ذات کا تعارف: دی وائر نے بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ سولہواں حصہ دھنیا کمیونٹی کے بارے میں ہے۔
دھنیا روئی دھنتے ہیں۔ یہی ان کا پیشہ ہے۔ اب بھی دیہاتوں میں اس کمیونٹی کے لوگ دھنوہی اور جستہ کندھوں پر اٹھائے ہوئے نظر آ جاتے ہیں۔ دھنوہی میں تانت کی ایک مضبوط ڈوری ہوتی ہے جو جانوروں کی آنت کو خشک کرکے بنائی جاتی ہے۔ اس پر وہ جستہ کو مارتے ہیں اور روئی دھنتے ہیں۔ یہ روایتی پیشہ بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ لوگ ان کے ذریعے دھنی گئی روئی کو کئی طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔ دھاگے روئی سے ہی بنتے ہیں اور کپڑے دھاگوں سے بنتے ہیں۔ توشک، لحاف اور تکیہ وغیرہ میں بھی روئی ہی استعمال ہوتی ہے۔
یہ مسلمان ہیں۔ لیکن اشراف نہیں۔ آپ چاہیں تو ان کو پسماندہ مسلمان مان لیں۔ یا اگرچاہیں تو انہیں پسماندہ کہہ سکتے ہیں۔ لیکن بتا دوں کہ اس ذات سے تعلق رکھنے والے ٹیپو سلطان کی بے مثال بہادری ہندوستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی گئی ہے۔ اب جو لوگ ٹیپو سلطان کے نام پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں ، وہ یہ بات جانتے ہیں کہ ٹیپو سلطان کی رگوں میں شرمن روایت کے پنجارہ یا دھنیا کا خون بہتا تھا۔
ہندوؤں میں دھنیا ضرور ہوئے، لیکن انہوں نے یہ فن دھنیا (مسلمان) سے سیکھا۔ جہاں تک ان کی اصل کا تعلق ہے تو وہ یہاں کے نہیں ہیں۔ وہ بنیادی طور پر فارس (آج کا ایران) اور افغانستان کے باشندے ہیں۔ لیکن اب ان کی کئی نسلیں اس ملک میں زندگی گزار چکی ہیں۔
پہلے انہیں دھنیا نہیں پنجارہ کہا جاتا تھا۔ کام وہی تھا، جو آج ہے۔ ہندوستان میں اس ذات کی شناخت کے لیے پنجارہ، منصوری اور دھنیا وغیرہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ جیسے گجرات کے لوگ منصوری کہلاتے ہیں۔ تاہم منصوری اتر پردیش اور بہار میں بھی بڑی تعداد میں رہے۔ چاہے وہ بہار کے گیا کا علاقہ ہو یا بھاگلپور اور اس کے آس پاس کے اضلاع۔ اس ذات کے لوگوں کے لیے مشرقی اتر پردیش سب سے خاص تھا۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جب کبیر زندہ رہے ہوں گےتب کتنے خوبصورت دن رہے ہوں گے۔ اگرچہ کبیر جلاہا تھے، لیکن تب دھنیا لوگ بھی کبیر کو اپنا گرو (استاد) مانتے تھے۔ کبیر سے ہی متاثر ایک فرقہ ہے رادھاسوامی فرقہ۔ دھنیا لوگوں اس فرقے کوبھی مانا۔ اس کا ثبوت شیو دیال سنگھ کا یہ کلام ہے—
دھن دھن ڈالوں اب من کو
میں دھنیا ست گرو چرنن کو..
من کپاس صورت کر روئی….
اس ذات کے لوگوں کا مذہب سے بہت گہرا تعلق رہا ہے۔ فارسی صوفی منصور حلاج اس کی ایک مثال ہے، جو خود بھی بُنکر ہی تھے۔ بالکل کبیر کی طرح۔ ان کے ماننے والوں کو ہی منصوری کہا جاتا ہے۔ تاریخ میں اس کے دستاویز ملتے ہیں کہ ان کا پہلا ٹھکانہ گجرات بنا۔
تاہم، کچھ اور کہانیاں ہیں جو ان دنوں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے لوگوں کی طرف سے پھیلائی جا رہی ہیں کہ پنجارہ ذات اسی ہندوستان کے لوگوں کی ایک ذات رہی ہے اور وہ ہندو تھے۔ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ اصل میں راجستھان کے ہیں۔
لیکن دعووں سے قطع نظر ہندوستان کے آئین کے مطابق کہیں تو یہ پسماندہ طبقے میں شامل مسلمان ہیں اور اس وقت بھی سماج کی بے توجہی کا شکار ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ صرف بہار میں ان کی تعداد 1868192 ہے۔ اب تک اکثر پارٹیوں نے اس ذات کو نظر انداز کیا ہے۔
(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)