ایودھیا: جہاں لوک سبھا انتخاب میں رام مندر مدعا نہیں ہے

02:40 PM May 07, 2019 | جئے پرکاش ترپاٹھی

گراؤنڈ رپورٹ : عزت کا سوال بنے ایودھیا کی جنگ بی جے پی کے لئے جیتنا اتنا آسان نہیں ہے۔ مقامی مدعوں کو لےکر بی جے پی امیدوارللو سنگھ کو ووٹروں کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کانگریس نے یہاں سابق رکن پارلیامان نرمل کھتری کو ٹکٹ دیا ہے۔ گٹھ بندھن کی طرف سے ایس پی نے سابق وزیر آنند سین یادو کو میدان میں اتارا ہے۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

ایودھیا: اتر پردیش کی 80 لوک سبھا سیٹوں میں سے 39 سیٹوں پر چار مرحلوں میں انتخاب ختم ہو چکا ہے۔ 6 مئی کو پانچویں مرحلے کا مقابلہ اودھ کی 14 لوک سبھا سیٹوں کے لئے ہے۔ پانچویں مرحلے میں ہی ایودھیا بھی ہے جو بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس دونوں ہی پارٹیوں کے لئے عزت کا سوال  بنا ہوا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی سے لےکر کانگریس صدر راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی تک اس سیٹ کو اپنے حق میں کرنے کے لئے ایڑی-چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔ گٹھ بندھن بھی اس سیٹ پر بی جے پی کو گھیرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا ہے۔رام مندر اس انتخاب میں یہاں کوئی مدعا نہیں ہے۔ مدعے مقامی ہیں اور ریاست اور مرکز میں بی جے پی کی ہی حکومت ہے۔ ایسے میں مقامی مدعوں کو لےکر بی جے پی امیدوار للو سنگھ کو ووٹروں کی ناراضگی کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔

ایودھیا میں رام مندر نہیں رہا مدعا

لوک سبھا انتخاب سے پہلے رام مندر تحریک کو رفتار دےکر مضبوط مدعا بنائے جانے کی کوشش تو خوب ہوئی لیکن انتخاب آتے آتے ایودھیا میں ہی رام مندر کا مدعا گم سا ہو گیا۔ خود بی جے پی کے بڑے رہنما رام مندر کے مدعا کو انتخاب کے وقت ہوا نہیں دینا چاہتے ہیں۔پی ایم نریندر مودی ابھی پچھلے ہفتہ ہی ایودھیا ضلع کے مایابازار میں ریلی کرنے پہنچے لیکن انہوں نے بھی رام مندر پر بات کرنے کے بجائے دہشت گردی اور حزب مخالف کو ہی تنقید کا  نشانہ بناتے  ہوئے اپنے حق  میں ووٹ دینے کی اپیل کی۔رام مندر کے لئے جس ورکشاپ میں پتھر تراشے جانے کا کام ہو رہا ہے وہاں بھی انتخاب کے وقت امن ہی ہے۔ ورکشاپ کے سپروائزر انو بھائی سوم پورا بتاتے ہیں کہ پچھلے چھے مہینے سے پتھر آئے ہی نہیں ہیں۔

سریو کے گھاٹ پر کشتی چلاکر فیملی کا پیٹ پالنے والے متھن ماجھی کہتے ہیں کہ رام کے نام پر پوری دنیا میں لوگ ایودھیا کو جاننے تو لگے ہیں لیکن ایودھیا میں مندروں اور گھاٹوں کی جس طرح ترقی ہونی چاہیے وہ ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ایودھیا کے گھاٹوں پر متھن جیسے ایک دو نہیں بلکہ ساٹھ ایسے نو جوان ہیں جو آنے والے زائرین کو کشتی میں بٹھاکر سریو ندی میں گھمانے کا کام کرتے ہیں۔ ان سب کا ایک ہی کہنا ہے کہ جس طرح ایودھیا کا نام ہوا ہے اسی طرز پر اگر ایودھیا کو سنوارنے کا کام ہو جائے تو زائرین کے آنے میں بھی اضافہ ہوگا، جس سے یہاں کے لوگوں کو بھرپور روزگار بھی ملے‌گا۔سریو ندی کے گھاٹ پر لاکھوں چراغ جلاکر دیوالی  میں دیپ اتسو کا انعقاد حکومت کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ خود پی ایم مودی نے بھی اپنی ریلی میں ایودھیا کے دیپ اتسو کا ذکر کرتے ہوئے اس کو حکومت کی کامیابیوں میں گنایا۔

