دیانند سرسوتی کہتے تھے کہ اول تو مورتی پوجا ناجائز ہے اور دوسرا یہ ملک کی ایکتا کے لیے خطرناک ہے۔
‘انسان کوئی غیر منقولہ درخت نہیں ہے، وہ ایک متحرک مخلوق ہے۔ مسلسل چلتے رہنا، زمان و مکان اور تنگ نظری سے بالاتر ہو کر کام کرنا، اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہنا اس کا فرض ہے۔ صبروتحمل، عفو و درگزر، برداشت، باطنی اور ظاہری پاکیزگی کا خیال رکھنا، نیک کاموں میں مشغول رہنا، حقیقی معرفت کے لیے جدوجہد کرنا اور غصے سے ہمیشہ دور رہنا اور انسانیت کی راہ پر چلنا ہی اس کا مذہب ہے۔ جس نے اسے چھوڑ دیا وہ انسان کہلانے کا مستحق نہیں۔’
(سوامی دیانند سرسوتی، نشاۃ ثانیہ کی تحریک کے ایک ممتاز سنت)
کئی بار مذہب کے بارے میں بات کرنے کا مطلب مذہبی ہونا نہیں ہوتا ہے۔ مذہب کچھ اور ہوتا ہے اور مذہب کے نام پر کی جانے والی باتیں اور اس کے نام پرکی جانے والی سرگرمیوں کا مقصد کچھ اور ہوتا ہے۔ اسی طرح ایشور اور ایشور کے نام پرجو کچھ ہو رہا ہے، ضروری نہیں کہ وہ حقیقت میں ایشور سے تعلق رکھتا ہی ہو۔ منافقین اور منافقانہ رائے کا کھیل بہت عجیب و غریب ہے۔
کچھ اس انداز میں بولتے-گرجتے-لرزتے ہوئے فرخ آباد، کاشی، وارانسی، جونپور وغیرہ شہروں اور قصبوں سے ہوتے ہوئے 52 سال کا ایک قدآور سنیاسی (راہب) 18 اگست 1876 کو ایودھیا پہنچا اور سریو باغ میں واقع چودھری گروچرن لال کے مندر میں قیام کیا۔ اس سادھو نے ایودھیا کے پنڈتوں کو للکارتے ہوئے ایک اشتہار نکالا، جس میں کہا گیا کہ مورتی پوجا وغیرہ متھ ہیں اور ان کا بھگوان کی بھکتی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر کوئی بت پرستی کو جائز سمجھتا ہے تو وہ آکر شاسترارتھ (شاستروں کی روشنی میں بحث و مباحثہ)کرے۔
اس سنیاسی کے چیلنج نے ایودھیا کے پنڈتوں، مندروں کے پجاریوں اور ایودھیا کے مذہبی ماحول میں غیرمعمولی ہلچل پیدا کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ پربھو بھکتی کا مطلب ہے تمام جانداروں، مخلوقات، انسانوں اور فطرت کی تمام اشیا کا تحفظ۔ انسانی معاشرے کو اخلاقی طور پر اعلیٰ بنانا اور ہر قسم کے جھوٹ، منافقت، چال بازیوں سے پاک زندگی گزارنا۔ مستقبل کی آہٹ کو پہچاننا اور پوری دنیا سے پیار کرنا اور سچائی کے راستے پر چلنا۔
یہ سنیاسی کوئی اور نہیں بلکہ سوامی دیانند سرسوتی تھے۔
دیانند سرسوتی نے اپنے دلائل ویدوں سے اخذ کیے تھے۔ وہ سنسکرت کے ایک غیر معمولی عالم تھے اور ویدک سنسکرت اور لوکک سنسکرت کے معنی کے فرق کو ثابت کرتے ہوئے دقیانوسی تصورات پر جارحانہ انداز میں حملہ کر رہے تھے۔
دیانند سرسوتی پر کتاب لکھنے والےمشہور اسکالر ڈاکٹر بھوانی لال بھارتیہ بتاتے ہیں، ‘چند ایک تفصیل کے مطابق ایسا لگ رہا تھا، ایودھیا کےآسمان پر ان دنوں گویا کوئی گرجتا ہوا بادل ٹھہر گیا تھا اور وہ پنڈتوں-بیراگیوں اور مندروں کے منتظمین پر بجلیاں گرا رہا تھا۔
دیانند کی باتوں سے خوفزدہ ہو کر ایودھیا کے پنڈت اور پجاری اس شہر کے رئیس راجا ترلوکی لال کے پاس گئے اور مدد کی درخواست کی۔ راجاترلوکی لال نے پنڈتوں سے کہا کہ سوامی ایک دلچسپ سادھو معلوم ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ ضرور ہی شاسترارتھ کرنا چاہیے۔ سوامی جی کو پیغام بھیجا گیا کہ وہ ایودھیا شہر کے اندر آئیں اور پنڈتوں سے شاسترارتھ کریں۔
