سشانت سنگھ راجپوت کی موت کے معاملے کی جانچ سی بی آئی، ای ڈی اور نارکوٹکس کنٹرول بیورو کر رہے ہیں اور تینوں ہی مرکزی حکومت کےماتحت ہیں۔ مرکز اور بہار میں این ڈی اے کی ہی سرکار ہے۔ ایسے میں سوال ہے کہ ‘جسٹس فار سشانت سنگھ راجپوت’ہیش ٹیگ چلاکر بہار میں بی جے پی جسٹس کس سے مانگ رہی ہے؟
بی جے پی کلچرل ونگ کی طرف سے ‘جسٹس فار سشانت سنگھ راجپوت’کےہیش ٹیگ والاا سٹیکر۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر)
بہار سے تعلق رکھنے والے بالی ووڈ اداکار سشانت سنگھ راجپوت کی موت کو لےکر جس طرح بہار کی این ڈی اے سرکار جذباتی ماحول بنانے میں جی جان سے مصروف تھی اورعوامی جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اس نے معاملے کی جانچ سی بی آئی سے کرانے کی سفارش کر دی تھی،یہ اندیشہ پہلے سے تھا کہ بہار اسمبلی انتخاب میں اس مدعے کو بھنایا جائےگا۔
سنیچر کو بی جے پی کےآرٹ اورکلچرل ونگ کی طرف سے ‘
جسٹس فار سشانت سنگھ راجپوت’ہیش ٹیگ والا کارا سٹیکر اور سشانت کی تصویر والا ماسک جاری کر کےاس اندیشے کی تصدیق کر دی گئی۔اسٹیکر میں سشانت کا ہنستا ہوا چہرہ ہے اور دائیں طرف لکھا گیا ہے نہ بھولے ہیں، نہ بھولنے دیں گے۔
بی جے پی کے آرٹ اورکلچرل ونگ نے سشانت کی تصویر والا 25 ہزار کارا سٹیکر اور 30 ہزار ماسک بنوائے ہیں، جسے عام لوگوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ونگ کے کنوینر ورون کمار سنگھ کا کہنا ہے کہ کارا سٹیکر اور ماسک پچھلے کچھ وقت سے تقسیم کیے جا رہے ہیں، لیکن لوگوں کی نظر ابھی پڑی ہے۔
سشانت کی موت کے معاملے کوبہار اسمبلی انتخاب میں بی جے پی ترجیح کے ساتھ بھنانا چاہتی ہے اور اس کی مہم کار اسٹیکر اور ماسک تک ہی محدود نہیں ہے۔پارٹی نے سشانت کی زندگی پر ویڈیو بھی تیار کیا ہے، جس کو جلد ہی سوشل میڈیا پر جاری کیا جائےگا۔
ورون کمار سنگھ نے بتایا کہ وہ شروع سے ہی سشانت کو انصاف دلانے کی مہم کا حصہ رہے ہیں اور بی جے پی رہنما روی شنکر پرساد، سشیل کمار مودی اور رام کرپال یادو کو سشانت کی فیملی سے ملنے کو تیار کیا تھا۔سنگھ کے مطابق، سشانت کا مدعا ان کے لیےسیاسی نہیں بلکہ جذباتی ہے۔
بہار بی جے پی کے ترجمان ڈاکٹر نکھل آنند نے بھی اسے جذبات کامظہر قرار دیا۔ انہوں نے ٹوئٹ کیا،‘بہار بی جے پی کے آرٹ اورکلچرل ونگ نے سشانت کی یادوں کو سنبھالنے اورزندہ رکھنے کے لیےکئی منصوبے بنائے ہیں، جس کا خیر مقدم ہوناچا ہیے۔سشانت کے لیے ہمارے ان فن کاروں کے جذبات کوپیش کرنے کا اپنا طریقہ ہے، جس کوسیاسی رنگ دینا بالکل غلط ہے۔’
اصل سوالوں سے بچنے کے لیے جذباتی مدعے کا سہارا
سشانت سنگھ راجپوت کی موت کے مدعے کو بی جے پی بھنانا چاہتی ہے، تو یہ اچانک نہیں ہوا ہے۔ اس کے لیے ماحول بنانے کی مہم سشانت کی موت کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔سشانت کی موت کے ساتھ ہی بی جے پی حامی سوشل میڈیا پیج اور سوشل میڈیا پر اثر رکھنے والے لوگ اس میں لگ گئے تھے۔ ہر دوسرے دن سشانت سے جڑے کچھ جذباتی ویڈیو سوشل میڈیا پر گھومنے لگتے تھے۔
پھر دھیرے دھیرے اسے بہاری وقاراور شان سے جوڑا گیا۔ اسی بیچ سشانت راجپوت کے والد کے کے سنگھ نے پٹنہ کے ایک تھانے میں ایف آئی آر درج کرا دی۔اصول کے مطابق ہونا یہ چاہیے تھا کہ پٹنہ پولیس معاملے کو ممبئی پولیس کے حوالے کر دیتی، لیکن ڈی جی پی گپتیشور پانڈے نے ایسا نہیں کیا بلکہ جانچ ٹیم کو ممبئی بھیج دیا۔
