’پٹھان‘ فلم تنازعہ کے بعد مرکزی وزیر نے کہا –بائیکاٹ کلچر سے ماحول خراب ہوتا ہے

اطلاعات و نشریات کے مرکزی وزیرانوراگ ٹھاکر نے کہا کہ اگر کسی کو کسی فلم سے کوئی مسئلہ ہے تو اسے متعلقہ سرکاری محکمے سے بات کرنی چاہیے جو فلمسازوں کے ساتھ متعلقہ مسئلے کو اٹھا سکتا ہے۔ بعض اوقات ماحول کو خراب کرنے کے لیے کچھ لوگ اسے پوری طرح جاننے سے پہلے ہی اس پر تبصرہ کر دیتے ہیں۔

اطلاعات و نشریات کے مرکزی وزیرانوراگ ٹھاکر نے کہا کہ اگر کسی کو کسی فلم سے کوئی مسئلہ ہے تو اسے متعلقہ سرکاری محکمے سے بات کرنی چاہیے جو فلمسازوں کے ساتھ متعلقہ  مسئلے کو اٹھا سکتا ہے۔ بعض اوقات ماحول کو خراب کرنے کے لیے کچھ لوگ اسے پوری طرح جاننے سے پہلے ہی اس پر تبصرہ کر دیتے  ہیں۔

مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: اطلاعات و نشریات  کے مرکزی وزیرانوراگ ٹھاکر نے جمعہ کو بعض فلموں کو نشانہ بنانے والے ‘بائیکاٹ کلچر’ کی مذمت کی اور کہا کہ ایسے وقت میں اس طرح کے واقعات ماحول کو خراب کرتے ہیں،  جب ہندوستان خود کو ‘سافٹ پاور’ کے طور پر اپنے اثر ورسوخ کو بڑھانے کا خواہاں ہے۔

ٹھاکر نے کہا کہ اگر کسی کو کسی فلم کوسے کوئی مسئلہ ہے تو اسے متعلقہ سرکاری محکمے سے بات کرنی چاہیے جو فلمسازوں کے ساتھ متعلقہ  مسئلے کو اٹھا سکتا ہے۔

مختلف گروپوں کی طرف سے فلموں کے بائیکاٹ کے بارے میں پوچھے جانے پر ٹھاکر نے یہاں ممبئی میں  نامہ نگاروں کو بتایا، ایک ایسے وقت میں جب ہندوستان ایک ‘سافٹ پاور’ کے طور پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا خواہاں ہے، ایک ایسے وقت میں جب دنیا کے  ہرکونے میں ہندوستانی فلمیں دھوم مچارہی ہیں، اس طرح کی  باتیں ماحول کو خراب کرتی ہیں۔

وزیر موصوف  کا یہ تبصرہ ایسے وقت میں آیا ہے جب بدھ کو ریلیز ہونے والی شاہ رخ خان کی فلم ‘پٹھان’ کے ایک گانے پر بائیکاٹ کرنے کی اپیل  کی جارہی ہے۔اس سے پہلےاکشے کمار کی ‘سمراٹ پرتھوی راج’، عامر خان کی ‘لال سنگھ چڈھا’ اور دیپیکا پڈوکون کی ‘پدماوت’ کو بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ٹھاکر نے کہا، اگر کسی کو (فلم کے ساتھ) کوئی مسئلہ ہے، تو انہیں متعلقہ محکمہ سے بات کرنی چاہیے، جو اسے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے ساتھ اٹھائے گا۔ تاہم بعض اوقات ماحول کو خراب کرنے کے لیے کچھ لوگ اسے پوری طرح جاننے سے پہلے ہی اس پر تبصرہ کردیتے ہیں۔ اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔’

ٹھاکر شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او) فلم فیسٹیول کا افتتاح کرنے کے لیے ممبئی میں ہیں، جس میں آٹھ یوریشیائی ممالک کے علاقائی گروپ کی 58 فلمیں دکھائی جائیں گی۔

دی ہندو کے مطابق، ٹھاکر نے کہا کہ پانچ روزہ فلم فیسٹیول کی شروعات پدم شری اور نیشنل ایوارڈ یافتہ فلمساز پریہ درشن کی تمل فلم اپتھا کی نمائش کے ساتھ ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ فلم فیسٹیول ایس سی او خطے میں فلموں اور فلمسازی کے تنوع کو ظاہر کرنے کے لیے شامل ہونے  اور تعاون کرنے کا ایک پلیٹ فارم ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ اکٹھے ہو کر ایسی فلمیں بنائیں جو ہندوستانی ثقافتوں کی عکاسی کرتی ہوں۔

ٹھاکر نے کہا، ‘ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا فلمساز ملک ہے اور پچھلے کچھ سالوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ ایک ملک کے طور پر ہندوستان نے دنیا پر کس طرح اثر ڈالا ہے۔ راج کپور کی ‘میرا نام جوکر’ یا متھن چکرورتی کی ‘آئی ایم اے ڈسکو ڈانسر ہوں’ پوری دنیا میں ہندوستانی سنیما انڈسٹری کے اثر و رسوخ کے بارے میں بہت کچھ ظاہر کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سنیما ایک عبوری ملک کی لازوال کہانیاں بیان کرتا ہے اور ہندوستان دنیا کے مواد کا مرکز بننے کا ہدف بنارہا ہے۔ وزیر نے تخلیقی خودمختاری کی بھی پرزور وکالت کی اور کہا کہ ‘اوور دی ٹاپ’ (او ٹی ٹی) پلیٹ فارم پر مواد کی نگرانی کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے گئے ہیں۔ ٹھاکر نے کہا، تخلیقیت پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ وزارت اطلاعات و نشریات کواو ٹی ٹی  پلیٹ فارم پر مواد کے حوالے سے شکایات موصول ہوتی ہیں، لیکن تقریباً 95 فیصد شکایات پروڈیوسر کی سطح پر حل ہو جاتی ہیں اور دیگر کو’ایسوسی ایشن آف پبلشرز’ کے دوسرے مرحلے پر حل کیا جاتا ہے۔

وزیر نے کہا کہ صرف ایک فیصد شکایات انٹر ڈپارٹمنٹل کمیٹی تک پہنچتی ہیں اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ایسے معاملات میں سخت کارروائی کی جائے۔

بتا دیں کہ اس سے پہلے حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بی جے پی کارکنوں سے کہا تھا کہ وہ فلموں کے خلاف غیر ضروری تبصرے نہ کریں۔ انہوں نے بی جے پی لیڈروں سے کہا تھاکہ وہ سرخیوں میں آنے کے لیے فلموں اور مشہور شخصیات کے خلاف غیر ضروری تبصرہ کرنے سے گریز کریں۔

معلوم ہو کہ گزشتہ  ماہ سے شاہ رخ خان کی فلم ‘پٹھان’ تنازعات میں گھری ہوئی تھی۔ 12 دسمبر 2022 کو اس کے گانے ‘بےشرم رنگ’ کے ریلیز ہونے کے بعد اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا جانے لگا تھا۔ گانے کے ایک سین  میں اداکارہ دیپیکا پڈوکون کو بھگوا رنگ کی بکنی میں دیکھا جا سکتا ہے، جس کے خلاف  ملک بھر میں احتجاج  کیے گئے اور ‘ہندو جذبات کو ٹھیس پہنچانے’ کے الزامات لگائےگئے۔

مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا اور وشو ہندو پریشد جیسی تنظیمیں ان لوگوں میں شامل رہے ہیں جنہوں نے ‘بےشرم رنگ’ گانے پر اپنی ناراضگی  کا اظہار کیا اور اس میں تبدیلی کا مطالبہ کیا۔

بی جے پی کے وزراء اور دائیں بازو کی تنظیموں نے یہ دعویٰ  بھی کیا  کہ گانے میں بھگوا رنگ کی توہین کی گئی ہے، جو ہندو برادری کے لیے مقدس ہے۔

بھوپال سے بی جے پی کی رکن پارلیامنٹ سادھوی پرگیہ نے کہا تھا، ‘ان کے پیٹ پر لات مارو، ان کے دھندے چوپٹ کر دو اور کبھی ان کی کوئی فلم مت  دیکھو’۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)

Next Article

’ضمانت قانون، جیل استثنیٰ‘ کے اصول کو حال کے دنوں میں فراموش کر دیا گیا ہے: سی جے آئی

چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ حال  کےدنوں میں ‘ضمانت قانون ہے اور جیل استثنیٰ’  کے اصول کو فراموش کر  دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) بی آر گوئی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پرافسوس کا اظہار کیا کہ ‘ضمانت قانون ہے اور جیل استثنیٰ’ کے اصول کو حال کے دنوں میں فراموش کردیا گیا ہے۔

حال ہی میں آئی  خبر کے مطابق ، سی جے آئی گوئی نے مانا کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران عدالتی فیصلوں میں اس معیار کو شامل کیا گیا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں اس کونیک نیتی سے لاگو نہیں کیا گیا ہے۔

معلوم ہو کہ چیف جسٹس نے یہ باتیں اتوار (6 جولائی) کو کوچی میں جسٹس وی آر کرشن ائیر میموریل لا لیکچر دیتے ہوئے کہیں۔

اس دوران انہوں نے کہا کہ مختلف مقدمات میں ضمانت دیتے ہوئے انہوں نے خود اس اصول کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے، جس نے ہائی کورٹس اور نچلی عدالتوں کے لیے اسی اصول پر عمل کرنے کی راہ ہموار کی۔

جسٹس گوئی نے کہا، ‘مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ گزشتہ سال، 2024 میں، مجھے پربیر پرکایستھ، منیش سسودیا اور کویتا بنام ای ڈی کے معاملات میں اس قانونی اصول کو دہرانے کا موقع ملا۔’

انہوں نے کہا کہ پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ میں جسٹس ائیر کی خدمات بہت عظیم ہیں۔

واضح ہو کہ حالیہ برسوں میں سپریم کورٹ نے زیر سماعت قیدیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی احکامات پاس کیے ہیں اور کہا ہے کہ مقدمے کی سماعت میں تاخیر اور طویل قید پی ایم ایل اے اور یو اے پی اےکے تحت سنگین جرائم میں بھی ضمانت دینے کی بنیاد ہے، جبکہ خصوصی قوانین کے تحت ضمانت کی شرائط سخت ہیں۔

عدالت نے منی لانڈرنگ اور غیر قانونی سرگرمیوں کے مقدمات میں ملزمان کی ضمانت کا راستہ بھی کھولا ہے۔

سی جے آئی گوئی نے انڈر ٹرائل قیدیوں کو طویل مدت تک بغیر مقدمہ چلائے جیل میں رکھنے کی جسٹس ائیر کی سخت مخالفت کو بھی یاد کیا۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال اگست میں ایک اہم فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ‘ضمانت اصول ہے، جیل استثنیٰ ہے’ کا روایتی خیال نہ صرف آئی پی سی کے جرائم پر لاگو ہونا چاہیے بلکہ ان دیگر جرائم پر بھی لاگو ہونا چاہیے جن کے لیے خصوصی قوانین بنائے گئے ہیں، جیسے کہ یو اے پی اے، اگر اس قانون کے تحت مقرر کردہ شرائط پوری ہوتی ہیں۔

غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے مختلف فیصلوں میں ہائی کورٹس اور نچلی عدالتوں سے ضمانت دینے میں فراخدلی کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی تھی اور کہا تھا کہ اگر ضمانت کا معاملہ بنتا ہے تو سنگین جرائم میں بھی راحت دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔

Next Article

بہار: ووٹر لسٹ رویژن کے خلاف عرضیوں پر 10 جولائی کو شنوائی کرے گا سپریم کورٹ

بہار میں الیکشن کمیشن کی جانب سے شروع کی گئی  اسپیشل انٹینسو ریویژن  کے عمل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ 2003 کی ووٹر لسٹ کو بنیاد بناکر دستاویز مانگنا کروڑوں ووٹروں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کرسکتا ہے۔ کیس کی سماعت 10 جولائی کو ہوگی۔

سپریم کورٹ (تصویر: پی ٹی آئی/ کمل کشور)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار (7 جولائی) کو بہار میں ووٹر لسٹ پر  اسپیشل انٹینسو ریویژن  کرنے کے الیکشن کمیشن (ای سی آئی) کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کو فوری طور پر لسٹ کرنے پر رضامندی دے دی ہے۔

یہ عرضی سینئر وکیل کپل سبل، ابھیشیک منو سنگھوی، گوپال شنکر نارائنن اور شادان فراست نے دائر کی تھی۔

یہ عرضیاں راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے ایم پی منوج جھا، ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر)، پی یو سی ایل، سماجی کارکن یوگیندر یادو اور لوک سبھا ایم پی مہوا موئترا نے دائر کی ہیں۔

لائیو لا کے مطابق، جسٹس سدھانشو دھولیا اور جوائےمالیہ باگچی کی بنچ نے درخواست گزاروں کی اس دلیل کو سنا کہ جو ووٹر مقررہ دستاویزوں کے ساتھ فارم جمع نہیں کر پائیں گے، ان کے نام ووٹر لسٹ سے ہٹا دیے جائیں گے، خواہ  وہ پچھلے 20 سالوں سے مسلسل ووٹ دیتے آ رہے ہوں۔ انہوں نےکہا آٹھ کروڑ میں سے چار کروڑ لوگ اس کارروائی  سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

وکیلوں نے یہ بھی بتایا کہ الیکشن کمیشن نے آدھار یا ووٹر شناختی کارڈ کو درست دستاویز کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے، جس کی وجہ سے اتنے کم وقت میں اس عمل کو مکمل کرنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے درخواست گزاروں سے کہا کہ وہ اپنی درخواستوں کی کاپیاں مرکزی حکومت، الیکشن کمیشن آف انڈیا اور دیگر متعلقہ فریقوں کو پیشگی جمع کرائیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ درخواستوں کی کاپیاں اٹارنی جنرل آف انڈیا کو بھی دی کی جائیں۔

