سی اے اے قوانین پر اپوزیشن نے کہا – بی جے پی لوک سبھا انتخابات میں پولرائزیشن کی کوشش کر رہی ہے

08:51 PM Mar 13, 2024 | دی وائر اسٹاف

پارلیامنٹ سے قانون کی منظوری کے چار سال بعد مرکزی حکومت نے سوموار کو شہریت (ترمیمی) ایکٹ (سی اے اے) کو نوٹیفائی کیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی نے سیاسی فائدے اور مذہبی جذبات کا استحصال کرنے کے لیے لوک سبھا انتخابات سے قبل ‘تفرقہ انگیز’ ایکٹ کو از سر نو زندہ کر دیا ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: پارلیامنٹ سے قانون کی منظوری کے چار سال بعد جیسے ہی مرکزی حکومت نے سوموار کو شہریت (ترمیمی) ایکٹ (سی اے اے) کے قوانین کو نوٹیفائی کیا، اپوزیشن پارٹیاں اور مغربی بنگال، کیرالہ، تمل ناڈو اور دہلی کے وزرائے اعلیٰ نے اس کی مخالفت کی بات کہی۔

انہوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی نے سیاسی فائدے اور مذہبی جذبات کا استحصال کرنے کے لیے لوک سبھا انتخابات سے قبل ‘تفرقہ انگیز’ قانون کو پھر  سے  زندہ کر دیا ہے۔

غور طلب  ہے کہ نریندر مودی کی قیادت والی حکومت سی اے اے کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش ان کے غیر مسلم تارکین وطن (ہندو، سکھ، جین، بدھ، پارسی، عیسائی) کو ہندوستانی شہریت فراہم کرنا چاہتی ہے، جو 31 دسمبر 2014 تک ہندوستان آئے تھے۔

سی اے اے کو دسمبر 2019 میں ہندوستان کی پارلیامنٹ نے منظور کیا تھا اور بعد میں اسے صدارتی منظوری ملی تھی۔ تاہم، مسلم تنظیموں اور گروپوں نے مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا الزام لگایا اور اس کی مخالفت کی۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، نوٹیفکیشن کے وقت پر سوال اٹھاتے ہوئے کانگریس نے کہا کہ یہ خاص طور پر مغربی بنگال اور آسام میں انتخابات کو پولرائز کرنے کے لیے واضح طور پر ‘ڈیزائن’ کیا گیا ہے، اور اس کا مقصد ‘الیکٹورل بانڈ گھوٹالے پرسپریم کورٹ کی سختی کے بعد ‘ہیڈ لائن مینجمنٹ’ہے۔

کانگریس کے میڈیا انچارج جئے رام رمیش نے کہا، ‘اس قانون کو لانے میں انہیں 4 سال اور 3 مہینے لگ گئے۔ یہ بل دسمبر 2019 میں منظور کیا گیا تھا۔ قانون 3 سے 6 ماہ میں بن جانا چاہیے تھا۔ مودی حکومت نے سپریم کورٹ سے 9 بار ایکسٹنشن کی درخواست کی اور کل رات قوانین کو نوٹیفائی کرنے سے پہلے 4 سال اور 3 ماہ کا عرصہ لگا۔ یہ صرف پولرائزیشن کے لیے ہے – بنگال اور آسام کے انتخابات کو متاثر کرنے کے لیے۔ اگر وہ ایمانداری سے کر رہے تھے تو 2020 میں کیوں نہیں لائے؟ وہ اسے اب انتخابات سے ایک ماہ قبل لے کر آرہے ہیں۔ یہ ہیڈ لائن مینجمنٹ ہے… یہ سماجی پولرائزیشن کی حکمت عملی ہے۔’

کیرالہ سی اے اے نافذ نہیں کرے گا: پنرائی وجین

وہیں، کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنرائی وجین نے دہرایا کہ ان کی ریاست سی اے اے کو نافذ نہیں کرے گی۔ بائیں بازو کی حکمرانی والی کیرالہ پہلی ریاست تھی جس نے سی اے اے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور اس کی اسمبلی نے 2019 میں قانون کے خلاف قرارداد پاس کی۔

وجین نے کہا، ‘انتخابات کے پیش نظر مرکزی حکومت کی طرف سے شہریت ترمیمی قانون کے قوانین کو نوٹیفائی کرنے کا مقصد ملک کو بے چین کرنا ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے اعلان سے ٹھیک پہلے وزارت داخلہ نے سی اے اے کو لے کر نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کو تقسیم کرنا، فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکانا اور آئین کے بنیادی اصولوں کو کمزور کرنا ہے۔ مساوی حقوق رکھنے والے ہندوستانی شہریوں کو تقسیم کرنے کے اس اقدام کی متحد ہو کر مخالفت کی جانی چاہیے۔’

انہوں نے کہا، ‘اسے صرف سنگھ پریوار کے ہندوتوا فرقہ وارانہ ایجنڈے کے حصے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ 31 دسمبر 2014 کو یا اس سے پہلے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے ہندوستان ہجرت کرنے والے غیر مسلموں کو شہریت دینا، جبکہ مسلمانوں کو شہریت دینے سے انکار کرنا آئین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ مذہب کی بنیاد پر ہندوستانی شہریت کی تعریف کرنے کے مترادف ہے۔ یہ انسانیت، ملک کی سیکولر روایت اور اس کے لوگوں کے لیے کھلا چیلنج ہے۔’

وزیر اعلیٰ نے کہا، ‘ایل ڈی ایف حکومت نے کئی بار اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون، جو مسلم اقلیتوں کو دوئم درجے کا شہری مانتا ہے، کیرالہ میں لاگو نہیں کیا جائے گا۔ ہم اس صورتحال کو دہراتے ہیں۔ کیرالہ اس فرقہ وارانہ اور تفرقہ انگیز قانون کی مخالفت میں متحد ہوگا۔’

اگر سی اے اے لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کرتا ہے تو احتجاج کریں گے: ٹی ایم سی

مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا کہ اگر انہیں  سی اے اے ہندوستان میں رہنے والے لوگوں کے گروپوں کےخلاف امتیازی لگتا ہے اور اس سے ان کے موجودہ شہریت کے حقوق میں کمی آتی ہے تو وہ اس کی سختی سے مخالفت کریں گی۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، ترنمول کانگریس کے سربراہ نے کہا، ‘اگر کوئی عدم مساوات ہے اور اگر کسی کو باہر کرنے کی کوئی کوشش کی جاتی ہے، اگر لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے، تو ٹی ایم سی خاموش نہیں رہے گی۔ احتجاجی مظاہرےہوں گے۔’

انہوں نے کہا، ‘پہلے مجھے قواعد کو سمجھنے دیں، اگر مجھے لگتا ہے کہ لوگوں کو محروم کیا جا رہا ہے تو ہم اس کے خلاف لڑیں گے۔ میں نظر رکھ رہی ہوں۔ ایک بار قوانین نوٹیفائی ہونے کے بعد مجھے ان کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔’

مغربی بنگال کی حکمران ٹی ایم سی اور ممتا بنرجی ماضی میں اس قانون کی سخت تنقید کرتی رہی ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ تفرقہ انگیزہے اور اسے مغربی بنگال میں نافذ نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا، ‘یہ کچھ نہیں بلکہ بی جے پی کی انتخابی مہم ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ انتخابات سے پہلے کوئی نیا گڑبڑ ہو۔ میں نہیں چاہتی کہ بی جے پی کسی قسم کی اشتعال انگیزی میں ملوث ہو۔ میں جانتی ہوں کہ یہ دن، جب رمضان کا مہینہ شروع ہو رہا ہے، اعلان کرنے کے لیے کیوں چنا گیا۔’

اروند کیجریوال نے بی جے پی پر ووٹ بینک کی سیاست کرنے کا الزام لگایا

اس کے ساتھ ہی دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے سی اے اے کو لے کر نریندر مودی حکومت پر تنقید کی اور بی جے پی پر ‘ووٹ بینک کی سیاست’ کا الزام لگایا۔

