ذات کا تعارف: دی وائر نے بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ بارھواں حصہ یادو کے بارے میں ہے۔
وادی سندھ کی تہذیب تک ذات پات کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ حالاں کہ پیشوں کی صورت میں کسانوں اور کاریگروں کے علاوہ حکمراں گروہ ضرور موجود تھے، لیکن ذات پات کا کوئی نظام نہیں تھا۔ بہار کی معاش کی روایات میں بھی ذات پات کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ ملتا بھی ہے تو صرف پیشہ ورانہ شناخت کی صورت میں۔مثال کے طور پر مکھلی گوسال چرواہا رہے، جن کی پرورش ایک تیلی خاندان میں ہوئی۔ مکھلی گوسال جبریت (نظریہ جبر) کے بانی مانے جاتے ہیں، جنہوں نے خدا کے تصور کو رد کیا اور یہ قائم کیا کہ دنیا میں رونما ہونے والے ہر واقعے کے پیچھےنظریہ جبر کارفرما ہے اور اس کا کوئی کنٹرولر نہیں ہے۔ گوسال کے اس نظریے کو مہاویر اور بدھ نے آگے بڑھایا۔ دراصل مہاتما بدھ نے اسباب وعلل کے ماتحت دنیا کی چیزوں کے وجود میں آنے اور قانون تغیر و تبدل کے تحت اسی فلسفہ کوپیش کیا۔
اورجب ہم بہار کی بات کرتے ہیں تو ہمارا اشارہ اس بہار کی طرف ہے جس نے آگے بڑھ کر اس ملک کو ایک نظریہ دیا اور اس نظریے کے مرکز میں ذات نہیں بلکہ جماعت تھی۔ مثال کے طور پر، بدھ نے ہی برہمنیت کے برعکس بدھ مت کا نظریہ پیش کیا۔ جہاں برہمنیت میں ایک طرف شودروں کے لیے تمام پابندیاں تھیں، چھواچھوت تھی، وہیں بدھ مت میں سب کے لیے احترام اور مساوی حقوق تھے۔ بعد میں اشوک کی کوششوں سے بدھ مت نے بیرونی ممالک تک رسائی حاصل کی۔
لیکن موریہ خاندان کے خاتمے کے بعد بہار میں بدھ مت کا بھی زوال ہوگیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ ذات پات کے نظام کا قیام تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کشواہا، کرمی، یادو، کہار، چمار، پاسوان، پاسی سمیت کئی ذاتیں وجود میں آئیں اور بدھ کی تمام کوششیں رائیگاں چلی گئیں۔ معاشرہ بکھر چکا تھا۔
یہ وہ باتیں ہیں جو آج بھی نظر آتی ہیں اور سرکاری اور غیر سرکاری دستاویزوں میں بھی درج ہیں۔ مثال کے طور، بہار حکومت کی حالیہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت کل 209 ذاتیں ہیں اور ان سب میں سب سے زیادہ ممبران یادو ذات کے ہیں۔ ان کی آبادی ایک کروڑ 86 لاکھ 50 ہزار 119 ہے جو کل آبادی کا 14.266 فیصد ہے۔
اس بڑی آبادی کے اپنے فوائد اور نقصانات بھی ہیں۔ ان نقصانات میں سے ایک یہ ہے کہ یادو ذات کو بڑے پیمانے پر برہمنائز کرنے کی کئی کوششیں کی گئی ہیں۔ جبکہ یہ ذات چرواہا ذات رہی ہے اور ایک طرح سے اس کی بنیاد میں قبائلیت رہی ہے۔
