بہار: بی جے پی ایم پی سے تنازعہ کے بعد لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کے معاملے میں گرفتار پپو یادو جیل بھیجے گئے

بہار کے سارن سے بی جے پی ایم پی راجیو پرتاپ روڈی کے ایم پی فنڈ سے خریدے گئے درجنوں ایمبولینس کےکورونا مہاماری کے باوجود استعمال نہیں کیے جانے کے معاملے کو اجاگر کرنے والے سابق ایم پی پپو یادو کو پولیس نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کے سلسلےمیں حراست میں لینے کے بعد 32 سال پرانے زیرالتوا معاملے میں عدالتی حراست میں بھیج دیا۔ ریاستی سرکار کے اس قدم کو این ڈی اے میں شامل رہنماؤں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

بہار کے سارن سے بی جے پی ایم پی راجیو پرتاپ روڈی کے ایم پی فنڈ سے خریدے گئے درجنوں ایمبولینس کےکورونا مہاماری کے باوجود استعمال نہیں کیے جانے کے معاملے کو اجاگر کرنے والے سابق ایم پی پپو یادو کو پولیس نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کے سلسلےمیں حراست میں لینے کے بعد 32 سال پرانے زیرالتوا معاملے میں عدالتی  حراست میں بھیج دیا۔ ریاستی  سرکار کے اس قدم کو این ڈی اے  میں شامل رہنماؤں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

سابق ایم پی پپو یادو۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

سابق ایم پی پپو یادو۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: بہار کے ایک بی جے پی ایم پی راجیو پرتاپ روڈی کےایم پی فنڈ سے خریدے گئے درجنوں ایمبولینس کے کورونا مہاماری کے باوجود استعمال نہیں کیے جانے کو اجاگر کر حال ہی میں سرخیوں میں آئے سابق ایم پی راجیش رنجن عرف پپو یادو کو منگل کو پٹنہ میں پولیس نے مہاماری ایکٹ اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے معاملے میں حراست میں لے لیا۔

اس کے بعد شام میں سال1989 کے ایک پرانے زیر التوامعاملے میں جاری وارنٹ پر انہیں عدالتی  حراست میں مدھے پورہ ضلع  بھیج دیا گیا۔پپو یادو کے حامیوں نے الزام لگایا ہے کہ انہوں نے حال ہی میں سارن کے بی جے پی ایم پی راجیو پرتاپ روڈی کے ایک کیمپس میں کورونا مہاماری کے باوجود بنا استعمال ہوئے چھپاکر رکھے گئے بڑی تعداد میں ایمبولینس کے معاملے کو اجاگر کیا تھا، اس لیے انہیں پریشان کیا جا رہا ہے۔

پٹنہ شہر کے مندری واقع رہائش سے منگل صبح کوپپو یادو کو عدالتی حراست میں لےکر گاندھی میدان تھانہ لے جایا گیا۔پولیس کے ذریعےگرفتار کر گاندھی میدان لے جانے کے مرحلےمیں یادو نے کہا، ‘انہیں کچھ نہیں پتہ کہ کیوں لے جایا جا رہا ہے۔ گرفتاری کو لےکر سرکار سے پوچھیے۔’

مدھے پورہ سے سابق ایم پی نے الزام  لگایا کہ پہلے ہی انہیں باہر نہیں جانے دیا جا رہا تھا، لوگوں کو بچانے کا انہیں یہ انعام دیا جا رہا ہے۔پیربہور تھانہ انچارج  رضوان احمد خان نے بتایا کہ مہاماری ایکٹ اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے معاملے میں یادو کو حراست میں لیا گیا ہے۔

جن ادھیکار پارٹی کے صدر پپو یادو پر منگل صبح پٹنہ میڈیکل کالج اسپتال میں ہنگامہ کرنے اور مہاماری ایکٹ اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

منگل شام ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس(سٹی)سریش کمار نے بتایا کہ کمارکھنڈ تھانے سے جڑے سال1989 کے ایک معاملے میں مدھے پورہ سے آئی ایک پولیس ٹیم انہیں عدالتی حراست میں لےکر وہاں جا رہی ہے۔ اس معاملے میں یادو کے خلاف پہلے سے وارنٹ جاری تھا۔

امر اجالا کی رپورٹ کے مطابق، رات کے لگ بھگ 10:50 بجے 30 سے زیادہ گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ پپو یادو کو مدھے پورہ کورٹ لے جایا گیا۔ وہاں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے  ان کی پیشی ہوئی۔پیشی کے دوران یادو نے کورٹ کے سامنے اپنی بیماری کا بھی حوالہ دیا اوربہتر طبی سہولیات کی مانگ کی۔

ان کی پیشی کو لےکر بڑی تعداد میں جگہ جگہ پولیس فورس کی تعیناتی کی گئی تھی۔ پھر بھی سینکڑوں حامی  رات کے اندھیرے میں جگہ جگہ ڈٹے نظر آئے۔جوڈیشل مجسٹریٹ سر بھی شریواستو نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سابق ایم پی کو 14 دن کی عدالتی حراست میں بیرپور(سپول) جیل بھیج دیا اور بہتر علاج کے انتظام کا بھی حکم دیا۔

بتا دیں کہ مدھے پورہ سے کئی بارایم پی رہے یادو کووڈ 19 مہاماری کے دوران لگاتار مریضوں کی مدد میں لگے ہیں۔ انہوں نے ضرورت مند مریضوں کے لیے آکسیجن سلینڈر اور بستر دلانے میں بھی مدد کی ہے۔پپو یادو 2019 کے عام انتخاب میں جے ڈی دیورہنما دنیش چندر یادو سے ہار گئے تھے۔

پپو یادو کی بیوی رنجیت رنجن نے الزام  لگایا،‘یہ لوگ گرفتاری کے نام پرسازش  کر رہے ہیں۔ ان کی جان کو بھی خطرہ  ہے۔ اگر گرفتاری کے دوران ان کے ساتھ کچھ بھی اونچ نیچ ہوتا ہے جس کا مجھےاندیشہ  ہے، اس کی پوری ذمہ داری این ڈی اےسرکار اور وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو لینی پڑےگی۔’

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس مہاماری کے شروع ہونے کے بعد سے ایک رہنما ہونے کے ناطے وہ (یادو) اپنے گھر پریوار کو چھوڑکر لگاتار لوگوں کی مدد میں لگے ہوئے تھے پر سازش کے تحت انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔

کیا ہے معاملہ

پپو یادو کی گرفتاری کے بعد جن ادھیکار پارٹی کے حامیوں  نے الزام لگایا کہ یادو کو پریشان کیا جا رہا تھا، کیونکہ انہوں نے حال ہی میں سارن کے بی جے پی ایم پی راجیو پرتاپ روڈی کے کیمپس میں کورونا مہاماری کے باوجود بنا استعمال ہوئے چھپاکر رکھے گئے بڑی تعداد میں ایمبولینس کے معاملے کو اجاگر کیا تھا۔