بھارتیہ لکھتے ہیں،’اس تجویز میں ایک ہوشیاری پوشیدہ تھی۔ ان کا ارادہ یہ تھا کہ اگر سوامی جی یہاں آکر شاسترارتھ کریں گے، شاستر کی بحث میں خواہ انہیں ہرایا نہ جا سکے، دھینگامشتی اور ہلڑ بازی سے انہیں شکست دینا آسان ہو جائے گا۔’
بھارتیہ کے مطابق، سوامی جی اس ارادے کو سمجھ چکے تھے۔ اس کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ اگر پنڈت لوگ شاسترارتھ کے خواہشمند ہیں تو ان کی رہائش گاہ یا سریو باغ میں ہی آ جائیں۔ شاسترارتھ کے لیے یہی جگہ مناسب ہوگی، کہیں اور نہیں۔
یہ ایک سادھو کی عارضی رہائش گاہ تھی اور ایودھیا کی مشہور جگہ تھی۔ لیکن کوئی بھی پنڈت شاسترارتھ کے لیے سوامی جی کی جگہ پر نہیں آیا۔
سوامی جی 27 ستمبر 1876 تک ایودھیا میں رہے۔وہ اس دوران مندر،مورتی پوجا، اوتار لینے اور طرح طرح کی منافقتوں کی مخالفت کرتے ہوئے مذہب کے اندر آ چکی برائیوں کو وہ ایک ایک کرکے گناتے رہے اور پرے ایودھیا میں ایک بے چینی پیدا کرتے رہے۔
اس سنیاسی نے دیکھا کہ ایودھیا میں بڑی تعداد میں سادھو اور سنیاسی موجود ہیں۔ اس پر انہوں نے مشہور قول رمتا جوگی، بہتا پانی نرملا کا مفہوم بیان کیا اور کہا کہ سچے سادھو یا سنیاسی کو کبھی بھی ایک جگہ پر ہمیشہ کے لیے نہیں رہنا چاہیے۔ جس طرح پانی ایک جگہ ٹھہرنے سے آلودہ جاتا ہے، اسی طرح سادھو بھی ایک جگہ ٹھکانہ بنالے تو اس کی عقل جاتی رہتی ہے۔ اورمذہب کا مقصدہی ہے، بیوقوفی سے نجات حاصل کرنا۔
وہ بتاتے ہیں، ایک جگہ پر ٹھہرنے سے عقل ودانش جاتی رہتی ہے، یہ برائی کو جنم دیتی ہے، متعصب بناتی ہے اور ان سب سے ذہنی سکون ختم ہوجاتا ہے اور جس کو ذہنی سکون نہیں، اس کی روح یوگی نہیں۔ اور جس کی روح یوگی نہیں ہے، وہ سنیاسی کا لباس پہن کر بھی سنیاسی نہیں ہے۔ وہ یقیناً خود غرض اور متعصب ہے۔
اس سنیاسی نے بہت سے خطبات میں چیلنج کیا اور کہا کہ جو لوگ جہالت میں کھیل رہے ہیں اور اپنے آپ کو عقلمند اور عالم سمجھتے ہیں، وہ باقی لوگوں کو مصائب کی راہ پر دھکیل رہے ہیں۔
سوامی جی نے کہا، جھوٹ اور فریب میں مبتلا لوگوں نے مورتی پوجا کے ذریعے اپنا جال پھیلایا ہے اور یہ ہمارے ملک اور سماج کی تنزلی کا باعث بن رہا ہے۔ یہ لوگ اپنے مفاد کے لیےمعصوم لوگوں کو پھنسا کر اپنا مقصد پورا کرتے ہیں۔
انہوں نے مذہب میں آئی برائیوں، گناہوں اور انارکی پر بار بار حملہ کیا اور دھرم کی نگری میں ایسا ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ لوگ رات کی تاریکی میں بجلی کی کوندھ کو محسوس کرنے لگے۔ اس سے پہلےشاید ہی کبھی کسی سادھونے اس طرح اس شہر کے پنڈتوں کو بت پرستی اور مندر کے خلاف چیلنج کرنے کا حوصلہ کیا تھا۔
اسی شہر میں کچھ سادھوؤں نے معصومیت میں دیانند سرسوتی سے’نراکار’ (جس کی کوئی شکل و شباہت نہ ہو) کے بجائے ‘ساکار'( بت پرستی) میں دل و دماغ لگنے کی بڑی دلیل مورتی پوجا اور مندروں کی حمایت میں دی تو دیانند نےبت پرستی اور مندر کے حوالے سے انہیں 15 بڑی برائیوں کی ایک فہرست ان کےہاتھ میں تھما دی، جو ان کی انتہائی متنازعہ کتاب ‘ستیارتھ پرکاش’ کے 11ویں باب میں دی گئی ہے۔
اس راہب نے بیوقوفی کے سیاہ پتھروں پر شعور کی ضو فشانی میں اعلان کیا اور دو خطرناک باتیں عرض کیں، جو ان لوگوں نے 148 سال پہلے جانے کیسے برداشت کی ہوں گی۔ اول تو یہ کہ بت پرستی ناجائز ہے اور دوسرا یہ کہ یہ ملک کی ایکتا کے لیے خطرناک ہے۔
