بہار کی ’ووٹ بندی‘: آرہ کی فیملی ووٹر لسٹ سے غائب، 74 سالہ سابق ٹیچر کو مردہ قرار دیا گیا

بہار میں ووٹر لسٹ کی اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر) کے عمل میں تضادات اور خامیوں کے دعووں کے درمیان یہ بات سامنے آئی ہے کہ ڈرافٹ لسٹ میں آرہ کی ایک 74 سالہ سابق ٹیچر کو مردہ قرار دے کر ان کا نام فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ ساتھ  ہی اسی وارڈ میں ہونے کے باوجود ان کےتین بیٹوں کے نام  کو'ٹرانسفر' بتایا گیا ہے۔

بہار میں ووٹر لسٹ کی اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر) کے عمل میں تضادات اور خامیوں کے دعووں کے درمیان یہ بات سامنے آئی ہے کہ ڈرافٹ لسٹ میں آرہ کی ایک 74 سالہ سابق ٹیچر کو مردہ قرار دے کر ان کا نام فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ ساتھ  ہی اسی وارڈ میں ہونے کے باوجود ان کےتین بیٹوں کے نام  کو’ٹرانسفر’ بتایا گیا ہے۔

سابق ٹیچرمیری  ٹوپپو اپنے بیٹے کلیرنس ٹوپپو کے ساتھ۔ (تمام تصویریں: آشوتوش کمار پانڈے)

آرہ: بہار میں اسمبلی انتخابات سے چند ماہ قبل الیکشن کمیشن  کی جانب سے ووٹر لسٹ کی اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر) نوٹیفیکیشن کےبعدسے تنازعات میں ہے۔ بے ضابطگیوں کے الزامات اس وقت بھی لگائے گئے جب یہ عمل جاری تھا اور ڈرافٹ ووٹر لسٹ جاری ہونے کے بعد بھی رائے دہندگان  کے ناموں کو حذف کرنے اور تضادات کے معاملے مسلسل سامنے آرہے ہیں۔

اس سلسلے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس ڈرافٹ لسٹ میں بھوجپور ضلع ہیڈکوارٹر آرہ کے وارڈ نمبر 10 میں رہنے والے ایک خاندان کے کئی افراد کے نام ووٹر لسٹ سے ہٹا دیے گئے ہیں۔ یہی نہیں، آرہ میں واقع  مونٹیسری اسکول کی ٹیچررہیں  74 سالہ میری ٹوپپو کو ڈیلیشن لسٹ میں مردہ قرار دیا گیا ہے، جبکہ ان کے تین بیٹوں 40 سالہ چندن ٹوپپو، 38 سالہ کلیرنس ٹوپپو اور 36 سالہ البرٹ ٹوپپو کے نام ٹرانسفر لسٹ میں ڈالے دیےگئے ہیں۔

تضادات اور بے ضابطگیوں کی فہرست یہیں ختم نہیں ہوتی۔ میری  ٹوپپو کی صنف کو تبدیل کرتے ہوئے انہیں  مرد اعلان کر دیا گیا ہے۔ ان کے آنجہانی شوہر سلویسٹر ٹوپپو کا نام ان کے والد کے طور پر درج کیا گیا ہے اور میری  کی عمر کو دس سال کم کرتے ہوئے 64 کر دیا گیا ہے۔

میری ٹوپپو، جنہیں ایس آئی آر مہم کے دوران مردہ قرار دیا گیا ہے، دی وائر سے کہتی ہیں، ‘میں زندہ ہوں، لیکن حکومت نے مجھے مردہ قرار دے دیا ہے۔ اگر فہرست شائع نہ ہوتی تو ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا۔ جبکہ میں نے گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں ووٹ ڈالا تھا اور میرے پورے خاندان نے ووٹنگ میں حصہ لیا تھا۔’