حکومت کی اس کوشش کی تعریف مقامی لوگ بھی کرتے ہیں لیکن رام کی پوڑی ہو چاہے گھاٹ، تمام جگہوں پر گندگی اور صاف صفائی کی کمی صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ رام کی پوڑی میں جو پانی بھرا ہے، گندگی کی وجہ سے اس کا رنگ کالا ہو رہا ہے۔سرکاری لاپروائی کا عالم یہ ہے کہ قدیم مقامات پر لگاتار قبضے ہوتے جا رہے ہیں۔ ایودھیا کے رہنے والے سنت اور قصہ گو اکھلیش داس بتاتے ہیں کہ ایودھیا میں واقع سپتساگر کنڈ کا ذکر رامائن تک میں ہے۔غیرقانونی قبضہ کی وجہ سے سپتساگر کنڈ آج معدوم ہو گیا ہے۔ دیومالائی پہچان کے مطابق اسی کنڈ میں بھگوان رام نے سمندر سے پانی منگواکر جمع کرایا تھا۔

مقامی مدعے بی جے پی کو پڑ رہے ہیں بھاری

عزت کا سوال بنے ایودھیا کی جنگ بی جے پی کے لئے جیتنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ اس سیٹ پر بی جے پی نے موجودہ رکن پارلیامان للو سنگھ پر ایک بار پھر داؤ لگایا ہے۔ جبکہ کانگریس نے سابق رکن پارلیامان نرمل کھتری کو ٹکٹ دیا ہے۔گٹھ بندھن  کی طرف سے ایس پی نے یہاں سابق وزیر آنند سین یادو کو میدان میں اتارا ہے۔ آنند سین یادو کے والد متراسین یادو اس سیٹ سے دو بار رکن پارلیامان رہ چکے ہیں۔ ایسے میں اس سیٹ پر مقابلہ سہ رخی ہے۔بیرہٹا گاؤں کی ساوتری نشاد ہوں چاہے شہنوازپور کی دلت پھولا دیوی، سبھی کو مقامی ایم ایل اے اور رکن پارلیامان سے بھرپور ناراضگی ہے۔ ناراضگی کی وجہ ایک ہی ہے، وہ ہے اس طبقے کو نظرانداز کیا جانا۔

ساوتری بتاتی ہیں کہ لاکھ کوشش کے بعد بھی ان کو پردھان منتری آواس یوجنا کا فائدہ نہیں ملا۔ پوری فیملی چھپّر کے نیچے رہ‌کر گزارا کرتی ہے۔ گاؤں تک پہنچنے کے لئے سڑک بھی نہیں ہے۔پھولا دیوی کی تکلیف بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ پھولا دیوی کو حکومت کی طرف سے نہ تو کالونی مختص ہوا اور نہ ہی گیس چولہا اور سلینڈر کا ہی فائدہ ابھی تک ملا ہے۔ شہنوازپور کے دلتوں کا الزام ہے کہ پردھان نے اونچی ذات کے لوگوں کو ہی رہائش گاہ، پٹہ وغیرہ کا فائدہ دیا ہے۔امیٹھی اور سلطان پور لوک سبھا سیٹ سے سٹے ایودھیا کے گاؤں میں کسانوں کاسب سے بڑا مسئلہ آوارہ جانور، کھاد اور بجلی ہے۔ بلارمؤ گاؤں کے دلت نکچھید ہوں چاہے اوم پرکاش، سب کو ان مسائل سے دو-چار ہونا پڑ رہا ہے۔

