سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے سوال کیا کہ کیا حکومت اور ریزرو بینک آف انڈیا نے 2016 میں 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو بند کرنے کی پالیسی کے ذریعے کالے دھن، ٹیرر فنڈنگ اور جعلی کرنسی کو روکنے کے اپنے بیان کردہ مقاصد کو حاصل کرلیا ہے؟
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کے روز کہا کہ وہ حکومت کے اسٹریٹجک فیصلوں کےعدالتی جائزہ کے سلسلے میں ‘لکشمن ریکھا’ سے واقف ہے، لیکن وہ 2016 کے نوٹ بندی کے فیصلےکی تحقیقات کرے گا،تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ معاملہ صرف ‘اکیڈمک’ مشق تو نہیں تھا۔
جسٹس ایس عبدالنذیر کی سربراہی والی پانچ رکنی بنچ نے کہا کہ جب کوئی معاملہ آئینی بنچ کے سامنے لایا جاتا ہے تو اس کا جواب دینا بنچ کا فرض بن جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی آئینی بنچ نے 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں پر پابندی کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر مرکزی حکومت اور ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کومفصل حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت دی۔
آئینی بنچ میں جسٹس بی آر گوئی، جسٹس اے ایس بوپنا، جسٹس وی راما سبرامنیم اور جسٹس بی وی ناگارتنا بھی شامل تھے۔
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوئےسینئر وکیل پی چدمبرم اور شیام دیوان نے کہا کہ 1946 اور 1978 میں کی گئی نوٹ بندی کو پارلیامنٹ میں زیر بحث لائےگئےالگ الگ ایکٹ کے ذریعے سے نافذ کیا گیا تھا۔ 2016 میں (مودی حکومت کی طرف سے نوٹ بندی) یہ ریزرو بینک آف انڈیا ایکٹ 1934 کے اہتماموں کے تحت جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کوقانون کا اعلان کرنا چاہیے۔
آئینی بنچ نے بدھ کو سوال کیا کہ کیا حکومت اور ریزرو بینک آف انڈیا نے 2016 میں 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو بندکرنے کی پالیسی کے ذریعے کالے دھن، ٹیرر فنڈنگ اور جعلی کرنسی کو روکنے کے اپنے بیان کردہ مقاصد کو حاصل کر لیا ہے۔
جسٹس ایس عبدالنذیر نے نوٹ بندی کو چیلنج کرنے والی 58 عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے پوچھا، ‘کالے دھن اورٹیرر فنڈنگ کا کیا ہوا؟’
حکومت کی جانب سے اس معاملے پر عدالتی وقت ضائع نہ کرنے کی درخواست کے باوجود عدالت کی جانب سے یہ سوال اٹھایا گیا۔ اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی نے اس معاملے کو اپنی نوعیت کے لحاظ سے ‘اکیڈمک’ قرار دیا۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی نے کہا کہ جب تک نوٹ بندی سے متعلق قانون کو مناسب تناظر میں چیلنج نہیں کیا جاتا، یہ مسئلہ بنیادی طور پر اکیڈمک ہی رہے گا۔
ہائی ویلیو بینک نوٹ (ڈیمونیٹائزیشن) ایکٹ 1978 میں منظور کیا گیا تھا ،تاکہ عوامی مفاد میں کچھ ہائی ویلیو بینک نوٹ کو ڈی مونیٹائزکیا جا سکے اور معیشت کے لیے نقصاندہ رقم کی غیر قانونی منتقلی کو روکا جا سکے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ اس مشق کو اکیڈمک یا بے نتیجہ قرار دینے کے لیے اس معاملے کی جانچ کی ضرورت ہے کیونکہ دونوں فریق متفق نہیں ہیں۔
آئینی بنچ نے کہا، اس پہلو کا جواب دینے کے لیے کہ یہ مشق اکیڈمک ہے یا نہیں یا عدالتی جائزے کے دائرے سے باہر ہے، ہمیں اس کی شنوائی کرنی ہوگی۔ حکومت کی پالیسی اور اس کی حکمت، اس معاملے کا ایک پہلو ہے۔
بنچ نے مزید کہا، ہمیں ہمیشہ سے جانتے ہیں کہ لکشمن ریکھا کہاں ہے، لیکن جس طرح سے یہ کیا گیا تھا، اس کی جانچ ہونی چاہیے۔ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے ہمیں وکیل کو سننا ہوگا۔
مرکز کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا کہ اکیڈمک مسائل پر عدالت کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