میری ٹوپپو کے بیٹے کلیرنس ٹوپپو بتاتے ہیں،’جب میں نے بوتھ لیول ایجنٹ (بی ایل او) سے پوچھا کہ میری والدہ کو کیسے مردہ قرار دیا گیا تو اس نے کہا کہ عمر کی بنیاد پر انہیں مردہ قرار دیا گیا ہے۔’

کلیرنس ٹوپپو کا کہنا ہے کہ ، ‘ایس آئی آرکے عمل کے دوران  بی ایل او نہ تو ہمارے گھر آیا اور نہ ہی کسی سے رابطہ کیا۔ فہرست کا کام مکمل ہونے کے بعد  نام شائع کیے گئے ، لیکن ہم نے اس وقت توجہ نہیں دی۔ بعد میں جب بوتھ پر نئی فہرست چسپاں کی گئی، تو میرے دوست ابھیشیک دویدی نے مجھے بتایا کہ میرا نام ‘منتقل شدہ’ اور میری والدہ کا نام ‘مردہ’ کے طور پر نظر آ رہا ہے۔ پھر ہمیں جانکاری ملی۔ اس کے بعد ، بی ایل او گھر آیا اور ہمارے کاغذات لےکر گیا۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ہمارے نام شامل کیے جائیں گے۔’

کلیرنس کا مزید کہنا ہے کہ ‘جب میں نے بی ایل او سے پوچھا کہ آپ نے پہلے مجھ سے رابطہ کیوں نہیں کیا تو بی ایل او نے کہا کہ سابق وارڈ کونسلر نے مجھے پہچاننے سے انکار کر دیا تھا اور موجودہ کونسلر نے بھی میری شناخت کی تصدیق نہیں کی، اس لیے میرا اور میرے خاندان کا نام ہٹا دیا گیا۔’

مسودہ فہرست میں مریم ٹوپپو کو ‘مردہ’ اور ان کے بیٹے کو ‘منتقل شدہ’ قرار دیا گیا ہے۔

میری ٹوپپو مزید کہتی ہیں،’سلویسٹر ٹوپپو سے شادی کے بعد تقریباً 50 سال سے آرہ میں رہ رہی ہوں۔ مونٹیسری اسکول کے طلبہ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں۔ لوگ مجھے پہچانتے ہیں۔ میں صحت مند ہوں، میں آپ سے بات کر رہی ہوں، لیکن ووٹر لسٹ میں میری موت ہو چکی ہے۔’

کلیرنس کے دوست ابھیشیک دویدی کا کہنا ہے کہ ‘ڈیلیشن لسٹ شائع ہونے کے بعد میں یادو ودیا پیٹھ پلس ٹو ہائی اسکول کے بوتھ نمبر 223 پر گیا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ کلیرنس کا نام ‘منتقل شدہ’ دکھایا گیا تھا اور ان کی والدہ کا نام ‘مردہ’ دکھایا گیا تھا۔ پھر میں نے کلیرنس کو بتایا۔’

اس معاملے پر جب وارڈ نمبر 12 کے کونسلر ابھے سریواستو عرف ببلو سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے فون پر کہا، ‘بی ایل او میرے پاس فہرست لے کر آیا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ وہ اپنی سطح پر تحقیقات کرے۔ ہو سکتا ہے کسی نے کہا ہو کہ کلیرنس کی ماں نہیں ہیں، اس لیے بی ایل او نے انہیں مرنے والوں کی فہرست میں جوڑ دیا۔’

دریں اثنا ، بل ایل او ونود کمار یادو کا کہنا ہے کہ ، ‘میری ٹوپپو کے نام  میں شوہر کی جگہ باپ لکھا تھا اور ان کی عمر 74 سال درج  تھی۔ مقامی سطح پر ان کی شناخت کی تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے انہیں مردہ قرار دیا گیا۔ ‘

واضح ہے کہ بغیر کسی تحقیقات کے بل ایل او نے ایک بزرگ  خاتون کو مردہ قرار دیا اور ان کے بیٹوں کو بھی ووٹرلسٹ  سے ہٹا دیا۔

