سال 2016 میں بہار کے سیوان ضلع میں صحافی راج دیو رنجن کا قتل کر دیا گیا تھا۔ سیوان سے چار بار رکن پارلیامنٹ رہےمرحوم محمد شہاب الدین قتل کے ملزمین میں سے ایک تھے۔ گزشتہ چھ سال سے معاملے میں سی بی آئی کی تحقیقات چل رہی ہے اور رنجن کے اہل خانہ انصاف کے انتظار میں ہیں۔
راج دیو رنجن اور آشا رنجن۔ (فوٹوبہ شکریہ: رنجن فیملی/بینا کماری)
مئی 2016 میں ہندی اخبار ‘ہندوستان’ کے صحافی راج دیو رنجن کا سیوان میں سرعام قتل کر دیا گیا تھا۔ آج ساڑھے چھ سال گزر جانے کے بعد بھی ان کے اہل خانہ انصاف کے منتظر ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ 13 مئی 2016 کو سیوان ریلوے اسٹیشن کے قریب 45 سالہ صحافی راج دیو رنجن کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان کی بیوی آشا رنجن روتے ہوئے کہتی ہیں، مجھے ایک ایماندار صحافی کی بیوی ہونے کی سزا ملی۔ جس دن ان کو بے دردی سے قتل کیا گیا،اس کے ٹھیک ایک دن بعد ہماری شادی کی سالگرہ تھی۔ آپ ہی سوچیے اس وقت ایک بیوی پر کیا بیتے گی! اس کے کیا کیاسپنے ہوں گے، کتنی امیدیں رہی ہوں گی… جنہیں مجرموں نے ہمیشہ کے لیے چھین لیا۔
راج دیو رنجن کے پسماندگان میں والدین، بیوی اور دو بچوں تھے، جنہیں آشا نے سنبھالا ۔ 13 مئی 2016 کو جب راج دیو رنجن کا قتل کیا گیاتھاتو اس وقت آشا رنجن نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرے دن ہی سیوان سے چار بار ایم پی رہے راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے رہنما اور باہوبلی کا رتبہ رکھنے والے شہاب الدین اور دیگر کے خلاف مقامی پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کروائی۔
انہوں نے بتایا تھاکہ تھانے میں شہاب الدین کا نام سنتے ہی مقدمہ درج کرنے سے منع کر دیا گیا، جس کے بعد مشتعل آشا رنجن اور مقامی لوگوں نے مظاہرہ کیا۔ آشا نے بتایاکہ مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ مقامی میڈیا کا بھی مکمل تعاون تھا، جس کی وجہ سے آخر کار پولیس نے مقدمہ درج کیا۔ تاہم اس وقت اس مقدمے میں شہاب الدین کا نام شامل نہیں کیا گیاتھا۔
اس وقت بہار میں آر جے ڈی اور جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو) کی مہاگٹھ بندھن کی حکومت تھی۔ شہاب الدین آر جے ڈی کے بڑے لیڈر تھے، جیل میں ہونے کے باوجود ان کے نام کا خوف چاروں طرف قائم تھا۔ آشا نے کہا، ‘سب جانتے تھے کہ اس قتل کے پیچھے شہاب الدین کا ہاتھ ہے لیکن کوئی اس کے خلاف جانے کی ہمت نہیں کر رہا تھا۔’
آشا رنجن کو یقین تھا کہ اگر بہار پولیس اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیتی ہے تو اس کی منصفانہ تحقیقات نہیں ہوسکے گی اور نہ ہی ان کے شوہر کو انصاف ملے گا۔ ان کو لگتا تھا کہ شہاب الدین اور دیگر ملزمان کو بچانے کے لیے سیاسی دباؤ ضرور ہوگا، اسی لیے انہوں نے چیف منسٹر اور مرکزی حکومت سے کیس کو سی بی آئی کے حوالے کرنے کی فریاد کی۔
آشا کے سی بی آئی انکوائری کے مطالبے کے لیے صحافیوں کی طرف سے بھی ریاستی حکومت پر دباؤ بن رہا تھا، جس کے بعد وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے سی بی آئی جانچ کی سفارش کی، جسے مرکز نے فوراً منظور کر لیا۔ تاہم اب ساڑھے چھ سال کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی کوئی فیصلہ نہیں آیا۔ راج دیو کی ماں ستمبر 2017 میں اور ان کے والد دسمبر 2020 میں انصاف کے انتظار میں چل بسے۔
