بہار: چیف جسٹس کے آرڈر کا جھوٹا حوالہ دے کر عدالت نے ملازمین سے مندر کی صفائی کروائی

بکسرسول کورٹ نے 6 جنوری کو جاری کردہ ایک آرڈرمیں پٹنہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی ہدایت کا حوالہ دیتے ہوئے عدالتی عملے سے کہا کہ وہ سرکٹ ہاؤس کے قریب مندروں کی صفائی کریں۔نوٹس پر سوال اٹھنے کے بعد اسے کلرکیکل غلطی بتاتے ہوئے 10 جنوری کوواپس لے لیا گیا، لیکن تب تک ملازمین مندر کی صفائی کر چکے تھے۔

بکسرسول کورٹ نے 6 جنوری کو جاری کردہ ایک آرڈرمیں پٹنہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی ہدایت کا حوالہ دیتے ہوئے عدالتی عملے سے کہا کہ وہ سرکٹ ہاؤس کے قریب مندروں کی صفائی کریں۔نوٹس پر سوال اٹھنے کے بعد اسے کلرکیکل غلطی بتاتے ہوئے  10 جنوری کوواپس لے لیا گیا، لیکن تب تک ملازمین مندر کی صفائی کر چکے تھے۔

بھیرو مندر کی صفائی کے بعد عدالت کے ملازمین تصویرکھنچواتے ہوئے۔(فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)

بھیرو مندر کی صفائی کے بعد عدالت کے ملازمین تصویرکھنچواتے ہوئے۔(فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)

بکسر سول کورٹ کے ایک افسر کی جانب سےجاری عجیب وغریب قسم کے ایک سرکاری نوٹس نے ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔ نوٹس میں عدالتی عملے سے کہا گیا تھاکہ وہ شہر کے سرکٹ ہاؤس کے قریب مندروں کی صفائی کریں۔ اس میں یہ جھوٹا دعویٰ کیا گیا تھا کہ پٹنہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس طرح کی ہدایت دی ہے۔

حالاں کہ، 6 جنوری کو جاری اس آرڈر کو 10 جنوری کے ایک اور آرڈر کے تناظر میں واپس لے لیا گیا، لیکن تب تک عدالت کے عملے نے مندر کی صفائی کر دی تھی۔

واضح ہو کہ 6 جنوری کےحکم نامے پر بکسرسول کورٹ کے افسر انچارج (ایڈمنسٹریشن) کے دستخط تھے۔اس میں کہا گیا تھاکہ اگر 9.01.2022 کو عدالت کے تمام افسران اپنی اپنی عدالتوں میں سماعت کے لیے مصروف نہیں ہیں تو وہ پٹنہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی ہدایت کےمطابق اپنی متعلقہ عدالتوں کے عملے کے ساتھ سرکٹ ہاؤس کے پاس کے مندروں کی صفائی کریں۔

ہدایات پر عمل کرتے ہوئے 9 جنوری کو عدالتی عملے نے بھیرو مندر کی صفائی کی تھی۔ جب یہ نوٹس وکیلوں اور دوسرے لوگوں کے علم میں آیا تو انہوں نے اس پر سوالات اٹھائے۔

ذرائع کے مطابق، یہ نوٹس چیف جسٹس سنجے کرول کے علم میں لایا گیا توانہوں نے اسے فوراً واپس لینے کا حکم دیا۔اس  کی وجہ سے مندر کی صفائی کے اگلے ہی دن 10 جنوری کو ایک اور نوٹس جاری کرکے اس آرڈر کو  واپس لیا گیا۔

بکسر سول کورٹ کا متنازعہ نوٹس(فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)

بکسر سول کورٹ کا متنازعہ نوٹس(فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)

اس نوٹس میں بکسر کے ضلع جج نے اس بات سے انکار کیا کہ پٹنہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے مندر کی صفائی کے لیے ایسا کوئی آرڈر  دیا تھا۔

نئے نوٹس میں لکھا گیا ہے کہ متعلقہ نوٹس کسی کی شرارت تھی، معاملے کی جانچ کی جا رہی ہے۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ گزشتہ سال دسمبر میں چیف جسٹس بکسر آئے تھے اور کچھ مندروں اور تاریخی مقامات کا دورہ کیا تھا۔ اس کے بعد وہ سرکٹ ہاؤس اوربارود گھر بھی گئے۔بارود گھرسے ملحق ایک پرانا بھیرو مندر ہے، چیف جسٹس نے اس مندر کا دورہ بھی کیا تھا۔

ذرائع نے بتایا،انہوں نے مندر اور بارود گھر کے درمیان کچرا دیکھا اور اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور صفائی کے لیے موجود عدالتی عملے سے سوال کیے۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج اور ڈسٹرکٹ جوڈیشل سروسز ایسوسی ایشن کےسکریٹری دھرمیندر تیواری نےنوٹس کو کلرکیکل غلطی قرار دیتے ہوئے دی وائر کو بتایا،میں اور ڈسٹرکٹ جج بیمار تھے۔ عملے نے نوٹس جاری کر دیا۔ یہ صرف ایک کلرکیکل غلطی تھی۔ معلوم ہوتے ہی ہم نے نوٹس واپس لے لیا۔

تیواری نے ذرائع کے اس دعوے کی تصدیق کی کہ چیف جسٹس نے مندر کے قریب کچرا صاف کرنے کو کہا تھا۔

انہوں نے بتایا، ہم نے مقامی میونسپلٹی کو مطلع کیا تھا۔ تب ڈسٹرکٹ جج نے عدالت کے ملازم سے کہا تھاکہ اس سلسلے میں ایک نوٹس جاری کی جائے۔ اس ملازم نے غلطی سے یہ سوچا ہو گا کہ چونکہ چیف جسٹس بھیرو مندر آئے تھے، اس لیے انہوں نے یہ آرڈر دیا ہوگا، اس لیے اس ملازم نے نوٹس جاری کر دیا۔

جب تیواری سے پوچھا گیا کہ نوٹس واپس لینے میں چار دن کیوں لگے تو انہوں نے کہا کہ میں اور ڈسٹرکٹ جج چھٹی پر تھے۔ اس لیے ہم پہلے نوٹس نہیں دیکھ سکے۔

انہوں نے اس بات سےانکار کیا کہ عملے نے مندر کی صفائی کی تھی۔ لیکن کچھ افسروں نے سوشل میڈیا پر مندر کی صفائی کی فوٹوڈالے تھے، جس میں وہ خود بھیرو مندر کی صفائی کی بات کہہ  رہے تھے۔

(اس  رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)