ممبئی پولیس اور بہار پولیس میں کھینچ تان شروع ہو گئی، تو بہار سرکار نے معاملے کی جانچ سی بی آئی سے کرانے کی سفارش کر دی۔ مرکزی حکومت نے بھی معاملے کے میرٹ پرغور کیے بنا ہی اسے سی بی آئی کے سپرد کر دیا۔سشانت کیس کی جانچ سی بی آئی کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ(ای ڈی)مالی ہیراپھیری کے الزامات کی تفتیش کر رہی اور اب ڈرگس سے جڑے معاملے میں نیشنل نارکوٹکس کنٹرول بیورو کی بھی انٹری ہو گئی ہے۔
تینوں ہی جانچ ایجنسیاں مرکزی حکومت کے ماتحت آتی ہیں،مرکزاور ریاست میں این ڈی اے کی سرکار ہے۔ ایسے میں سوال ہے کہ ‘جسٹس فار سشانت سنگھ راجپوت’ہیش ٹیگ چلاکر بہار میں بی جے پی کس سے جسٹس مانگ رہی ہے؟دراصل، بی جے پی کو لگ رہا ہے کہ بہار کی عوام میں سشانت کو لےکر ایک جذباتی ماحول بنا ہوا ہے اور صرف سشانت کی تصویر دکھاکر اور یہ بتاکر کہ سی بی آئی جانچ کراکر سشانت کو انصاف دلایا جا رہا ہے، ان کا ووٹ لیا جا سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ انتخاب میں اس مدعے کوزورشور سے رکھنے کی حکمت عملی تیار کر چکی ہے۔لیکن، سوال یہ ہے کہ 15 سال تک بہار میں سرکار چلا چکی بی جے پی اسمبلی انتخاب میں سشانت راجپوت کی موت کو مدعا کیوں بنا رہی ہے؟
اس سوال پر سیاسی مبصرین ڈی ایم دواکر دی وائر سے کہتے ہیں،‘دراصل بی جے پی کی سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت سشانت کے معاملے کو طول دیا جا رہا ہے۔ جذباتی مدعے ہمیشہ سے بی جے پی کو فائدہ پہنچاتے رہے ہیں۔ ابھی کورونا کو لےکرسرکار کا کام کاج گھیرے میں ہے۔ ملک کی جی ڈی پی منفی ہو گئی ہے، بہار لوٹے مہاجر مزدوروں کو کام نہیں مل رہا ہے۔ بےروزگاری عروج پر ہے۔ آدھا بہار سیلاب کی چپیٹ میں ہے۔ ان سارے مدعوں پر بی جے پی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے، اس لیے وہ سشانت کا مدعا اچھال رہی ہے۔’
وہ آگے کہتے ہیں،‘سشانت کا مدعا اٹھاکر بی جے پی ووٹروں کو حق کے ساتھ یہ کہہ سکتی ہے کہ اس کی سرکار بہاری وقار کا خیال رکھتے ہوئے سی بی آئی سے جانچ کرا رہی ہے۔’بی جے پی جس طریقے سے سشانت کے مدعے کو انتخابی مہم کا اہم حصہ بنا رہی ہے، اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں بی جے پی کے بڑے رہنما بھی اپنی ریلیوں میں سشانت کے مدعے کو اٹھائیں گے۔
ایسے میں اپوزیشن پارٹیوں کے سامنے دو طرح کےچیلنج ہیں۔ اول تو اسے پبلک کے ذہن میں سشانت کی جگہ بےروزگاری، غریبی، سیلاب، کورونا سے لڑنے میں سرکار کی کمزور تیاری جیسے مدعے ڈالنے ہوں گے اور دوسرا یہ کہ بی جے پی کو بھی مجبورکرنا ہوگا کہ وہ سشانت کے مدعے سے ہٹ جائے۔
کیا ہوگا اپوزیشن کا رخ
جان کار مانتے ہیں کہ سشانت کے مدعے پر اپوزیشن پارٹیوں نے اگر بڑھت لے لی ہوتی، تو آج بی جے پی اس مدعے کو لےکر بیک فٹ پر چلی جاتی۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں نے سشانت کے مدعے پر کبھی دھیان نہیں دیا۔
جب سشانت سنگھ راجپوت کی موت ہوئی تھی، تو تیجسوی یادو ان رہنماؤں میں شامل تھے، جنہوں نے سب سے پہلے ان کی فیملی سے ملاقات کرکےانصاف دلانے کی مانگ اٹھائی تھی، لیکن سی بی آئی کے پاس معاملہ جانے کے بعد اپوزیشن نے اس مدعے کو چھوڑ دیا۔
آرجے ڈی کےسینئر رہنما رام چندر پوروے دی وائر سے بات چیت میں کہتے ہیں،‘ہمارے رہنما تیجسوی یادو نے شروع میں ہی سشانت کی موت کی جانچ سی بی آئی سے کرانے کی مانگ کی تھی۔ یہی نہیں، انہوں نے راج گیر میں زیرتعمیرفلم سٹی کا نام سشانت سنگھ راجپوت کے نام پر رکھنے کی بھی مانگ کی تھی۔ ہماری پوری ہمدردی اورتعزیت سشانت سنگھ راجپوت کے اہل خانہ کے ساتھ ہے۔’
