
بی جے پی نے کانگریس پرنیشنل ہیرالڈ اخبار کو دی گئی پبلک پراپرٹی کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔ اس پر کانگریس نے سوال کیا کہ کیا آر ایس ایس کے ترجمان پانچ جنیہ اور آرگنائزرمفت میں کام کرتے ہیں۔
نئی دہلی: کانگریس نے بدھ (16 اپریل) کو بی جے پی سے سوال کیا کہ کیا آر ایس ایس کے ترجمان پانچ جنیہ اور آرگنائزر جیسے اس کے معاون ادارے مفت میں کام کرتے ہیں، کیونکہ بی جے پی نے کانگریس پر نیشنل ہیرالڈ اخبار کو دی گئی پبلک پراپرٹی کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔
بی جے پی کا یہ الزام انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی جانب سے منگل کو نیشنل ہیرالڈ کیس میں کانگریس کے ارکان پارلیامنٹ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی اور دیگر کے خلاف منی لانڈرنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے چارج شیٹ داخل کرنے کے بعد آیا ہے۔
دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں دی وائر کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ پارٹی کئی دہائیوں سے ایسوسی ایٹڈ جرنلز لمیٹڈ (اے جے ایل) کی حمایت کرتی رہی ہے، جونیشنل ہیرالڈکی اشاعت کرتی ہے۔
دریں اثنا، کانگریس کے رکن پارلیامنٹ اور پارٹی کے میڈیا اور مواصلات انچارج جئے رام رمیش نے کہا کہ کانگریس اور اے جے ایل کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
دی وائر کے ایک سوال کے جواب میں سنگھوی نے کہا،’کیا آپ جانتے ہیں کہ کانگریس کتنی دہائیوں سے اقتصادی طور پر محروم اے جی ایل کے تعاون کے لیے پیسے دے رہی ہے؟ جب اے جی ایل نے کام کرنا شروع کیا تھا، تو بی جے پی سیاسی منظر نامے میں بھی نہیں تھی۔ 1950، 1960، 1970 میں کسی نے 5 لاکھ روپے دیے، کسی نے 10 یا 20 لاکھ روپے دیے کیونکہ ہم اے جی ایل کو گرنے نہیں دے سکتے تھے۔’
انہوں نے مزید کہا، ‘کیا بی جے پی نے کبھی کسی طرح سے اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ تقریباً 50 سالوں میں جمع (قرض) 90 کروڑ روپے تھا؟اے جی ایل کس سے قرض لینے کی وجہ سےپریشان تھی؟ ایک تجارتی کمپنی سے؟ نہیں، اپنی ہی کانگریس پارٹی سے۔’
انہوں نے کہا،’تو پھر مجرمانہ ارادہ کہاں ہے؟ اور کیا یہ کانگریس پارٹی کے لیے جرم ہے، جس نے اس (اے جی ایل) کو تحریک آزادی کے بعد سے ایک خاص آئیڈیل ازم کے ساتھ شروع کیا تھا، اقتصادی طور پر جدوجہد کرنے والی اے جی ایل کی حمایت کرنا، جسے وہ کامیاب بنانا چاہتی ہے، جس کا قرض ینگ انڈین کو منتقل کر کے وہ دوبارہ زندہ کرنا چاہتی ہے؟’
انہوں نے پوچھا، ‘کیا بی جے پی اپنی تمام ملحقہ تنظیموں جیسے پانچ جنیہ اور آرگنائزر وغیرہ کے لیے ہر روز ایسا نہیں کرتی؟ کیا وہ مفت میں کام کرتے ہیں؟’
سنگھوی کا یہ ردعمل ایسے وقت میں آیا جب بی جے پی نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی کسی نجی تنظیم کو پیسے نہیں دے سکتی۔
