ورق در ورق: سرراس مسعود کی تفہیم کے نئے افق

حکیم ظل الرحمن کی کتاب راس مسعود فہمی کا ایک نیا علمی محاورہ قائم کر تی ہے جس لیے وہ پذیرائی کے مستحق ہیں۔

 حکیم ظل الرحمن  کی کتاب راس مسعود فہمی کا ایک نیا علمی محاورہ قائم کر تی ہے جس لیے وہ پذیرائی کے مستحق ہیں۔

Book Front Page

مشہور فرانسیسی مستشرق گارساں دتاسی کے ہندوستانی ادبیات سے متعلق مقالات و خطبات کے مسودے کی دستیابی کس کی تحقیقی کاوشوں کا ثمرہ ہے اور کس نے دتاسی کے 19 خطبات بعنوان -ہندوستانی ادب (1877-1850) میں سے پہلے خطبوں کو سلیس اور بامحاورہ اردو کا قالب عطا کیا؟ کس سرکردہ علمی شخصیت سے گہرے ذاتی مراسم کی بنا پر اقبال تین بار بھوپال تشریف لائے اوریہاں قیام کے دوران انہوں نے اپنی پانچ شہرہ آفاق نظموں صبح، مومن، ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام، جمعیۃ اقوام مشرق اور مسولینی کہیں؟ مشہور انگریزی ناول نگار ای ایم فورسٹر نے اپنے کس ہندوستانی دوست اور ادیب کے نام اپنا مشہور ناول A Passage to India معنون کیا ہے؟

 جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کی تاسیس کس مردِ حق آگاہ کی کوششوں کی رہین منت ہے؟ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو زبان و ادب میں ایم اے کی تعلیم کا سلسلہ کس وائس چانسلر کے عہد میں شروع ہوا؟ کس وائس چانسلر نے آئنسٹائن (1879-1955) سے درخواست کی کہ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ طبیعیات میں کسی لائق انگریز کو بطور استاد مقرر کرنے میں معاونت کریں اور پھر آئنسٹائن کی سفارش پر پروفیسر سیموئل کا تقرر کیا؟ کس شیخ الجامعہ نے اپنے دور میں کیمیا، حیوانیات، نباتات، اسلامیات اور عربی سمیت دیگر شعبوں میں برطانیہ، جرمنی اور فرانس وغیرہ کے استاد مقرر کیے؟ کس نے جاپان کے تعلیمی نظام اور وہاں کی روحانی زندگی اور عقائد کو دقت نظری کے ساتھ واضح کرتے ہوئے یہ لکھا کہ شن تو مت جاپان کا سب سے پرانا مذہب ہے جس میں نہ تو عقائد کی شیرازہ بندی ہے اور نہ ہی کوئی مقدس کتاب ہے پھر بھی اس میں مذہب کا اجتماعی تصور موجود ہے؟

ان تمام سوالات کا جواب ایک فقید المثال شخصیت سرراس مسعود فراہم کرتی ہے اور یہ عام اطلاعات پورے شرح و بسط کے ساتھ مشہور ادیب اور محقق حکیم سید ظل الرحمٰن فراہم کرتے ہیں جن کی مبسوط تصنیف-راس مسعود حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔

سید حکیم ظل الرحمٰن نے سرسید کے پوتے سرراس مسعود کو اپنی علمی اور تحقیقی کوششوں کا مرکز مطالعہ بنایا ہے۔ حکیم صاحب نے روایتی انداز میں سوانح عمری کو عینی بیانیہ کی صورت میں پیش نہیں کیا بلکہ سرراس مسعود کی مکمل تفہیم کے لیے ان کی شخصیت اور کارناموں کو پوری معروضیت کے ساتھ محاسبے کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور سرراس مسعود سے متعلق جملہ تفصیلات دستاویزی شواہد کے ساتھ پیش کی ہیں جو مصنف کے علمی نقطہ نظر اور تحقیقی ژرف نگاہی پر دال ہے۔