وہ آگے کہتے ہیں،‘ہم بہار کی عوام کے جذبات کی بھی عزت کرتے ہیں، لیکن ہم بےروزگاری، غریبی، کو رونا، سیلاب وغیرہ کو مدعا بنانا چاہتے ہیں۔ مہاجر مزدور کے مدعے پر سی ایم نتیش کمار پوری طرح ایکسپوزہو گئے اور آخرکار تیجسوی یادو کی مانگ مانتے ہوئے وہ انہیں بہار لانے کو تیار ہوئے۔ ہم ان مدعوں پر انتخاب لڑیں گے۔’
کانگریس کے سینئر رہنماکوکب قادری سشانت کیس کو سیاسی مدعا بنانے پر بی جے پی کی تنقید کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں،‘سشانت سنگھ راجپوت بہار کی شان تھے۔ پسماندگان کے ساتھ ہماری پوری ہمدردی ہے، لیکن بی جے پی جس طرح اسے سیاسی مدعا بنا رہی ہے، وہ افسوس ناک ہے۔’
قادری نے کہا، ‘سشانت کا معاملہ اب سی بی آئی کے حوالے ہے اور وہ جانچ کر رہی ہے۔ ایسے میں بی جے پی کی طرف سے اسے سیاسی مدعا بنا دینے سےانصاف کی راہیں مسدودہوں گی۔ اصل بات یہ ہے کہ بی جے پی بےروزگاری، غریبی، کو رونا جیسے اہم مدعوں کو بھٹکانا چاہتی ہے، اس لیے سشانت راجپوت کے معاملے کو اچھال رہی ہے، لیکن ہم بےروزگاری، غریبی جیسے مدعے پر مضبوطی سے سوال اٹھائیں گے۔’
دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں نے مانا کہ انہیں سشانت کے معاملے کو انتخابی مدعا بناناغیر مناسب لگا، اس لیے سی بی آئی کے پاس جانچ جانے کے بعد انہوں نے اس مدعے کو اور طول نہیں دیا۔
کوکب قادری نے اس سے انکار کیا کہ لوگ سشانت کے نام پر بی جے پی کو ووٹ دے دیں گے۔ انہوں نے کہا، ‘عوام اب اتنی بھولی نہیں رہی کہ جذباتی مدعوں پر ووٹ ڈال دےگی۔ وہ دیکھ رہی ہے کہ اس کے پاس روزگار نہیں ہے۔ کورونا سے وہ پریشان ہے۔ وہ بی جے پی کے بہکاوے میں نہیں آنے والی۔’
حالانکہ ڈی ایم دواکر بھی یہ مانتے ہیں کہ اپوزیشن پارٹی بالخصوص تیجسوی یادو کی طرف سے روزگار، غریبی، سیلاب جیسے مدعے اٹھانا سہی قدم ہے۔
ان کا کہنا ہے، ‘تیجسوی یادو اگر ان مدعوں کو اٹھا رہے ہیں، تو یہ اچھی بات ہے۔ لیکن، جتنی کوشش ابھی ہو رہی ہے، وہ ناکافی ہے۔ اپوزیشن کو ان مدعوں کو گہرائی سے اٹھانا ہوگا اور لوگوں تک پہنچنا ہوگا۔ اگر وہ دھاردار طریقے سے یہ مدعے اٹھائےگا، تو فائدہ ہوگا۔’
راجپوت ووٹ بینک پر نظر
بہار میں راجپوت ووٹ بینک 5 فیصد کے آس پاس ہے۔ بہار کی اشرافیہ میں بی جے پی کو لےکر کچھ حد تک ناراضگی برقرار ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اب بھی 15 سال پہلے کی لالو سرکار کے مبینہ ‘جنگل راج’ کا باربار ذکر کرتی ہے تاکہ اشرافیہ کا ووٹ بی جے پی کو مل جائے۔
سشانت سنگھ راجپوت کے مدعے کو انتخابی مدعا بنانے کے پیچھے راجپوت ووٹ بینک بھی ایک وجہ ہے۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ سشانت کیس کوصرف راجپوت کمیونٹی ہی بہاری وقار اور شان سے جوڑکر نہیں دیکھ رہی ہے، بلکہ دوسری برادریوں میں بھی سشانت کو انصاف دلانے کے لیے جذباتی طوفان اٹھا ہوا ہے۔
ایسے میں بی جے پی کو نہ صرف راجپوت ووٹ بلکہ دوسری کمیونٹی کا ووٹ ملنے کی بھی امید ہے۔کل ملاکر دیکھا جائے، تو بی جے پی سشانت کے مدعے کے ذریعے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی تیاری میں ہے۔ ایسے میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا اپوزیشن پارٹیاں عوام کوبنیادی مدعوں کی طرف کھینچ کر انتخاب کا رخ موڑ پاتی ہے کہ نہیں۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)