بی جے پی کی تہذیب بد زبانی اور بدتمیزی کی تہذیب ہے۔ مخالفین اور مسلمانوں کی توہین کرکے انہیں یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ بی جے پی لیڈر کہلانے کےاہل ہیں۔ بدھوڑی اس کی تازہ ترین مثال محض ہیں۔
’اگرتمہیں سڑک کے لوگوں کا لیڈر بننا ہے تو سڑک چھاپ زبان بولنی ہوگی۔‘ (گوئبلز)
’کسی سیاستدان کی تقریر کی اہمیت کا تعین کسی پروفیسر پر مرتب ہونے والے اثرات سے نہیں ، بلکہ اس سے ہوتا کہ سڑک پر چلتے لوگوں پر اس کا کیا اثرہوا۔‘(ہٹلر)
پارلیامنٹ کےخصوصی اجلاس کا اختتام بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پارلیامنٹ رمیش بدھوڑی کی جانب سے مسلم ایم پی کنور دانش علی کو دی گئی گالیوں سے ہوا۔ کئی نیک لوگ بی جے پی کے گالی باز ایم پی کا ویڈیو دیکھ کرصدمے میں ہیں۔ لیکن جو سفر ہم نے 2014 میں شروع کیا تھا اس کو یہیں تو پہنچنا تھا۔ یہ سب سننا اور دیکھنا ہی تھا۔ اور یہ سب کو سننا اور دیکھنا ہی چاہیے۔
اپنی حکومت، اپنے لیڈروں کی حقیقی مسلم دشمنی کی تصویرہمیں بار بار دیکھنی چاہیے۔ کنور دانش علی نے خود ا ن گالیوں کو پریس کے سامنے دہرایا۔ دراصل ایک مسلم ایم پی ہمیں بتا رہے ہیں کہ یہ زبان ہے بی جے پی کی۔اسے سب سنیں۔ یہ اس ملک کی اصلی صورت ہے۔ سب دیکھیں۔
یہ زیادہ حیرانی کی بات نہیں ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی،جوپل پل ٹوئٹ کرتے ہیں، اپنےایم پی کی اس مسلم مخالف دشنام طرازی کےبعد خاموش ہیں۔ وہ ان گالیوں کے پورا اثر ہو جانے کا انتظارکر رہے ہیں۔ یہ بھی کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بات بات میں اپوزیشن ممبران کو معطل کردینے والے لوک سبھا کے اسپیکر نے گالی باز ایم پی کو صرف ایک وارننگ دے کر چھوڑ دیا ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی منظم طریقے سے مسلمانوں کےخلاف دشنام طرازی کے کلچر کو فروغ دے رہی ہے۔
لہٰذا، اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ کئی مسلمانوں کے گھر لقمہ توڑ چکے بی جے پی ایم پی ڈاکٹر ہرش وردھن اور وکیل روی شنکر پرساد اپنے ساتھی ایم پی کی مسلم مخالف یاوہ گوئی سے حاصل ہونے والے لطف اور مزے چھپا نہیں سکے۔ ان کے ساتھی ایم پی کی زبان سے جو نکلا، وہ ان کے اور بی جے پی لیڈروں کے دلوں میں جانے کب سے دفن ہے! ورنہ وہ بی جے پی میں نہ ہوتے۔
جب بھارتیہ جنتا پارٹی اور وہ بھی نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس ملک کے ہندوؤں کے ایک بڑے طبقے نے اپنی امیدیں پوری کرنے کے لیے حکومت سازی کا ٹاسک دیا تو یہ ناممکن تھا کہ ملک کی پارلیامنٹ یاوہ گوئی اور گالیوں کا پلیٹ فارم نہ بنے۔
سال 2002 کے مسلم مخالف تشدد کی قیادت کے لیے بدنام زمانہ نریندر مودی کو ملک کے بڑے صنعتکاروں اور دانشوروں نے ملک کی امید کے طور پر پیش کیا اور انہیں اپنے کندھوں پر بٹھاکرپارلیامنٹ اور حکومت تک پہنچایا۔
نریندر مودی نے تشدد اور اپنی یاوہ گوئی پر کبھی پردہ نہیں ڈالا ہے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے تئیں اپنی نفرت کو بھی نہیں چھپایا ہے۔ بارہا یہ بھی بتلایاگیا ہے کہ مسلمانوں کے مفاد کا مطلب ہندوؤں کی حق تلفی ہے۔ ‘ہم پانچ ہمارے پچیس’ یا گجرات میں 2002 کے تشدد سے بے گھر ہونے والے مسلمانوں کے ریلیف کیمپوں کو دہشت گرد پیدا کرنے کی فیکٹریاں کہہ کر نریندر مودی نے صاف کر دیا تھا کہ میں یہی ہوں۔ اسی صورت میں مجھے تمہیں اپنا لیڈر چننا پڑے گا۔ اور نریندر مودی کو ہندوستان کے مہذب ہندو سماج نےاپنا لیڈر منتخب کیا۔
نسلی تشدد یا نفرت اور بدتمیزی کے درمیان براہ راست تعلق ہے۔پھوہڑپن اور فحاشی کو اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ نہیں کیا جاسکتا کہ آپ مسلمانوں کے خلاف تشدد اور قتل و غارت کو تو قبول کریں اور ان کے خلاف یاوہ گوئی پر ناک سکوڑیں۔ قتل سے پہلے یا اس کے ساتھ گالی آتی ہے۔