سرراس مسعود کے نام سے سرسری آشنائی تو عام ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور حیدرآباد اور بھوپال میں ان کے اعلیٰ عہدوں پر تقرری کا ہلکا سا نقش تو ذہنوں میں موجود ہے مگر سرراس مسعود کے قابل رشک علمی کارناموں، ادبی اکتباسات، تعلیمی خدمات اور انتظامی امور پر ان کی ماہرانہ دسترس کو علمی شواہد کے ساتھ خاطر نشان کرنے کی کوئی سعی نہیں کی گئی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اندرونی سیاست، ریشہ دوانیوں اور قربِ شاہ تک اپنی تگ و دو کو محدود کرنے والے حضرات کی کثرت نے سرراس مسعود کی شخصیت کے ساتھ عموماً اعراض برتا ہے۔ یہ مقام مسرت ہے کہ حکیم سید ظل الرحمان نے سرراس مسعود کی مکمل سوانح عمری مرتب کی اور سرراس مسعود سے متعلق جلیل قدوائی کی منتشر تحریروں کی شیرازہ بندی کرکے انہیں ایک نیا علمی و تحقیقی تناطر عطا کیاہے۔

سرراس مسعود کے والد اور ملک کے ممتاز قانون داں سید محمود نے قانون شہادت پر اولین کتاب لکھی تھی اور الہٰ آباد ہائی کورٹ میں اپنی قانونی مہارت کی دھاک جما دی تھی مگر ان سے متعلق کوئی تفصیلی کتاب اردو یا انگریزی میں موجود نہیں ہے۔ امین زبیری نے مختصر کتاب تذکرہ محمود ضرور تحریر کی جو اب دستیاب نہیں ہے۔ سرراس مسعود کو اپنی علمی تحقیق کا ہدف بنانے کے اسباب کی وضاحت کرتے ہوئے فاضل مصنف نے لکھا ہے؛

مجھے عرصے سے یہ احساس تھا کہ علی گڑھ تحریک کی ساری ممتاز شخصیتوں اور ان سے وابستہ مشاہیر کی سیرت اور کارناموں پر ضخیم کتابیں لکھی گئی ہیں، ان سے علی گڑھ کی علمی، ادبی، تہذیبی اور تعلیمی خدمات کا تعارف سامنے آتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے زمانے میں نامساعد حالات میں قوم کی خدمات کا بیڑہ اٹھایا، کس طرح انہیں قعرِ مذلت سے نکالنے کی کوشش کی اور ان میں تعلیم کا شعور بیدار کرنے کے لیے کیا کچھ جتن کیے۔ ان کی بے لوث اور جرأت مندانہ کوششیں بارآور ہوئیں اور مسلمانوں میں ذہنی و فکری اصلاح کے ساتھ تعلیمی، لسانی اور سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ لیکن سرسید کے اکلوتے پوتے، علی گڑھ  کے نامور سپوت، علی گڑھ تحریک کے نمائندہ فرد، عظیم المرتبت دانش ور اور قومی رہنما راس مسعود کی سوانح پر کوئی جامع مستقل تصنیف معرضِ وجود میں نہیں آئی۔

راس مسعود کی شخصیت پر فراموش کاری کی دھند کیوں مستولی ہے، اس کی عبرت انگیز تفصیل ظل الرحمان صاحب نے بیان کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ؛

سرراس مسعود کی وائس چانسلری کے بعد سرضیاء الدین کی زیر قیادت جو طبقہ برسراقتدار آیا اور جو یہاں کی سیاست اور در وبست پر پوری طرح حاوی رہا اسے سر راس مسعود کا نام لینا گوارہ نہیں تھا۔ بالکل اسی طرح 1947 کے بعد ڈاکٹرذاکر حسین خاں کی شدید ناپسندیدگی کی وجہ سے سرضیاء الدین کی خدمات کا علی گڑھ اعتراف نہیں کر سکا، مصلحتیں مانع رہیں۔