ایم پی روڈی نے اس کو لےکر پپوکو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے صفائی دی تھی کہ کووڈ 19کی وجہ سےڈرائیور کے بغیر ان سب گاڑیوں  کو چلانا ممکن نہیں ہو پا رہا ہے جس کے لیے انہوں نے مقامی  سطح پر اشتہار بھی نکالا تھا اور سارن کے ضلع مجسٹریٹ  کو خط  لکھ کرگزارش کی تھی کہ ضلع میں جتنے بھی ایسے ڈرائیور ہیں، جو گاڑی  کی کمی کی وجہ سے اس کام کو نہیں کر پا رہے ہیں، ان کی فہرست  بناکر بلاتاخیردستیاب کراتے ہوئے انہیں ایمبولینس کے ڈرائیور کے طور پرمقرر کیا جائے۔

روڈی کے پارلیامانی حلقہ واقع  ایک ٹریننگ سینٹر میں کھڑی ان ایمبولینس معاملے میں ان سے ملے چیلنج کا کرارا جواب دیتے ہوئے پپو یادو نے 40 لائسنس ہولڈر ڈرائیور کھڑے کر دیےاور کہا کہ بہار سرکار کوجہاں بھی ایمبولینس ڈرائیور کی ضرورت ہو وہ  لے جائیں۔

اس کے بعد یادو نے ایک اور ویڈیو جاری کر دعویٰ کیا تھا کہ راجیو پرتاپ روڈی کے کے ذریعےایم پی فنڈ سے خریدے گئے ایمبولینس سے بالو ڈھویا جا رہا ہے اور اس کے لیے ان کے پاس ڈرائیور بھی موجود ہیں۔

اپوزیشن  کے ساتھ جے ڈی دیواوربی جے پی کے رہنما بھی بھڑکے، روڈی کا استعفیٰ  اور یادو کی رہائی کی مانگ

پپویادو کی لاک ڈاؤن کے معاملے میں گرفتاری کی اپوزیشن  ہی نہیں، بلکہ بہار میں مقتدرہ این ڈی اے کے رہنماؤں کے ساتھ صوبے کےوزیروں  نے بھی سخت تنقید کی ہے۔

ہندستان کی رپورٹ کے مطابق، اپوزیشن  پارٹی سی پی آئی ایم ایل کے ریاستی سکریٹری  کنال نے پپو یادو کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کے دور میں ریاستی سرکار خود فیل ہے، لیکن جو کچھ لوگ مریضوں کی خدمت میں اترے ہوئے ہیں، انہیں بھی پریشان کیا جا رہا ہے۔

سابق وزیر اعلیٰ  اور بہار میں این ڈی اے کی اتحادی پارٹی ہندوستانی عوام مورچہ کے بانی صدرجیتن رام مانجھی نے پپو یادو معاملے پر ٹوئٹ کیا،‘کوئی عوامی نمائندہ  اگر دن رات عوام کی خدمت کرے اور اس کےعوض  میں اسے گرفتار کیا جائے، یہ واقعہ انسانیت کے لیے خطرناک ہے۔ ایسے معاملوں کی پہلے عدالتی جانچ ہو تب ہی کوئی کارووائی ہونی چاہیے نہیں تو عوامی غصے کا  ہونا لازمی ہے۔’

مانجھی کے بیٹے سنتوش سمن نتیش کمار سرکار میں وزیر ہیں۔

نتیش کابینہ میں شامل ایک دیگر وزیر اور وکاس شیل انسان پارٹی کےبانی صدرمکیش سہنی نے ٹوئٹ کیا،‘عوام کی خدمت  ہی مذہب ہونا چاہیے۔ سرکار کو عوامی نمائندہ ،سماجی ادارے اورکارکن  کوعوام کی  مدد کے لیے راغب  کرنا چاہیے۔ عوامی نمائندہ  کو بھی کورونا گائیڈ لائن پرسختی سے عمل  کرتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔ ایسےوقت میں خدمت  میں لگے پپو یادو کو گرفتار کرنا غیر سنجیدگی ہے۔’

آج تک کی رپورٹ کے مطابق، بیگوسرائے کے سابق ایم پی اور نتیش کمار کے قریبی جے ڈی یورہنما مناظر حسن نے کہا کہ پپو یادو کی گرفتاری کی جتنی مذمت  کی جائے وہ کم ہے، وہ غریبوں کے مسیحا کے طور پار کام کر رہے تھے۔

مناظر حسن نے کہا کہ گرفتاری تو چھپرا کے ڈی ایم اور راجیو پرتاپ روڈی کی ہونی چاہیے تھی۔ مصیبت کے وقت میں  جب پپو غریبوں کی مدد کر رہے تھے، تب ان کی گرفتاری بے حد ہی قابل مذمت ہے۔

سندیش کے سابق ایم ایل اے اور جے ڈی یورہنما وجییندریادو نے پپو یادو کی گرفتاری کو غلط بتاتے ہوئے کہا کہ انسانیت کی بنیاد پر راجیو پرتاپ روڈی کو ایک منٹ بھی ایم پی رہنے کاحق  نہیں ہے، پپو یادو کو انسانیت کی بنیاد پر سرکار کو چھوڑنا چاہیے، ایمبولینس معاملے کی جانچ کر ڈی ایم کو برخاست اور ایم پی کا استعفیٰ  کرانا چاہیے۔

بی جے پی سے ایم ایل سی رجنیش کمار نے بھی پپو یادو کی گرفتاری کو افسوسناک  بتاتے ہوئے انہیں فوراً رہا کیے جانے کی مانگ کی ہے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)

Next Article

چھتیس گڑھ پولیس نے محمد زبیر کے خلاف پاکسو کیس میں کلوزر رپورٹ داخل کی

چھتیس گڑھ پولیس نے فیکٹ چیکر محمد زبیر کے خلاف  2020 میں ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے لیےپاکسوایکٹ کے تحت درج معاملے کو بند کر دیا ہے۔ اس کے بعد زبیر نے کہا ہے کہ ‘سچائی کو پریشان کیا جا سکتا ہے، لیکن شکست نہیں دی جا سکتی!’