آشا کہتی ہیں،’ایک ایک کرکے سب میرا ساتھ چھوڑ گئے۔ اب میری ہمت بھی جواب دے رہی ہے۔ لیکن سوچتی ہوں کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو میرے بچوں کی دیکھ بھال کون کرے گا۔ بیٹا کالج میں ہے اور بیٹی سکول میں- دونوں کی ذمہ داری میرے کندھوں پر ہے، لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ آخر میں کیا کروں۔ میری زندگی کاتو ایک ہی مقصد اپنے شوہر کو انصاف دلانا ۔
انہوں نے مزید کہا، ‘راج دیو کے جانے کے بعد ایسا لگا جیسے میری دنیا ہی ختم ہو گئی۔ شروع شروع میں سب نے ہمدردی کا اظہار کیا، چاہے وہ خاندان ہو، سماج ہویا مقامی میڈیا، لیکن پھر آہستہ آہستہ سب نے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ آج میں بالکل تنہا ہوں، لیکن کوئی میرا ساتھ دے یا نہ دے، میں انصاف ملنے تک یہ جنگ لڑتی رہوں گی۔
ان حالات کے درمیان اکتوبر 2020 میں ایک بڑا فیصلہ لیتے ہوئے آشا رنجن نے بہار اسمبلی الیکشن لڑنے کے لیے اپنی ٹیچر کی نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ آشا رنجن نے الیکشن لڑنے کے لیے کئی پارٹیوں سے رابطہ کیا لیکن کسی سے ٹکٹ نہیں ملا۔ پھر انہوں نے آزادامیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا لیکن آشا رنجن کی امیدواری رد ہو گئی۔
الیکشن لڑنے کی خواہش کی وجہ سے روزی کا واحد ذریعہ نوکری تھی، وہ بھی ہاتھ سے گئی۔ آشا نے شکشامتر کی وہ نوکری دوبارہ حاصل کرنے کے لیے بہت مشقت کی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ نوکری نہ ملنے کی وجہ سے آشا رنجن کو مالی بحران سے گزرنا پڑا۔ فی الحال وہ کیندریہ ودیالیہ، سیوان میں کانٹریکٹ ٹیچر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔
آشا کہتی ہیں کہ انہیں اپنی پچھلی نوکری چھوٹ جانے کا بہت افسوس ہے لیکن ابھی بھی ارادہ نہیں بدلا ہے۔ وہ کہتی ہیں، میں ان تمام حالات میں ٹوٹی نہیں بلکہ اور زیادہ مضبوط ہوئی ہوں۔آگے بھی اگر مجھے کسی پارٹی سے ٹکٹ ملا تو الیکشن ضرور لڑوں گی۔ چاہے وہ ودھان سبھا کا ہو یا لوک سبھا کا، کیونکہ میرا مقصد صاف ہے… کہ میری حالت جوسماج میں ہوئی ہے وہ کسی اور کے ساتھ نہ ہو۔
بتادیں کہ 15 ستمبر 2016 کو اس قتل کی تحقیقات سی بی آئی کو سونپ دی گئی تھی۔ سی بی آئی نے مظفر پور سی بی آئی کورٹ میں چارج شیٹ داخل کی، جس میں آر جے ڈی لیڈر (اب مرحوم) شہاب الدین کے علاوہ لڈن میاں عرف اظہرالدین بیگ، ریشو کمار جیسوال، روہت کمار سونی، وجے گپتا، راجیش کمار اور سونو کمار گپتا کے خلاف تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 120بی (مجرمانہ سازش) اور 302 (قتل) کے ساتھ آرمز ایکٹ کی دفعہ 34 کے تحت الزامات عائد کیے گئے تھے۔
راج دیو پر یہ پہلا حملہ نہیں تھا۔ راج دیو رنجن پر پہلی بار 1998 میں حملہ ہوا تھا۔ اس وقت راج دیو اپنے ساتھی رویندر پرساد کے گھر بیٹھ کر رپورٹ لکھ رہے تھے ، جب ان پر گولی چلی۔ تاہم گولی راج دیو کو نہیں لگی بلکہ رویندر پرساد کے ہاتھ میں لگی۔ اس کے بعد سال 2004 میں بھی ان پر حملہ ہوا۔ ان کے دفتر میں گھس کر غنڈوں نے ان کو لاٹھیوں سےبری طرح مارا اور جان سے مارنے کی دھمکی دی۔
انیش پروشارتھی ایک صحافی ہیں، جو ہندوستان میں راج دیو رنجن کے ساتھ کام کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں،راج دیو رنجن بڑی اچھی استعداد رکھتے تھے، جس کی وجہ سے صحافت کی دنیا کے علاوہ سماج میں ان کی کافی عزت تھی۔ خبروں پر ان کی گرفت تھی۔ انہوں نے کبھی بھی خبروں سے سمجھوتہ نہیں کیا جس کی قیمت ان کے گھر والوں کو ادا کرنی پڑی۔
متھلیش کمار سنگھ بھی رنجن کے ساتھی اور اچھے دوست تھے۔ وہ کہتے ہیں، ‘راج دیو ایک نڈر اور غیر جانبدار صحافی تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا دلیر اور ایماندار صحافی نہیں دیکھا۔ وہ ایک سادہ لوح انسان تھے۔ 90 کی دہائی میں سیوان میں کرائم رپورٹنگ کا مطلب آگ سے کھیلنا تھا لیکن یہ راج دیو کا شوق بن گیا تھا۔
