اترپردیش جمیعۃ علماء ہندکے صدر مولانا سید اشہد رشیدی کی جانب سے دائر عرضی میں کہا گیا ہے کہ جبکہ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے گنبدوں کو نقصان پہنچانے اور اس کے گرانے کو اپنے علم میں لیا ، پھر بھی متنازعہ مقام اسی فریق کو سونپ دیا جس نے غیرقانونی کاموں کی بنیاد پر اپنا دعویٰ پیش کیا تھا۔
نئی دہلی: ایودھیا میں رام جنم بھومی –بابری مسجد زمینی تنازعہ کو لے کر 9 نومبر کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر دوبارہ غور کرنے کے لیے ایک مسلم فریق نے عرضی دائر کی اور کہا کہ بابری مسجد کے پھر سے بنائے جانے کی ہدایت دینے پر ہی مکمل انصاف ہوسکتا ہے۔اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے 9 نومبر کو متفقہ طو رپر اپنے فیصلے میں ایودھیا میں 2.77ایکڑ متنازعہ زمین رام للا کو سونپنے اور مسجد کی تعمیر کے لیے اتر پردیش سنی وقف بورڈ کو پانچ ایکڑ زمین مختص کرنے کی مرکزی حکومت کو ہدایت دی تھی ۔
حالاں کہ آئینی بنچ کے اس فیصلے کو اتر پردیش سنی سینٹرل وقف بورڈ نے چیلنج نہیں دینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اس معاملے میں بنیادی عرضی گزاروں میں شامل ایم صدیقی کے قانونی وارث اور اتر پردیش جمیعۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید اشہد رشیدی نے 14 نکات پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے عرضی دائر کی ہے۔
وکیل اعجاز مقبول کے توسط سے دائر عرضی میں 9 نومبر کے فیصلے پر عبوری روک لگانے کی اپیل کی گئی ہے ۔ ا س فیصلے میں عدالت نے مندر کی تعمیر کے لیے مرکزی حکومت کو تین مہینے کے اندر ایک ٹرسٹ بنانے کی ہدایت دی ہے۔رشیدی نے ایودھیا میں نمایاں مقام پر مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین مختص کرنے کو لے کر مرکز اور اترپردیش کی حکومت کو عدالت کی ہدایت پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ ان کی دلیل ہے کہ مسلم فریقوں نے ا س طرح کی کوئی بھی اپیل کبھی نہیں کی ۔
عرضی میں دلیل دی گئی ہے کہ متنازعہ مقام پر مسجد گرانے سمیت ہندو فریقوں کے ذریعے کئی غیر قانونی کاموں کو اپنے علم میں لینے کے باوجود عدالت نے ان کو معاف کردیا اور ان کو زمین بھی دے دی ۔عرضی کے مطابق، اس فیصلے کے ذریعے عدالت نے بابری مسجد کو مسمار کرنے اور اس کی جگہ پر بھگوان رام کا مندر بنانے کی ہدایت دی ہے۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ جبکہ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے گنبدوں کو نقصان پہنچانے اور اس کے گرانے کو اپنے علم میں لیا ، پھر بھی اس نے غیر قانونی کاموں کے لیے ان کو معاف کردیا اور متنازعہ مقام اسی فریق کو سونپ دیا جس نے غیرقانونی کاموں کی بنیاد پر اپنا دعویٰ پیش کیا تھا۔
حالاں کہ رشیدی نے عرضی میں کہا ہے کہ وہ پورے فیصلے اور ان کے نتائج پر دوبار غو رکرنے کی اپیل نہیں کر رہے ہیں اور ان کی عرضی ہندوؤں کے نام زمین کرنے جیسی خامیوں تک محدود ہے ، کیوں کہ یہ ایک طرح سے بابری مسجد کو مسمار کرنے کی ہدایت دینے جیسا ہے اور ہندو فریقوں کو اس کا اختیار دیتے وقت کوئی بھی شخص اس طرح کے غیر قانونی کاموں سے فائدہ حاصل نہیں کرسکتا ہے۔
رشیدی نے 93 صفحات کی اپنی عرضی میں یہ بھی دلیل دی ہے کہ آئینی بنچ نے آئین کی دفعہ 142 کا غلط استعمال کیا ہے ، کیوں کہ مکمل انصاف کرنے یا پھر غیرقانونی کام کو صحیح ٹھہرانے کے لیے صرف بابری مسجد کی تعمیر کی ہدایت دی جاسکتی ہے۔