محمد زبیر۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@zoo_bear)

نئی دہلی: چھتیس گڑھ پولیس نے آلٹ نیوز کے فیکٹ چیکراور صحافی محمد زبیر کے خلاف پاکسو ایکٹ کے تحت درج کیس میں کلوزر رپورٹ داخل کی ہے۔ ریاستی حکومت نے حال ہی میں چھتیس گڑھ ہائی کورٹ کو یہ جانکاری دی۔

یہ کیس  2020 میں زبیر کی طرف سے ایکس (سابقہ ​​ٹوئٹر) پر کی گئی پوسٹ کے سلسلے میں  درج کیا گیا تھا۔

لائیو لا کے مطابق، چھتیس گڑھ حکومت کے وکیل نے چیف جسٹس رمیش سنہا اور جسٹس اروند کمار ورما کی بنچ کے سامنے یہ جانکاری دی۔

اب عدالت نے زبیر کی درخواست نمٹا دی ہے، جس میں انہوں نے ان کے خلاف درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کی استدعا کی تھی۔ ایف آئی آر انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 67، تعزیرات ہند کی دفعہ 509بی  اور پاکسو ایکٹ کی دفعہ 12 کے تحت درج کی گئی تھی۔

کیاتھا معاملہ؟

زبیر نے ایکس پر 2020 میں جگدیش سنگھ نامی شخص کو ٹیگ کرتے ہوئے ایک پوسٹ کی تھی۔ انہوں نے سنگھ سے پوچھا تھا کہ کیا سوشل میڈیا پر گالی گلوچ کرنا ان کے لیے درست ہے، خاص طور پر جب ان کی پروفائل تصویر میں ان کی پوتی دکھائی دے رہی تھی۔

زبیر نے پوسٹ میں لکھا تھا: ‘ہیلو جگدیش سنگھ، کیا آپ کی پیاری پوتی کو معلوم ہے کہ آپ سوشل میڈیا پر لوگوں کو گالیاں  دیتے ہیں؟ میرا مشورہ ہے کہ آپ اپنی پروفائل تصویر تبدیل کرلیں۔’

اس پوسٹ میں زبیر نے لڑکی کے چہرے کو دھندلا کر دیا تھا،اس کے باوجود جگدیش سنگھ نے نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس سے شکایت کی تھی۔

اس کے بعد نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس نے اس سلسلے میں دہلی اور رائے پور پولیس کو خط لکھا، جس کے بعد رائے پور پولیس نے ایف آئی آر درج کی۔ زبیر نے اس ایف آئی آر کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔

عدالت کا فیصلہ

اکتوبر 2020 میں ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ زبیر کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہ کی جائے۔ 2024 میں، عدالت نے جگدیش سنگھ کو ایکس پر زبیر سے معافی مانگنے کا حکم دیا۔

زبیر کا بیان

گزشتہ 2 اپریل 2024 کو زبیر نے ایکس  پر لکھا : ‘اس معاملے میں، نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کے سابق چیئرمین پریانک قانون گو نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا اور میرے خلاف پروپیگنڈہ  چلایا۔ انہوں نے دہلی اور رائے پور پولیس کو خط لکھ کر دعویٰ کیا کہ میرا ٹوئٹ ایک نابالغ لڑکی کو ہراساں کرنے والا تھا۔ لیکن گزشتہ سال دہلی کی عدالت نے شکایت کنندہ کو مجھ سے سر عام معافی مانگنے کا حکم دیا تھا۔ اور اب چھتیس گڑھ پولیس نے کلوزر رپورٹ درج کر کے مجھے بے قصور قرار دیا ہے۔’

زبیر کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کل 10 ایف آئی آر درج ہیں، جن میں سے اب دو کو خارج کر دیا گیا ہے۔ اس موقع پر وہ لکھتے ہیں، ‘سچ پریشان ہو سکتا ہے، لیکن شکست نہیں دی جا سکتی۔ انصاف کی جیت ہوتی  ہے!’

قابل ذکر ہے کہ محمد زبیر نے حکومت اور بی جے پی کے گمراہ کن دعوے کو بے نقاب کرنے والے فیکٹ چیکنگ  رپورٹس شائع کی ہیں، جس کی وجہ سے وہ ہندوتوا کے حامیوں اور پروپیگنڈہ چلانے والوں کے نشانے پر رہتے ہیں۔ اتر پردیش پولیس نے ان کے خلاف ہیٹ اسپیچ دینے والے یتی نرسنہانند سے متعلق پوسٹ کرنے پر بھی ان کے خلاف کیس  درج کیا ہے ۔

Next Article

گزشتہ پانچ سالوں میں حکومت نے مغلیہ دور کی صرف پانچ عمارتوں سے 548 کروڑ روپے سے زائد کی آمدنی حاصل کی

پارلیامنٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، اتر پردیش میں تاج محل، نئی دہلی میں قطب مینار اور لال قلعہ، مہاراشٹر میں آگرہ قلعہ اور رابعہ درانی کا مقبرہ سیاحوں کے لیے پانچ مقبول  ترین مغل یادگار ہیں۔ 20-2019 سے 2023-24 تک کی مدت میں حکومت نے ان پانچ مقاما ت میں ٹکٹوں کی فروخت سے 548 کروڑ روپے کمائے ہیں۔

نئی دہلی: سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ ملک کے سابق مسلم حکمرانوں کے ذریعے تعمیر کردہ پانچ مقبول ترین  یادگاروں سے گزشتہ پانچ سالوں میں مرکزی حکومت کو سینکڑوں کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی ہے ۔

گزشتہ 3 اپریل کو وزارت ثقافت کی جانب سے پارلیامنٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، اتر پردیش میں تاج محل، نئی دہلی میں قطب مینار اور لال قلعہ، مہاراشٹر میں آگرہ قلعہ اور رابعہ درانی کا مقبرہ سیاحوں میں مغلوں کی پانچ سب سے مقبول ترین یادگاریں ہیں۔

سال 2019-20 سے 2023-24 تک کی پانچ سالہ مدت کے دوران مرکزی حکومت نے ان پانچ یادگاروں پر ٹکٹوں کی فروخت سے 548 کروڑ روپے کمائے،اس کے علاوہ متعلقہ شعبوں میں ہزاروں لوگوں کے لیے براہ راست اور بالواسطہ روزگار بھی پیدا ہوئے ۔

اطلاعات کے مطابق، آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے سال 2023-24 میں آگرہ شہر میں تمام محفوظ یادگاروں کی دیکھ بھال پر 23.52 کروڑ روپے خرچ کیے، جبکہ اس سال صرف تاج محل کے ٹکٹوں کی فروخت سے 98.5 کروڑ روپے آمدنی ہوئی۔

سری نگر کے ایک سماجی کارکن راجہ مظفر بھٹ نے کہا، ‘ایسے وقت میں جب مغل حکمرانوں کا بی جے پی لیڈروں کے ذریعے مذاق اڑایا جا رہا ہے، وہی حکومت ان کے مقبروں اور تاریخی مقامات سے بھاری آمدنی حاصل کر رہی ہے۔ یہ منافقت ان  کے دوہرے کردار کو بے نقاب کرتی ہے۔ ‘

معلومات کے حق (آر ٹی آئی) کے تحت ایک درخواست میں انکشاف ہوا ہے کہ 2019-20 اور 2023-24 کے درمیان پانچ سالوں میں 2.2 کروڑ سیاحوں نے اتر پردیش کے آگرہ شہر میں واقع اوریونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ اور ملک میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی مغل یادگار تاج محل کا دورہ کیا، جس سے 297.33 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔

سری نگر کے ایم ایم سجا کی جانب سے دائر ایک آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں اے ایس آئی نے بتایاہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے وزیر اعظم کے طور پر حلف لینے کے ایک سال بعد سال 2015 سے ستمبر 2024 کے آخر تک  تاج محل میں ٹکٹوں کی فروخت سے 535.62 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی ہے۔

اے ایس آئی، جو مرکزی وزارت ثقافت کے تحت آتا ہے، تاج محل دیکھنے کے لیے گھریلو سیاحوں سے 50 روپے وصول کرتا ہے، جبکہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے یہ فیس 1100 روپے ہے۔ تاج محل کے مرکزی مقبرے کو دیکھنے کے لیے تمام سیاحوں کو الگ ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے جس کی قیمت 200 روپے ہے۔

یہ عمارت 17ویں صدی کے مغل بادشاہ شاہجہاں نے اپنی اہلیہ ممتاز محل کی یاد میں بنوائی تھی۔ تاج محل 1632 اور 1648 کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا اور اسے دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

بی جے پی کے کئی رہنمااور ہندوتوا تنظیم بغیر کسی ثبوت کے دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ تاج محل ایک ہندو مندر تھا جو شاہجہاں کے دور سے بہت پہلے بنایا گیا تھا۔ تاہم، اے ایس آئی نے ان دعووں کو مسترد کیا ہے ۔

قابل ذکر  ہے کہ 4 اپریل 2023 کو آسام کے بی جے پی ایم ایل اے روپ جیوتی کرمی نے کہا تھا کہ انہوں نے پی ایم مودی سے سفارش کی تھی کہ تاج محل کو گرا کر اس کی جگہ مندر بنایا جائے۔

قطب مینار ملک کی دوسری مقبول ترین مغل عمارت

پارلیامنٹ میں پیش کیے گئے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، قطب مینار ملک میں مغلوں کی دوسری مقبول ترین یادگار ہے، جسے پانچ سال کے عرصے میں 92.13 لاکھ سیاحوں نے دیکھا، جس سے 63.74 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔

اگر 2014 سے پچھلے پانچ سالوں کا اوسط لگایا جائے تو جنوبی دہلی کے مہرولی علاقے میں قطب الدین ایبک اور شمس الدین التمش کی تعمیر کردہ 12ویں صدی کی یادگار نے دس سالوں میں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو ٹکٹوں کی فروخت سے تقریباً 178.08 کروڑ روپے کی آمدنی حاصل کی ہے۔

ماضی میں وشو ہندو پریشد نے دعویٰ کیا تھا کہ قطب مینار ایک ‘وشنو استمبھ (ستون)’ ہے، اور حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ قطب مینار کمپلیکس میں ہندو ڈھانچے کو دوبارہ تعمیر کیا جائے، جنہیں ‘یادگار بنانے کے لیے منہدم کر دیا گیا تھا۔’

لال قلعہ، جہاں وزیر اعظم ہر سال یوم آزادی پر ترنگا جھنڈا لہراتے ہیں اور اس کی فصیل سے قوم سے خطاب کرتے ہیں، ملک میں مغلوں کی تیسری مقبول ترین یادگار ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، پانچ سال کی مدت میں تقریباً 90 لاکھ سیاحوں نے لال قلعہ کا دورہ کیا، جس سے 54.32 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔

مغل شہنشاہ شاہجہاں نے 1639 میں تعمیر کیا تھا، اس تاریخی قلعے سے اے ایس آئی  نے  2014 سے اوسطاً دس سال کے تخمینہ کے مطابق، ٹکٹوں کی فروخت سے تقریباً 140 کروڑ روپے کی آمدنی حاصل کی ہے۔

آگرہ قلعہ، جو یونیسکو کا عالمی ثقافتی ورثہ بھی ہے، ملک میں مغلیہ  دور کی چوتھی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی یادگار ہے، جس کا دورہ 2019-2020 سے 2023-2024 تک 69.61 لاکھ سیاحوں نے کیا، جس سے 64.84 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔

اے ایس آئی کے اعداد و شمار کے مطابق، 1565 میں مغل شہنشاہ اکبر کی طرف سے تعمیر کردہ اس قلعہ میں  مودی کے اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد 2015 سے لے کر ستمبر 2024 تک تقریباً دو کروڑ سیاح آئے، جس سے کل 178.83 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔

آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں اے ایس آئی نے کہا کہ حکومت نے قلعہ میں کم از کم 35 لوگوں کو ملازمت دی ہے۔

اورنگ آباد، مہاراشٹر میں واقع رابعہ درانی کا مقبرہ ملک میں پانچویں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی مغل یادگار ہے۔ یہ مقبرہ 1660 میں مغل بادشاہ اورنگزیب کے بیٹے اعظم شاہ نے اپنی والدہ دلرس بانو بیگم کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔

بی بی کا مقبرہ کے نام سے مشہور اس مقبرے کو سال 2019 سے 2024 تک 42.14 لاکھ سیاحوں نے دیکھا اور اس عرصے میں 68.51 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔

آر ٹی آئی درخواست میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ اے ایس آئی قومی دارالحکومت دہلی میں کم از کم ایک درجن مرکزی طور پر محفوظ مغل یادگاروں کا انچارج ہے۔

ان میں خان خانہ، سلطان گڑھی مقبرہ، تغلق آباد قلعہ، ہمایوں کا مقبرہ، حوض خاص قلعہ، صفدر جنگ مقبرہ، کوٹلہ فیروز شاہ اور پرانہ قلعہ شامل ہیں، جن سے پانچ سال کے عرصے میں ٹکٹوں کی فروخت سے مجموعی طور پر 42 کروڑ روپے سے زائد کی کمائی ہوئی ہے۔

اگرچہ مغلوں کی یادگاروں نے سرکاری خزانے میں اہم حصہ ڈالا ہے،  لیکن بی جے پی اور پارٹی سے وابستہ ہندوتوا گروپوں نےاپنی  اکثریتی سیاست کے تحت ملک کے سابق اسلامی حکمرانوں پر مسلسل ‘لوٹ کھسوٹ ‘ کا الزام لگایا ہے۔

حزب اختلاف کی جماعتوں نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی مغلوں کی تعمیر کردہ یادگاروں کو گرانے کی سازش کر رہی ہے، جنہوں نے 1526 سے 1857 تک برصغیر کے بیشتر حصوں پر حکومت کی تھی۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