سماعت کے دوران سینئر ایڈوکیٹ سنگھوی نے کہا کہ 24 جون کے اسپیشل انٹینسو ریویژن  نوٹیفکیشن میں بہار کے کروڑوں غریب اور پسماندہ ووٹروں پر سخت ڈیڈ لائن لگائی گئی ہے۔ ان لوگوں سے ایسے دستاویزمانگے جا رہے ہیں جن میں آدھار اور راشن کارڈ شامل نہیں ہیں، جبکہ یہی وہ دستاویز ہیں جو عام لوگوں کے پاس ہوتے ہیں۔

کپل سبل نے عدالت سے گزارش کی کہ وہ الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کمیشن اس  اسپیشل انٹینسو ریویژن  کے عمل کو جلدبازی میں لاگو کرنے کی وجہ بتائے، کیونکہ اس عمل سے بہار کے کروڑوں ووٹروں کو ان کے ووٹ ڈالنےکے حق سے محروم کیا جا سکتا ہے۔

الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ اس نے پورے ملک میں  اسپیشل انٹینسو ریویژن  کا عمل شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کی شروعات بہار سے کی جارہی ہے۔ دیگر ریاستوں کے لیے الگ الگ پروگرام کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

بنچ ان درخواستوں کی سماعت 10 جولائی کو کرے گا۔

ایک دن پہلے سابق الیکشن کمشنر اشوک لواسا نے ایک اخباری کالم میں لکھا تھا کہ اس اعلان کا وقت مشکوک تھا، خاص طور پر جب کچھ ریاستوں میں شہریت کی جانچ کو لے کر جنون  کا ماحول بنا ہوا تھا، اور جہاں مقامی سطح پر ‘ پیوریفیکیشن ‘ کے نام پر ووٹروں کے نام ہٹائے گئے ہیں۔

لواسا پوچھتے ہیں، ‘بہار میں 2003 کی ووٹر لسٹ کو ہی بنیاد کیوں بنایا گیا، حالانکہ اس کے بعد بھی ووٹر لسٹوں پر نظر ثانی کی گئی ہے؟’

انہوں نے الیکشن کمیشن کی ہدایات کے پیرا 11 کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ 2003 کی ووٹر لسٹ کو ‘شہریت کے قیاس سمیت اہلیت کا مستند ثبوت مانا جائے۔’ اس بنیاد پر انہوں نے سوال اٹھایا کہ 2003 تک رکے جسٹرڈ ناموں کو ہی ثبوت کیوں مانا جا رہا ہے؟

سب سے اہم بات ، لواسا نے یہ بھی پوچھا کہ جب  ہندوستان میں حکومت کی جانب سے شہریت کے حوالے سے کوئی سرکاری دستاویز جاری نہیں کیا جاتا، تو کیا الیکشن کمیشن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شہریت ثابت کرنے کے لیے ٹیسٹ کرائے ؟

انہوں نے لکھا؛

اب تک الیکشن کمیشن دستاویزی شواہد اور جسمانی تصدیق کی بنیاد پر ناموں کو شامل کرتا رہا ہے اور شہریت قانون کے مطابق شہریت کا کوئی ثبوت نہیں مانگتا رہا ہے۔ ایسے میں یہ بحث طلب ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کو اب ایسا عمل اختیار کرنا چاہیے جس سے لوگوں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم ہونے کا خطرہ ہو، یا اسے اپنے آزمودہ عمل پر قائم رہنا چاہیے۔

لواسا مزید لکھتے ہیں، ‘ایسے رائے دہندگان کا کیا ہوگا جن کے نام پہلے فہرست میں تھے، انہیں ووٹر کارڈ بھی جاری کیے گئے تھے، لیکن اب تسلیم شدہ دستاویزنہ ہونے  کی وجہ سے باہر کردیے گئے ہیں؟ کیااب ان کی ذمہ داری حکومت لے گی یا پھر  عدلیہ؟’

بتادیں کہ اشوک لواسا کو 2018 میں الیکشن کمشنر بنایا گیا تھا، انہوں نے 2019 کے انتخابات میں نریندر مودی اور امت شاہ کی جانب سے انتخابی مہم کے قوانین کی مبینہ خلاف ورزی پر کئی بار اختلاف رائے  ظاہر کیا تھا۔

Next Article

ایلون مسک اور امبانی کو سیٹلائٹ اسپیکٹرم: خدشات اور خطرات

ہندوستانی حکومت نے ایلون مسک کی اسٹارلنک اور امبانی کی جیو سمیت کچھ کمپنیوں کو سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس کی منظوری  دے  دی ہے، لیکن نیلامی کے بغیر ہوئے اس مختص  پر سوال اٹھائے جا رہے  ہیں۔ کیایہ الاٹمنٹ شفاف ہے؟ کیا اس سے قومی مفاد کو خطرہ ہے اور معاشی نقصان کا اندیشہ ہے؟

ایلون مسک اور امبانی کی کمپنیوں کو ہوئے سیٹلائٹ مختص سے  کئی سوال پیدا ہو رہے ہیں۔ | (بائیں سے) مکیش امبانی اور ایلون مسک، پس منظر میں اسٹارلنک سیٹلائٹ۔ (تصویر بہ شکریہ: ریلائنس/وکی پیڈیا اور برٹانیکا)

قومی سلامتی کو خطرہ ۔ معاشی نقصان کا اندیشہ۔ حکومت کے فیصلے میں شفافیت کا فقدان۔

یہ چند سوالات ہیں جو حکومت ہند کی جانب سے ایلون مسک کی کمپنی اسٹار لنک اور مکیش امبانی کی کمپنی جیو سمیت متعدد کمپنیوں کو سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کی باضابطہ منظوری کے بعد اٹھ رہے ہیں ۔ مرکزی حکومت نے ابھی تک یہ عام نہیں کیا ہے کہ کس بنیاد پر اور کن شرائط کے تحت اور کس شرح پر ان کمپنیوں کو لائسنس دیے گئے ہیں۔

این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے انڈین نیشنل اسپیس پروموشن اینڈ آتھرائزیشن سینٹر کے چیئرمین ڈاکٹر پون گوینکانے تصدیق کی کہ اسٹار لنک کے لیے زیادہ تر رسمی کارروائیاں مکمل کر لی گئی ہیں۔

ہندوستان جیسے وسیع ملک میں پہاڑی یا دور دراز کے علاقوں میں سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس یک انقلابی حل بن سکتی ہے۔ دنیا بھر میں اس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اکیلےا سٹار لنک   100 سے زیادہ ممالک کو سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس فراہم کر رہا ہے۔ لیکن ہندوستانی حکومت نے جس طرح سے کچھ کمپنیوں کو اس سروس کی منظوری دی ہے اس سے کئی سنگین سوال پیدا ہوتے ہیں۔

سب سے پہلا، مودی حکومت نے ان کمپنیوں کو لائسنس نیلامی کے عمل کے ذریعے نہیں، بلکہ محض ایک ایڈمنسٹریٹو آرڈر کے ذریعے  دیا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ عمل کتنا شفاف تھا کیونکہ حکومت کی طرف سے اس کی تفصیلات عام نہیں کی گئی ہیں۔

