حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ اباجان کتاب پر نظریں جما کر پڑھتے ہوئے بیچ بیچ میں ہمیں دیکھے جاتے ۔ اُن کا کبھی کتاب کو اور کبھی ہمیں دیکھنا اگرچہ اچھا لگتا تھا مگر میں ہمیشہ اُن کی نفاست سے تراشیدہ مونچھوں اور داڑھی کے بیچ جنبش کرتے ہونٹوں کو دِیکھا کرتا تھا۔ مجھے اس میں لطف آتا کہ وہ کبھی پھیلتے کبھی سکڑتے ، کبھی کھلتے اور کبھی بند ہوتے تھے ۔ایک بچے کے لیے یہ کتنی عجیب بات تھی کہ اس کے باپ کے جنبش کرتے ہونٹ کتاب میں لکھے ہوئے کو آواز میں تبدیل کر رہے تھے۔ یہ آواز اس بچے کےتصور کے پردے پر تصویریں بناتی تھی ۔ بچہ جب تجسس میں کتاب کو جھانک کر دیکھتا تو وہاں محض لفظ ہوتے تھے ۔ کتاب کے صفحے پر تیرتے ہوئے لفظ ۔
اباجان کی دیکھا دیکھی میں بھی اوائل عمری سےپڑھنے کی طرف راغب ہو گیا تھا ۔ گھر میں ایک اردو اخبار، کچھ رسائل اور ڈائجسٹ باقاعدگی سے آتے تھے۔ پھر ابا جان کے پاس کتابوں کا اپنا ذخیرہ تھاجس میں ہر ماہ اضافہ ہوتا رہتا ۔ برآمدے میں ٹاٹ لگی ایک آرام دہ کرسی پڑی رہتی تھی ۔ کوئی کتاب ، اخبار یا رسالہ اٹھا کر اباجان اس کرسی میں لگ بھگ دراز ہو جاتے اور پاؤں ہلاتے رہتے ۔ ایسا کرنے سے ان کا بدن ٹاٹ کے اندر جھولنے لگتا تھا۔
وہ اپنی نظریں کتاب یا رسالے پر گاڑے رکھتے۔ کتاب اور اس پر مرتکز آنکھیں ، آرام دہ کرسی اور جھولتا ہوا بدن ،خاموشی اورچپکے چپکے گزرتا ہوا وقت جیسے وہ دبے پاؤں چل رہا ہو؛ یہ نظارہ مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ اماں جان نے ہمیں یہ باور کروا رکھا تھا کہ جب اباجان مطالعے میں مصروف ہوں تو ہمیں شور شرابے سے مجتنب رہنا تھالہٰذا ایسے اوقا ت میں باقی بھائی ادھر ادھر کھسک جاتے ؛ کہیں اور کھیلنے کو ۔ میں کہیں نہیں جاتا تھا ۔
شاید میں اس تاک میں رہتا تھا کہ اباجان کرسی سے اٹھیں گے تو میں وہاں جاکر بیٹھ جاؤں گا۔ اباجان جب گھر میں نہ ہوتے تو وہ کرسی خالی پڑی رہتی تھی۔ تب کبھی میرا جی نہ للچایا کہ اس پر بیٹھوں ۔ شاید اس لیے کہ تب اماں جان دُھول اور دھوپ سے بچانے کے لیےاس پر ایک چادر ڈال دیتی تھیں۔ ایسے میں وہ کرسی مجھے بے جان لگتی تھی، اس لاش کی طرح جسے کفن اوڑھا دیا گیا ہو۔
ایک آدھ بار اماں جان کی آنکھ بچا کر اور چادر ہٹا کر میں اُس پر بیٹھا بھی مگر وہ لطف نہ آیا جو اباجان کے کرسی سے اٹھنے کے فوراً بعد اس میں بیٹھنے اور ٹاٹ کے ریشے ریشے سے اٹھتی گرمی، مہک اور مقناطیسیت کو اپنے بدن میں جذب کرنے پر آیا کرتا تھا ۔