آر ٹی آئی بمقابلہ پرائیویسی: حکومت کیا چھپانا چاہتی ہے؟

حکومت ہند کے ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ  سے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کو کمزور کیے جانے کا خدشہ ہے۔ اس نئے قانون کی ایک دفعہ آر ٹی آئی ایکٹ میں براہ راست ترمیم کرتی ہے، جس سے سرکاری ایجنسیوں کو معلومات چھپانے کے لیے مزید چھوٹ مل سکتی ہے۔ اس بارے میں ٹرانسپرینسی ایکٹوسٹ  انجلی بھاردواج سے بات چیت۔

Next Article

ٹرمپ کاٹیرف وار: ہندوستان کی اقتصادی خودمختاری کے لیے خطرہ؟

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دنیا بھر کے ممالک پر بھاری ٹیرف عائد کر  دیا ہے۔ اس کا اثر نہ صرف عالمی تجارت پر پڑ سکتا ہے بلکہ کئی طرح  کی اقتصادی سرگرمیوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔ ہندوستان کی معیشت پر اس کے اثرات کے حوالے سے دی وائر کے بانی مدیر ایم کے وینو سے تبادلہ خیال کر رہے ہیں دی وائر ہندی کے مدیر آشوتوش بھاردواج۔

Next Article

ہندوستان کا نیا وقف قانون: مسلمانوں کے حقوق پر شب خون

ایسی حکومت، جس کے پاس ایک بھی مسلم رکن پارلیامنٹ نہیں، مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے راگ الاپتی ہے، جبکہ اس کا سیاسی ڈھانچہ نفرت انگیز تقاریر، حاشیے پر ڈالنے والی پالیسیوں اورمسلمانوں کو قانونی جال میں جکڑنے کی مہم چلا رہا ہے۔

غالباً 2018 میں جب جموں و کشمیر کے گورنر نریندر ناتھ ووہرا کی مدت ختم ہو رہی تھی دہلی میں ان کے ممکنہ جانشین کے بطور ریٹائرڈ لیفٹنٹ جنرل سید عطا حسنین کا نام گردش کر رہا تھا۔ جنرل حسنین جو سرینگر میں موجود فوج کی چنار یا 15 ویں کور کے کمانڈر رہ چکے تھے، کے کشمیر میں بطور گورنر کی ممکنہ تعیناتی پر میں چونک سا گیا تھا۔

ان ہی دنوں انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں سر راہ ملاقات کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ اس خبر کا ماخذ کیا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ نہایت ہی اعلیٰ ذرائع سے ان کو بتایا گیا ہے کہ وہ اس عہدے کے لیے تیار رہیں۔

میں نے ان سے کہا، چاہے وہ کتنے ہی سیکولر کیوں نہ ہوں، ان کا نام مسلمانوں جیسا ہے، اس لیے  وہ اس عہدہ کے تقاضوں پر پورے نہیں اترتے ہیں۔ اب ان کے چونکنے کی باری تھی۔میں نے بتایا کہ جموں و کشمیر کا گورنر ویشنو دیو ی شرائن بورڈ اور امرناتھ شرائن بورڈ کا چیئرمین بھی ہوتا ہے۔

ان دونوں تیرتھ استھانوں کے ایکٹ میں واضح طور پر درج ہے کہ اس کا چیئرمین ایک ہندو ہی ہوسکتا ہے۔ یہی ہوا کہ چند رو ز بعد ایک ہندو ستیہ پال ملک کو گورنری کی دستار تفویض کی گئی۔ یعنی ایک مسلم اکثریتی خطہ ہونے کے باوجود جموں و کشمیر کا گورنر یا لیفٹنٹ گورنر مسلمان نہیں ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ ہندو استھانوں کے انتظام و انصرام کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے۔

ستم ظریفی دیکھیے ابھی حال ہی میں ہندوستانی پارلیامنٹ نے سو سال قدیم مسلم وقف قانون کو رد کرکے ایک نیا قانون پاس کرکے اس میں یہ لازم قرار دیا کہ مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈذ کے بیشتر اراکین غیر مسلم ہونے چاہیے۔

سابقہ قانون کے تحت دونوں اداروں کے تمام اراکین کا مسلمان ہونا ضروری تھا۔اب اس میں غیر مسلم اراکین کی لازمی شمولیت متعین کر دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ مرکزی وقف کونسل میں 22 میں سے 12 اراکین غیر مسلم ہو ں گے اور ریاستی وقف بورڈز میں 11 میں سے 7 اراکین غیر مسلم ہو سکتے ہیں۔چار مسلم اراکین میں دو خواتین کا ہونا لازمی ہے۔

ان اراکین اور چیئرمین کو اب حکومت نامزد کرےگی۔ نیز ریاستی وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کا بھی مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے۔وقف جائیدادوں کے تنازعوں کا نپٹارا کرنے کے لیے قائم  وقف ٹربیونل میں مسلم ماہر قانون کی موجودگی لازمی ہوتی تھی۔

اب ٹربیونل صرف ایک موجودہ یا سابقہ ڈسٹرکٹ جج اور ایک ریاستی افسر پر مشتمل ہوگا۔ مہاراشٹرا میں شری سائی بابا ٹرسٹ کا قانون کہتا ہے کہ جو افسر وہاں کام کرے گا اسے سائی بابا کا عقیدت مند ہونا چاہیے اور اسے ڈیکلریشن دینا پڑتا ہے۔

اسی طرح دیگر ہندو یا دیگر مذاہب کے مٹھوں یا عبادت گاہوں کے انتظام ا انصرام کےلیے اسی مذہب کا ہونا لازمی ہے، تاکہ وہ دل و جان اور عقیدہ کے ساتھ اس ادرارے کی خدمت کرسکے۔

یہ نیا قانون کس قدر متعصبانہ حد تک ظالمانہ ہے کہ اس کی ایک اور شق کے مطابق اب صرف ایسا شخص ہی  وقف یا اسلامی مذہبی و فلاحی مقاصد کے لیے زمین یا جائیداد عطیہ کر سکتا ہے، جو کم از کم پانچ سال سے با عمل مسلمان ہونے کا ثبوت پیش کرے گا۔

وہ دینداری کا ثبوت کیسے فراہم کرے گا اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ کیا کسی سند کی ضرورت ہوگی یا علماء کی تصدیق درکار ہوگی؟ اور یہ فیصلہ کون کرے گا کہ وہ پچھلے پانچ سال سے باعمل مسلمان ہے یا اسلام پر عمل پیرا ہونے کا معیار کیا ہے؟

یعنی یہ قانون غیر مسلموں کو وقف بورڈز میں شامل ہونے اور اس کا انتظام و انصرام چلانے کی اجازت دیتا ہے، مگر اگر وہ وقف کے کاموں کے لیے عطیہ دینا چاہیں گے، تو اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔

تنگ نظری اور تعصب کی عینک پہن کر بنایا گیا یہ قانون تضاد ات کا عجیب مجموعہ ہے۔ اسی طرح اگر کوئی متولی وقف جائیداد بیچتا ہے تو پہلے دو سال کی سزا تھی،اس کو اب چھ ماہ کر دیا گیا ہے۔