بہت سے مؤرخین اور ماہرین سماجیات، پھر چاہے وہ آر ایس شرما ہوں یا ڈی ڈی کوسمبی وغیرہ، انہوں نے اس ذات کو بنیادی طور پر چرواہا ہی مانا ہے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ چرواہوں کی شکل میں اس ذات نے بہت سی عظیم دریافتیں کی ہیں اور ان دریافتوں نے نہ صرف انسانیت کو مالا مال کیا ہے بلکہ علم و سائنس سے بھی لوگوں کا رشتہ بحال کیا ۔ ان کے مطابق تو چرواہا ہی سب سے پہلے ہیں جنہوں نے یہ بتایا کہ کس جانور کو مار کر کھایا جائے اور کس جانور کا دودھ استعمال کیا جائے۔ ویسے بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب زراعت نے ترقی کی تو مویشی پروری کا بھی آغاز ہوا۔ اس کی بھی وجہ رہی۔ زراعت اور مویشی پروری ایک دوسرے کا تکملہ رہے۔
ایک چرواہے کے طور پر ان کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ پھر چاہے وہ عیسیٰ مسیح رہے ہوں، جو بھلے ہی چرواہے کے گھرانے میں پیدا نہیں ہوئے، لیکن وہ اپنے آپ کو چرواہا ہی مانتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے تھے کہ اگر کوئی اس زمین پر بے زبانوں کی پرواہ کرتا ہے تو وہ چرواہے ہی ہیں۔ انسانی تہذیب کی ترقی میں چرواہوں کی خدمات کو پیغمبر محمد سے جوڑ کر بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو ایک چرواہے تھے اور انہیں کالی کملی والا کہا گیا ہے۔
لیکن ہندوستان میں چرواہوں کو صرف چرواہا نہیں مانا گیا۔ کبھی اُن کو آبھیر کہا گیا اور کبھی اہیر۔ کبھی گوالا اور کبھی گوار۔ اس کے علاوہ انہیں ہندو مذہب سے جوڑنے کی ہر طرح کی سازشیں رچی گئی ہیں۔ایک بڑی سازش ‘کرشن’ ہے۔
مثال کے طور پر، آریائی اور غیر آریوں کے تناظر میں مشہور مؤرخ رام شرن شرما اپنی مشہور کتاب ‘آریائی ثقافت کی تلاش’ میں کہتے ہیں-
‘1800 قبل مسیح کے بعد آریائی چھوٹے چھوٹے گروہوں میں ہندوستان میں داخل ہوئے۔ آریہ کا لفظ قدیم ترین کتابوں رگ وید اور اویستہ دونوں میں پایا جاتا ہے۔ لفظ ایران کا تعلق لفظ آریہ سے ہے۔ رگ ویدک دور میں اندر کی پوجا کرنے والوں کو آریائی کہا جاتا تھا۔ رگ وید کے کچھ منتروں کے مطابق آریوں کی اپنی الگ ذات ہے۔ جن لوگوں سے ان کی لڑائی ہوتی تھی انہیں سیاہ فام بتایا گیا ہے۔ آریوں کو ‘مانوشی پرجا’ قرار دیا گیا ہے جو اگنی ویشوانار کی پوجا کرتے تھے اور بعض اوقات سیاہ فام لوگوں کے گھروں کو آگ لگا دیتے تھے۔ آریائی دیوتا سوم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ سیاہ فام لوگوں کو قتل کر دیتے تھے۔ پوسٹ ویدک اور پوسٹ ویدک لٹریچر میں آریہ سے مراد وہ تین ورن تھے جنہیں دویج کہا جاتا تھا۔ شودروں کو آریوں کے زمرے میں نہیں رکھا جاتا تھا۔ آریہ کو آزاد اور شودر کو منحصر سمجھا جاتا تھا۔’
اگر ہم آریائی برہمنوں کے اہم صحیفے رگ وید کے بارے میں بات کریں تو یہ بتاتا ہے کہ جب آریائی ایران سے آئے تو ان کا سامنا سب سے پہلے چرواہوں سے ہوا۔ آپ اس بات کو اس حقیقت سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ رگ وید کے مطابق آریوں کا اصل راجا اندر ہے۔ رگ وید میں کل 10552 اشلوک ہیں۔ ان میں سے تقریباً 3500 اشلوک یا تو اندر سے متعلق ہیں یا ان کو معنون ہیں۔