گالیاں نفرت اور تشدد کےہی لفظی اظہار ہیں۔ ہندوستان کے دلت اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ گالی دینے والا جانتا ہے کہ جس شخص کوگالی دی جا رہی ہے وہ اس کا جواب نہیں دے سکتا۔ گالی اس کو بار بار نیچا دکھانے، اس کی حیثیت بتلانے اور اسے کمتر ثابت کرنے کا ایک مؤثر ہتھیار ہے۔
یہ سڑکوں پر، اسکولوں میں، ہر جگہ مسلمانوں کے ساتھ کیاجاتا رہا ہے۔ جدیدٹکنالوجی سے واقف لوگ مسلمانوں کو گالی دینے کے لیے سوشل میڈیا کے تمام ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ مسلمان پلٹ کر کو گالی نہیں دے سکتے۔ دلتوں کو گالی دینے والےاشرافیہ حضرات بھی جانتے ہیں کہ دلت ان کی گالیوں کا جواب نہیں دے سکتے۔
جوگالیاں بی جے پی ایم پی نے ایک مسلم ایم پی کو دیں، ان سےہندو سماج خود کو الگ نہیں کر سکتا ۔ یہ گالیاں اب گانوں اور نعروں کی شکل میں متعدد تہواروں میں کھلے عام ہندوؤں کو مقدس خوشی دینے کے لیےسنائی جاتی ہیں۔اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایسے لاؤڈ سپیکر پر ایسےگالی گلوچ کو کسی ہندو نے بندکیا ہو۔ زیادہ سے زیادہ ہندو اب ایسے ‘باباؤں’ اور ‘سادھویوں’ کے بھکت ہوتے جا رہے ہیں جن کے ‘پروچن’ کا مطلب ہےمسلمانوں کو گالی دینا، ان کے خلاف تشدد بھڑکانا۔
گالیاں سن کر خاموش رہنے کی مجبوری کی ذلت کو سمجھنا مشکل نہیں۔ جب یہ مجبوری ایک پوری کمیونٹی کی ہو تو اس کا مطلب اس کمیونٹی کی سیلف امیج کےلیے کیا ہوتا ہے، کیا ہم یہ نہیں جانتے؟ جب اس کمیونٹی کے نمائندے، یہاں تک کہ اس کی اشرافیہ کو بھی سرعام گالیاں دی جاتی ہیں تو یہ پوری کمیونٹی کو بےچارگی کی حالت میں دھکیل دینا ہوتا ہے۔
’یہ گالیاں نئی نہیں ہیں، مسلمان توہر روزانہیں عام ہندوؤں سے سنتے ہیں، تو اتنا صدمہ کیوں؟‘، یہ کہہ کر ہم بی جے پی ایم پی کی حماقت اور اس کے فعل کی سنگینی کو کم کر رہے ہیں۔ جو سڑکوں پر کیا جاتا ہے وہ پارلیامنٹ میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایم پی کو مسلم مخالف گالیوں کا استعمال کرنے کا استحقاق حاصل ہے۔پارلیامنٹ کو مسلمانوں کی توہین کی جگہ بنایا جا سکتا ہے۔ پارلیامنٹ میں ‘ہندو شکتی کی علامت سینگول’ کے قیام کا پورا مطلب بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ کی مسلم مخالف گالیوں سے ہی ظاہر ہو سکتا تھا۔
گالی دینے والے کی حقیقت، اس کے مہذب اور کلچرڈ ہونے کے دعوے کی پول بھی اس سے کھلتی ہے۔ بی جے پی کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ میں دشنام طرازی کے اس کلچرکو فروغ دیا جاتاہے ، اسے مسلم مخالف کھاد پانی سے تقویت بخشی جاتی ہے،یہ بار بار بی جے پی لیڈر اپنے بیانات اور عمل سے ثابت کر تے رہے ہیں۔ بدھوڑی اس کی تازہ ترین مثال محض ہیں۔
بی جے پی کی تہذیب بد زبانی اور بدتمیزی کی تہذیب ہے، یہ اس حقیقت سے بھی ظاہر ہے کہ دوسری پارٹیوں سے اس میں شامل ہونے والے لیڈر گالی گلوچ میں ان سے مقابلہ کرنے لگتے ہیں۔
مخالفین اور مسلمانوں کی توہین کرکے انہیں یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ بی جے پی کے لیڈر کہلانے کے اہل ہیں۔ ہمنتا بسوا شرما اس کی ایک مثال ہیں۔ وہ مسلمانوں کی توہین کرنے، ان کے خلاف نفرت اور تشدد کو فروغ دینے میں نریندر مودی سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ اور اس میں انہیں مزابھی آ رہا ہے۔
یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے، کہنے سے کام نہیں چلےگا۔ جوچل رہا ہے اسے اورجاری نہیں رہنے دینا چاہیے۔ اگر ہندو اس مہذب دنیا کے شہری کے طور پر جگہ چاہتے ہیں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ گالی بازثقافتی قوم پرستی کو ووٹ دیں۔
(اپوروا نند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)