پہلے یہ جرم ناقابل ضمانت (نان بیل ایبل) تھا، اس کو  قابل ضمانت (بیل ایبل) بنا دیا گیا ہے۔اگر کسی جائیداد پر حکومت اور وقف بورڈ کا تنازعہ ہے، تو اب وہ وقف نہیں مانی جائے گی۔ کلکٹر ایسے معاملات میں اپنی رپورٹ ریاستی حکومت کو دے گا اور مالکانہ ریکارڈ میں تبدیلی کرے گا۔

دارالحکومت دہلی کے سینٹرل گورنمٹ آفس کمپلکس کا بیشتر حصہ جس میں خفیہ ایجنسی راء سمیت سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن سمیت کئی سرکاری اداروں کے صدر دفاتر وقف کی زمینوں پر تعمیر کیے گئے ہیں، اب ہمیشہ کے لیےوقف کی دسترس سے باہر ہو گئے ہیں۔

ایک بار انٹرویو کے دوران مسلم لیڈر اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے رکن مرحوم جاوید حبیب نے  مجھے کہا تھا کہ بابری مسجدکی شہادت کا سانحہ اس خطے کی جدید تاریخ کے پانچ بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔

پہلا 1857ء کی جنگ آزادی، دوسرا 1920ء میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں کانگریس کا نیا آئین اور سوراج کا مطالبہ، تیسرا 1947ء میں تقسیم ہند اور آزادی، چوتھا 1971ء میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا‘اور پانچواں 1984ء میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پرحملہ اور 1992ء میں بابری مسجد کا انہدام‘ جو دراصل اعتماد کا انہدام تھا۔

اگر وہ زندہ ہوتے تو ریاست جموں و کشمیر کی 2019میں خصوصی حیثیت کے خاتمہ اور اب 2025میں صدیوں سے مسلمانوں کی طرف سے وقف کی گئی زمینوں، جائیدادوں، جن سے مساجد، مدرسے اورمتعدد تعلیمی اور رفاعی ادارے چلتے ہیں، کے مالکانہ حق پر شب خون مارنے، کو بھی اس فہرست میں شامل کردیتے۔

بقول سابق رکن پارلیامنٹ محمد ادیب بابری مسجد تو بس ایک عبادت گاہ تھی، اب تو  اس نئے وقف قانون سے ہندوستان کی سبھی مساجد و درگاہوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے ۔

پچھلی دو دہائیوں سے سکھ اکثریتی صوبہ پنجاب سے اکثر خبریں آتی تھیں کہ مقامی سکھ خاندان یا کسان اپنے علاقوں میں1947سے غیر آباد مساجد کو دوبارہ آباد کرانے یا نئی مساجد بنانے کے لیے اپنی زمینیں بطور عطیہ دے رہے ہیں۔ اس طرح کے کم و بیش دو سو سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

چونکہ اس صوبہ میں مسلم آبادی ہی ایک فیصد سے کم ہے، اس لیے مسلمان ا ن مساجد کو آباد کر ہی نہیں سکتے ہیں، کیونکہ اکثر دیہی علاقوں میں دور دور تک  ان کی آبادی ہی نہیں ہے ۔ رواں برس کے اوائل میں ہی ضلع مالیرکوٹلہ کے ایک گاؤں عمرپورہ میں سکھجندر سنگھ نونی اور ان کے بھائی اوینندر سنگھ نے مسجد کی تعمیر کے لیے کئی ایکڑ زرعی زمین وقف کر دی۔

ا ن کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کے گاؤں میں آباد مسلمان گھرانوں کے  پاس عبادت کے لیے کوئی مسجد نہیں تھی، اس لیے انہوں نے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے یہ زمین عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ دیگر سکھوں تجونت سنگھ اور رویندر سنگھ گریوال نے مسجد کی تعمیر میں مالی معاونت فراہم کی۔

وہ ریاست جہاں مسلمانوں کی آبادی محض 1.9 فیصد ہے اور جہاں 1947 میں خونریز فسادات ہوئے تھے، اب ایک خاموش انقلاب، یعنی فرقہ وارانہ رواداری کی نقیب بنی ہوئی ہے ۔

اسی طرح جٹوال کلاں نامی سکھ اکثریتی گاؤں میں، جہاں مشکل سے درجن بھر مسلم گھرانے آباد ہیں، ایک نئی مسجد تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ یہ سب سکھوں کی زمین اور مالی عطیات کی بدولت ممکن ہوا۔

اب نئے وقف قانون کی رو سے پنجاب میں سکھ خاندانوں کی جانب سے مسلمانوں کے لیے عطیہ کی گئی سینکڑوں زمینیں  کاالعدم یا غیر قانونی قرار پائیں گی۔ایک سکھ سرپنچ کے مطابق اگر یہ قانون پہلے سے نافذ ہوتا تو وہ مسجد بنانے میں مدد نہیں کرسکتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ  یہ معاملہ صرف عطیہ کا نہیں، بلکہ مشترکہ زندگیوں کا ہے  اور حکومت ایسی یکجہتی کی راہ میں کیسے رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں وقف کی 8لاکھ72ہزار جائیدادیں ہیں، جن میں زرعی اور غیر زرعی زمینیں، ایک لاکھ سے زائد مساجد، مکانات اور تیس ہزار کے قریب درگاہیں شامل ہیں۔ جن میں سے 7 فیصد پر قبضہ ہے، 2 فیصد مقدمات میں ہیں اور 50 فیصد کی حالت نامعلوم ہے۔ 2013میں منموہن سنگھ کی قیادت میں کانگریسی حکومت نے وقف پراپرٹی پر قبضوں کے خلاف جو سخت قانون بنایا تھا، اس کی وجہ سے21 لاکھ ایکڑ کی زمین واگزار کرائی گئی تھی۔

اس طرح وقف کی ملکیتی زمینیں 18لاکھ ایکڑ سے 39لاکھ ایکڑ تک بڑھ گئی تھیں۔ ہندو فرقہ کو لام بند کرنے کے لیے ایک پروپیگنڈہ کیا گیا کہ مسلمانوں نے زمینوں پر قبضہ کیا ہوا ہے اور ساتھ ہی یہ ابہام بھی پھیلایا گیا کہ ہندوستان میں ریلوے اور محکمہ دفاع کے بعد سب سے زیادہ جائیداد وقف کی ہے۔

حالانکہ سچ یہ ہے کہ صرف چار ریاستوں تامل ناڈو، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور اڑیسہ میں ہندو مٹھوں و مندروں کے پاس 10لاکھ ایکڑ اراضی ہے۔ اگر اس میں دیگر ریاستیں، خاص طور پر شمالی ہندوستان کی اترپردیش اور بہار کو شامل کیا جائے تو یہ وقف کے پاس موجود اراضی سے کئی گنا زیادہ ہوں گی۔  اسی طرح مسیحی برادری بھی ہر شہر میں پرائم پراپرٹی کی مالک ہے۔

