یہ دیکھنا اور سمجھنا دلچسپ ہے کہ سیکولرزم کے حوالے سے رائٹ ونگ کی دلیل کیا ہے۔ یقین کیجئے، سیکولرزم کے بارے میں ان کی جو دلیل ہے، وہ نہ صرف بہت کنونسنگ ہے بلکہ بہت مضبوط بھی ہے۔ ایک لمحے کے لئے آپ بھی سر نگوں ہو جائیں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی یہ دلیل سراب کی سی ہے۔
لوک سبھا انتخابات 2019 کے نتائج آنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے پہلے خطاب میں سیکولرزم کے حوالے سے جو بات کہی ، وہ نہ صرف دلچسپ تھی بلکہ قابل غور بھی تھی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ الیکشن میں کسی بھی سیاسی جماعت نے سیکولرزم کا چولہ پہننے کی ہمت نہیں کی۔ یہ بات انہوں نے بڑے رعب سے کہی۔ انہوں نے اس با ت کا اشارہ بھی کیا کہ یہ در اصل ان کے لئے بڑی جیت ہے۔
نریندر مودی نے اپنی اس بات کو اس انداز سے پیش کیا مانو وہ سیکولرزم کے غلط استعمال سے واقعی بہت دل برداشتہ تھے۔ مگر حقیقت آپ جانتے ہیں۔ سیدھی بات یہ ہےکہ انہیں اور ان کی پارٹی کو ‘اپیزمنٹ آف مائنارٹی’سے دقت تھی۔ گرچہ اس سے دقت ہونا واجب سی بات ہے، مگر کیا ‘اپیزمنٹ آف میجارٹی’سے بھی انہیں بیر ہے؟ اگر اپیزمنٹ کی وجہ سے سیکولرزم کو چوٹ پہنچتی ہے توپھر ایسا کیوں ہے کہ بات صرف مائنارٹی اپیزمنٹ کی کی جاتی ہے اور میجارٹی اپیزمنٹ کا نام تک نہیں لیا جاتا۔
یہ بات سچ ہے کہ اس الیکشن میں کسی بھی سیاسی پارٹی نے سیکولرزم لفظ تک کا استعمال نہیں کیا، یا پھر یہ کہیں کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے مسلمانوں کو خوش کرنے کی جرأت نہیں کی، مگر کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اس بار اکثریت کا تھوک میں اپیزمنٹ ہوا۔ ہر روز ہوا اور خوب ہوا۔ انہیں دل کھول کے خوش کیا گیا ۔ صبح شام لیڈران مندرآتے جاتے رہے۔ پوجا بھی ہوئی اور ارچنا بھی ۔ ہون بھی کئے گئے اور بھجن بھی گائے گئے۔ جئے شری رام کے نعرے تو لگتے ہی رہتے ہیں۔ دلچسپ پات یہ ہےکہ یہ کام بی جے پی والوں نے اکیلے نہیں کیا۔ سبھی سیاسی جماعتوں نے ان کا ہاتھ بٹا یا۔
لہذا بی جے پی کی منشا یہ نہیں تھی کہ اپیزمنٹ کا خاتمہ ہو بلکہ ان کا ایجنڈا یہ تھا کہ اپیزمنٹ اکثریت کا ہو، نہ کہ اقلیت کا۔ اور نہ صرف اپیزمنٹ بلکہ پورے سیاسی ڈسکورس میں ہندو اور ہندوؤں کی بات نمایاں طور پرکی جائے۔ چونکہ وہ اکثریت میں ہیں ، لہذا ان کی بات اور ان کے مفاد کوہر سطح پر ترجیح دی جائے۔ ان کے ساتھ نہ صرف ‘خاص’ سلوک کیا جا نا چاہئے، بلکہ انہیں’خاص درجہ’ بھی حاصل ہو۔ مختصر یہ کہ ملک ہندوتوا کی راہ پر چلے، نہ کہ ہندوستان کے آئین کے مطابق۔بہر حال، یہ دیکھنا اور سمجھنا دلچسپ ہے کہ سیکولرزم کے حوالے سے رائٹ ونگ کی دلیل کیا ہے۔ یقین کیجئے، سیکولرزم کے بارے میں ان کی جو دلیل ہے، وہ نہ صرف بہت کنونسنگ ہے بلکہ بہت مضبوط بھی ہے۔ ایک لمحے کے لئے آپ بھی سر نگوں ہو جائیں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی یہ دلیل سراب کی سی ہے۔