سنیئرادیب کے  ڈی سنگھ کا نام بھی فہرست سے غائب

ڈرافٹ لسٹ میں اور بھی مسائل ہیں۔ ہندی اور بھوجپوری کے سینئر ادیب اور آرہ کے چندوا کے رہنے والے 87 سالہ ڈاکٹر کے ڈی سنگھ کا نام نہ تو ووٹر لسٹ میں ہے اور نہ ہی ڈیلیشن لسٹ میں۔

کے ڈی سنگھ نے ہندی اور بھوجپوری میں درجن بھر کتابیں لکھی ہیں اور رگ وید کا بھوجپوری میں ترجمہ بھی کیا ہے ۔

وہ کہتے ہیں ، ‘جب نظرثانی کا پروگرام چل رہا تھا تو ، بی ایل او آیا  تھااور آدھار کارڈ لے گیا تھا۔ لیکن ڈرافٹ لسٹ میں میرا نام نہیں ہے۔  سپریم کورٹ کے احکامات پر ڈیلیشن لسٹ نکلی، اس میں بھی میرا نام نہیں ہے۔ جبکہ میری بیوی 85 سال یشودا دیوی کا نام لسٹ میں ہے۔’

آرہ کے چندوا کے رہائشی 87 سالہ ڈاکٹر کے ڈی سنگھ کا نام نہ تو ووٹر لسٹ  میں ہے اور نہ ہی ڈیلیشن لسٹ میں۔

اپنی لکھی ہوئی کتابیں دکھاتے ہوئے کے ڈی سنگھ کہتے ہیں، ‘میں نے 1961 میں انڈین پوسٹل سروس میں نوکری شروع کی اور جنوری 1998 میں ریٹائر ہوا۔ اس کے بعد سے میں کتابیں شائع کر رہا ہوں۔ حکومت عام آدمی کو پریشان کر رہی ہے۔ شناخت ثابت کرنے کے لیے بار بار دستاویز دکھانے پڑتے ہیں۔ کبھی نوٹ بندی، کبھی ووٹ بندی، عام آدمی پریشان ہے۔’

‘میں اور میری بیوی یہاں رہتے ہیں ، بچے باہر ہیں۔ نام چیک کرنے کے لیے کسی کو بلانا پڑتا ہے۔ ہم نے 2024 لوک سبھا انتخابات میں اسی فہرست سے ووٹ دیا تھا۔ اتنی جلدی گڑبڑی کیسے ہو گئی؟ اگر ووٹر لسٹ  کو درست کرنا ہے تو ، توصحیح طریقے سے کریں ، عجلت میں سب خراب ہوجائے گا۔ ‘

وہ کہتے ہیں، ‘ووٹر لسٹ کو درست کرنے کا موجودہ عمل جلد بازی کا ہے۔ بی ایل اودوبارہ آیا تھا، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ اب وہ کیا کرے گا۔ میرے پاس نوکری اور پنشن کے کاغذات ہیں، لیکن جن بزرگوں نے نوکری نہیں کی، ان کے پاس  توکوئی کاغذنہیں ہو گا۔’

انہوں نے اس عمل میں آدھار کارڈ کو شامل کرنے کے سپریم کورٹ کے حکم کی تعریف کی۔

کے ڈی سنگھ کی لکھی ہوئی کتابیں۔

بی ایل او پریشان

اب جب ڈرافٹ لسٹ میں اصلاح کی آخری تاریخ جاری ہے تو ، لوگوں میں افراتفری  کا ماحول ہے۔ ایک بی ایل او نے  نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ‘ اتنے کم  وقت میں ہر گھر جانا اور رائے دہندگان کی تصدیق کرنا بہت مشکل ہے۔ صحت بھی خراب ہو رہی ہے۔ رات بھر کام کرنا پڑتا ہے۔ الیکشن کمیشن کو زیادہ وقت دینا چاہیے تھا۔ ‘

(آشوتوش کمار پانڈے ایک آزاد صحافی ہیں۔)