مہتہ کی دلیل پر اعتراض کرتے ہوئے درخواست گزار وویک نارائن شرما کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل شیام دیوان نے کہا کہ وہ آئینی بنچ کے وقت کی بربادی جیسے الفاظ سے حیران ہیں، کیونکہ پچھلی بنچ نے کہا تھا کہ ان معاملات کو آئینی بنچ کے سامنے رکھا جانا چاہیے۔
ایک اور فریق کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر وکیل پی چدمبرم نے کہا کہ یہ مسئلہ اکیڈمک نہیں ہے اور اس کا فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی نوٹ بندی کے لیے پارلیامنٹ سے ایک الگ ایکٹ کی ضرورت ہے۔
دی ہندو کے مطابق، چدمبرم نے آر بی آئی کی سالانہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 15.44 لاکھ کروڑ روپے کی کرنسی نوٹ بندی کی گئی تھی۔ یہ رقم اس وقت چلن میں رہی کرنسی کا 86.4 فیصد تھی۔ 15.44 لاکھ کروڑ میں سے صرف 16000 کروڑ ہی واپس نہیں کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ نوٹ بندی کے بعد صرف 0.0027 فیصد جعلی کرنسی ہی پکڑی گئی تھی۔
چدمبرم نے کہا، ‘بالکل نہ ہونے کے برابر… صرف 47 کروڑ روپے کی جعلی کرنسی کو قانونی نظام میں واپس لایا جا سکا ، اس لیے مؤثر طریقے سے جن نوٹوں کو بند کیا گیا تھا، ان میں سے ہر ایک نوٹ کو بدل دیا گیا۔
جسٹس وی راما سبرامنیم نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ تمام جعلی کرنسی رکھنے والوں نے جعلی نوٹوں کوبدلنے کی کوشش کرنے کے لیے آگے آنے کی ہمت نہ کی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ نوٹ بندی کی وجہ سے ان کی کرنسی بے کار ہو گئی ہو۔
چدمبرم نے کہا، لیکن کوئی نہیں جانتا کہ یہ کتنا ہے۔ اس کے علاوہ 2000 روپے کے نئے نوٹ چند دنوں میں نقلی ہو گئے۔انہوں نے کہا کہ کالا دھن اب 2000 روپے کے نئے نوٹوں میں تبدیل ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کابینہ نے نوٹ بندی کو منظوری دینے کا فوری فیصلہ کیا اور وزیر اعظم نے 8 نومبر 2016 کو ٹی وی پر اس کا اعلان کیا تھا۔
چدمبرم نے عدالت میں پوچھا، کیا 24 گھنٹے کے اندر 86.4 فیصد کرنسی کو ردکرنے کا فیصلہ لینا اور اس سے متعلق دستاویزات کو عام نہ کرنا ایک منصفانہ اور دانشمندانہ عمل ہے؟
سپریم کورٹ نے کیس کی اگلی سماعت کے لیے 9 نومبر 2022 کی تاریخ مقرر کی ہے۔
بتادیں کہ 16 دسمبر 2016 کو اس وقت کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی سربراہی والی بنچ نے نوٹ بندی کے فیصلے کے قانونی جواز اور دیگر مسائل سے متعلق سوالات پانچ ججوں کی آئینی بنچ کو بھیج دیا تھا۔
تین ججوں کی بنچ نے تب کہا تھا کہ یہ مانتے ہوئے کہ 2016 کا نوٹیفکیشن ریزرو بینک آف انڈیا ایکٹ 1934 کے تحت قانونی طور پر جاری کیا گیا تھا، سوال یہ تھا کہ کیا یہ آئین کے آرٹیکل 14 اور 19 کے خلاف تھی؟
آرٹیکل 300اے کہتا ہے کہ کسی بھی شخص کو قانونی طور پر محفوظ اس کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جائے گا۔
ایک معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے بنچ نے کہا تھا، کیا بینک کھاتوں میں جمع رقم سے نقد رقم نکالنے کی حد کی قانون میں کوئی بنیاد ہے اور کیا یہ آرٹیکل 14، 19 اور 21 کی خلاف ورزی ہے؟
آرٹیکل 14 قانون کے سامنے برابری فراہم کرتا ہے، جبکہ آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی اور آرٹیکل 21 زندگی اور ذاتی آزادی کے تحفظ کے بنیادی حقوق سے متعلق ہے۔
واضح ہو کہ 8 نومبر 2016 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے کالے دھن کو روکنے، جعلی کرنسی اور دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ وغیرہ پر روک لگانے کے مقصد سے 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو چلن سے ہٹانے کا اعلان کیا تھا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)