رشیدی نے کہا کہ وہ اس معاملے کی حساسیت کو جانتے ہیں اور آپسی بھائی چارہ اور امن قائم رکھنے کے لیے اس تنازعہ کو ختم کر دینے کی ضرورت کو بھی سمجھتے ہیں لیکن انصاف کے بغیر کسی طرح کا امن نہیں ہوسکتا۔دریں اثنا ایودھیا تنازعہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ریویو کی عرضی دائر کرنے سے کچھ گھنٹے پہلے جمیعۃ علماء ہند کے صدر سید ارشد مدنی نے سوموار کو کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ شواہد اور دلیل پر مبنی نہیں تھا ، ا س وجہ سے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔
مدنی نے نئی دہلی میں صحافیوں سے کہا کہ اگر سپریم کورٹ ایودھیا پر دیے گئے اپنے فیصلے کوبرقرار رکھتا ہے تو جمیعہ اس کو مانے گی ۔انہوں نے کہا ، ہم نے عدالت میں عرضی دائر کی ہے ۔ معاملے میں اہم دلیل یہ تھی کہ مندر کو توڑ کر مسجد بنائی گئی ہے ۔
مدنی نے کہا کہ ، عدالت نے کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی ہے ، لہذا مسلمانوں کا دعویٰ ثابت ہوگیا لیکن آخری فیصلے اس کے برعکس تھا ۔ فیصلہ ہماری سمجھ سے پرے ہے ، اس لیے ہم نے عرضی دائر کی ہے۔انہوں نے کہا ، ا س ملک کا ماحول خراب نہیں ہوگا اور ریویو کی عرضی اس لیے دائر کی کی گئی ہے ، کیوں کہ فیصلہ شواہد اور دلیل پر مبنی نہیں ہے۔
اس سے پہلے دہلی واقع جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری نے کہا تھا کہ ایودھیا معاملے کو اب آگے نہیں بڑھانا چاہیے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ریویو پیٹیشن دائر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔انہوں نےیہ امید بھی ظاہر کی تھی کہ اب ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے لیے جگہ نہیں ہوگی اور آگے سے ایسے مدعوں کو ہوا نہیں دی جائےگی۔
بخاری نے صحافیوں سے کہاتھا، ‘میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ملک قانون اور آئین سے چلتاہے۔ 134 سال سے چل رہے تنازعہ کاخاتمہ ہوا۔ پانچ رکنی بنچ نےفیصلہ لیا۔ گنگا جمنی تہذیب اور بھائی چارے کو دیکھتے ہوئے یہ کوشش کرنی ہوگی کہ آگے ملک کو اس طرح کے تنازعہ سے نہ گزرنا پڑے۔’انہوں نے کہا، ‘ملک آئین کے تحت چلے، قانون پر عمل ہوتا رہے، فرقہ وارانہ کشیدگی نہ ہو اور سماج نہ بنٹے، اس کے لیے سب کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔ ہندو مسلم کی بات بند ہونی چاہیے اور ملک کو آگے بڑھانے کے لیے سب مل کر چلیں۔’
غورطلب ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کرتے ہوئے متنازعہ مقام پر مسلم فریق کا دعویٰ خارج کردیا ہے۔ فیصلے کے مطابق رام جنم بھومی ٹرسٹ کو 2.77 ایکڑ زمین کا مالکانہ حق دیا جائےگا۔اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے سرکار کوہدایت دی ہے کہ وہ ایودھیا میں مسجد کے لیے کسی اہم جگہ پر پانچ ایکڑ زمین دے۔ یہ زمین سنی وقف بورڈ کو دی جائےگی۔قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ 1992 میں بابری مسجد کو گرانا اور 1949 میں مورتیاں رکھنا غیرقانونی تھا۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو مندر بنانے کے لیے تین مہینے میں منصوبہ تیار کرنے اور ٹرسٹ بنانے کی ہدایت دی ہے۔