رانا داس گپتا بنگلہ دیش کے سرکردہ اقلیتی رہنما ہیں۔ دی وائر سے بات کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ شیخ حسینہ کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد 52 اضلاع میں اقلیتوں پر حملے اور ہراسانی کے کم از کم 205 واقعات رونما ہوئے ہیں۔
نئی دہلی: پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں جب بھی سیاسی عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوتی ہے، اقلیتوں بالخصوص ہندوؤں کی سلامتی کا معاملہ بہت حساس ہو جاتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ ریزرویشن مخالف احتجاج شدت اختیار کرنے کے بعد حکومت مخالف مظاہرے میں تبدیل ہوگیا اور شیخ حسینہ، جو تقریباً 15 سال سے مسلسل حکومت چلا رہی تھیں، کو وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے کر ملک سے فرار ہونا پڑا۔ اس دوران اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا۔
رانا داس گپتا اپنے ملک کے معروف اقلیتی ادارہ ‘بنگلہ دیش ہندو بدھسٹ کرسچن یونٹی کونسل’کے جنرل سکریٹری ہیں۔ وہ باقاعدگی سے اقلیتوں کی آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ 75 سالہ رانا داس گپتا نے دی وائر سے اقلیتوں پر حملے، طلبہ کی تحریک، عبوری حکومت اور ملک کے مستقبل کے بارے میں بات کی۔ رانا داس گپتا نے دعویٰ کیا کہ شیخ حسینہ کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد 52 اضلاع میں اقلیتوں پر حملے اور ہراسانی کے کم از کم 205 واقعات رونماہوئے ہیں۔
اب بنگلہ دیش میں اقلیتوں کا کیا حال ہے؟
ہماری سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ نے 5 اگست کو ملک چھوڑ دیا۔ 5 اگست کے بعد سے ڈاکٹر محمد یونس کے فرانس سے بنگلہ دیش آنے تک اقلیتوں کی حالت بدتر تھی۔ ان کے گھروں، دکانوں اور عبادت گاہوں پر حملے کیےگئے ، توڑ پھوڑ کی گئی، لوٹ مار کی گئی ،حتیٰ کہ آگ بھی لگا دی گئی۔ بوڑھی عورتوں کے ساتھ ریپ کیا گیا۔ زمینوں پر قبضے شروع ہو گئے۔ یہ سلسلہ اب بھی مختلف علاقوں میں جاری ہے۔
لیکن میں کہنا چاہتا ہوں کہ اب حملوں میں کچھ کمی آئی ہے۔
کیا یہ صورتحال احتجاج کی وجہ سے پیدا ہوئی؟
نہیں، نہیں۔ یہ سب ہم پاکستان کے زمانے سے ہی دیکھ رہے ہیں۔ 1947 میں جب پاکستان بنا تو وہاں 28.7 فیصد اقلیتیں تھیں۔ 1970 میں یہ تعداد کم ہو کر 19-20 فیصد ہو گئی۔ یہ اس وقت کی حکومت پاکستان کی پالیسی کی وجہ سے ہوا۔
اس کے بعد جمہوریت اور سیکولرازم کے وعدوں کے ساتھ بنگلہ دیش بنا۔ لیکن (شیخ) مجیب کے قتل کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت نے بھی نسلی تطہیر کی پالیسی اپنالی۔ یہ فوجی حکومت اور منتخب حکومت دونوں کے دوران ہوا۔
گزشتہ 50 سالوں میں، اقلیتوں پر مختلف اوقات اور مختلف حالات میں حملے ہوئے ہیں۔ یہ تمام حملے صرف اقلیت ہونے کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ ان کا مقصد اقلیتوں کو اپنے ملک سے بھگانا اور بے دخل کرنا ہے۔
بنگلہ دیش میں گزشتہ کئی دہائیوں سے اقلیتوں پر منظم حملے اور مظالم ہوتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے پچھلے 50 سالوں میں اقلیتوں کی آبادی 19-20 فیصد سے کم ہو کر 8.6 فیصد رہ گئی ہے۔