دوسری بات یہ کہ حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ اسٹار لنک اور دیگر ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کو جاری کیے جا رہے لائسنس کی شرائط کیا ہیں۔ اس سے جانبداری اور وسائل کے غیرشفاف مختص کا سوال اٹھتا ہے۔ غور طلب ہے کہ ٹیلی کمیونی کیشن ایکٹ 2023 میں کہا گیا ہے کہ سیٹلائٹ خدمات کے لیے اسپیکٹرم کا الاٹمنٹ نیلامی کے بجائے ‘ایڈمنسٹریٹو پروسس’ یعنی انتظامی فیصلے کے ذریعے کیا جائے گا۔

حکومت ہند کے سابق سکریٹری ای اے ایس شرما گزشتہ کئی مہینوں سے مرکزی حکومت کے کابینہ سکریٹری ڈاکٹر ٹی وی سومناتھن اور ٹیلی کمیونی کیشن ڈپارٹمنٹ کے سکریٹری نیرج متل کو خط لکھ کر اس موضوع پر سوال اٹھا رہے ہیں  ۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی اور قومی مفاد کو خطرہ

دی وائر سے بات کرتے ہوئے شرما نے کہا،’اسٹار لنک جیسی کمپنیوں کو براہ راست سیٹلائٹ اسپیکٹرم سونپنا سپریم کورٹ کے 2 جی اسپیکٹرم کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ اس طرح کے وسائل کی تقسیم ایک شفاف اور عوامی عمل کے ذریعے کی جانی چاہیے، نہ کہ بند دروازوں کے پیچھے۔’

سابق سکریٹری نے اس بات کو طے  کرنے کے لیے آزاد عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا کہ آیا اسپیکٹرم کی تقسیم نے قانون کی خلاف ورزی کی اور کیا حکومت نے اس عمل میں نجی کمپنیوں کو ناجائز فائدہ پہنچایا ہے؟

شرما اسے ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بھی مانتے ہیں۔ ‘اسٹار لنک کے امریکی فوج کے ساتھ روابط ہیں۔ انہیں ہندوستان میں سیٹلائٹ سے براہ راست نگرانی کرنے کی اجازت دینا قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے،’ وہ کہتے ہیں۔

سیٹلائٹ انٹرنیٹ جدید جنگ کا ایک اوزار بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ممالک غیر ملکی کمپنیوں کو سیٹلائٹ انٹرنیٹ فراہم کرنے پر پابندی لگا رہے ہیں۔ ایران کی پارلیامنٹ نے حال ہی میں اسٹار لنک پر پابندی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ اس اقدام کو ایران کی جانب سے امریکی اور اسرائیلی حملوں کے بعد بیرونی اثرات کو روکنے کی کوششوں کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔

روس اور چین میں بھی اسٹار لنک کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم، وال اسٹریٹ جرنل کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ پابندی کے باوجود اسٹار لنک انٹرنیٹ ٹرمینل روس میں بلیک مارکیٹ میں دستیاب ہیں، جنہیں خرید کر اسٹار لنک کی سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروس استعمال کی جا رہی ہے۔

اسٹار لنک انٹرنیٹ سروس یوکرین سے سوڈان تک تنازعات والے علاقوں میں فوری اور نسبتاً محفوظ رابطہ فراہم کرتی ہے۔ یہ سہولت ڈرون اور دیگر جدید فوجی ٹکنالوجی کے آپریشن میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے – جو آج جنگوں میں فیصلہ کن ثابت ہو رہی ہے۔ اسٹار لنک ڈیوائسز کے آسان اور تیز ایکٹیویشن ہارڈویئر کی وجہ سے ایلون مسک کا اسپیس ایکس بہت سے پرتشدد تنازعات کا حصہ بن جا رہا ہے۔

ہندوستان بھی اس کا خمیازہ بھگت چکاہے۔ پانچ ماہ قبل دی گارڈین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، منی پور میں عسکریت پسند گروپ حکومت کی انٹرنیٹ پابندی کو چکمہ دینے کے لیے اسٹار لنک کی سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس استعمال کر رہے ہیں۔ اسٹار لنک کی خدمات ابھی تک ہندوستان میں شروع نہیں کی گئی ہیں، لیکن منی پور سے متصل ملک میانمار میں اس کی اجازت ہے۔ میتیئی علیحدگی پسند عسکریت پسند تنظیم ‘پیپلز لبریشن آرمی آف منی پور (پی ایل اے)’کے ایک رہنما کے مطابق، جب تشدد شروع ہوا تو حکومت نے انٹرنیٹ کو بند کر دیا، تو انہوں نے انٹرنیٹ کے لیے اسٹار لنک ڈیوائسز کا سہارا لیا۔

سرکاری خزانے کو نقصان کا اندیشہ

چونکہ حکومت نے نہیں بتایا  ہے کہ اسپیکٹرم کس شرح پرسونپا گیا ہے، اس لیے ریونیو کے نقصان کا خدشہ ہے۔ نیز، جس طرح سے اسپیکٹرم الاٹ کیا گیا ہے اس سے اجارہ داری کا خطرہ بھی پیدا ہوتا ہے۔

شرماکہتے ہیں،’اسٹار لنک ہندوستان کے معروف ٹیلی کام آپریٹرجیواور ایئر ٹیل کے ساتھ ایک ‘کارٹیل’ بنا رہا ہے، جو انہیں سیٹلائٹ اسپیکٹرم پر اجارہ داری کی اجازت دے سکتا ہے – اور اس سے لاکھوں صارفین کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔’

حکومت شروع سے ہی اس معاملے پر شفافیت سے گریز کرتی رہی ہے۔ اس سال مارچ میں کانگریس کے رکن پارلیامنٹ منیش تیواری نے لوک سبھا میں وزیر مواصلات سے سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کے بارے میں سوالات پوچھے تھے۔ اس وقت حکومت نے کسی بھی درخواست گزار کی فہرست شیئر نہیں کی تھی۔

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ منیش تیواری نے وزیر مواصلات سے پوچھا تھا؛

الف- ہندوستانی حکومت سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کو کس طرح منظم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے؟

ب-جب اسپیکٹرم نیلامی کے بجائے انتظامی فیصلے کے ذریعے مختص کیا جائے گا، تو حکومت شفافیت، غیرجانبدار اورا سپیکٹرم کے بہترین استعمال کو کیسے یقینی بنائے گی؟

ج- خاص طور پر دور دراز علاقوں میں تیز رفتار انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر، ملک میں سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کو آسان بنانے اور ریگولیٹ کرنے کے لیے حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں؟

د-  حکومت نے سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کے غلط استعمال یا حفاظتی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے اختیار کیے گئے حفاظتی اقدامات کی نگرانی اور کنٹرول کرنے کے لیے کیا طریقہ کار وضع کیا ہے؟

 وزیر مملکت برائے مواصلات، ڈاکٹر پیمسانی چندر شیکھر نے جواب دیا تھاکہ یہ کمپنیاں ہندوستان میں رجسٹرڈ ہونی چاہیے اور تمام حفاظتی شرائط کی تعمیل ضروری ہے – جیسے کہ سیٹلائٹ گیٹ وے ہندوستان میں ہونا چاہیے، تمام ٹریفک وہیں سے ہو کر گزرے، اور سرحدوں پر بفر زون بنایا جائے۔