سیاسی تجزیہ کار سنجے کے جھا نے دی وائر میں لکھا کہ یہ قانون دراصل فرقہ وارانہ شکوک پیدا کرنے کی بڑی سازش کا حصہ ہے، جسے حکومت عوام کی بھلائی کے نام پر پیش کر رہی ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی حکومت کا یہ دعویٰ کہ اس نے وقف بل مسلمانوں کی فلاح کے لیے لایا ہے، آزاد ہندوستان کی تاریخ کا بدترین سیاسی فریب ہے۔

اس جھوٹ کو بیچنے کا جو حوصلہ حکومت نے دکھایا ہے وہ ناقابل یقین ہے۔ان کا مقصد مسلمانوں کو تنہا اور الگ تھلگ کرنا ہے۔ اس قانون کے اثرات پنجاب سے کہیں آگے تک  ہیں۔ پورے ہندوستان میں اب بین المذاہب خیرات شک کی نگاہ سے دیکھی جاے گی۔

کوئی ہندو یا سکھ اگر کسی مسلم وقف ادارے کو عطیہ دینا چاہے تو پہلے اُسے مذہب تبدیل کرنا ہوگا اور پانچ سال انتظار کرنا پڑے گا۔ یوں خیرات کا جذبہ سرکاری دھندلکوں میں الجھ کر رہ جائےگا۔

ایسی حکومت، جس کے پاس ایک بھی مسلم رکن پارلیامنٹ نہیں، مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے راگ الاپتی ہے، جبکہ اس کا سیاسی ڈھانچہ نفرت انگیز تقاریر، حاشیے پر ڈالنے والی پالیسیوں اورمسلمانوں کو قانونی جال میں جکڑنے کی مہم چلا رہا ہے۔

عمر پورہ اور جٹوال کلاں جیسے دیہاتوں میں سکھ اور مسلمان آج بھی مل کر بستیاں بساتے ہیں۔ مگر قانون کی نظر میں اب ان کی محبت اور بھائی چارہ قابلِ گرفت بھی ہو سکتی ہے۔

اسی طرح اب کسی بھی زمین کو وقف تسلیم کرنے کے لیے اس کی باضابطہ رجسٹریشن اور متعلقہ دستاویزات درکار ہوں گی۔

اب اگرسلاطین، تغلق یا مغل دور میں کوئی زمین وقف ہوئی ہو، اس کے دستاویزات کہاں سے لائیں جائیں گے۔ جموں و کشمیر وقف بورڈ کے اعداد و شمار کے مطابق، اس کے زیرِ انتظام 3300  جائیدادیں تقریباً 32000 کنال (تقریباً 4000 ایکڑ) زمین ہے۔

تاہم ایک بڑا حصہ—خصوصاً خانقاہیں، امام بارگاہیں، لنگر گاہیں اور قبرستان—ابھی تک غیر دستاویزی یا جزوی طور پر رجسٹرڈ ہیں۔

دیہی کشمیر میں ان مقامات کی بنیاد کئی نسلیں پہلے رکھی گئی تھی، اور انہیں رسمی قانونی طریقہ کار کے بجائے کمیونٹی کے مسلسل استعمال کے ذریعے سند حاصل ہوئی تھی۔ ”استعمال کے ذریعے وقف“  یعنی ”وقف بائی یوز“کی شق کے خاتمے کے بعد، یہ مقامات اب دوبارہ درجہ بندی، تنازعے یا حتیٰ کہ دوبارہ استعمال کے خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ قانونی تحفظ، جو کبھی تسلسل اور اجتماعی یادداشت سے حاصل ہوتا تھا، اب مکمل طور پر تحریری دستاویزات پر منحصر ہو گیا ہے۔

تاریخی طور پر کشمیر میں —جیسے کہ برصغیر کے بیشتر حصوں میں —مذہبی اور فلاحی زمینیں اکثر باہمی اعتماد اور زبانی معاہدوں کی بنیاد پر قائم ہوتی تھیں۔ جہاں بزرگ کسی درخت تلے نماز پڑھنے بیٹھتے، وہاں مسجد وجود میں آجاتی؛ جہاں کسی گاؤں کے پہلے شہید کو دفنایا جاتا، وہاں قبرستان بن جاتا؛ اور جہاں کوئی صوفی اپنی جائے نماز بچھاتا، وہاں خانقاہ کی بنیاد پڑتی۔

‘استعمال کے ذریعے وقف’ کا اصول ایسے مقامات کو قانونی حیثیت دیتا تھا، چاہے کوئی تحریری ثبوت موجود نہ ہو۔نیا قانون محض کوئی سرکاری ضابطے کی تبدیلی نہیں بلکہ ایک گہری تہذیبی تبدیلی ہے۔

کشمیر کے بیشتر علاقوں میں بے شمار قبرستان، خانقاہیں اور دینی مدارس مقامی افراد، محلوں یا گاؤں کی کمیٹیوں کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں، جن کے پاس کوئی تحریری دستاویزات نہیں، مگر خدمت کے طویل اور بے داغ ریکارڈ ضرور ہیں

نیا قانون ان جائیدادوں پر ریاستی اداروں یا نجی ترقیاتی منصوبوں کے قبضے کا راستہ ہموار کر سکتا ہے، خصوصاً جدید کاری یا شہری منصوبہ بندی کے نام پر۔

دفعہ 370 کی منسوخی اورمرکزی انتظام کے بعد، اس اقدام کو کشمیر کے مزید ذہبی، ثقافتی اور سیاسی  زوال کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔کبھی ان جائیدادوں کا محافظ سمجھے جانے والا جموں و کشمیر وقف بورڈ اب بے دست و پا نظر آتا ہے۔

وقف ترمیمی قانون کی منظوری نے اتر پردیش میں تقریباً 98 فیصد وقف جائیدادوں کو غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔وقف کی پوری جائیدادوں کا  27فیصد حصہ اسی صوبہ میں ہے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد اب تک ریونیو ریکارڈز میں درج نہیں ہے۔

نئے قانون کے تحت وقف جائیدادوں کے فیصلے کا اختیار وقف بورڈ سے منتقل ہو کر ضلع مجسٹریٹ کے پاس اب ہوگا، جو زرعی سال 1359ھ (1952ء) کے ریونیو ریکارڈز کی بنیاد پر فیصلہ دیں گے۔  ترمیم کا اطلاق ان 57792 سرکاری جائیدادوں پر ہو گا، جو مختلف اضلاع میں پھیلی ہوئی ہیں اور مجموعی طور پر 11712 ایکڑ پر محیط ہیں۔