اس رگ وید کے ایک اشلوک میں کہا گیا ہےکہ اے اندرا! جنگ میں آریائی میزبان کی حفاظت کرتے ہیں۔ اپنے عقیدت مندوں کی کئی طریقوں سے حفاظت کرنے والے اندر تمام جنگوں میں ان کی حفاظت کرتے ہیں اور خوشی دینے والی لڑائیوں میں ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ اندر نے اپنے عقیدت مندوں کی بھلائی کے لیے قربانی سے نفرت کرنے والوں کے خلاف تشدد کیا تھا۔ اندر نے کرشن نامی راکشس کی کالی کھال اتار کر اسے دریائے انشومتی کے کنارے مارا اور راکھ کر دیا۔ اندر نے تمام متشدد انسانوں کو تباہ کر دیا۔
اسی طرح رگ وید میں لکھا ہے – گمتوجوں نے اس اندر کی جس نے راجا رجیشوا کی دوستی کی وجہ سے کرشن راکشس کی حاملہ بیویوں کو مار ڈالا تھا، ان تعریف کی کہ وہ اپنے دائیں ہاتھ میں وجر اختیار کرتے ہیں۔ تحفظ کے خواہشمند ہم اسی اندر کو ماروتوں (ہوا)کے ساتھ پکارتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اندر کے ساتھ کرشن کی دشمنی ویدک دور سے شروع ہوئی اورپرانوں کے دور تک بھی پہنچی۔ لیکن تب تک آریہ برہمن سمجھ چکے تھے کہ کرشن (کرشن بنشیوں) کو بار بار مارنے سے بات نہیں بنے گی۔ اندر ویسے بھی اب ان کا اصل راجا نہیں رہ گیا تھا۔ آریوں نے وشنو کو اپنے لیے قائم کیا۔ اس کے علاوہ اس نے شنکر اور برہما جیسے دیوتا بنائے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے دیویاں بھی خوب پیدا کیں۔ لیکن کرشن کو سب سے برتر بتایا۔ نتیجے کے طور پر، مہابھارت میں ویدویاس کرشن کے ہاتھوں اندر کی شکست کو دکھاتے ہیں۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ وہ کرشن کو مہابھارت کے ہیرو کے طور پر قائم کرتے ہیں۔
اس کے مطابق، ارجن کہتا ہے کہ آپ کی شان اور شکل کو جانے بغیر، آپ میرے دوست ہیں، بے پروائی یا محبت سے، میں نے ضد کرتے ہوئے (بغیر سوچے) کہا، اے کرشن! اے یادو! اے میرے دوست! جو کچھ اس طرح کہا گیا ہے؛ اور اے اچیوت(مستحکم)! میں نے ہنسی مذاق میں، چلتے پھرتے، سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، اکیلے یا دوستوں، گھر والوں وغیرہ کے سامنے آپ کی جو بھی بے عزتی کی؛ ان سب کے لیے میں آپ سےمعافی مانگتا ہوں۔
خیر، یہ قدیم زمانے کی بات ہوئی۔ سولہویں صدی میں تلسی داس نے اتر کانڈ کے 129 (1) میں لکھا تھا -ارے نادان دل! سن، گرے ہوئے کو بھی پاک کرنے والے شری رام کی پوجا کر کے کس نے نجات حاصل نہیں کی؟ گنیکا(طوائف)، اجامل(دیومالائی کردار)، ویادھ(جنگلی جانور کو مارنے والا)، گدھ، گج وغیرہ بہت سے پاپ کرنے والو کو شکست دی۔ آبھیر، یون، کرات، خس، شوپچ (چانڈال) وغیرہ جو کہ انتہائی گناہ گار ہیں صرف ایک بار ان کا نام لینے سے پاک ہو جاتے ہیں، میں ان شری رام جی کو سلام پیش کرتا ہوں۔
تو اصل میں یادو، جنہیں بہار میں گوالا، گوپ، اہیر وغیرہ کے ناموں سے جانا جاتا ہے، کو ہندوتوا کے رنگ میں رنگنے کی پوری کوشش کو تلسی داس بے نقاب کر دیتے ہیں۔ جہاں ایک طرف تو گیتا میں کرشن کی تعریف ہے اور دوسری طرف رامائن میں یادو لوگوں کو پاپی مانتے ہیں۔