منیش تیواری کے سوالات

اس کے بعد ، اپریل 2025 میں، وینکٹیش نائک، ڈائریکٹر، کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشیٹو (سی ایچ آر آئی) نے ایک آر ٹی آئی درخواست دائر کی۔

آر ٹی آئی درخواست اور سی پی آئی او کا گول مول جواب

آر ٹی آئی کے ذریعے پوچھا گیا تھاکہ سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کی اجازت سے متعلق کیا شرائط ہیں؟ کن کمپنیوں نے اپلائی کیا، کن کن شرائط پر منظوری ملی۔

مرکزی حکومت نے ان کمپنیوں کے ناموں کا تو انکشاف کیا جنہیں سیٹلائٹ کے ذریعے انٹرنیٹ فراہم کرنے کا لائسنس دیا گیا، لیکن اس کے تحت استعمال ہونے والے معیارات، شرائط اور عمل کی وضاحت کرنے والے دستاویزات کو شیئر کرنے سے انکار کر دیا ۔

پہلی اپیل دائر کیے جانے کے بعد 28 مئی کو، فرسٹ درخواست گزار اتھارٹی نے اپنا حکم جاری کیا، جس میں ان کمپنیوں کی فہرست شیئر کی جنہیں لائسنس دیا گیا ہے، لیکن دیگر معلومات کو آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8(1)(ڈی) اور 8(1)(ای) کا حوالہ دیتے ہوئےروک دیا۔

یہ دفعات عام طور پر ‘تجارتی رازداری’ اور ‘وفادارانہ تعلقات’ کی بنیاد پر معلومات مہیا کرنے  سے روکنےکے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

جب ان سے ہندوستان میں سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں اور مذکورہ کمپنیوں کو جاری کردہ اجازت ناموں کی کاپیاں مانگی گئیں، تو حکومت نے کہا کہ یہ معلومات آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8(1)(ڈی) اور (ای) کے تحت خفیہ ہے اور فراہم نہیں کی جا سکتی۔

آر ٹی آئی کی دفعہ 8(1)(ڈی) اور (ای) کیا کہتی ہیں؟

آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8(1)(ڈی اور 8(1)(ای) کے تحت، کچھ معلومات عوامی معلومات کے دائرےمیں نہیں آتی ہیں اور ان کو شیئر کرنے سے منع کیا جا سکتا ہے۔

دفعہ 8(1)(ڈی)؛

اگر معلومات تجارتی رازداری سے متعلق ہے (جیسے کمپنی کی ٹکنالوجی یا کاروباری حکمت عملی)، ٹریڈ سیکریٹس یا دانشورانہ املاک اور اس کے افشاء سے کمپنی کی مسابقتی پوزیشن کو نقصان پہنچ سکتا ہے —  توایسی معلومات آر ٹی آئی ے تحت شیئر نہیں کی جاتی ہیں۔ سیکشن 8(1)(ای)؛

اگر معلومات کسی شخص یا تنظیم کو کسی مخلصانہ تعلقات کے تحت موصول ہوئی ہیں — جیسے کہ کسی وکیل کو اس کے مؤکل سے موصول ہونے والی معلومات، بینک کلائنٹ کا رشتہ، وغیرہ— تو اس معلومات کا اشتراک نہیں کیا جا سکتا۔

اس کیس میں ان دفعات کا استعمال کیوں ہوا؟

ٹیلی کمیونی کیشن ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ کمپنیوں کی درخواست اور انہیں دی گئی منظوریوں کے دستاویز تجارتی رازداری (8(1)(ڈی) کے تحت آتے ہیں۔ اور یہ معلومات ایک مخلصانہ تعلق – 8(1)(ای) کے تحت دی گئی  ہیں۔

لیکن وینکٹیش نائک کا کہنا ہے کہ محکمہ کو یہ معلومات سرکاری کام کے تحت ملی ہیں، نہ کہ نجی  بھروسے کے تحت— اس لیے دفعہ 8(1)(ای) لاگو نہیں ہوتا ہے۔ یہ خدمات عوام کو فراہم کی جانی ہیں اور اسپیکٹرم ایک عوامی وسیلہ ہے- اس لیے کمپنیوں کو دیے گئے لائسنس اور شرائط شفاف ہونے چاہیے۔

وینکٹیش نائک نے محکمہ کے جواب کو ‘قانون کی خلاف ورزی’ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 4(1)(بی) (xiii) کے تحت لائسنس اور اجازت کے دستاویزات کو پبلک کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سپریم کورٹ بھی آر بی آئی بہ نام جینتی لال مستری کیس میں یہ واضح کر چکا ہے کہ حکومت کی طرف سے اپنے قانونی کاموں کے حصے کے طور پر جمع کی جانے والی کوئی بھی معلومات فیڈوشری نہیں ہے۔’

اس کیس میں آر بی آئی کا استدلال یہ تھا کہ وہ جو معلومات بینکوں سے اکٹھا کرتا ہے وہ ایک مخلصانہ تعلق کے تحت ہے، اس لیے اسے شیئر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا، ‘اگر کوئی محکمہ قانون کے تحت کمپنیوں سے درخواست یا معلومات لیتا ہے، تو وہ پرائیویٹ ٹرسٹ (وفادارانہ تعلقات) کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔ یہ عوام کے لیے دستیاب ہونا چاہیے۔’

اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ محکمہ ٹیلی کمیونی کیشن نے آر ٹی آئی کی دفعات کا غلط استعمال کرکے شفافیت سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ محکمہ ٹیلی کمیونی کیشن کی طرف سے دی گئی اجازت عوامی وسائل (اسپیکٹرم) سے متعلق ہے، جن کی خدمات عام لوگوں کو دی جانی ہیں۔

 ٹیلی کمیونی کیشن ڈپارٹمنٹ سے نہیں ملا کوئی جواب نہیں

 آر ٹی آئی کے ذریعے جن سوالوں کا جواب نہیں مل سکا تھا، انہیں اور کچھ اضافی سوالات کے ساتھ دی وائر نےمحکمہ ٹیلی کمیونی کیشن کے سکریٹری نیرج متل اور میڈیا ڈویژن کے ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل ہیمیندر کمار شرما کو ای میل پر سوالات بھیجے، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

Next Article

گوگل، مائیکروسافٹ جیسی کمپنیاں نسل کشی اور فوجی کارروائیوں میں اسرائیل کی مددگار: رپورٹ

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کو پیش کی گئی ایک نئی رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ متعدد ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ اور ویسٹ بینک میں اسرائیل کے قبضے اور فوجی کارروائیوں کو آسان بنانے یا فائدہ پہنچانے میں کلیدی رول ادا کیا ہے۔

غزہ پٹی پر اسرائیلی فضائی اور زمینی حملوں سے بے گھر ہونے والے فلسطینی، 2 جولائی 2025 کو غزہ پٹی کے خان یونس میں  شام کے وقت عارضی خیمے ۔تصویر: اے پی / پی ٹی آئی