دیانند نے یہ باتیں آج کہی ہوتیں تو شاید ان کی لنچنگ کر دی جاتی ! حالاں کہ اس وقت بھی مورتی پوجا کے حامیوں نے انہیں 24 بار زہر دے کر مارنے کی کوشش کی تھی اور آخر کار ایک بت پوجنے والے برہمن نے سیسہ ملا دودھ پلا کر انہیں موت کی گود میں سلا دیا تھا۔
لیکن وہ ہمیشہ ہی بے خوف ہوکر کبھی ایودھیا تو کبھی وارانسی اور کبھی ہری دوار میں اور کبھی پشکر میں پنڈتوں کو للکارتے رہے اور بتاتے رہے کہ بت پرستی اور مندر کتنی بری چیز ہے۔
انہوں نے بت پرستی کی 15 برائیاں شمار کیں؛
ایک، بتوں کی پوجا کرنا مذہبی عمل نہیں ہے، یہ ناجائز ہے۔
دو، مندروں میں کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں اور نشہ پھیلاتےہیں،کوئی فلاحی کام نہیں کرتے۔
تین، مندر برائیوں اور لڑائی جھگڑے کے مرکز بن گئے ہیں۔ اس کی تائید میں انہوں نے مثالیں بھی دیں۔
چار، اسی کو مذہب، دولت، جنس اور نجات کی بنیاد سمجھ کر انسان کوششوں سے بے نیاز ہو کر اپنی زندگی برباد کر دیتا ہے۔
پانچ، یہ اتحاد کو تباہ کر کے، ایک دوسرے کے خلاف کام کر کے اور آپس میں تفرقہ ڈال کر ملک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
چھ، یہ تقدیر پرستی کو فروغ دے کر انسانی شعور کو ختم کر دیتا ہے۔
سات، یہ خدا کی حقیقی روح کے خلاف ہے اور تباہی کا راستہ ہے۔
آٹھ، دولت اور مذہب کو تباہ کرنے اور بھلائی کے منافی اعمال کو بڑھانا ہے۔
نو، پجاریوں کے پاس بے تحاشہ دولت آتی ہے اور وہ اس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
دس، یہ ایشور اور والدین کی سچی خدمت کے لحاظ سے ناشکری ہے۔
گیارہ، مورتیوں کا تحفظ اور اس علاقے کی حفاظت اور صفائی کو برقرار رکھنا بہت مشکل کام ہے۔
بارہ، محبت، مسرت اور روحانیت کی حقیقی اقدار سے دور ہو جانا ہے۔
تیرہ، آپ کی ایکتا کو نقصان پہنچانا ہے، کیونکہ جانے کتنے ہی دیوتا ہیں اور ان کی مورتیاں ہوتی ہیں۔
چودہ، جڑپر غور کرنے سے ضمیرکھوکھلا ہو جاتاہے۔
پندرہ، ایشورنے فطرت، پھول، قدرتی چیزیں اس دنیا میں تحفظ کے لیے پیدا کی ہیں۔ لیکن مورتیوں اور مندروں کی وجہ سے لاتعداد پھولوں کی تباہی ہم دیکھتے ہیں۔
دیانند سرسوتی کے ان دلائل کی بہت مخالفت ہوئی اور ان پر جان کی بن آئی۔ لیکن وہ بلا خوف و خطر پورے ملک میں گھومتے ہوئےپنڈت اور پجاریوں کو چیلنج کرتے رہے۔
انہیں جانے کتنی بار یہ لالچ دیا گیا کہ اگر وہ بت پرستی کی مخالفت بند کر دیں تو عالیشان مندر ان کے حوالے کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس سادھو نے کہا کہ اگر تم میرے کانوں میں شیشی ہی کیوں نہ انڈیل دو، میری آواز لوگوں تک پہنچنے سے نہیں رکے گی۔
اور اس بغاوت کے استقبال میں جانے کتنی ہی روحیں ٹھٹھکیں اور مذہب کے نام پر کی جانے والی منافقت کے احساس جرم سے آزاد ہو کر ملک میں جدید تعلیم اور ایک نئے طرز زندگی کو متعارف کرایا۔
اس برطانوی دور حکومت میں یہ سادھو اس بہار کو لانے میں کامیاب رہے، جس کی آب و ہوا میں کئی تعقل پسند انقلابیوں نےجنم لیا اور اس ملک کو شعور کا ایک نیا سورج دیا۔ اس سورج کی روشنی نے ایک پل بنایا، جس نے قدیم ہندوستان کی تعقل پسندی کو ایک نئے سائنسی اور عقلی دور کے آسمان پر نئے برف کے توندوں کی بارش میں بدل دیا۔
لیکن یہ کیا کہ آج ان کے بہت سے پیروکار اسی راستے پر گامزن ہیں، جسے اس سنیاسی نے کبھی ادھرم اور ملک کی ایکتا کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔
(تریبھون سینئر صحافی ہیں۔)