آپ جانتے ہیں ہندوستانی سیکولرزم”سروا دھرما سمبھوا” کی فلاسفی میں یقین رکھتا ہے۔ یعنی ہندوستانی ریاست تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کی بات کرتا ہے۔ رائٹ ونگ یہ مانتا ہے کہ وہ بھی اسی فلاسفی میں یقین کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس کا نفاذ سختی سے ہو۔ رائٹ ونگ کے لوگ یہ مانتے ہیں کہ ہندوستان میں آزادی کے بعد سے مسلسل سیکولرزم کا استعمال ووٹ بینک کے لئے ہوتا رہا ہے۔ کانگریس اور دوسری سیاسی جماعتیں سیکولرزم کا استعمال مسلمانوں کو خوش کر کے (اور ان کو غلط طریقے سے فائدہ پہنچا کر)ان کا ووٹ بٹورنے کے لئے کرتی رہی ہیں۔
‘تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک’ کا کبھی بھی زمین پر عمل نہیں ہوا ہے۔ لہذا سیکولرزم کے اصل معنی(تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک)کا سختی سے اطلاق ہو نا چاہئے۔ اسی سیاق میں ان کا یہ الزام ہے کہ چونکہ کانگریس سیکولرزم کے نام پر مسلمانوں (ان کے مذہب) کے ساتھ دوستانہ سلوک کرتی رہی ہے، لہذا وہ نقلی سیکولر ہیں، اور وہ (رائٹ ونگ/بی جے پی) چونکہ سیکولرزم کے اصل معنی (تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک) کی بات کرتے ہیں، لہذا وہ اصلی سیکولر ہیں۔
رائٹ ونگ کا یہ ماننا ہے کہ ہندوستانی ریاست، ایک نہیں متعدد مواقع پر ‘تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک’کرنے میں ناکامیاب رہی ہے۔ مثال کے طور پرآزادی کے بعد جب ہندو پرسنل لاء میں ری فارم لائے گئے اورمسلمانوں کو اپنے پرسنل لاء پر عمل کرنے کی چھوٹ دی گئی، تب رائٹ ونگ والوں نے(گرچہ یہ ان کی کمیونٹی کے فروغ کے لئے ایک خوش آئند قدم تھا)یہ الزام لگایا کہ ایک طرف تو ہندوستانی ریاست(سیکولرزم کے نام پر)سبھی مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کی بات کرتی ہے، اور دوسری طرف مائنا رٹی کمیونٹی کے ساتھ دوست بن کر پیش آتی ہے۔
یہ بات با لکل درست ہے کہ ہندوستانی ریاست اور کانگریسی سرکاروں نے کئی مواقع پر سیکولرزم کا غلط استعمال کیا ہے۔ شاہ بانومعاملہ ایک معروف مثال ہے۔ البتہ جو بات نوٹ کرنے کی ہے، وہ یہ کہ گرچہ رائٹ ونگ والے سیکولرزم کی مخالفت اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ اس کی وجہ سے کانگریسی سرکاریں مائنا رٹی کمیونٹی کے ساتھ دوستانہ سلوک کرتی رہی ہیں یا انہیں فائدہ پہنچا تی رہی ہیں، مگر حقیقت اس کے با لکل بر عکس ہے۔ دلچسپ بات یہ ہےکہ وہ بات جسے سالوں سے مسلمان چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے، اسے خود نریندر مودی نے گزشتہ 24 مئی 2019 (این ڈی اے کے لیڈر منتخب کئے جانے کے بعد پارلیامنٹ کے سنٹرل ہال میں دیے گئے اسپیچ کے دوران) کو قبول کیا کہ سیکولرزم کے نام پر مسلمانوں کےساتھ دھوکہ ہوا ہے، اپیزمنٹ نہیں۔