نئی دہلی: اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں پیش کی گئی ایک نئی رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ بڑی تعداد میں عالمی کمپنیوں نے غزہ اور ویسٹ بینک میں اسرائیل کے قبضے اور فوجی کارروائیوں کو سہولت فراہم کرنے یا ان سے فائدہ اٹھانے میں کلیدی رول ادا کیا ہے،  جوبین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے،  اور نجی شعبے کی جوابدہی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ  فرانسسکا البانیس کی جانب سے لکھی گئی رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ مختلف شعبوں میں کارپوریٹ اداروں نے ‘مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں حق خود ارادیت سے انکار اور دیگر اسٹرکچرل خلاف ورزیوں کو اہل بنایا ہے، جس میں قبضہ ،الحاق ، نسل پرستی اورنسل کشی کے جرائم شامل ہیں، ساتھ ہی امتیازی سلوک، بے دریغ تباہی، جبری نقل مکانی اور لوٹ مار سے لے کر ماورائے عدالت قتل اور فاقہ کشی تک  کے ذیلی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔’

جہاں پچھلی رپورٹس غیر قانونی بستیوں یا اسرائیل کے سیاسی اقدامات پر مرکوز تھیں، یہ رپورٹ 200 سے زیادہ پریزینٹیشن اور تقریباً 1000 کارپوریٹ اداروں کے ایک نئے ڈیٹا بیس پر مبنی ہے، جو عالمی کاروباری نیٹ ورک کو ان ڈھانچوں سے جوڑنے والی پہلی رپورٹ ہے، جنہیں البانیس نے نسل پرستی اور نسل کشی سمیت بین الاقوامی جرائم قرار دیا ہے۔

قبضے کی معیشت سے نسل کشی کی معیشت تک ‘ کے عنوان سے 39صفحات پر مشتمل رپورٹ میں 48 کارپوریٹ اداروں کی نشاندہی کی گئی،جو فلسطینی علاقوں میں معاشی سرگرمیوں میں ملوث ہیں،’جبکہ  7 اکتوبر 2023 کے بعد بڑھتے ہوئے مظالم کے باوجود جان بوجھ کر ڈاکیومینٹیشن، نظامی زیادتیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں ۔

کارپوریٹ اداروں نے نسل کشی کی اسرائیلی معیشت سے فائدہ اٹھایا

خصوصی نمائندے نے اپنے خلاصے میں لکھا کہ بین الاقوامی حکومتیں کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہیں، جبکہ بہت سے کارپوریٹ اداروں نے ناجائز قبضے، نسل پرستی اور اب نسل کشی کی اسرائیلی معیشت سے فائدہ اٹھایا ہے۔

انہوں نے لکھا،’یہ ملی بھگت توبس شروعات ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر،جس میں اس کے ایگزیکٹوز بھی شامل ہیں،کو جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے، کیونکہ یہ نسل کشی کے خاتمے اور نسلی سرمایہ داری کے عالمی نظام کو ختم کرنے کی سمت میں ایک ضروری قدم ہے۔’

یہ دلیل دیتے ہوئے کہ کارپوریٹ کی شمولیت ‘اسرائیلی قبضے کے منصوبے’ کے لیے بہت اہم ہے، وہ براہ راست تجارتی مفادات کو فلسطینیوں کی نقل مکانی اور بے دخلی سے جوڑتی ہے، خاص طور پر 1967 کے بعد۔

رپورٹ میں کہا گیا،’کارپوریٹ سیکٹر نے اسرائیل کو گھروں، اسکولوں، ہسپتالوں، عبادت گاہوں اور تفریح ​​کی جگہوں، ذریعہ معاش اور زیتون کے باغات جیسے پیداواری اثاثوں کو تباہ کرنے کے لیے درکار ہتھیار اور مشینری فراہم کرکے اس کوشش میں مادی طور پر تعاون کیا ہے۔’

اس میں کمپنیوں پر عسکریت پسندی اور غیر قانونی بستیوں کو فروغ دینے میں مدد کر نے کا بھی الزام لگایا گیا ہے، جس سے فلسطینی شہریوں کی ہلاکت کے لیے سازگار حالات پیدا ہوئے ہیں۔

جن فرموں کا نام لیا گیا ہے ان میں اسرائیلی ہتھیار بنانے والی کمپنیاں ایلبٹ سسٹمزاور اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریزکے ساتھ ساتھ امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن بھی شامل ہے، جو غزہ میں استعمال ہونے والے ایف35 لڑاکا طیارے بناتی ہے ۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اکتوبر 2023 سے اسرائیل نے غزہ پر 85000 ٹن سے زیادہ بم گرائے ہیں، جن میں سے اکثرغیر ہدایت شدہ کے تھے۔ البانی نے اس مہم کو ‘غزہ کی تباہی’ قرار دیا۔

عالمی کھلاڑی

رپورٹ میں ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والی روبوٹک مشینری کی فراہمی کے لیے جاپان کی ایف اے این یوسی کارپوریشن اور غزہ میں اپنے آپریشن کے دوران اسرائیل کو ‘امریکہ کی طرف سے فراہم کیے جانے والے فوجی سازوسامان کی مسلسل سپلائی کو برقرار رکھنے’ کے لیے ڈنمارک کے اے پی مولر-مارسک کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا،’ ایلبٹ سسٹمز اور اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز جیسی اسرائیلی کمپنیوں کے لیے یہ نسل کشی ایک منافع بخش کاروبار رہا ہے۔’

اس میں کہا گیا: ‘2023 سے 2024 تک اسرائیلی فوجی اخراجات میں 65 فیصد  کا اضافہ  ہوا– جو کہ46.5 بلین ڈالرہوگا، جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ فی کس میں سے ایک ہے –  نےسالانہ منافع میں تیزی سے اضافہ کیا۔’

ہتھیاروں کی صنعت سے ہٹ کررپورٹ میں بڑے پیمانے پر نگرانی کے نظام کو فعال کرنے میں اسرائیلی اور عالمی ٹیک کمپنیوں کے کردار کو نمایاں کیا گیا ہے۔ مائیکروسافٹ، آئی بی ایم، گوگل، ایمیزون اور پالانٹیر جیسی کمپنیوں پر کلاؤڈ سروسز، اے آئی ٹارگٹنگ پلیٹ فارمز اور بایو میٹرک سسٹم فراہم کرنے کا الزام ہے جو قبضے کی حمایت کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘فلسطینیوں کا جبر بتدریج خودکار (آٹومیٹک) ہوگیا ہے’ اور ٹکنالوجی کمپنیاں اس سے فائدہ اٹھا رہی ہیں جسے البانیس نے مقبوضہ علاقوں میں ‘فوجی ٹکنالوجی کے لیے منفرد ٹیسٹنگ گراؤنڈ’ قرار دیا ہے۔

ارب پتی پیٹر تھیل کے تعاون سے قائم پالانٹیر ٹیکنالوجیز کا نام اے آئی سے چلنے والے ٹارگٹنگ سسٹم کی فراہمی کے لیے لیا جاتا ہے جو مبینہ طور پر فضائی حملوں کے دوران خودکار فیصلے لینے میں مدد کرتے ہیں۔