تین لوک سبھا حلقوں کو جوڑنے والا یہ پورا حلقہ  ترقی سے آج بھی کوسوں دور ہے۔ نکچھید کہتے ہیں کہ پہلے یوریا کی بوری پچاس کلوگرام کی آتی تھی جو اب گھٹ‌کر 45 کلوگرام کی رہ گئی ہے۔یوریا کی مقدار تو حکومت نے گھٹا دی لیکن اس کی قیمت نہیں گھٹائی۔ زراعت اور مزدوری کرکے فیملی کا گزارا کرنے والے اوم پرکاش بتاتے ہیں کہ پہلے کیروسین تیل سستے راشن کی دکان سے مل جاتا تھا لیکن اب اس میں بھی کٹوتی ہو گئی ہے۔اوم پرکاش جیسے لوگوں کے حصے کا کیروسین تیل یہ کہتے ہوئے کم کر دیا گیا ہے کہ اب تو حکومت کی طرف سے گیس دستیاب کرائی جا رہی ہے۔ نکچھید، اوم پرکاش اور پھولا دیوی جیسے ہزاروں لوگ ہیں جن کے نام پر کاغذات میں تو اسکیمیں پھراٹا بھر رہی ہیں لیکن زمین  پر حال کچھ اور ہی ہے۔

کیا ہے سیاسی فارمولہ

اس سیٹ کا سیاسی فارمولہ  بہت زیادہ ذات-پات پر مبنی نہیں ہے۔ گٹھ بندھن  ہو یا چاہے کانگریس، دونوں ہی پارٹیاں یہاں بی جے پی کو گھیرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتی ہیں۔ایس پی  صدر اکھلیش یادو اپنے امیدوار کی حمایت میں جہاں شہر میں ریلی کر کے ماحول تیار کر رہے ہیں، وہیں بی ایس پی صدر مایاوتی دیہات  میں ریلی کرکے ووٹ کے بکھراؤ کو روکنے کی کوشش کر رہی ہیں۔کانگریس امیدوار نرمل کھتری کے لئے راہل اور پرینکا گاندھی بھی روڈ شو کر چکے ہیں۔

گٹھ بندھن  امیدوار کو اشرافیہ  ووٹروں کے علاوہ دلت اور مسلم ووٹ کا سہارا ہے۔ لیکن دلتوں کا ووٹ اپنے حق میں کرنا گٹھ بندھن  امیدوار آنند سین کے لئے چیلنج بھرا ہے۔دراصل ملکی پور اسمبلی حلقہ کی رہنے والی ششی نام کی دلت لڑکی  کا قتل کچھ سال پہلے ہوا تھا۔ قتل کے معاملے میں آنند سین کو ملزم بنایا گیا تھا۔ ششی کے قتل کے الزام میں آنند سین کو صرف وزیر کاعہدہ ہی نہیں گنوانا پڑا بلکہ جیل بھی جانا پڑا تھا۔ششی واردات قتل کو لےکر آج بھی ملکی پور اور آس پاس کے علاقے میں دلتوں کے درمیان آنند سین کو لےکر خاصی ناراضگی ہے۔کمارگنج کے رہنے والے شیلیندر پانڈیہ بتاتے ہیں کہ علاقے کا دلت ہو یا مسلم رائےدہندگان، تمام گٹھ بندھن کے بجائے کانگریس کے اکھاڑے میں کھڑے دکھ رہے ہیں۔ اس کے پیچھے پانڈیہ کی دلیل ہے کہ کانگریس امیدوار کی امیج صاف ستھری ہے اور کسی بھی تنازعہ میں ان کا نام آج تک نہیں آیا ہے۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں)