شہریت قانون، این آرسی اور این پی آر کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا پارلیامنٹ تک مارچ نکالنے کی کوشش کر رہے تھے، جب انہیں پولیس نے روک دیا۔ طلبا کا الزام ہے کہ پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور ان کے پرائیویٹ پارٹس پر لاٹھی سے وار کیے ، جس میں کئی طلبہ و طالبات زخمی ہوئے ہیں۔
نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا اور جامعہ نگر کے مقامی لوگوں سمیت سیکڑوں مظاہرین کو سوموار صبح پارلیامنٹ کی طرف مارچ کرنے سے روکنے پر پولیس کے ساتھ ان کا تصادم ہو گیا۔جامعہ کوآرڈینشن کمیٹی (جے سی سی) کی قیادت میں جامعہ کے طلبا اور سابق طلبا سمیت مظاہرین نے ریلی نکالنے کی کوشش کی۔مظاہرین شہریت ترمیم قانون (سی اے اے)، این آرسی اور این پی آر کے خلاف پارلیامنٹ کی طرف مارچ نکال رہے تھے۔اس بیچ یونیورسٹی کے آس پاس سکیورٹی فورسز کی بھاری تعیناتی کی گئی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین کو پارلیامنٹ کی طرف مارچ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
Delhi: Protest by Jamia Coordination Committee continues near Holy Family Hospital. They had called a protest march against CAA,NRC&NPR, from Jamia to Parliament, but were stopped by security forces near the Hospital in Okhla.Police is requesting them to return to Gate 7 of Jamia pic.twitter.com/zRwYR0bjCe
— ANI (@ANI) February 10, 2020
مظاہرین نے جامعہ کے گیٹ نمبر سات سے اپنا مارچ شروع کیا۔ اس دوران پولیس نے ان سے اپنا مارچ ختم کرنے کی اپیل کی۔پولیس نے انہیں ہولی فیملی اسپتال کے پاس روک دیا، جہاں مظاہرہ کر رہے طلبا اور پولیس کے بیچ ہاتھاپائی بھی ہوئی ہے، جس کے بعد پولیس نے لاٹھی چارج کی۔اس مارچ میں شامل ہوئے طلبا نے دہلی پولیس کے ذریعے بدسلوکی کے الزام لگائے ہیں۔ انڈیا ٹو ڈے کی خبر کے مطابق،دس سے زیادہ طلبا کو جامعہ کے ہیلتھ سینٹر میں بھرتی کیا گیا ہے، جن کے پرائیویٹ پارٹس پر چوٹ لگی ہیں۔
انڈیا ٹو ڈے سے بات کرتے ہوئے سینٹر کے ڈاکٹرس نے بتایا کہ کچھ طلبا کی چوٹیں اتنی شدید تھیں کہ انہیں الشفا ہاسپٹل بھیجنا پڑا۔ ڈاکٹر نے بتایا، ’10 سے زیادہ طالبات کو پرائیویٹ پارٹس پر مارا گیا۔ ہمیں کچھ ہلکی چوٹیں بھی ملی ہیں اور کچھ کو ایسے مارا گیا کہ ان کی چوٹ کو دیکھ کر انہیں الشفا ہاسپٹل بھیجنا پڑا۔’انہوں نے آگے بتایا، ‘کچھ طلبا کو اندرونی چوٹیں بھی آئی ہیں کیونکہ ان کو سینہ پر لاٹھی سے مارا گیا۔ انڈیا ٹو ڈے ٹی وی نے ایسے دو طلبا سے بات کی، جن کا کہنا ہے کہ پولیس نے ان کے پرائیویٹ پارٹس پر حملہ کیا۔
ہیلتھ سینٹر میں علاج کروا رہی ایک اسٹوڈنٹ کا الزام ہے کہ ایک خاتون پولیس اہلکار نے ان کا برقع ہٹایا اور لاٹھی سے ان کی شرمگاہوں پر وار کیا۔ انہوں نے بتایا، ‘پولیس نے بوٹس سے میرے پرائیویٹ پارٹس پر مارا۔ ایک خاتون پولیس اہلکار نے میرا برقع اتارا اور میرے پرائیویٹ پارٹ پر لاٹھی ماری۔’ایک دوسرے اسٹوڈنٹ نے بتایا کہ پولیس والے کمر کے نیچے اس لیے مار رہے تھے جس سے کوئی انہیں کیمرا میں نہ لے سکے۔ اس طالبعلم نے بتایا، ‘وہ ہمیں اتنی زور سے دھکا دے رہے تھے کہ کئی بار ہم بھگدڑ میں پھنس گئے۔’
انہوں نے آگے بتایا، ‘ایسی کئی خواتین ہیں جن کے حساس حصوں میں چوٹ آئی ہے۔ مجھے کوہنی اور پیٹ کے نچلے حصہ پر مارا گیا۔ وے ہمیں کمر سے نیچے مار رہے تھے، جس سے کہ یہ کیمرا میں نہ آ سکے۔’
Delhi: Jamia Coordination Committee (JCC) protest march from Jamia to Parliament, against Citizenship Amendment Act (CAA), National Register of Citizens (NRC), & National Population Register (NPR). pic.twitter.com/PpUfE0TlU6
— ANI (@ANI) February 10, 2020
ایک زخمی طالبعلم نے بتایا، ‘پولیس نے پاؤں سے میرے پرائیویٹ پارٹ پر مارا۔ وہ خواتین کو مار رہے تھے اور میں انہیں بچانے کے لیے آیا، انہوں نے مجھے ڈنڈے سے سینہ اور پیٹھ پر پاؤں سے پرائیویٹ پارٹ پر مارا۔ ڈاکٹروں نے مجھے ایمرجنسی میں رکھا ہوا ہے۔’جامعہ ہیلتھ سینٹر میں زیر علاج ایک اور اسٹوڈنٹ نے بتایا کہ انہیں اتنی بری طرح پیٹا گیا کہ وہ دو بار بیہوش ہو گئے۔ انہوں نے بتایا، ‘میں ان سے کہہ رہا تھا کہ ہمیں مظاہرہ کرنے دیں لیکن وہ ہمیں دھکا دے رہے تھے۔ ہم بچ کر بھاگ نہیں سکے کیونکہ وہ نیچے کی طرف سے ہمارے پرائیویٹ پارٹس پر مار رہے تھے۔ میں دو بار بیہوش ہو گیا۔’
انڈیا ٹو ڈے نے الشفاہاسپٹل کےڈاکٹروں سے بھی بات کی، جہاں انہوں نے بتایا کہ مظاہرہ کے بعد کم سے کم 9 لوگ ہاسپٹل میں بھرتی کیے گئے ہیں، جن میں جامعہ کے آٹھ اسٹوڈنٹ اور ایک مقامی شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا، ‘ایک طالبعلم شدید طورپرزخمی ہے، جسے آئی سی یو میں شفٹ کیا گیا ہے۔’اس کے بعد وہاں حالات کشیدہ ہیں۔ یہ مظاہرہ جے سی سی کی طرف سے بلایا گیا تھا، جس میں جامعہ کے طلبا سمیت سابق بھی شامل تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے پاس پارلیامنٹ تک جانے کی اجازت نہیں تھی۔
مظاہرین نے جامعہ کے گیٹ نمبر سات سے اپنا مارچ شروع کیا۔ اس دوران پولیس نے ان سے اپنا مارچ ختم کرنے کی اپیل کی۔مظاہرہ کر رہے طلبا اور پولیس کے بیچ ہاتھاپائی بھی ہوئی ہے، جس کے بعد پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ معلوم ہو کہ پولیس نے مارچ نکالنے کی اجازت نہیں دی تھی۔طلبا اورسماجی کارکنوں سمیت بڑی تعدادمیں مظاہرین ہاتھوں میں پلے کارڈ اور بینر لیے صبح لگ بھگ 11 بجے منڈی ہاؤس کی جانب بڑھنا شروع ہوئے اور جنتر منتر کی طرف بڑھے۔ جہاں وہ باراکھمبا روڈ اور ٹالسٹائے مارگ کے ذریعے دوپہر 12.30 بجے پہنچے۔
اس دوران مظاہرین‘کاغذ نہیں دکھائیں گے’ اور ‘جب نہیں ڈرے ہم گوروں سے تو کیوں ڈرے ہم اوروں سے’ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔مظاہرے میں کئی عورتیں بھی تھیں۔ ہاتھوں میں کئی لوگ ترنگا تھامے ہوئے تھے اور ‘ہلہ بول’ کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس دوران مظاہرین نے ہیومن چین بھی بنائی۔مظاہرین میں شامل زیبانے کہا، ‘دو مہینے سے ہم مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ہم سے بات کرنے کے لیے سرکار کی طرف سے کوئی نہیں آیا، اس لیے ہم ان کے پاس جانا چاہتے ہیں۔’پولیس نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی تو ان کی دھکا مکی ہو گئی۔ کئی مظاہرین بیریکیڈ کو پار کر گئے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)