حال ہی میں نئی دہلی کے ایک معروف تحقیقی ادارہ بریف نے انکشاف کیا ہے کہ ان اقدامات سے سب سے زیادہ نقصان خود ہندوستان کو ہی ہوا ہے۔ صرف پنجاب کے شہر امرتسر میں ہی کم و بیش 50ہزا رافراداس سے متاثر ہوئے ہیں۔
داخلی محاذ پر جارحانہ تیور دکھاتے ہوئے وزیرا عظم نریندری مودی اپنی دوسری مدت کار میں سفارتی سطح پرہندوستان کو اس خطے میں ایک سپر پاور کے بطور منوانے کی حکمت عملی پر گامزن ہیں۔ اس کے حصول کے لیے چانکیہ کی تجویزکی ہوئی صدیوں پرانی پالیسی سام (گفتگو) دھام (لالچ)، ڈنڈ (سزا) اور بھید (بلیک میل) پر عمل پیرا ہے۔ اگر ایک حساس پڑوسی کی حیثیت سے اور استعماری قوتوں کے خلاف محاذ کے لیڈر کی حثیت سے ہندوستان خطے میں اپنے آپ کو پیش کرتا، تو شاید پس و پیش کی نوبت ہی نہیں آتی۔
مگر اپنے آپ کو ایک بارعب پاور کے طور پر منوانے کی سعی نے اس تھیوری کو مزید مضبوطی بخشی ہے کہ ہندوستان ایک حساس پڑوسی کے بجائے ایک غیر متوازن قوت کے طور پر ابھرنے کا خواہشمند ہے۔مودی کے حواریوں کا خیال ہے کہ اس ہدف کو حاصل کرنے کی راہ میں پاکستان ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لیے دیگر پڑوسی ممالک کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے، پاکستان کے ارد گرد ایک حصار قائم کیا جائے۔ ماضی میں کانگریسی حکومتوں نے بھی1971 کے بعد خطے میں ہندوستان کو ایک بارعب پاورکے طور پر منوانے کی کوشش کی، مگر یہ بیل کبھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔
اس لیے کسی بھی جنوبی ایشیائی ملک کے ساتھ ہندوستان کے رشتے سدھر نہیں سکے۔ 60 سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود بنگلہ دیش کے سوا کسی پڑوسی، حتیٰ کہ بھوٹان کے ساتھ بھی سرحدوں کا حتمی تعین نہیں ہوسکا ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کےلیے ہندوستان نے اقدامات کئے ہیں ان میں پنجاب میں واگہہ کے راستے پاکستانی تجارتی اشیاء پر 200فیصد ڈیوٹی عائد کرنا اور لائن آف کنٹرول کے آر پار جموں و کشمیرمیں تجارت کو مکمل طور پر بند کرنا شامل ہے۔ یہ اقدامات ہندوستان نے پچھلے سال فروری میں جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع میں سکیورٹی کانوائے پر خودکش حملوں کے فوراً بعد اٹھائے۔ مودی حکومت میں ارباب حل و عقد کا خیال تھا کہ ان اقدامات سے پاکستان کو اقتصادی طور پر کمزور کرکے سبق سکھایا جائے۔
مگر حال ہی میں نئی دہلی کے ایک معروف تحقیقی ادارہ بیورو آف ریسرچ آن انڈسٹری اینڈاکانومک فنڈامنٹلز یعنی بریف نے انکشاف کیا ہے کہ ان اقدام سے تو سب سے زیادہ نقصان خود ہندوستان کو ہی ہوا ہے۔ صرف پنجاب کے شہر امرتسر میں ہی کم و بیش 50ہزا ر افراد نان شبینہ کے محتاج ہو گئے ہیں۔ اس ادارہ کا کہنا ہے کہ یہ وہ افراد ہیں، جو بطور کمیشن ایجنٹ، مزدور یا ٹرک ڈرائیور یا مال برداری کی صورت میں بھارت-پاکستان ٹریڈ کے ساتھ منسلک تھے۔
تاجروں اور دیگر افراد کو جو نقصانات اٹھانے پڑے، و ہ اس کے علاوہ ہیں۔ 1947سے 1971تک ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کے سب سے بڑے ٹریڈ پارٹنر تھے۔ اس دوران پاکستان اپنی برآمدات کی 60فیصد ضروریات ہندوستان سے پوری کرتا تھا اور اس کی 30فیصد درآمدات کی مارکیٹ ہندوستان میں تھی۔ مودی حکومت کے اقدامات سے قبل 2017 میں ہی یہ شرح بمشکل ایک فیصد سے بھی کم ہو کر رہ گئی تھی۔ فروری میں 200فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کے بعد پاکستانی اشیاء کی ترسیل کا حجم جو 45ملین ڈالر ماہانہ تھا، گھٹ کر دو ملین ڈالر ماہانہ رہ گیا ہے۔