کیجریوال نے سوشل پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ’10 سال تک ملک پر حکومت کرنے کے بعد مودی حکومت انتخابات سے پہلے سی اے اے لے آئی ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہے جب غریب اور متوسط طبقہ مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے اور بے روزگار نوجوان روزگار کے لیےدر در  بھٹک رہے ہیں۔ ان اصل مسائل کو حل کرنے کے بجائے یہ لوگ سی اے اے لے آئے ہیں۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘کہا جا رہا ہے کہ تین پڑوسی ممالک کے اقلیتوں کو شہریت دی جائے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ پڑوسی ممالک کے لوگ ہندوستان میں آباد ہوں۔ کیوں؟ صرف ووٹ بینک کے لیے۔ جب ہمارے نوجوانوں کے پاس نوکریاں نہیں ہیں تو پھر مختلف ممالک سے آکر یہاں آباد ہونے والوں کو روزگار کون فراہم کرے گا؟ ان کے لیے گھر کون بنائے گا؟ کیا بی جے پی انہیں نوکری دے گی یا ان کے لیے مکان بنائے گی؟’

کیجریوال نے دعویٰ کیا کہ مرکز کی پالیسیوں سے تنگ آکر 11 لاکھ سے زیادہ صنعت کار ملک چھوڑ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘انہیں واپس لانے کے بجائے وہ چاہتے ہیں کہ پڑوسی ریاستوں کے غریب لوگ یہاں آباد ہوں؟ کیا یہ ووٹ بینک کے لیے ہے؟’

انہوں نے کہا، ‘پورا ملک سی اے اے کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔ پہلے ہمارے بچوں کو نوکریاں دیں، ہمارے لوگوں کے لیے گھر بنائیں۔ پھر آپ دوسرے ممالک سے لوگوں کو لا سکتے ہیں۔ دنیا کا ہر ملک غریبوں کو دوسرے ممالک سے آنے سے روکتا ہے کیونکہ اس سے مقامی آبادی کے لیے روزگار کے مواقع متاثر ہوتے ہیں۔ بی جے پی دنیا کی واحد سیاسی جماعت ہے جو دوسرے ممالک کے غریبوں کو اپنا ووٹ بینک بنانے کی گندی سیاست کر رہی ہے۔ یہ ملک کے خلاف ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘آسام اور پورے شمال—مشرق کے لوگ اس کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ وہ بنگلہ دیش سے ہجرت کے شکار ہیں اور ان کی زبان اور ثقافت خطرے میں ہے۔ بی جے پی نے آسام اور شمال—مشرقی ریاستوں کے لوگوں کو دھوکہ دیا ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں عوام اس کا منہ توڑ جواب دیں گے۔’

سی اے اے مکمل طور پر غیر منصفانہ، تمل ناڈو میں لاگو نہیں کیا جائے گا: ایم کے اسٹالن

سی اے اے کو مکمل طور پر غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئےتمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے منگل کو کہا کہ اس قانون کو جنوبی ریاست میں لاگو نہیں کیا جائے گا۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، اسٹالن نے ایک پریس ریلیز میں کہا، ‘سی اے اے سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے، جو صرف ہندوستانی عوام میں تفرقہ پیدا کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ (ریاستی) حکومت کا موقف ہے کہ یہ قانون سراسر غیر منصفانہ ہے، اسے رد کیا جانا چاہیے۔

وزیر اعلیٰ، جو ریاست کے حکمراں دراوڑ منیترا کزگم (ڈی ایم کے) کے سربراہ بھی ہیں، نے مزید کہا، ‘تامل ناڈو حکومت کسی بھی طرح سے سی اے اے کو نافذ کرنے کا کوئی موقع نہیں دے گی، جو تکثیریت، سیکولرازم، اقلیتی برادریوں اور سری لنکن تمل مہاجرین کے خلاف بھی ہے۔’

انہوں نے اپریل-مئی میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات سےقبل ‘عجلت میں ‘سی اے اے کے قوانین کو نوٹیفائی کرنے کے لیے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)  پر بھی سوال اٹھایا۔