جس طرح ابا جان کے پڑھنے کے اوقات مقرر تھے ، اسی طرح انہوں نے ہمیں پاس بٹھانے کے اوقات بھی مقر ر کر رکھے تھے: فجر کی نماز کے بعد اور شام کو کھانے کے بعد۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ہمارے گھروں میں ڈبل بیڈ کلچر عام نہ ہوا تھا۔ ہم نے ماں باپ کو کبھی ایک چارپائی پر ایک ساتھ بیٹھے بھی نہ دیکھا تھا۔ گھر کی مغربی دیوار کے ساتھ شروع میں جو دو بڑے کمرے تھے ؛ ان میں سے پہلے والا امی جان اور ہمارا تھا اور اس سے ملحق ابا جان کا ۔ دونوں کے دروازے اور کھڑکیاں برآمدے میں کھلتی تھیں ۔ ان کمروں کی مشترکہ دیوار میں ایک چھوٹا سا دروازہ تھا جو عام طور پر بند رہتا ۔ فجر کی نماز کے بعد ابا اپنے کمرے سے اس کی چٹخنی گرا دیتے تو مدہم سی ٹک کی آواز آتی تھی۔ ہم جو پہلے سے جاگ کر اسی کے منتظر ہوتے تھے،کواڑ کھول کر ابا جان کے کمرے میں داخل ہو جاتے تھے ۔
اپنے کمرے کے مقابلے میں اباجان کا کمرہ مجھے ہمیشہ اجلا اور صاف ستھرا لگتا ۔ اس کمرے میں دو پلنگ بچھے ہوئے تھے ؛ رنگیلے پایوں والے بڑے اور اونچے پلنگ جن پر دودھ جیسی سفید چادریں ہوتیں۔ایک پلنگ مغربی دیوار کے ساتھ بچھا ہوتا، جس میں ایک الماری نصب تھی اور دوسرا مشرقی دیوار کے ساتھ اس کھڑکی کے نیچے جو برآمدے میں کھلتی تھی ۔ یوں ایک پلنگ پر بیٹھنے والا جب ٹانگیں لٹکا کر بیٹھتا تواُس کا منھ دوسرے پلنگ پر بیٹھنے والے کی طرف ہوتا تھا ۔ ہم سب ایک پلنگ پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ جاتے تھے۔
ابا جان اپنے پلنگ پر بیٹھتے ہوئے اوپر ہو کر بیٹھتے، آلتی پالتی مارکر۔ جب ہم سامنے بیٹھ کر متوجہ ہو چکے ہوتے تو وہ بدن گھماتے ہوئے الماری کے سب سے اوپر والے خانے سے غلاف میں لپٹا ہوا قران پاک اور رحل نکالتے ۔ لکڑی کا خوب صورت رحل( جس پر پھول بوٹے کھدے ہوئے تھے ) کھول کر اپنے سامنے جماتے اور غلاف کھول کر قران پاک کو وہاں سے کھولتے جہاں انہوں نے پہلے سے ایک گتے کا چھوٹا سا ٹکڑا نشانی کے طور پر رکھا ہوتا تھا۔
اباجان ایک نشست میں رکوع ڈیڑھ رکوع نہیں بلکہ قران پاک سے چند آیات تلاوت کرتے ۔ مناسب آواز میں اور ٹھہر ٹھہر کر؛ یوں جیسے ہر لفظ مکمل ہو کر اُن کے ہونٹوں سے ادا ہورہا ہوتا تھا ۔ اور ابھی تلاوت کی گئی آیات اور ہر آیت کے لفظوں کی گونج ہماری سماعتوں سے معدوم نہ ہوئی ہوتی تو وہ اُن کا مفہوم بتاتے۔ یہ آیات کب نازل ہوئیں اور پس منظر کیا تھا ؛یہ سب کچھ وہ یوں دلچسپ بنا کر اور سیرت پاک کے واقعات سے جوڑ کر بتایا کرتے کہ ہماری توجہ کا تار ٹوٹتا نہ تھا۔
ماقبل نبیوں ؑکی زندگیوں اور اُن کی امتوں کی کہانیاں ہوں یا صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی استقامت کے واقعات، میں اُنہیں سے سن سن کر مزید پڑھنے کی طرف راغب ہوا تھا۔ شاید فجر کے بعد کی انہی نشستوں کا اثر رہا ہوگا کہ طالب علمی کے زمانے ہی میں میری تصنیفی زندگی کا آغازپیکر جمیلﷺ لکھنے سے ہوگیا تھا۔