اگر ہم آج کی بات کریں تو اس ذات کے لوگ شمالی ہندوستان کی کئی ریاستوں میں موجود ہیں۔ وہ مختلف ناموں سے جنوبی ریاستوں میں بھی ہیں۔ لیکن اتر پردیش اور بہار بہت خاص ہیں۔ ان دونوں ریاستوں میں اس ذات کے لوگوں کی آبادی زیادہ ہے۔ اتنی زیادہ کہ جمہوری سیاست میں ان لوگوں کے بغیر جمہوریت مکمل نہیں ہوتی۔
مثال کے طور پر بہار میں ان لوگوں کی آبادی سب سے زیادہ 1 کروڑ 86 لاکھ 50 ہزار 119 ہے جو کل آبادی کا 14.266 فیصد ہے۔ لیکن آبادی سے جمہوری سیاست میں کچھ نہیں ہوتا۔ ویسے بھی جمہوریت نے اس ملک میں بہت سے معجزے دکھائے ہیں۔ مثال کے طور پر مایاوتی جن کا تعلق دلت برادری سے ہے، اتر پردیش کی وزیر اعلیٰ بنیں۔ وہیں بہار میں رابڑی دیوی کو وزیر اعلیٰ بننے کا موقع ملا۔
یہ بھی درست ہے کہ اس بڑی آبادی کے اپنے فوائد اور نقصانات بھی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف گوتروں کی تقسیم نے ان لوگوں کی ایکتا کو ختم کر دیا ہے، جس کی وجہ سے یہ لوگ بڑی آبادی ہونے کے باوجود بڑی سیاسی قوت نہیں بن پا تے۔ اب آپ اسی بات سے سمجھ لیجیے کہ بہار میں کرمی ذات کے لوگوں کی آبادی صرف 37 لاکھ 62 ہزار 969 ہے اور اس ذات سے آنے والے نتیش کمار دسمبر 2005 سے وہاں اقتدار کی چوٹی پر بیٹھے ہیں۔
تاہم ذات پات پر مبنی مساوات کے دباؤ کی وجہ سے آج انہیں تیجسوی یادو کو اپنا حلیف بنانا پڑا ہے، جو سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد اور رابڑی دیوی کے بیٹے ہیں۔
تاہم یہ بھی سچ ہے کہ بہار اور اتر پردیش کی سیاست ان لوگوں کے بغیر نہ پہلے مکمل تھی اور نہ آج ہے۔ بہار میں بی پی منڈل پہلے شخص تھے جو یادو ذات سے تعلق رکھتے تھے اور وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ ان کے بعد داروگا پرساد رائے رہے۔ بعد میں لالو پرساد نے بھی 1990 سے 1997 تک اور 1997 سے 2005 تک رابڑی دیوی نےبہار پر حکومت کی۔
وہیں اتر پردیش میں سیاست کے میدان میں رام نریش یادو سے لے کر ملائم سنگھ یادو اور اکھلیش یادو تک کے نام لیے جا سکتے ہیں، جبکہ برہمنوں کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے والے پیریار للئی سنگھ یادو آج بھی اہمیت رکھتے ہیں، جنہوں نےتمام محروم برادریوں میں بیداری پیدا کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ وہ شمالی ہندوستان میں پہلے شخص تھے جنہوں نے پیریار کی کلاسک تصنیف ‘رامائن: اے ٹرو ریڈنگ’ کا ہندی میں ‘سچی رامائن’ کے عنوان سے ترجمہ شائع کرکے سماجی تحریک کو ایک نئی سمت دی۔
لیکن یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ اس ذات کے لوگ پیریار للئی سنگھ یادو کی راہ پر نہیں چل رہے ہیں۔ وہ اب محض حکمران ذات میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ تاہم یہ بھی سچ ہے کہ سماج اور سیاست دونوں میں انہوں نے اعلیٰ ذاتوں کی اجارہ داری کو سخت ترین چیلنج دیا ہے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ اعلیٰ ذات والے انہیں ‘کرشن’ کے نام پر دھوکہ دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)