بی جے پی توجہ ہٹانے کی سیاست کر رہی ہے: اکھلیش یادو

وہیں، سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے سی اے اے کے حوالے سے بی جے پی کو نشانہ بنایا اور اسے بی جے پی کی توجہ ہٹانے کا کھیل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ ان کے 10 سالہ دور حکومت میں لاکھوں شہریوں نے ملک کی شہریت کیوں ترک کی۔

یادو نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ‘جب ملک کے شہری روزی روٹی کے لیے باہر جانے پر مجبور ہیں، تو دوسروں کے لیے ‘شہریت کا قانون’ لانے سے کیا ہوگا؟ عوام اب بی جے پی کی توجہ ہٹانے کی سیاست کے کھیل کو سمجھ چکے ہیں۔ بی جے پی حکومت کو بتانا چاہیے کہ ان کے 10 سالہ دور حکومت میں لاکھوں شہریوں نے اپنی شہریت کیوں ترک کی۔ کل چاہے کچھ بھی ہو جائے، آپ کو ‘الیکٹورل بانڈ’ اور پھر ‘کیئر فنڈ’ کا بھی حساب دینا پڑے گا۔

اسی طرح اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسد الدین اویسی نے کہا کہ سی اے اے تفرقہ انگیز ہے اور گوڈسے کے اس خیال پر مبنی ہے کہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنایا جانا چاہیے۔

سی پی آئی کے جنرل سکریٹری ڈی راجہ نے کہا کہ انتخابات سے عین قبل سی اے اے کا نفاذ سماج کو پولرائز کرنے اور موجودہ سلگتے ہوئے مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔

انہوں نے ایک پوسٹ میں کہا، ‘بی جے پی کو سی اے اے کے نفاذ کا اعلان اسی دن کرنا پڑا جب سپریم کورٹ نے ایس بی آئی کو الیکٹورل بانڈ کی تفصیلات کا انکشاف کرنے کا حکم دیا، جو ہیڈلائن مینجمنٹ اور اپنی بدعنوانی کو چھپانے کے لیےان  کی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے۔’

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 سالوں میں بی جے پی شہری روزگار کی ضمانت، پرائیویٹ سیکٹر میں ریزرویشن اور روزی روٹی فراہم کرنے سے متعلق قانون بنانے میں اتنی ہی  عجلت کا مظاہرہ کر سکتی تھی، لیکن ان کی ترجیح لوگوں کو تقسیم کرنا اور سرمایہ داروں کو تحفظ دینا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘بی جے پی-آر ایس ایس شہریت کو مذہب سے جوڑتا ہے اور ہمارا آئین مذہب کو شہریت کا معیار نہیں بناتا ہے۔’

وہیں، سی پی آئی (ایم) کے لیڈر سیتارام یچوری نےایکس پر ایک پوسٹ میں کہا،’ ‘آج صبح سپریم کورٹ کے فیصلے سے گھبرائی مودی حکومت نے ایس بی آئی کو الیکٹورل بانڈ کے خریداروں اور وصول کنندگان کے بارے میں کل تک ڈیٹا فراہم کرنے کا نوٹس جاری کیا ہے، اس جائز سیاسی بدعنوانی پر عوام کی توجہ مرکوز کرنے کے لیے پرائم ٹائم میڈیا بحث قبضہ کر لیا جائے گا۔’

انہوں نے کہا، ‘ توجہ ہٹانے کے لیے سی اے اے قوانین کے نوٹیفکیشن کا اعلان کیا گیا ہے! ایسی حکمت عملی کامیاب نہیں ہوگی۔ مودی کے ذریعے رائے عامہ کا ہیر پھیر’بھکتوں’ سے آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔’

آسام: مرکز کے ذریعہ نوٹیفائی قواعد کے خلاف ‘ہڑتال’ کا اعلان

انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، آل آسام اسٹوڈنٹس یونین (اے اے ایس یو) اور 30 مقامی تنظیموں نے سوموار کے روز گوہاٹی، بارپیٹا، لکھیم پور، نلباری، ڈبروگڑھ اور تیز پور سمیت ریاست کے مختلف حصوں میں سی اے اے کی کاپیاں جلائیں۔