300 صفحات پر مشتمل یہ کتاب سرراس مسعود سے متعلق تفہیم کے بالکل نئے افق ہویدا کرتی ہے۔ کتاب کی ابتدا میں سرراس مسعود کے خاندانی پس منظر، ان کی ولادت، تعلیم، سرسید سے ان کے تعلق خاطر اور والد سید محمود اور والدہ مشرف جہاں بیگم کی زیر نگرانی ان کی پرورش اور تربیت سے متعلق متعدد واقعات بڑے دلچسپ پیرایہ میں بیان کیے گئے ہیں۔ سرسید نے ‘راس’ کو اپنے پوتے کے نام کا ابتدائی جزو بنایا تھا اور بسم اللہ خوانی کی تقریب میں مسعود کو اپنے دوست جے کشن داس کی گود میں بٹھایا تھا اور ان کے ساتھ پروفیسر آرنلڈ بھی موجود تھے اور تقریب بہت دھوم دھام سے نہیں ہوئی کہ سرسید نے اس موقع پر500 روپے کی رقم کالج فنڈ میں دی۔ سید محمود اور جارج ای اے راس نے لنکن ان سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا تھا اور دونوں نے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں ساتھ ساتھ وکالت شروع کی تھی۔ اس ضمن میں حکیم ظل الرحمٰن نے سرسید کی تقریر کا ایک اقتباس درج کیا ہے جس کے مطابق-جب سید محمود پیدا ہوئے تو جارج ای اے راس اور ان کی میم صاحبہ نے موافق انگریزی رسم کے جو نہایت محبت پر دلالت کرتی ہے، اپنا نام اسی مولود مسعودکو دیااور ہم نے نہایت خوشی سے اس نام کے ساتھ شامل کیا۔ اور اسی سبب سے ان کا نام سید راس مسعود قرار پایا۔1906 میں راس مسعود اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن گئے اور مشہور انگریزی ناول نگار ایڈورڈ مورگن فورسٹر ان کے لاطینی زبان کے اتالیق مقرر ہوئے۔ راس مسعود نے نیوکالج، آکسفورڈ سے بی اے مکمل کرنے کے بعد قانونی تعلیم کے مشہور ادارہ ”لنکن ان“ سے بیرسٹری کی تعلیم حاصل کی۔

راس مسعود 1912 میں وطن واپس آئے تو مولانا محمد علی نے ان کے خیر مقدم کے لیے کامریڈ میں ایک اداریہ سپرد قلم کیا۔ راس مسعود نے وکالت کے لیے پٹنہ کا انتخاب کیا اور کچھ عرصہ تک یہاں نہایت کامیابی کے ساتھ پریکٹس کی مگر راس مسعود کو جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ وکالت میں اخلاقی اقدار کی پاسداری کا امکان بہت کم ہے۔ لہٰذا انہوں نے وکالت ترک کر دی اور اس ضمن میں صراحت کی؛

پٹنہ میں جب وکالت شروع کی تو چند مہینوں میں ہی کام خوب چل نکلا مگر ایک مقدمہ میں کامیابی کے بعد پتہ چلا کہ موکل نے مجھے دھوکہ دیا اور جھوٹ بولا۔ میں نے سوچا کہ اس پیشہ میں نہ معلوم کتنے جھوٹوں کو سچا اور کتنے سچوں کو جھوٹا ثابت کرنا ہوگا۔ اس کے بعد میں نے وکالت ترک کر دی۔

وکالت کو خیر باد کہہ کر راس مسعود نے انڈین ایجوکیشن سروس میں شمولیت حاصل کی اور حکیم صاحب کے مطابق وہ پہلے ہندوستانی تھے جو اپنی قابلیت کے باعث انڈین ایجوکیشن سروس (IES)میں شامل ہوئے۔ راس مسعود نے پٹنہ اور کٹک میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اس کے بعد حیدر آباد میں ناظم تعلیمات کے عہدہ پر ان کا تقرر ہوا اور یہاں وہ 12برس تک برسر کار رہے۔ جامعہ عثمانیہ کے افتتاح کے بعد جب کالج بنا تو وہ اس کے پہلے عارضی پرنسپل مقرر ہوئے۔ جامعہ عثمانیہ کے قیام میں سرراس مسعود کا بہت اہم رول رہا اور انہوں نے نظام حیدرآباد کی ایما پر اکبر حیدری اور مولوی عبد الحق کے اشتراک سے یونیورسٹی کی تفصیلی تجویز حکومت کے سامنے پیش کی، تاہم اردو ذریعہ تعلیم کی یونیورسٹی قائم کرنے میں انگریز ریزیڈنٹ کو خاصا تردد تھا اور منصوبہ کو منظوری نہیں مل رہی تھی مگر یہاں راس مسعود نے اپنی علمی فراست اور حاضر جوابی سے کام لیتے ہوئے یہ دشوار گذار مسئلہ بڑی آسانی سے حل کر دیا۔ اس سلسلہ میں سید ظل الرحمٰن نے لکھا ہے؛