راج دیو کے قتل کے معاملے میں سی بی آئی نے چارج شیٹ میں قتل کی وجہ ایک روزنامہ میں شائع ہونے والی راج دیو رنجن کی رپورٹ کو بتایا تھا۔ اس وقت کئی مجرمانہ مقدمات میں ملزم اور سزا یافتہ سابق ایم پی شہاب الدین کےجیل میں رہنے کے دوران ان سے ملنےبہار حکومت کے اس وقت کے اقلیتی بہبود کے وزیر سمیت کچھ لوگ گئے تھے۔ اس ملاقات سے جڑی خبر اور جیل کے اندر کی تصویر کے ساتھ راج دیو رنجن نے ہی روزنامہ میں نمایاں طور پر شائع کی تھی، جس سے اس وقت کی حکومت کی کافی بدنامی ہوئی تھی۔ اس سارے واقعے کے بعد تلملائے شہاب الدین نے راج دیو رنجن کو مارنے کی ذمہ داری اپنے خاص لڈن میاں کو دے دی، جسے لڈن میاں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر انجام دیا۔
سی بی آئی کی چارج شیٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ دسمبر 2014 میں راج دیو کی ایک خبر ‘ سیوان جیل سےجاری ہٹ لسٹ ‘ کی وجہ سےبھی شہاب الدین کافی ناراض ہوئے اور پھر دو سال بعد جیل والی خبر سے ان کی ناراضگی اور بڑھ گئی، جس کے بعد اس نے راج دیو کو مارنے کو کہا۔
مظفر پور کی سی بی آئی عدالت میں قتل کیس کی سماعت جاری ہے۔ تاہم اس معاملے میں تفتیشی ایجنسی کی طرف سے کس طرح کی لاپرواہی برتی جا رہی ہے اس کی ایک مثال اس وقت دیکھنے کو ملی جب 24 مئی 2022 کو سی بی آئی نے ایک گواہ جن کا نام بادامی دیوی ہے کو مردہ قرار دینے کے ساتھ ساتھ عدالت میں اس کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی پیش کر دیا۔ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب بادامی دیوی خود عدالت میں پیش ہوئیں اور
اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیا۔
ساتھ ہی انہوں نے عدالت سے یہ بھی کہا کہ اس وقت تک سی بی آئی کے کسی افسر نے ان سے رابطہ نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد عدالت نے معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے سی بی آئی کو وجہ بتاؤ نوٹس بھی جاری کیا۔
غور طلب ہے کہ دہلی کی ایک جیل میں قتل کےمعاملے عمر قید کی سزا کاٹ رہےاس کیس کے کلیدی ملزم شہاب الدین کا 21 مئی 2021 کو کووڈ-19 انفیکشن کے بعد
انتقال ہو گیا۔
شرد سنہا رنجن کی طرف سے وکیل ہیں۔ اس کیس میں اب تک 38 گواہوں کی گواہی ہو چکی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے باعث بیشتر گواہوں کی گواہی روک دی گئی تھی لیکن اب پھر سےگواہی ہو رہی ہے۔کیس کی آخری سماعت 18 ستمبر 2022 کو ہوئی تھی تاہم گواہ نہیں پہنچ سکے تھے۔
شرد کہتے ہیں،’اس کیس کو لے کر سی بی آئی کا رویہ جگ ظاہر ہے۔ وہ زندہ گواہ کو مردہ قرار دیتے ہیں، کبھی تاریخ پر نہیں پہنچتے اور کبھی گواہ کی گواہی نہیں دلا پاتے! میں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ اس پر جلد از جلد کوئی ٹھوس فیصلہ کیا جائے۔
راج دیو رنجن کے قتل کے بعد بہار میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ رکا نہیں ہے۔ پچھلے چھ سالوں میں راج دیو جیسے کئی صحافی اپنی صحافت کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ 2017 میں ایک ہندی روزنامہ کے صحافی
برج کشور برجیش، 2018 میں
نوین نشچل،
وجے کمار،
اویناش جھا، سینئر صحافی
مہاشنکر پاٹھک کو قتل کر دیا گیا۔ تازہ ترین معاملہ 20 مئی 2022 کو 26 سالہ
سبھاش کمار مہتو کے قتل سے متعلق ہے، جو ریت اور شراب مافیا پر مسلسل لکھ رہے تھے۔
(بینا کماری ایک فری لانس صحافی ہیں۔)