سوالہ پارٹیوں کے متحدہ اپوزیشن فورم آسام (یو او ایف اے) نے مرحلہ وار طریقے سے دیگر ایجی ٹیشن پروگراموں کو منظم کرنے کے علاوہ منگل کو ریاست گیر ہڑتال کا اعلان کیا۔ اے اے ایس یو کے مشیر سموجل بھٹاچاریہ نے کہا، ‘ہم سی اے اے کے خلاف اپنی عدم تشدد، پرامن، جمہوری تحریک جاری رکھیں گے۔ اس کے علاوہ ہم اپنی قانونی جنگ بھی جاری رکھیں گے۔’

بھٹاچاریہ نے زور دے کر کہا کہ آسام اور شمال—مشرق کے باشندے کبھی بھی سی اے اے کو قبول نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا، ‘منگل کو خطے کی تمام ریاستوں کے دارالحکومتوں میں نارتھ ایسٹ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (این ای ایس او) کی جانب سے سی اے اے کی کاپیاں جلائی جائیں گی۔اے اے ایس یو اور 30 تنظیمیں آسام میں مشعل بردار جلوس بھی نکالیں گی اور اگلے دن سے ستیہ گرہ شروع کریں گی۔’

ڈبروگڑھ میں اے اے ایس یو کے ارکان کی پولیس کے ساتھ اس وقت جھڑپ ہوئی جب انہوں نے انہیں شہر کے چوکی ڈنگی علاقے میں اپنے دفتر سے جلوس نکالنے سے روکنے کی کوشش کی۔

اے اے ایس یو کی نلباری ضلع یونٹ نے ایک احتجاجی ریلی نکالی اور مقامی میونسپل کارپوریشن بورڈ کے دفتر کے سامنے ایکٹ کی کاپیاں بھی جلائیں۔

اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ چھٹے شیڈول علاقوں اور شمال—مشرق میں انر لائن پرمٹ (آئی ایل پی) کے اہتمام  والےصوبوں کو سی اے اے سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے، بھٹاچاریہ نے کہا، ‘ہمارا سوال یہ ہے کہ جو چیز شمال—مشرق کے کچھ حصوں کے لیے خراب ہے، وہ دوسرے حصوں کے لیے کیسے درست ہو سکتی ہے؟ آسام میں بھی اسے آٹھ اضلاع میں نافذ نہیں کیا جائے گا۔’

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ سی اے اے آسام معاہدے کے خلاف ہے، جو اس شمال—مشرقی ریاست میں غیر قانونی تارکین وطن کی شناخت کے لیے 25 مارچ 1971 کی آخری تاریخ مقرر کرتا ہے۔

مرکزی حکومت کی جانب سے قانون کی تجویز پیش کرنے والا بل لائے جانے کے بعد اے اے ایس یو سی اے اے کے خلاف مظاہروں میں سب سے آگے رہا ہے اورپہلے ہی اس ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر چکا ہے۔

دریں اثنا، طلباء نے گوہاٹی میں کاٹن یونیورسٹی کے سامنے اور ریاست کے مختلف حصوں میں سی اے اے کے خلاف احتجاج شروع کر دیا ہے۔

آسام جاتیہ پریشد (اے جے پی)، جو ریاست میں 2019-20 میں سی اے اے مخالف تحریک کے بعد تشکیل دی گئی تھی، نے ریاست کے مختلف حصوں میں احتجاج کی قیادت کی۔

اس کے ارکان نے گوہاٹی سمیت کئی حصوں میں احتجاجی مارچ نکالتے ہوئے کالے جھنڈے دکھائے اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔

یو او ایف اے نے منگل کو ریاست گیر ‘ہڑتال’ کی کال دی ہے۔ سی اے اے کے نفاذ کے قوانین کو نوٹیفائی کیے جانے پر اپوزیشن سیاسی جماعتوں، طلبہ تنظیموں اور دیگر تنظیموں نے سی اے اے کے خلاف احتجاج کو تیز کرنے کا اعلان کیا تھا۔