رپورٹ کے مصنفین آفاق حسین اور نکیتا سنگھلا نے بارڈر علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد بتا یا ہے کہ امرتسر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں بسنے والے 9354خاندان جو آسودہ حال زندگی بسر کر رہے تھے اب بے حال ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق علاقے میں کئی بچوں کے نام اسکولوں سے خارج کر دئے گئے ہیں، کیونکہ ان کے والدین پچھلے کئی ماہ سے فیس بھرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ ان کی بھر پور زندگی کو ایک طرح سے بریک لگ گیا ہے۔ ایک پورٹر نے ریسرچ ٹیم کو بتایا کہ وہ فروری سے قبل روزانہ 400روپے کماتا تھا، جس سے اس کی فیملی ایک اچھی زندگی بسر کر رہی تھی۔ اس کے چار بچے اچھے اسکولوں میں زیر تعلیم تھے۔
ان میں سے دو کو پرائیوٹ اسکولوں نے فیس ادا نہ کرنے پر خارج کردیا اور وہ اب سرکاری اسکول میں بھرتی ہو گئے ہیں۔ دیگر دو بچے ذہنی دباؤ کا شکار ہوکر نشہ کی لت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ بزرگ پورٹر نے بریف کی ٹیم کو بتایا کہ وہ بے بسی کی حالت میں اپنی فیملی اور بچوں کی کیفیت دیکھ کر کڑھنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتا ہے۔ اسی طرح امرتسر کے ایک اور رہائشی نے2016 میں بینک سے قرض لےکر تین ٹرک خریدے تھے۔ ان دنوں واگہہ پر جدید انٹگریٹڈ چیک پوسٹ زیر تعمیر تھا اور ان کو بتایا گیا تھا کہ اگلے چند سالوں میں اس پوائنٹ پر تجارت کا حجم کئی گنا بڑھ جائےگا۔
جب بینک میں قسطیں بھرنا مشکل ہو گئی تو اس نے دو ٹرک اونے پونے داموں بیچ دیے۔ ٹرک یونین کے صدر کلوند ر سنگھ کا کہنا ہے کہ اب حالت یہ ہے کہ بینک بھی ٹرک واپس لینے سے منع کرتے ہیں۔ کئی افراد نے تو ٹرکوں کو ردی کے بھاؤمیں بیچ کر قرضے اتار ے ہیں۔ ہندوستان میں پاکستان کی چار اشیاء خشک کھجور، سینڈا یا معدنیاتی نمک، سیمنٹ اور جپسم کی خاصی مانگ رہی ہے۔ پاکستانی خشک کھجور ہندوستان کی 99فیصد ضروریات پوری کرتا ہے۔ موجودہ 200فیصد ڈیوٹی کی صورت میں ایک 24ٹن لدے ٹرک کی قیمت 1600گنا زیادہ ہو گئی ہے۔ جس سے دہلی اور اس کے اطراف کی منڈیوں میں خشک کھجور کی قیمت 300گنا زیادہ بڑھ گئی ہے۔
اس ریسرچ ٹیم کے بقول لدھیانہ کی کئی کتائی ملیں بندھ ہو گئی ہیں۔ ان کے مال کی کھپت ہی 300کلومیٹر دور بارڈر کے دوسری طرف فیصل آباد میں تھی۔ پچھلے سال فروری میں بالاکوٹ پر فضائی حملوں کے بعد جب پاکستان نے ہندوستان کے لیے فضائی راہداری بند کردی تو اس کے نتیجے میں ہندوستانی فضائیہ کمپنیوں کو 80ملین ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ ہندوستان کی نیشنل ایئر لائنز ایئر انڈیا سب سے زیادہ متاثر ہوئی اور اس کو 74ملین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ایئرانڈیا کی روزانہ کی 21فلائٹس متاثر ہو گئیں۔ مجموعی طور پر روزانہ 400پروازوں کو پاکستانی فضائی حدود سے بچتے ہوئے ایران کی بھیڑ بری فضائی حدود میں پرواز کرتے ہوئے 450کلومیٹر اضافی اڑان بھرنی پڑی۔