اس منصوبے کے لیے مولوی عبد الحق عرصہ سے کوشاں تھے۔ ایک دن انہوں نے راس مسعود سے کہا کہ آپ کو اس کا ثبوت فراہم کرنا چاہئے کہ آپ سرسید کے پوتے ہیں۔ راس مسعود نے کہا وہ کیسے۔ عبد الحق نے کہا کہ مجھے اردو یونیورسٹی کے کاغذات پر ریاست کے ریزیڈنٹ کے دستخط چاہئیں۔ راس مسعود ایک روز انگریز ریزیڈنٹ کی کوٹھی پر پہنچے اور ان کے سامنے ان کے بچوں سے فرانسیسی میں گفتگو شروع کر دی۔ ریزیڈنٹ نے ٹوکا، ’مسٹر مسعود، اگر آپ کو فرانسیسی میں بولنا ہے تو مجھ سے بولئے، یہ بچے فرانسیسی نہیں جانتے۔ یہ تو ابھی اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔‘ راس مسعود کو موقع مل گیا۔ انہوں نے فوراً کہا، جس طرح آپ کے بچے اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اسی طرح ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے بھی اپنی زبان میں تعلیم حاصل کریں۔ ہاں بڑے ہو کر وہ فرانسیسی، انگریزی، جرمن، جو زبان چاہیں اپنی مرضی سے سیکھ سکتے ہیں۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ہمارے بچوں کو دوہری محنت کرنی پڑتی ہے، پہلے انگریزی سیکھو، پھر انگریزی میں تعلیم لو۔ اس طرح بچے نہ زبان سیکھ پاتے ہیں، نہ علم۔ ریزیڈنٹ نے اس سے اتفاق کیا۔ راس مسعود نے یونیورسٹی کے کاغذات اس کے سامنے کر دیے اور اس طرح جامعہ عثمانیہ کا قیام عمل میں آیا۔

حکیم صاحب کی کتاب میں اس نوع کے متعدد واقعات بڑے دلنشیں انداز میں بیان کیے گئے ہیں جن سے راس مسعود کی علمی فراست کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

علی گڑھ یونیورسٹی اپنے قیام کے ابتدائی برسوں کے بعد انتشار، علمی زوال اور بدعنوانی کا شکار ہو گئی اور یونیورسٹی کی چانسلر سلطان جہاں بیگم نے ان الزامات کی جانچ اور یونیورسٹی کے علمی وقارکو بحال کرنے کے لیے رحمت اللہ کمیشن مقرر کیا جس نے تفصیلی رپورٹ پیش کی اور اس کی سفارش پر پروچانسلر سرضیاء الدین کو ان کے عہدے سے ہٹایا گیااور پھر بیگم صاحبہ کے ذاتی اصرار پر راس مسعود وائس چانسلر کا عہدہ قبول کرنے پر تیار ہو گئے اور انہوں نے علی گڑھ کو علمی اور سائنسی لحاظ سے ثروت مند بنانے کی ہر ممکن سعی کی اور غیر ملکی لائق استادوں کا تقرر کیا۔ نئی عمارتیں اور تجربہ گاہیں قائم کیں۔ اس وقت تک شعبہ اردو میں کوئی پروفیسر یا ریڈر نہیں تھا۔ رشید احمد صدیقی اس شعبہ میں لکچرر تھے۔ راس مسعود نے شعبہ اردو کی توسیع کا ایک جامع منصوبہ بنایا تھا۔

حکیم ظل الرحمٰن نے راس مسعود کے علی گڑھ سے استعفےٰ، بھوپال میں ملازمت اور علامہ اقبال اور دیگر اکابرینِ علم و ادب سے ان کے گہرے مراسم کو بڑی خوبی کے ساتھ خاطر نشان کیا ہے۔ حکیم صاحب کے مطابق گارساں دتاسی کے خطبات کا سراغ راس مسعود نے لندن سے لگایااورانہیں اردو میں منتقل کیا۔ اس طرح حیدرآباد اور بھوپال میں دائرۃ المعارف کے قیام اور کتابوں کے اردو تراجم کے سلسلے میں ان کی قابل قدر کوششوں کوحکیم صاحب نے علمی دیانت داری اور تحقیقی دقت نظری کے ساتھ واضح کیا ہے۔

سرراس مسعود انجمن ترقی اردو ہند سے بھی وابستہ رہے اور اس سلسلے میں ان کی خدمات کا تفصیلی احاطہ کیا گیا ہے۔ سر راس مسعود کی علمی تصانیف بہ استثنائے خطوط سرسید سے واقفیت عام نہیں ہے۔ حکیم صاحب نے ان کی تصانیف اور مرتبہ کتابوں کو موضوع مطالعہ بنایا ہے۔ حکیم ظل الرحمن صاحب کی کتاب راس مسعود فہمی کا ایک نیا علمی محاورہ قائم کر تی ہے جس لیے وہ پذیرائی کے مستحق ہیں۔

(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)