سابق وزیر قانون اور بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ روی شنکر پرساد نے کہا، ‘اس کی (نیشنل ہیرالڈ) کی اشاعت 2008 میں بند ہو گئی۔ اس کے بعد کانگریس نے اخبار شائع کرنے والی ایسوسی ایٹڈ جرنلز لمیٹڈ کو 90 کروڑ روپے دیے۔ کوئی سیاسی جماعت کسی نجی ادارے کو پارٹی فنڈز نہیں دے سکتی، یہ ممنوع ہے۔’
‘انہوں نے ینگ انڈین کے نام سے ایک کمپنی بنائی- جس کے 38 فیصد شیئر سونیا گاندھی کے اور 38 فیصد راہل گاندھی کے پاس تھے۔ 9 کروڑ روپے کے ایکویٹی شیئر ینگ انڈین کو منتقل کیے گئے۔ اس کے بعد، دہلی، ممبئی، لکھنؤ، بھوپال اور پٹنہ میں ایسوسی ایٹڈ جرنلز لمیٹڈ کے ہزاروں کروڑ روپے کے اثاثے ینگ انڈین کے پاس آگئے،’ انہوں نے دعویٰ کیا۔
انہوں نے مزید کہا، ‘کہا گیا تھاکہ یہ ایک خیراتی ادارہ ہے، لیکن آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انہوں نے کیا عطیہ کیا ہے۔ شکایت کے بعد ای ڈی نے معاملے کی جانچ کی۔’
دوسری طرف، کانگریس نے کہا کہ اے جے ایل پوری طرح سے کانگریس پارٹی کا حصہ ہے۔
رمیش نے کہا، ‘یہ کانگریس پارٹی اور اس کے اراکین نے شروع کیا تھا، اس لیے آپ اے جے ایل کو کانگریس سے الگ نہیں کر سکتے۔’
‘ بغیر کسی منی لانڈرنگ کے پی ایم ایل اے کیس’
بی جے پی پر الزام لگاتے ہوئے کانگریس نے کہا کہ منی لانڈرنگ یا جائیداد کی منتقلی کے بغیر منی لانڈرنگ کا معاملہ بنایا جا رہا ہے۔
سنگھوی نے کہا، ‘میں نے اس معاملے کو یکطرفہ کہا تھا۔ بغیر کسی منی لانڈرنگ یا جائیداد کی منتقلی کے، منی لانڈرنگ کا کیس بنا دیا گیا ہے۔’
انہوں نے کہا کہ اے جے ایل دہائیوں پرانی کمپنی ہے، جو مالی طور پر کامیاب نہیں تھی اور کانگریس نے اسے مختلف اوقات میں 90 کروڑ روپے تک کا قرض دیا تھا۔
انہوں نے کہا، ‘اے جے ایل ایک معروف کمپنی ہے جو کئی دہائیوں پرانی ہے اور اس کا قیام کچھ خاص آئیڈیل ازم کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ یہ کمپنی مالی طور پر کامیاب نہیں رہی۔ پچھلے 50 سالوں میں مختلف اوقات میں، کانگریس نے اسے کچھ مخصوص نظریات کی بنیاد پر قائم کرکے قرض دیا۔ کئی دہائیوں کے بعد یہ رقم 90 کروڑ روپے ہوگئی۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوا کہ اے جے ایل کی تشکیل نو کیسے کی جائے، جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے قرض سے آزاد کمپنی بنایا جائے۔’
سنگھوی نے کہا، ‘ایسے حالات میں اس کمپنی کا 90 کروڑ روپے کا قرض ینگ انڈین نام کی نئی کمپنی کو منتقل کر دیا گیا۔’
سنگھوی نے کہا کہ قرض کاغذ پر منتقل کیا گیا تھا اور اے جے ایل کے شیئرینگ انڈین کو جاری کیے گئے تھے، جو کمپنی ایکٹ کے سیکشن 8 کے تحت تشکیل دی گئی ایک غیر منافع بخش خیراتی کمپنی تھی۔
انہوں نے کہا، ‘یہ قرض کاغذ پر منتقل کیا گیا ہے، یعنی وہ قرض جو پہلے کانگریس پارٹی کا تھا، اب ینگ انڈین کا قرض بن گیا ہے۔ وہ قرض چکانا ضروری تھا، ورنہ اے جے ایل کیسے مضبوط ہوتی، نیشنل ہیرالڈ کیسے مضبوط ہوتی؟ قرض کو شیئر میں تبدیل کر کے اسے قرض سے آزاد کر دیا گیا۔’
انہوں نے کہا، ‘یعنی اے جے ایل کے شیئر ینگ انڈین کو جاری کر دیے گئے ، جس سے ینگ انڈین کو اے جے ایل کا 90-99 فیصد شیئر ہولڈر بن گیا۔ ینگ انڈین کے ڈائریکٹر موتی لال ووہرا، آسکر فرناننڈس، سیم پتروڈا، سونیا گاندھی، راہل گاندھی وغیرہ تھے۔’