البانیس کا کہنا ہے کہ ‘یہ یقین کرنے کے لیے معقول بنیادیں ہیں’ کہ پالانٹیر نے پیش گوئی کرنے والے پولیسنگ ٹولز اور ملٹری سافٹ ویئر انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ اس کا مصنوعی ذہانت کا پلیٹ فارم بھی فراہم کیا، جو میدان جنگ میں مددگار ثابت ہوا ہے۔

انہدام اور جبری نقل مکانی کی کوششوں میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کاتعاون

رپورٹ میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے انہدام اور جبری نقل مکانی کی کوششوں میں فراہم کی گئی بھاری مشینری کے استعمال کی بھی تفصیل دی گئی ہے۔

اس میں کیٹرپلر، ایچ ڈی ہنڈائی اور وولوو کو فلسطینیوں کی املاک کو تباہ کرنے کے لیے استعمال ہونے والے آلات کی فراہمی کا الزام لگایا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے، ‘اکتوبر 2023 سے یہ مشینری غزہ میں 70 فیصد ڈھانچے اور 81 فیصد فصلی زمین کو نقصان پہنچانے اور تباہ کرنے میں ملوث ہے۔’

تعلیمی ادارے اور مالیاتی ادارے بھی اس  میں شامل ہیں۔ رپورٹ میں اسرائیلی یونیورسٹیوں پر ہتھیاروں کی ٹکنالوجی تیار کرنے اور نسلی امتیاز اور قبضے کی حمایت کرنے والے بیانیے کو فروغ دینے کا الزام لگایا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘اسرائیل میں یونیورسٹیاں – خاص طور پر قانون کے اسکول، آثار قدیمہ اور مشرق وسطیٰ کے مطالعہ کے شعبے – نسلی امتیاز کی نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں’، اور ان پر فلسطینی تاریخ کو مٹانے اور نوآبادیاتی طریقوں کو قانونی حیثیت دینے کا الزام لگایا گیا ہے۔

جنگ سے ترقی

البانی نے مغربی یونیورسٹیوں کے اسرائیلی اداروں اور فوجی تحقیق سےان کے تعلقات کا بھی انکشاف کیا ہے۔ مثال کے طور پر، میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (ایم آئی ٹی) کی کئی لیبارٹریوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی وزارت دفاع کے لیے تحقیق کرتی ہیں۔ اسرائیلی وزارت دفاع ایم آئی ٹی میں اس طرح کے کام کو فنڈ کرنے والی واحد غیر ملکی ملٹری ہے۔ ان میں ڈرون کنٹرول، تعاقب الگورتھم، اور پانی کے اندر نگرانی سے متعکق منصوبے شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ قانونی پیش رفت، خاص طور پر بین الاقوامی عدالت انصاف کی مشاورتی رائے نے ‘کارپوریٹ ذمہ داری اور ممکنہ ذمہ داری کی تشخیص کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا ہے۔’

‘آئی سی جے کی مشاورتی رائے، جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی حمایت حاصل ہے، کارپوریٹ اداروں پر اولین ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ وہ قبضے کے کسی بھی جزو کے ساتھ کسی بھی لین دین میں ملوث ہونے سے گریز کریں اور/یا مکمل طور پر اور غیر مشروط طور پر دستبردار ہوجائیں۔’

جنوری 2024 میں آئی سی جے نے اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے’تمام اقدامات’ کرے۔ پانچ ماہ بعد، اس نے اسرائیل سے اپنی فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ بھی کیا۔

اپنی سفارشات کے تحت رپورٹ نے رکن ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ ‘احتساب کو نافذ کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کارپوریٹ اداروں کو قانونی نتائج کا سامنا کرنا پڑے جب وہ بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہوں۔’

اس نے مطالبہ کیا کہ عالمی کارپوریشنوں کو ‘بین الاقوامی کارپوریٹ ذمہ داریوں کے قانون کے مطابق، تمام کاروباری سرگرمیاں فوری طور پر بند کرنی چاہیے اور فلسطینی عوام کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بین الاقوامی جرائم میں شراکت اور تشکیل دینے والے تمام تعلقات کوختم کر دینا چاہیے ۔’

اسرائیل کا ردعمل

اسرائیل نے اس رپورٹ کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔

بی بی سی کے مطابق، اسرائیلی حکومت نے اسے ‘بے بنیاد، توہین آمیز اور عہدے کا انتہائی غلط استعمال’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ اسرائیل نے نسل کشی کے الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ حماس کے خلاف اپنے دفاع میں کام کر رہا ہے، جو 7 اکتوبر 2023 کے دہشت گردانہ حملے کے پیچھےتھا۔

رپورٹ جاری ہونے سے دو دن قبل امریکہ نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس  کو’ان کے (البانیس کے) کے اقدامات کی مذمت کرنی چاہیے اور ان کی برطرفی کا مطالبہ کرنا چاہیے ۔’

قبل ازیں یکم جولائی کو اقوام متحدہ میں امریکی مستقل مشن کے ایک بیان میں کہا گیا،’امریکہ نے خبردار کیا ہے کہ ایسا کرنے میں مسلسل ناکامی نہ صرف اقوام متحدہ کی بدنامی کا باعث بنے گی بلکہ البانیس کی بدتمیزی کے جواب میں اہم کارروائی کی بھی ضرورت ہوگی۔’

اقوام متحدہ پر مرکوز نیوز آؤٹ لیٹ پاس بلیو کے مطابق، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے ترجمان نے اس بات کا اعادہ کیا کہ گوٹیریس کے پاس’نہ تو ان کی تقرری کا اختیار ہے اور نہ ہی برطرف کرنے کا۔ لہذا، جبکہ ان کے نام میں اقوام متحدہ کا لوگو اور اقوام متحدہ کا ٹائٹل ہے، وہ مکمل طور پر سکریٹری جنرل سے آزادانہ طور پر کام کرتی ہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ وہ کیا کرنے جا رہی ہیں،وہ  کہاں ہیں یا وہ کیا کہتی ہیں۔’

معلوم ہو کہ اس سال کے شروع میں ٹرمپ انتظامیہ کی دوسری مدت کے لیے واپس آنے کے بعد اسرائیل اور امریکہ دونوں نے جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے دستبرداری اختیار کر لی تھی۔ اس سے قبل ٹرمپ کے پہلے دور میں امریکہ کونسل سے نکل گیا تھا۔

Next Article

سروجنی نائیڈو کے امام حسین

ہماری بد نصیبی کہ ہم عظیم  روحوں سے نصیحت لینے کے بجائے ان کو ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی میں بانٹ لیتے ہیں۔

سروجنی نائیڈو اور علامتی تصویر، فوٹو بہ شکریہ: وکی میڈیا کامنس اور سوشل میڈیا

آج ہم جس ہندوستان میں جی رہے ہیں،وہاں ہندوؤں کے ذریعے مسلمانوں کاتہوارمنایا جانا اور مسلمانوں کے ذریعے ہندوؤں کے مہاتماؤں/بھگوانوں کی عزت کرنا بھی ایک خبرہے۔