ہندوستان یا مغربی ممالک سے بنگلہ دیش کے لیے کیا مدد چاہتے ہیں؟
میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ ان ممالک کو بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے انسانی حقوق کی بحالی کے لیے بات کرنی چاہیے، تاکہ کوئی بھی اپنا آبائی وطن چھوڑنےکو مجبور نہ ہو… میں عالمی اداروں سے اپیل کروں گا کہ وہ بنگلہ دیش کی اقلیتوں کی بھلائی کے لیے کام کریں۔
بنگلہ دیشی ہندوؤں کے لیے ہندوستان سے کس قسم کی مدد چاہتے ہیں؟
میں اس معاملے میں کچھ نہیں بول سکتا۔
بنگلہ دیش ہندوستان کو کس طرح دیکھتا ہے؟
جیساہندوستان مخالف ماحول پاکستان میں ہے، ویسا ہی بنگلہ دیش میں بھی ہے۔ 1947 کے بعد، ملک کی تقسیم کے بعد سے ہی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا مطلب مسلمان اور ہندوستان کا مطلب ہندو ۔ اس لیے بنگلہ دیش کے لوگوں کے لیے ہندو اور ہندوستان ایک ہیں اور وہ دونوں سے نفرت کرتے ہیں۔ ہندوستان مخالف جذبات ہندو مخالف جذبات کو جنم دیتے ہیں۔ اگرچہ بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہو چکا ہے، لیکن ہندو مخالف جذبات اب بھی ہیں۔
ہندوستان اور بنگلہ دیش میں اقلیتوں کی صورتحال میں کیا مماثلت اور فرق ہے؟
ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے۔ کم از کم وہاں کا قانون مذہب کے نام پر تفریق نہیں کرتا۔ بنگلہ دیش کا آئین ہندوستان کے آئین کے برابر نہیں ہے کیونکہ یہاں کے آئین میں اسلام کو قومی مذہب کے طور پر لکھا گیا ہے۔ …بنگلہ دیش اور ہندوستان کی اقلیتوں میں فرق یہ ہے کہ ہندوستان کا آئین سیکولر ہے جبکہ بنگلہ دیش کا آئین اسلامی ہے۔
شیخ حسینہ کا ہندوؤں کے ساتھ کیا رویہ تھا؟
(ہندو انہیں) متبادل نہ ہونے کی وجہ سے( ووٹ دیتے تھے)… بنگال میں دو بڑی پارٹیاں ہیں: ایک (بنگلہ دیش عوامی لیگ) بنگالی قوم پرستی، ثقافت، سیکولرازم اور وراثت پر مبنی ہے، اور دوسری پارٹی ( بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ) اکثریتی قوم پرستی پر مبنی ہے۔
شیخ حسینہ نے ایک اچھا کام کیا کہ اقلیتوں کے لیے بھرتیوں میں مذہبی بنیادوں پر ہونے والے امتیاز کو بہت حد تک ختم کر دیا تھا۔ ان کے دور میں سب کو برابری کی بنیاد پر بھرتی اور ترقی ملتی تھی اور اس کی بنیاد ان کی اہلیت اور قابلیت تھی۔ وہ (شیخ حسینہ) دوسرے شعبوں میں بھی سب کو برابر سمجھتی تھیں۔
آپ کی تنظیم کا مطالبہ ہے کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے تحفظ کے لیے ہندو پروٹیکشن ایکٹ نافذ کیا جائے۔
اس کے تحت ہمارے 8 مطالبات ہیں، جن کی ایک کاپی میں پہلے ہی عبوری حکومت کو سونپ چکا ہوں – اقلیتی تحفظ ایکٹ، اقلیتی وزارت کی تشکیل، اقلیتی کمیشن کی تشکیل وغیرہ۔
مستقبل میں بنگلہ دیش کو کہاں دیکھتے ہیں؟
اس سوال کا جواب میں نہیں دے سکتا۔ میں ابھی امن وامان کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ مجھے ایک ایسے بنگلہ دیش میں رہنا ہے جہاں سب کو برابری اور سماجی انصاف کا حق ملے، اقلیتوں کو بھی۔
کیا امریکہ بنگلہ دیش کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جیسا کہ شیخ حسینہ کہہ رہی ہیں؟ کیا آپ کو بھی ایسا لگتا ہے؟
ہاں، مجھے بھی لگتا ہےکہ اس میں امریکہ کچھ رول ہے۔