شام والی نشستیں اکثر تاخیر کا شکار ہو جاتیں ۔ ہمارے لیے یہ حکم تھا کہ مغرب کے بعد ہم گھر سے باہر نہ رہیں گے لیکن اکثر یوں ہوتا کہ ہم باہر گلی میں یا پیپل والے چوک میں کھیل رہے ہوتے تو وقت کےگزرنے کا پتہ ہی نہ چلتاتھا اور دیر ہو جاتی۔ ایسے میں اگر گھر واپس ہوتی تو امی جان ہماری گردنیں دبوچ کر کچھ ایسے چانٹم چٹول کرتیں کہ طبیعت صاف ہو جاتی لہٰذا ہم وہیں رُکے رہتے حتیٰ کہ ہمیں اباجان آتے دکھائی دیتے ۔
اُن کے ساتھ اکثر وہی ملازم ہوتا جس کو انہوں نے اپنا کاروبار سونپ رکھا ہوتا تھا۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں سرہانے کے غلاف جیسے دو تھیلے ہوتے ۔ جس کاروباری مددگار کا حلیہ آج تک میرے ذہن میں محفوظ ہے اُس کا قد چھوٹا تھا اور کندھے بھرے بھرے۔ اس کے کندھوں پر ہمیشہ چارخانے والا بڑا سا رومال پڑا رہتا۔ اُس کا جسم پھولا ہوا تھا اور بازو موسل کی طرح موٹے موٹے۔ وہ چلتے ہوئے اپنا سرکندھوں کی سیدھ تک جھکا لیتا تو دور سے یوں لگتا جیسے وہ چل کر نہیں،لڑھک کر آرہا ہو ۔ پھولے ہوئے دو تھیلے اس کے ہاتھوں میں عجیب لگتے تھے۔
ابا جان کی انگلی تھام کر گھر میں داخل ہونے کا مطلب تھا ہم ان کی امان میں تھے۔ امی جان ایسے میں غصہ پی جاتی تھیں۔ یوں ظاہر کرتیں جیسے سب کچھ معمول کے مطابق تھا ۔ وہ ان کی خدمت میں جت جاتیں۔ کبھی پانی پلانے کو لا رہی ہیں ۔ چلمچی ،لوٹا اور تولیہ اٹھا کر کھڑی ہیں کہ ہاتھ وہیں دھلوادیں جہاں وہ بیٹھ گئے ہوتے ۔گھر میں اباجان قینچی چپل پہننے کے عادی تھے اور باہر پشوری کھیڑ یا گرگابی ۔
وہ پاؤں سمیٹ کر چارپائی پر بیٹھ چکے ہوتے تو امی جان قینچی چپل لا کر وہاں رکھ دیتیں ۔ کمر سیدھی کرنے کو چارپائی پہ نیم دراز ہونے لگتے تو بھاگ کراس خدشے سے ایک اور تکیہ لے آتیں کہ ایک کم پڑ رہا ہوگا۔ امی جان چارپائی کی پائنتی پر کھیس ڈال دیا کرتی تھیں کہ ابا جان ٹانگیں سیدھی کرنا چاہیں توپاؤں ادوائن میں نہ الجھیں ۔ خیر، جب تک ابا جان کا کاروباری مدد گار وہاں ہوتا ، جس کے لیے ہمیں حکم تھا کہ ہم اسے چاچا کہہ کر پکاریں گے ، وہ پوری طرح چارپائی پر دراز نہیں ہوتے تھے۔
اس عرصے میں اباجان کی چارپائی کے پہلو میں پڑی دوسری چارپائی پر بیٹھے وہ چاچا صاحب دونوں تھیلے اپنے سامنے اوندھا کرخالی کر چکے ہوتے ۔ہر روز وہاں ایک ،پانچ، دس، پچاس اور ہزار روپے کے نوٹوں کا ڈھیر لگ جاتاتھا۔ چاچا صاحب نوٹوں کے ڈھیر کو دیکھ دیکھ کرہنستے جاتے اور ہر مالیت کے نوٹوں کی الگ الگ سو سو کی گڈیاں بنا کر اُن پر ربڑ کا چھلا چڑھا دیتے۔
