملہ ہے۔
کارسن نے کہا، ‘رکن پارلیامان کے ذریعے ظالمانہ شہریت ترمیم بل کو منظور کرنے کے ساتھ ہی آج، ہم نےوزیر اعظم کا ایک اور مہلک قدم دیکھا۔ حالانکہ، مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی تاریخ اور فرقہ پرستی سے اس کے تعلقات کو دیکھتے ہوئے یہ کارروائی غیر متوقع نہیں ہے۔ یہ قدم ہندوستان میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی ایک اورمؤثر کوشش ہے۔ ‘
اس سے پہلے بل کے لوک سبھا سےپاس ہونے سے پہلے یو ایس سی آئی آر ایف)نے اس بل کو ‘ غلط سمت میں خطرناک موڑ کہا تھا اور ‘ مذہبی معیار والے اس بل کےقانون میں بدلنے کی صورت میں امریکی حکومت سے وزیر داخلہ امت شاہ اور دیگرہندوستانی رہنماؤں کے خلاف پابندی لگانے پرغورکرنے کی اپیل کی تھی۔ حالانکہ، امریکی کمیشن کے تنقیدی تبصرہ کو صحیح نہیں بتاتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہاتھا کہ امریکی ادارہ نے اس موضوع پر اپنے تعصب کی وجہ سے یہ راستہ چنا جس پر اس کا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے۔
وہیں، ہندوستان میں یورپی یونین کے سفیر اوگو آسٹو نے کہا کہ ان کو پورا بھروسہ ہے کہ شہریت (ترمیم) بل پرجاری پارلیامانی بحث ہندوستانی آئین کے ذریعے قائم معیارات کے مطابق ہوںگے۔انہوں نے کہا، ‘ ہندوستانی آئین بنا کسی جانبداری کے قانون کے سامنے برابری کی بات کرتا ہے۔ ہم ان اصولوں کوشیئر کرتے ہیں۔ یہ اصول یورپی یونین کے قانون کو مضبوط کرتے ہیں یقین ہے کہ ان بحث کا نتیجہ ہندوستانی آئین کے ذریعے قائم اعلی معیارات کے مطابق نکلےگا۔ ‘
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)