جس سے مسافروں کو کرایہ میں 20سے30ہزار روپے مزید بھرنے پڑے۔ہندوستان کے سابق سفار ت کار ارون سنگھ کے مطابق پاکستان کو سبق سکھانے کی نیت سے کئے گئے اقدامات کا جو اثر بارڈر پر رہنے والی آبادی اور تجارت پر پڑا ہے، اس کا ادراک کیا جا ناچاہیے تھا۔ اسی طرح کشمیر میں کور کمانڈر رہ چکے لیفٹنٹ جنرل ستیش دواکے مطابق ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تناؤ کا خمیازہ بہر حال بارڈر کے مکینوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
رپورٹ کے ایک خالق آفاق حسین کا کہنا ہے کہ سب سے بدقسمت فیصلہ لائن آف کنٹرول کو بند کرکے جموں و کشمیر کے دونوں اطراف کے مابین ٹریڈ کو بند کرنا تھا۔ ایک جائزے کے مطابق 11سال کے وقفہ کے دوران رخنوں کے باوجود کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان 75بلین ڈالر کی تجارت ہوئی تھی، جس سے 170000روزگار دن مہیا ہو گئے تھے۔ مال برداری کے روپ میں بھی 9.2ملین ڈالر کی کمائی اس تجارت کے ذریعے ہوگئی تھی۔
ہندوستانی حکومت کی دلیل تھی کہ اس تجارت کی آڑ میں ملک دشمن عناصر اپنے مفادات کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ہندوستانی وزارت داخلہ کے بیان کے مطابق اس تجارت کو عسکریت کو فنڈز کا فراہمی،نشیلی ادویات کی تجارت، ہتھیاروں کی سپلائی اور جعلی کرنسی کے کاروبار کےلیےاستعمال کیا جا رہا تھا۔ وزارت داخلہ کے ایک نوٹ کے مطابق پاکستان میں مقیم دس سابق عسکریت پسند اس تجارت کے ساتھ منسلک تھے۔ حکومت کے لیے تو یہی طمانیت کا باعث ہونا چاہیے تھا کہ عسکریت سے تائب ہوکر پر امن زندگی گزارنے کےلیے انہوں نے تجارت کا پیشہ اختیار کیاتھا۔
سخت تلاشی کے بعد ہی ٹرکوں کو لائن آف کنٹرول پار کرکے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس صورت حال میں فوج اور کسٹم کے حکام آخر غیر قانونی اشیاء کی ترسیل روکنے میں کیوں ناکام تھے اوراس ناکامی کے لیے کسی آفسر پر تادیبی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ پچھلے کئی سالوں سے یہ تجارت حکومتوں کی سرد مہری کا شکار تھی۔ یہ شاید دنیا بھر میں واحد تجارت تھی جہاں کرنسی کے بدلے اور بینکوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے زمانہ قدیم کا بارٹر سسٹم یعنی چیز کے بدلے چیز لاگو تھی۔ 2008میں امرناتھ یاترا ایجی ٹیشن اور جموں میں ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے اقتصادی ناکہ بندی کے رد عمل میں کشمیری عوام اور تاجروں نے پارمپورہ اور سوپور کی منڈی سے ٹرکوں میں سوار ہو کر اوڑی کی طرف مارچ کیا تھا۔
یہ راہداری حریت کے سینئر قائد شیخ عبدالعزیز اور 64 دیگر افراد کے لہو اور قربانیوں کی دین ہے۔ اشد ضرورت ہے کہ چکوٹھی کی طرف شیخ صاحب کی یاد میں کوئی پوانٹ موسوم کیا جائے یا کوئی کتبہ لگایا جائے،‘جس میں شیخ صاحب اور اس لائن کو کھولنے کے مطالبے کو لے کر شہید ہونے والے افراد کے نام کندہ کروائے جاہیں، تاکہ اگلی نسل تاریخ سے نابلد نہ رہے۔اس تجارت کو دوبارہ کھولنے کی ضرورت ہے۔
امید کی جانی چاہیے کہ اعتمادسازی کے طور پر شروع کی گئی تجارت کی یہ معطلی عارضی ثابت ہوگی اور ہندوستانی حکومت اس پر نہ صرف نظرثانی کرے گی بلکہ اس کی بحالی کےلیے بھی فوری اقدامات کئے جائیں گے۔بقول آفاق حسین اگر کشمیر میں امید کی کرن کو روشن رکھنا ہے تو لائن آف کنٹرول پرموجود اس روشن دان کو کھولنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے سفارتی سطح پر ہندوستان پر بین الاقوامی دباؤ بنانا چاہیے۔