سنگھوی نے کہا، ‘اے جے ایل کی شیئر ہولڈنگ ینگ انڈین کے پاس چلی گئی، لیکن نہ تو پیسہ اور نہ ہی اثاثے منتقل کیے گئے۔ اس معاملے میں بہت عجیب و غریب دلائل دیے جارہے ہیں کہ ہم نے منی لانڈرنگ کے لیے ینگ انڈین بنایا تھا۔ ینگ انڈین ایک غیر منافع بخش خیراتی کمپنی ہے جو سیکشن 8 کے تحت بنائی گئی ہے۔’
سنگھوی نے کہا کہ ینگ انڈین سے اگر منافع بھی کمایا جاتا رقم ڈیویڈنڈ کی شکل میں نہیں دی جا سکتی کیونکہ دفعہ 8 کے تحت ایسا کرنا منع ہے۔
انہوں نے کہا، ‘اس کے علاوہ اس کمپنی کی طرف سے کوئی تنخواہ یا الاؤنس نہیں دیا گیا اور نہ ہی اس کمپنی نے کوئی جائیداد خریدی اور نہ بیچی۔ اس نے کوئی معاشی سرگرمی نہیں کی۔ یہ ایک غیر منافع بخش سیکشن 8 کمپنی تھی۔ کانپور، دہلی اور ممبئی میں تمام جائیدادیں اب بھی اے جے ایل کی ملکیت ہیں، اب صرف اے جے ایل کی شیئر ہولڈنگ ینگ انڈین کے پاس ہے۔’
اب جبکہ سونیا اور راہل گاندھی دونوں کو ای ڈی چارج شیٹ میں ملزم کے طور پر نامزد کیا گیا ہے، سنگھوی نے سوال اٹھایا کہ پیسے کا ذریعہ کہاں ہے اور جرم کی آمدنی کہاں ہے۔
انہوں نے کہا، ‘مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ڈائریکٹر کون ہیں۔ آج، میں ایک بہت واضح سوال پوچھ رہا ہوں – عوام سے، ملک سے، میڈیا سے اور آپ کے ذریعے، ای ڈی سے بھی۔’
سنگھوی نے پوچھا، ‘اگر اے جے ایل کے تمام اثاثوں کو اے جے ایل کو 99 فیصد شیئر ہولڈنگ دے کر منی لانڈر کیا گیا ہے۔ ینگ انڈین کے ڈائریکٹرز نے یہ تمام جائیدادیں ہڑپ کر لی ہیں۔ پیسے کا پتہ کہاں ہے؟ جرم کی آمدنی کہاں ہے؟’
انہوں نے کہا، ‘جب اے جی ایل کی جائیداد اے جی ایل کی تھی، تووہ جائیداد کبھی بھی ینگ انڈین کو منتقل نہیں کی گئی۔ قانونی طور پر، جب تک ینگ انڈین ان جائیدادوں کو نہیں خریدتا، جائیدادوں کی ملکیت اے جی ایل کے پاس ہی رہے گی۔تو پھر ینگ انڈین کے ڈائریکٹر منی لانڈرنگ کیسے کر رہے ہیں؟ ایسے میں ینگ انڈین کے ڈائریکٹر منی لانڈرنگ کہاں سے کر رہے ہیں، مہربانی کرکے کوئی ہمیں اس بارے میں بتائے؟’
‘سیاسی انتقام’
کانگریس کے دونوں ممبران پارلیامنٹ نے کہا کہ اس معاملے کو اقتصادی اور خارجہ پالیسی کے مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے سیاسی انتقام کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
رمیش نے کہا، ‘گزشتہ دو دنوں سے انتقام، ہراساں کرنے اور دھمکی دینے کی سیاست چل رہی ہے۔’
انہوں نے کہا کہ ‘عوامی مسائل، خارجہ پالیسی اور معاشی بحران سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انتقام کی اس سیاست کے پیچھے دو لوگ ہیں جو ماسٹر مائنڈ ہیں۔ ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کچھ بھی کر لیں ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے اور عوام کے ان مسائل کو اٹھاتے رہیں گے۔’
سنگھوی نے کہا کہ یہ معاملہ قانونی آڑ میں سیاسی انتقام کے سوا کچھ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا،’سلیکٹو جسٹس کچھ اور نہیں بلکہ سیاسی ٹھگی ہے۔’
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)