ہمارے سیاستدانوں کی کارستانیوں کے چلتے ہم آہستہ آہستہ یہ مان بیٹھے ہیں کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف سماج میں جیتے ہیں جن کا ایک دوسرے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہماری بد نصیبی ہی ہے کی یہ سوچ جس نے ملک کو تین حصوں میں بانٹ دیا آج بھی ہمارے ذہنوں میں کائی کی طرح جمی ہوئی ہے اور غلاظت پھیلا رہی ہے۔

بنگال حکومت نے کچھ دن پہلے یہ کہا  تھا کہ محرم کے دن وسرجن کی رسم نہ نبھائی جائے۔ اس سے کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔اس ملک کی تہذیب کسی ایک مذہب سے نہیں بنی بلکہ یہ مختلف مذہب اور کلچر کے امتزاج کا نمونہ ہے۔

میں پہلے بھی لکھتا رہا ہوں کہ کیسے شری کرشن اور شری رام کو مسلمان بھی ہندوستانی تہذیب اور ثقافت کا لازمی حصہ مانتے آئے ہیں،اوران کا احترام کرتے ہیں۔آج میں ایک بنگالی برہمن کی مثال دینا چاہتاہوں کہ  ہندوستان کے ہندو بھی اسلام کی عزت کرنے میں پیچھے نہیں ہیں اورامام حسین کو ہندو بھی سچائی کی علامت مانتے ہیں۔

سروجنی نائڈو حیدر آباد میں بنگالی برہمن فیملی میں پیدا ہوئی تھیں۔ ہم میں سے زیادہ تر ان کو آزادی کی لڑائی کے باب میں ایک اہم خاتون  رہنما کے طور پر پہچانتے ہیں۔انگریزی ادب میں جن کی زیادہ دلچسپی نہیں ہےوہ شاید یہ  نہیں جانتے ہوں کہ سروجنی ایک بہت اچھی شاعرہ بھی تھیں۔

 محرم  کے موقع پر ان کی ایک نظم ‘امام باڑا ‘ کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ امام باڑہ  ان کی  کتاب ‘ دی بروکن ونگس ‘(1917) میں شامل تھی۔ اس نظم سے امام حسین کے لیے ان کی محبت اور عقیدت کا ثبوت ملتا ہے۔سروجنی لکھتی ہیں ؛


Out of the sombre shadows
Over the sunlit grass
Slow in a sad procession
The shadowy pageants pass


 

یہ محرم  کے دن لکھنؤ کے امام باڑے میں ہونے والے ماتم کی جگر سوز مثال ہے۔ بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ وہ کالے کپڑے میں ملبوس ماتم کرنے والوں کا موازنہ  کالے سایوں سے کرتی ہیں،اور بتاتی ہیں کہ کیسے یہ کالا رنگ رنج و غم کی علامت ہے۔ان کے مطابق ؛


Mournful, majestic, and solemn

Stricken and pale and dumb

Crowned in their peerless anguish

The sacred martyrs come


 

یہ کالے کپڑے میں ماتم کرنے والے سائے 1400سال پہلے شہید ہوئے امام حسین اور ان کے 71جاں نثاروں کو زندہ کر دیتے ہیں۔ جہاں ایک طرف یہ غمگین ہیں وہی دوسری طرف یہ ماتم کرنے والے سنجیدہ بھی نظر آتے ہیں۔ بھلےہی یہ لوگ آج زخمی ہیں، ان کے جسم سوکھے پتوں کی طرح پھیکے ہیں اور زبان چپ ہے پر یہ بےجوڑ نظر آتے ہیں اپنے اس دکھ میں بھی۔ کیونکہ یہ جو لوگ چلے آ رہے ہیں یہ کوئی اور نہیں یہ تو وہی لائق پرستش اور مقدس شہید ہیں۔

سوچیےآج کے یہ رہنما کیا اپنے مذہب سے اوپر اٹھ‌کر سچائی کے لئے جان دینے والے امام حسین کو لائق عبادت شہید بول پائیں‌گے۔ کاش یہ بول پاتے۔


Hark, from the brooding silence
Breaks the wild cry of pain
Wrung from the heart of the ages
Ali! Hassan! Hussain!


 

وہ آگے لکھتی ہیں، کی یہ جو شام کا سناٹا ہے اس میں غور سے سنو۔ درد بھری وہ چیخ سنائی دے‌گی جو صدیوں سے وقت کے سینے کو دہلا رہی ہے۔ یہ چیخ جو علی، حسن اور حسین کا نام لے رہی ہے۔

 


Come from this tomb of shadows
Come from this tragic shrine
That throbs with the deathless sorrow
Of a long-dead martyr line


اس اندھیرے مقبرے سے، اس منحوس عمارت سے یہ جو کالے سائے آتے دکھتے ہیں یہ ان شہیدوں کی قطاریں ہیں جو بہت پہلے ہمیں چھوڑ‌کر جا چکے ہیں لیکن ان کا دکھ اورغم آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ رہے‌گا۔

آگے اس نظم کے اختتامیہ میں سروجنی یہ واضح  کرتی ہیں کہ کیوں وہ یہ مانتی ہیں کی امام حسین کی شہادت کا غم لافانی ہے اور وقت کی بندشوں سے آزاد ہے۔وہ لکھتی ہیں ؛


Kindle your splendid eyes
Ablaze with the steadfast triumph
Of the spirit that never dies
So may the hope of new ages
Comfort the mystic pain
That cries from the ancient silence
Ali! Hassan! Hussain!


اپنی آنکھوں کو روشن کر لو اس شعلہ سے جو کہ سچائی کی علامت ہے، یہ وہ سچائی ہے جو مستحکم ہے۔ یہ سچ لافانی ہے کبھی نہیں مرتا۔ اور آنے والے وقت کی امید بھی اس روحانی رنج میں چھپی ہے جو کہ تاریخ کے کسی کونے سے چیخ چیخ کر گریہ کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے : ‘ علی! حسن! حسین! ‘۔

سروجنی کی یہ نظم ان کے یقین اور عقیدت کی مظہر ہے کہ امام حسین مسلمان تھے یا نہیں اس سے پہلے یہ حقیقت اہم ہے کہ وہ سچائی کے لئے اپنے 71جاں نثاروں کے ساتھ اپنے سے کہیں زیادہ ‘طاقتور’بادشاہ ‘یزید ‘ کی فوج کے سامنے ڈٹ گئے تھے۔ ان کی ہمت،ان کا جذبہ کہ سچ کے لئے جان کی پرواہ نہیں کی جاتی صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں پوری انسانیت کے لئے سبق ہے۔

ہائے ہماری بد نصیبی کہ ہم عظیم  روحوں سے نصیحت لینے کے بجائے ان کو ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی میں بانٹ لیتے ہیں۔

یہ مضمون 1 اکتوبر 2017 کو شائع کیا گیا تھا، نظم بہ شکریہ: پوئٹری نوک ڈاٹ کام