کارل مارکس نے 175 سال پہلے لکھا کہ محنت کش جس چیزکو بناتےہیں، وہ چیز جتنی عظیم یا طاقتور ہوتی جاتی ہے، محنت کش کی طاقت اسی تناسب میں گھٹتی چلی جاتی ہے۔ اگر ریل کی پٹریوں پر مرنے والے یہ محنت کش ملک کے معمار ہیں اور یہ ملک لگاتار طاقتور ہوتا گیا ہے، تو یہ اتنے ہی کمزور ہوتے گئے ہیں۔
‘یہ
حادثہ قطعی نہیں…’ انگریزی
اخبار ٹیلی گراف کی یہ سرخی ایک سچے دل سے نکلی چیخ ہے۔ رندھے گلے سے نکلی یہ چیخ ایک نامکمل جملہ ہے۔مکمل جملہ یہی ہو سکتا ہے ‘یہ حادثہ قطعی نہیں،قتل ہے۔’قتل کس نے کیا؟ قاتل یقینی طور پر وہ ڈرائیور نہیں ہے، جو مال گاڑی کی رفتار کو قابو نہیں کر سکتا تھا جب وہ ریلوے لائن پر سر ٹکائے، گہری نیند میں ڈوبے ان مزدوروں کو دیکھ پایا ہوگا۔
یہ ایک خالی مال گاڑی تھی جو حیدرآباد کے چیراپلی سے مہاراشٹر کے پانواڑ جا رہی تھی۔ اورنگ آباد کے پاس بدنا پور اور کرماڈ اسٹیشن کے بیچ ٹرین کے لوکو پائلٹ راماشیش کمار کو ریلوے لائن پر کچھ رکاوٹ دکھائی پڑی۔جب ٹرین کچھ آگے بڑھی اور غیر واضح رکاوٹ صرف 160 میٹر دور رہ گئی تب راماشیش کو دکھلائی پڑا کہ یہ رکاوٹ دراصل ریلوے لائن پر سو رہے لوگ ہیں۔
انہوں نے بھرپور کوشش کی، ٹرین کا ہوٹرزوروں سے بجایا، ایمرجنسی بریک کو پوری طاقت سے دبایا لیکن رفتار کی بھی ایک قوت ہوتی ہے۔ ٹرین رکی ضرور، لیکن تب تک یہ 16 لوگ کچلے جا چکے تھے۔ہوٹر کی آواز سے اگل بغل کے گاؤں کے لوگ جاگ اٹھے، دوڑکر ریلوے لائن تک پہنچے۔ وہاں ان سولہ مزدوروں کے جسم کے حصے پڑے تھے۔ بغل میں کچھ روٹیاں پڑی تھیں۔
راماشیش کی انسانی آنکھوں کو سوئے ہوئےجسم ریلوے لائن پر رکاوٹ جان پڑے، اس میں ان آنکھوں کی کوئی غلطی نہیں تھی۔ نزدیک جانے پر جو دھندلا تھا، وہ صاف ہو گیا۔راماشیش کو جب تک پتہ چلا کہ اس کی ٹرین کے پہیوں کے نیچے اس کی طرح کے انسان ہی کٹ مرنے والے ہیں،تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
محکمہ ریل کی طرف سے کوئی افسوس ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔اس کے بیان میں کہا گیا کہ مارے گئے لوگوں نے ریلوے لائن پر قبضہ کیاہواتھا۔ اس طرح ریلوے لائن پر آ جانا ٹریس پاسنگ ہے، غیر قانونی ہے اور جرم ہے۔ اس میں کوئی معاوضہ کیسا؟اس لیے قاعدے سے ریلوے نے نہ تو دکھ کا اظہار کیا ہے اور نہ مرنے والوں کے اہل خانہ سے کوئی تعزیت کی ہے۔
انڈین ایکسپریس نے بتایا ہے کہ 2018 میں امرتسر کے پاس ریلوے لائن پر کٹ کر مر جانے والے 40 لوگوں کو بھی ریلوے نے کوئی معاوضہ نہیں دیا تھا۔ وزیر اعظم ریلیف فنڈسے ہر موت کے لیے 2 لاکھ روپے کا معاوضہ دیا گیا تھا۔ممکنہ طور پر شور اٹھنے پر ان 16 کے تئیں بھی یہ ہمدردی ریاست کی کوئی تنظیم اس قاعدے سے ظاہر کرے کہ اس کو روایت کی شروعات نہ مان لیا جائے۔
اسٹیٹ قانون کے دائرے سے باہر انسانیت کے میدان میں بھٹک نہیں سکتا اس لیے قانونی طور پر پہلے یہ ماننا ہوگا کہ یہ 16 ریلوے کے علاقے میں غیر قانونی طور پر داخل ہوئے تھے۔وہ قانون توڑکر نکل بھی پڑے تھے۔ مدھیہ پردیش کے شہڈول اور امریا کے یہ لوگ مہاراشٹر کے جالنا میں الگ الگ کمپنیوں میں کام کرتے تھے۔ ریاست کی تمام یقین دہانیوں کے باوجود یہ صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے، باوجود اس اطلاع کے کہ ان کے لیے شرمک ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں، یہ پیدل نکل پڑے۔