چاچا صاحب ہنس رہے ہوتے یا کوئی بات کرتے تو ان کا اپنی رانوں پر رکھا ہوئے پیٹ کا گولا اچھلنے لگتا تھا۔ ہم جو نوٹ چھانٹنے میں ان کی مدد کر رہے ہوتے ، یہ منظر دیکھ کر ایک دوسرے کو آنکھوں سے اشارے کرتے اور ہنس پڑتے تھے۔ چاچا صاحب کو جیسے اس کی خبر ہو جاتی تھی ۔ وہ ہمیں ہاتھ آگے بڑھا کر اپنی مدد سے منع کر دیتے ؛’’بس بس تم لوگ میرا کا م بڑھا رہے ہو، میں خود کرلوں گا۔‘‘
چاچا صاحب کی بات سن کر ابا جان ہمیں وہاں سے اٹھ جانے کو کہتے۔ ہم دور سے دیکھتے رہتے کہ کیسے انہوں نے ہر مالیت کے نوٹوں کی گڈیوں کی الگ الگ تہیں جمائی ہیں اور ہر گڈی کو گن کر اس کا اندراج ایک کاپی میں کیا ہے جو انہی نوٹوں کے تھیلوں میں سے ایک سے نکلا کرتی تھی۔
ایسا کرنے کے بعد وہ کندھے سے اتار کر سامنے بچھائے گئے چارخانے رومال میں ساریاں گڈیاں ڈال کر گٹھڑی بناتےاورقدرے زیادہ ہنستے ہوئے اپنے پیٹ جیسی گول گٹھڑی اباجان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہتے؛
“بھائی صاحب!آپ پڑتال کرلیں ایک بار۔”
ابا جان ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیتے۔ ایسا دیکھنے میں کبھی نہ آیا تھا کہ انہوں نے نوٹ گنے ہوں یا ان کا موازنہ کاپی کے اندراجات سے کیا ہو۔ وہ فوراً امی جان کو آواز دیتے ۔
“دیکھو ! اس کے بچے گھر میں منتظر ہوں گےکھانا لے آؤ۔”
ہم بچے بھی تو اسی کے منتظر ہوتے تھے کہ چاچا صاحب کھانا کھا کر جائیں تو ابا جان سے مزے مزے کی باتیں اورواقعات سنیں ۔ یہ باتیں اور واقعات ہی ہمارے لیے کہانی ہو جاتے تھے۔ کہانی نہیں تو کہانی کی طرح دلچسپ۔ ان کی اپنی زندگی کے تجربات ۔ کہہ لیجئے وہ ہڈ بیتی کہتے تھے اورجس لہجے میں کہتے تھے اُن کے جادو مثال لفظ کہانی ہو جاتے تھے۔
جب لفظ تصویر ہوئے
میری ننھی منی نواسی زینیاسائق ابھی گرتے پڑتے چلتی اور ٹوٹا پھوٹا بولتی تھی کہ ہمارے ہاں آتے ہی یہاں وہاں بکھری میری کتابیں ایک ایک کرکے میرے پاس اٹھا لاتی تھی۔ اُسے میری عینک کی پہچان تھی اور سیل فون کی بھی اگر کسی اور کے ہاتھ میں دیکھتی تو فوراً جھپٹ کر مجھے لا دیتی۔
نانا کی عینک اور سیل فون کی پہچان کے لیے تو اس نے کوئی نشانی رکھ لی ہوگی مگر ہر کتاب نانا کی ہوگی یہ اس کے ننھے منے ذہن میں جیسے سمایا ہوا تھا مجھے عجیب لگتا ۔ گھر میں نئی نئی کتابیں تواتر سے آتی رہتیں ۔ ہر ایک کا سرورق مختلف ہوتا ۔کسی کا رنگین کسی کا یوں ہی سا۔ کوئی موٹی کوئی پتلی۔کوئی ہلکی کوئی بوجھل ؛ مگر وہ جیسی بھی ہوتی ،زینیا اُسےدونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اپنی پسلیوں کے اوپر جماتی اور میرے پاس آکرمجھے تھما دیتی۔