راجییو بھارگوا نے درست لکھا ہے کہ نریندر مودی کے اس بیان کے بعد، بی جے پی والوں کے لئے جس ‘Pseudo’ سیکولرزم کامطلب ‘مائنارٹی اپیزمنٹ’ ہوا کرتا تھا، اب اسی سیکولرزم کا مطلب مائنارٹی کے ساتھ دھوکرنا ہے۔دوسری طرف ، یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ یہ وہی بی جے پی ہے جسے اس وقت کوئی ملال نہیں ہوتا جب یہی کانگریس سیکولرزم کو ان کے (رائٹ ونگ) حق میں داؤ پر لگا دیتی ہے ۔ پورا کا پورا بابری مسجد – رام جنم بھومی معاملہ (شروع سے لےکر آخر تک)اس ضمن میں ایک بہترین مثال ہے۔
خیر، جوسوال زیادہ اہم ہے وہ یہ کہ سیکولرزم کی مخالفت کتنی دیانتدارانہ ہے۔ یا یہ کہ سیکولرزم کے حوالے سے رائٹ ونگ کی دلیل کیسے محض سراب ہے ۔ کم لوگ اس جانب توجہ کر پا تے ہیں کہ سیکولرزم کی مخالفت کے نام پر رائٹ ونگ والے در اصل کہاں چوٹ کرتے ہیں۔ سچ بات یہ ہےکہ ان کا نشانہ ہمیشہ’مائنارٹی رائٹ’ (بنیادی حقوق: آرٹیکل 29 اور 30) ہوا کرتا ہے، جسے ہم ‘ثقافتی اور تعلیمی حقوق’ کے نام سے جانتے ہیں۔آرٹیکل 29 (اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ) اقلیتوں کو اپنی زبان، رسم الخط، تہذیب اور کلچر کے تحفظ کا حق دیتا ہے۔ اسی طرح، آرٹیکل 30 (اقلیتوں کو تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق) کے تحت اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہے۔ لہذا، دستور ہند نے مائناریٹیز کو جو یہ تحفظ بخشا ہے، وہ (رائٹ ونگ) اسے سیکولرزم (کہ ریاست تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کرے) کے نام پر چھین لینا چاہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ رائٹ ونگ نے سیکولرزم اور ‘آئیڈیا آف مائنا رٹی رائٹ’ کو خلط ملط کر دیا ہے۔ اور اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے اس عمل (سا زش) میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ مگر المیہ یہ ہےکہ سیاسی طور پر کبھی بھی اس کی ڈھنگ سے تردید نہیں ہوتی ہے۔ اوپر سے طرہ یہ کہ جب کبھی سیکولرزم کے حوالے سے بات ہوتی ہے، یا بحث کا بازار گرم ہوتا ہے، تو معا ملہ شاہ با نو مقدمہ سے شرو ع ہوکر یو نی فارم سول کوڈ یا پرسنل لاء پر ختم ہو جا تا ہے۔ یا پھر چناوی بیان بازی کے ہتھے چڑھ جا تا ہے۔ زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ انڈین اسٹیٹ نے بھی کبھی اپنے شہری کو اس حوالے سے ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اقلیتوں کے لئے آئین میں تجویز کردہ مائنارٹی رائٹز ‘ڈیموکریٹک اکوا لیٹی’ (جمہوری مساوات) کے حصول کے پیش نظر ہیں، نہ کہ سیکولرزم کے نام پر۔ البتہ اس ضمن میں دانشور وں کی خدمات قدر کے قابل ہے۔ مثال کے طور پر راجیو بھا رگوا نے بڑی مضبوطی سے رائٹ ونگ کی ‘سازش’ کا جواب دیا ہے۔
بہر حال، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ حکومت ”اصلی سیکولرزم” کے نام پرمائنارٹی رائٹ پر چوٹ کرےگی؟ گرچہ ابھی کچھ کہنا جلد بازی ہوگی، مگر اس امر سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔
(سید کاشف بلاگر اور مترجم ہیں۔)