مغربی بنگال میں چل رہے اسمبلی انتخاب کے بیچ بی جے پی کے جنرل سکریٹری کیلاش وجےورگیہ نے ٹی ایم سی کے اس دعوے کو خارج کیا کہ اگر بی جے پی بنگال میں اقتدار میں آئی تو این آر سی نافذ کرےگی۔ انہوں نے زور دےکر کہا کہ این آر سی لانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، پر سی اے اے ضرورنافذ ہوگا۔
نئی دہلی: بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری کیلاش وجےورگیہ نے ترنمول کانگریس(ٹی ایم سی)کے اس دعوے کو اتوار کو خارج کر دیا کہ اگر بی جے پی بنگال میں اقتدار میں آئی تواین آر سی نافذ کرےگی جس سے ‘لوگوں کی شہریت کےحق چھین لیے جائیں گے۔’
بی جے پی رہنما نے خبررساں ایجنسی‘پی ٹی آئی- بھاشا’کو دیے انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ ریاست کے لوگ ‘اصل پری ورتن’دیکھنے کا انتظار کر رہے ہیں کیونکہ وہ عرصے سے چل رہی گھس پیٹھ کی دقتوں، بدعنوانی اورخوش کرنے والی سیاست سے اوب گئے ہیں۔
انہوں نے زور دےکر کہا کہ این آر سی لانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ حالانکہ، انہوں نے یہ ضرور کہا کہ پارٹی کا ارادہ سی اے اےنافذ کرنے اور پڑوسی ملک میں مذہبی ہراسانی کی وجہ سے بھاگ کر ہندوستان آئے پناہ گزینوں کو شہریت دینے کا ہے۔
انہوں نے کہا،‘ہم انتخابات کے بعد سی اے اےنافذ کرنے کو لےکرپرجوش ہیں، جیسا کہ ہم نے اپنے منشور میں وعدہ کیا ہے۔ یہ ہمارے لیےاہم مدعا ہے کیونکہ ہم ظلم و زیادتی کے شکار پناہ گزینوں کو شہریت دینا چاہتے ہیں۔ اگر ہم انتخاب جیتتے ہیں تو ہمارااین آر سی کے عمل کو چلانے کاکوئی منصوبہ نہیں ہے۔’
ریاستی بی جے پی کے ذرائع کے مطابق نئے شہریت قانون سے ہندوستان میں 1.5 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ ملےگا جن میں سے 72 لاکھ سے زیادہ لوگ مغربی بنگال میں ہیں۔
حالانکہ،پچھلے سال جنوری میں سی اے اے پر ‘پھیلے بھرم’کو دور کرنے کی پارٹی کی ملک گیر مہم کے تحت سی اے اے پر جاری کی گئی بی جے پی کے بنگالی ایڈیشن کے ایک بک لیٹ میں اس بات کا ذکر کیا گیا تھا کہ اس کے بعد این آر سی نافذ کیا جائےگا۔ لیکن ہندی ایڈیشن کی کتاب میں کہیں بھی این آر سی کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔
ٹی ایم سی پر ‘بی جے پی کے خلاف گمراہ کن جانکاری پھیلانے’ کا الزام لگاتے ہوئے 64سالہ رہنمانے حیرانی کا اظہار کیا کہ ریاست میں مقتدرہ پارٹی سی اے اے کی مخالفت کیوں کر رہی ہے جو کئی لوگوں کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔
بنگال میں متوآکمیونٹی کی اچھی خاصی آبادی ہے جو 1950 کے بعد سےخاص طور پرمذہبی ہراسانی کی وجہ سےبھاگ کر ریاست میں آئی تھی۔ 30 لاکھ کی آبادی والی اس کمیونٹی کااثر ندیا، اتر اور جنوبی24 پرگنہ ضلعوں میں 30-40اسمبلی سیٹوں پر ہے۔
الیکشن کمیشن پر بی جے پی کی طرف سے کام کرنے کا الزام لگانے کے لیےمغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو نشانہ بناتے ہوئے وجےورگیہ نے کہا کہ یہ المیہ ہے کہ ٹی ایم سی سپریمو نے تب الیکشن کمشین پر انگلی نہیں اٹھائی جب ان کی پارٹی کو لگاتار دو بار انتخاب میں جیت ملی۔
انہوں نے کہا کہ بنرجی کے ‘احمقانہ دعووں’کا کوئی نتیجہ نہیں نکلےگا۔ انہوں نے کہا کہ ہار کو محسوس کرتے ہوئے ٹی ایم سی بی جے پی کے خلاف بے بنیاد الزام لگا رہی ہے۔بتا دیں کہ بنرجی کو لکھے سخت لفظوں والے ایک خط میں الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ وہ اس بات کو پسند نہیں کرےگا کہ کسی سیاسی پارٹی سے مبینہ قربت کو لےکر اسے سوالوں کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔
اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی 200 سے زیادہ سیٹوں پر جیت پر بھروسہ جتاتے ہوئے وجےورگیہ نے اس بات کو خارج کر دیا کہ پارٹی کو بنگال میں وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے کوئی چہرہ نہ پیش کرنے کاخمیازہ اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کئی رہنماریاست میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے میں اہل ہیں اور انتخابات کے بعد ہی اس پر فیصلہ لیا جائےگا۔
انہوں نے کہا، ‘ہم وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ہم نے جن ریاستوں میں انتخاب ہونے ہیں وہاں کبھی وزیر اعلیٰ کا چہرہ نہیں اتارا۔ ہمارے لیےآئیڈیالوجی اہم ہے۔ اقتدار میں آنے پر رائے مشورہ کرکےوزیر اعلیٰ کے امیدوار پر فیصلہ لیاجائے گا۔’
‘باہری بنام مقامی’ کی بحث کو لےکر ممتا بنرجی خیمے کی تنقید کرتے ہوئے بنگال میں بی جے پی کے چیف پالیسی میکر نے کہا کہ ریاست میں مقتدرہ پارٹی کے پاس اس کے علاوہ کچھ بات کرنے کے لیے نہیں ہے۔دراصل، ٹی ایم سی نے بی جے پی کو ‘باہری لوگوں کی پارٹی’ بتایا ہے کیونکہ اس کے ٹاپ رہنما دوسری ریاستوں سے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘ٹی ایم سی اپنے ‘بنگال کی بیٹی’مہم سے جذباتی اپیل کرنا چاہتی ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ بنگال اس جذبات کی رو میں بہہ جائےگا۔ یہ 2021 ہے اور ایسے مدعوں کا کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ پارٹی کے پاس دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے تو وہ ‘باہری بنام مقامی’ کی بحث کر رہی ہے۔’
یہ پوچھنے پر کہ کیا ٹکٹ بٹوارے کو لےکرتجربے اور نئے چہروں کے بیچ تنازعہ تھم گیا ہے، اس پر انہوں نے کہا کہ پارٹی میں ہر کسی کو اعلیٰ قیادت کے بنائے قاعدوں پر عمل کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا،‘پچھلے اسمبلی انتخاب کے دوران ہمیں 294 سیٹوں کے لیے مشکل سے اہل امیدوار مل پائے تھے۔ اس بار حالانکہ 5000 دعویدار تھے۔ شکر ہے کہ سب کچھ کنٹرول میں ہے۔’
وجےورگیہ نے کہا، ‘ہم نے تمام کارکنوں سے بات کی۔ ہماری ایک نظم وضبط والی پارٹی ہے لیکن ہم جمہوری ہیں اور ہر کسی کو اپنے خیال کے اظہارکرنے کاحق ہے۔’
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)