مجھے ایسے میں زینیا پر بہت پیار آتا اورمیں اپنے بچپن میں پہنچ جاتا تھا۔ جی عمر کے اس حصے میں جب میں بھی اتنا ہی رہا ہوں گا؛ اتنا یا کچھ بڑا ۔ تب ابا جان کی ہر کتاب مجھے یوں لگتا تھا جیسے وہ میری ہوتی تھی ۔ کوئی اور بھائی اُن کی کسی کتاب یا رسالے کو ہاتھ لگاتا تھاتو مجھے برا لگتا ۔ سچ پوچھیں تو میں اکثر ان سے چھین بھی لیتا تھا۔ اُن کی کتابیں یوں گھر بھر میں ہر کہیں ایسے نہیں ہوتی تھیں جیسے میرے ہاں ہیں کہ انہیں ڈرائنگ، ڈائنگ، لاؤنج اور بیڈروم سے گھوم پھر کرلائبریری کا حصہ ہونا پڑتاہے۔
اباجان کے پاس تو مطالعے کی ترجیح ہو کر کتابیں اور رسالے آتے ہوں گے مگر میرا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ وہ کتابیں جو میں خود خرید کر لاتا ہوں اُن کا مقام تو متعین ہے مگروہ جو ہرروز ڈاک سے لکھنے والے یا ناشرین عطا کرتے ہیں، اُن کے کچھ اوراق پڑھ کر فیصلہ ہوپاتا ہے کہ یہ مزید پڑھنے کے لائق ہیں بھی یا نہیں ؟ اگر پڑھنی ہیں تو کب؟ فوراً یا جو پہلے سے پڑھنے کی قطار میں رکھ چکا ہوں اُن کے بعد۔ کسی بھی فیصلے پر پہنچنے کے لیے کچھ وقت چاہیے ہوتاہے ۔ وقت جو کبھی میرے قابو میں نہیں رہا تھااور نہ اب ہے۔
ابا جان کے مطالعے کی ترجیح اوروقت طے شدہ تھا ۔ اپنے کمرے میں بہت سلیقے سے کتب رکھتے تھے۔ جس کا مطالعہ مقصود ہوتا صرف وہی نکالتے اور آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر توجہ سے پڑھتے تھے ۔ پڑھ چکتے تووہ پھر اپنے مقام پر پہنچ جاتی۔ایسے میں کم کم موقع نکلتا تھا کہ کوئی کتاب یا رسالہ میری دسترس میں آئے۔ میں اسی تاک میں ہوتا اور مواقع نکال لیتا تھا۔ میں پڑھ نہیں سکتا تھا۔ محض الفاظ یا تصویروں کو دیکھتا رہتا ۔مگر کتاب چھونے ، اسے اُلٹ پلٹ کر دیکھنے اور دونوں ہاتھوں میں تھام کر کہیں درمیان سے کھول لینے کا اپنا ہی لطف تھا۔
جب میں ذرا چیزوں کو سمجھنے کے لائق ہو گیا تھا تواباجان کوئی دلچسپ واقعہ پڑھ کر ہمیں بھی سنانے کو بلا لیا کرتے تھے ۔ وہ کتاب پر نظریں جما کر پڑھتے ہوئے بیچ بیچ میں ہمیں دیکھے جاتے ۔ اُن کا کبھی کتاب کو اور کبھی ہمیں دیکھنا اگرچہ اچھا لگتا تھا مگر میں ہمیشہ اُن کی نفاست سے تراشیدہ مونچھوں اور داڑھی کے بیچ جنبش کرتے ہونٹوں کو دِیکھا کرتا تھا۔ مجھے اس میں لطف آتا کہ وہ کبھی پھیلتے کبھی سکڑتے ، کبھی کھلتے اور کبھی بند ہوتے تھے ۔
ایک بچے کے لیے یہ کتنی عجیب بات تھی کہ اس کے باپ کے جنبش کرتے ہونٹ کتاب میں لکھے ہوئے کو آواز میں تبدیل کر رہے تھے۔ یہ آواز اس بچے کےتصور کے پردے پر تصویریں بناتی تھی ۔ بچہ جب تجسس میں کتاب کو جھانک کر دیکھتا تو وہاں محض لفظ ہوتے تھے ۔ کتاب کے صفحے پر تیرتے ہوئے لفظ ۔