تیس سے زائد مسلم دانشورو ں، جن میں سابق بیوروکریٹ، یونیورسٹی اساتذہ، قانون دان، سیاستدان وغیرہ شامل ہیں نے ایک مشترکہ بیان میں شکایت کی ہے کہ پارلیامنٹ کی طرف سے وقف ایکٹ کی منظوری نے مسلم کمیونٹی کو مایوس اور الگ تھلگ کر دیا ہے۔

ان کے مطابق آئین ہند میں دیے گئے ان کے آئینی حقوق نظر انداز کر دیے گئے ہیں۔ اس عمل نے مسلم نوجوانوں میں بیگانگی کا احساس پیدا کیاہے، جو اب اپنے ملک کے سیاسی منظرنامے میں اپنی جگہ کے بارے میں سوالات اٹھا رہے ہیں۔

اس گروپ میں جس میں کئی سابق اعلیٰ فوجی افسران، جیسے لیفٹنٹ جنرل ضمیر الدین شاہ، سابق پولیس سربراہ محمد وزیر انصاری شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات دل دہلا دینے والے ہیں اوران کے  آباء و اجداد کے وژن کے بالکل برعکس ہیں، جنہوں نے جامع مشترکہ قومیت کا تصور کیا تھا جہاں تمام اقوام ہم آہنگی  کے ساتھ رہ سکیں گی۔

احتجاجی مظاہرہ میں اسد الدین اویسی۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

حیدر آباد کے ممبر پارلیامنٹ  اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی کے مطابق یہ وقف ترمیمی ایکٹ ہندوستان کے مسلمانوں کے ایمان اور عبادت پر ایک حملہ ہے۔

پارلیامنٹ میں اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ نریندر مودی کی حکومت نے اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے اور یہ  جنگ آزادی، سماجی و معاشی سرگرمیوں اور شہریت پر ہے تو تھی ہی، اب  مدارس، مساجد، خانقاہوں اور درگاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ہندو، سکھ، جین اور بدھ مت کے ماننے والوں کی وقف کی گئی جائیدادوں کا تحفظ برقرار رہےگا، کیونکہ ان کے قوانین کو تحفظ حاصل ہے اور ان کا انتظام خود ان کے ہاتھوں میں ہے۔ کوئی بھی غیر مذہب ا ن کے لیے عطیہ دے سکتا ہے اور ان کے انڈومنٹس کا تحفظ ہوگا۔ان پر لاء آف لیمیٹیشن کا اطلاق نہیں ہوگا۔

اویسی کا کہنا تھا کہ مسلمانوں سے وقف بائی یوزر چھینا گیا ہے، مگر دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لیےچھوٹ ہے۔  ہندو، بدھ، سکھ مذاہب کو  منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد کو حاصل کرنے اور اس کے انتظام کا حق حاصل ہے، مگر صرف مسلمانوں سے یہ حق چھینا گیا ہے۔

دہلی میں 271 وقف جائیدادیں محکمہ آثار قدیمہ کے کنٹرول میں ہیں۔ یہ جائیدادیں اب عملی طور پر مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گئی ہیں، کیونکہ ان کی پاس ان کے مالکانہ حقوق کے دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہیں۔

اس میں شمالی ہندوستان کی سب سے پہلی قطب الدین ایبک کی تعمیر کردہ تاریخی مسجد قوت الاسلام بھی ہے، جو قطب مینار کے بغل میں واقع ہے۔چونکہ تنازعہ کی صورت میں حکومت کے ہی افسر کو فیصلہ کرنا ہے، اسی لیے ایسی صورتوں میں جہاں تنازعہ حکومت کے کسی محکمہ کے ساتھ ہے، تو اس پراپرٹی کا خدا ہی حافظ ہے۔ وقف بائی یوزر میں جب کوئی افسر کہہ دے گا کہ یہ وقف کی جائیداد نہیں ہے، تو وقف بورڈ خاموش بیٹھ جائے گا اور کوئی کارروائی نہیں کرے گا،کیونکہ ان کے چیئرمین حکومت کے نامزد کردہ ہوں گے۔

اس قانون کے ذریعے شاید مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ ان کی حالت ایسی ہوچکی ہے جیسے جنگل میں چرواہا بکریوں کو چھوڑ کر بھاگ گیا ہے اور ان کی دیکھ بھال بھیڑیوں کے سپرد کر دی گئی ہے، جو اس کو شیر سے بچانے کے نام پر خود نوچ رہے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ وسط ایشیاء پر روس کے قبضے کے بعد سب سے پہلے اوقاف ضبط کیے گئے تھے، تاکہ مساجد اور مدرسوں کے وسائل ختم کرائے جائیں۔ جب عوام نے چندہ جمع کرکے مسجدیں چلانا شروع کیں، تو چند ہ ٹیکس لگایا گیا۔

لوگوں نے اب گھروں میں نمازیں ادا کرنا شروع کیں، مساجد ویران ہوگئیں۔ مقامی کمیونسٹ پارٹی کے یونٹ قرار دار پاس کرتے کہ مسجد ویران ہے، اس لیے اسکو رفاعی کاموں کے لیے مختص کیا جائے۔ اس طرح مسجدکو شہید کروایا جاتا اور کسی اور تصرف میں لایا جاتا۔

 ایک چیز خوش آئند ہے کہ ہندوستانی مسلم زعما کو یہ  بات سمجھ  میں آگئی ہے کہ ان کو کنارے لگایا گیا ہے۔ ورنہ جب ان سے درخواست کی جاتی کہ کشمیر میں ہورہے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کچھ ہونٹ تو ہلائیں، تو ان کے منہ کا ذائقہ خرا ب ہوجاتا تھا۔

سال 2019 میں جب خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی، تو جمعیتہ علماء ہند کے ایک ذمہ دار تو جنیوا مودی حکومت کا دفاع کرنے پہنچ گئے۔  ایک آدھ  ملی رہنماؤں کو چھوڑ کر ان میں اکثر مارٹن نیمولر کی اس نظم کی عملی تفسیر تھے۔

پہلے وہ سوشلسٹوں کے پیچھے آئے، اور میں خاموش رہا — کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا۔

پھر وہ ٹریڈ یونین کے کارکنوں کے پیچھے آئے، اور میں خاموش رہا — کیونکہ میں ٹریڈ یونین کا کارکن نہیں تھا۔

پھر وہ یہودیوں کے پیچھے آئے، اور میں خاموش رہا — کیونکہ میں یہودی نہیں تھا۔

پھر وہ میرے پیچھے آئے — اور بولنے والا کوئی نہ بچا تھا۔

 شاید ہندوستان میں مسلمان ابھی تک خوش قسمت ہیں کہ ایک ذی ہوش طبقہ ابھی بھی ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ان کو ساتھ لےکر ہی ان کی داد رسی ہوسکتی ہے اور ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم ہوسکے گا۔