آخر اس میں سرکاروں کا کیا قصور؟ وہ توملک کے صحت کی فکرکر رہی تھیں، اس کی پہرےداری میں مصروف تھیں، وہ کس کس کا خیال کریں!جنہیں اس طرح لکھنے اور پڑھنے کی سہولت ہے، ویسے ہم جیسے لوگ جانتے ہیں کہ کچھ بھی ہو ان جیسے 16 میں ہم کبھی نہیں ہوں گے۔ لیکن لاکھوں ابھی بھی زندہ ہیں جنہوں نے جب یہ خبر سنی یا دیکھی تو ان کے بدن میں سہرن دوڑ گئی، ‘کیونکہ ان میں ہم بھی ہو سکتے تھے۔’
راجیش دیبناتھ نے
ٹیلی گراف کو بتایا، ‘جب میں نے اورنگ آباد کے پاس ریلوے لائن پر پڑے لوگوں کی دھندلی تصویریں دیکھیں، تو میں کانپ گیا۔ یہ ہمارے ساتھ ان 8 دنوں میں کبھی بھی ہو سکتا تھا جب ہم بہار میں رکسول سے جھاجھا تک ریلوے لائن کے کنارے کنارے چل رہے تھے۔’
‘میرے بھائی نے جب مجھے ٹی وی کے پردے کو تاکتے دیکھا، تو اس کو بند کر دیا۔ گھر کی عورتیں، جو تب تک خوش تھیں (کیونکہ ہم لوٹ آئے تھے) رونے لگیں، یہ میرے اور میرے دوستوں کے ساتھ ہو سکتا تھا۔ یہ سوچ کر میرے ہاتھ تھرتھرانے لگے۔ آخر انہی کی طرح ہمیں بھی 400 کیلومیٹر کا سفر کرنا تھا۔’
‘کلیجہ میں ہوک سی اٹھی، جب میں نے بکھری ہوئی روٹیاں دیکھیں۔ مدھوبنی میں ہم نے جو روٹیاں باندھی تھیں، ان پر ہمارے دن کٹے تھے۔’‘میں سمجھ سکتا ہوں کہ کیوں انہوں نے ریلوے لائن پر سر ٹکانے کی سوچی ہوگی، کہیں اور نہیں۔ جانتا ہوں کہ آپ سب حیران ہوں گے۔ یہ اور کچھ نہیں تھکان کی انتہا ہے جس میں جسم بےبس ہو جاتا ہے۔ ہاں، لوہے کی پٹری پر سر ٹکانا کوئی آرام دہ نہیں لیکن یہی ہے جو ہمیں گھر کا راستہ دکھاتی رہتی ہے۔’
راجیش کو وہ وقت یاد آیا جب 2 مئی کو 200 کیلومیٹر چل لینے کے بعد اسی طرح تھکان سے چور وہ کچھ منٹوں کے دم لینے کو ریلوے لائن کے بیچ بیٹھے اور انہیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ کب آنکھ لگ گئی۔ پھر اچانک سمجھ میں آیا کہ یہ کتنا خطرناک ہو سکتا تھا!راجیش کا یہ انٹرویو ایک دستاویز ہو سکتا ہے ان کے لیے، جو ریلوے لائن کے سہارے گھر جانا چاہتے ہیں۔
انہیں کون کون سی احتیاط برتنی چاہیے، کس طرح اپ اور ڈاؤن ٹرین کا پتہ کرنا چاہیے، سگنل پر کیسے نظر رکھنی چاہیے اور ہمیشہ پیٹھ پر اپنی آنکھیں رکھنی چاہیے جس سے پیچھے سے آنے والی ٹرین کا پتہ چل سکے۔راجیش دیبناتھ آپ کو بتاتے ہیں کہ اس طرح کے سفر میں بچ کر پہنچ جانااتفاق ہے۔ موت کئی راستوں سے آپ کو دبوچ سکتی ہے۔ یہ سب کچھ جذباتی طورپر نہیں لکھا۔ یہ ان موتوں کی ذمہ داری طے کرنے کی ایک کوشش بھر ہے۔
تو ہم یاد کریں سپریم کورٹ کے سامنے اسٹیٹ کا حلف نامہ، جو قابل ایڈوکیٹ کے ذریعے اس شدید اور بے رحم تالابندی کے 41 دن گزر جانے کے بعد دیا گیا تھا۔اس میں عدالت کو یقین دلایا گیا تھا کہ اب سڑک پر کوئی نہیں ہے۔ سرکار نے سب کے لیے پرسکون انتظام کر دیا ہے۔ راحت کیمپ ہیں، کھانا پانی ہے۔
اس لیے ان کی طرف سے جو پرشانت بھوشن چیخ رہے تھے، انہیں شہرت کا بھوکا بتایا گیا اور ان پر کان نہ دینے کو عدالت سے کہا گیا۔عدالت نے بھی پرشانت بھوشن کو کہا کہ سرکار سب جانتی ہے اور کیا کیا جانا ہے، یہ طے کرنے کی قابلیت بھی اسی کے پاس ہے۔باربار اس آفت کی گھڑی میں اسے تنگ کرنے کا کوئی ارادہ عدالت کا نہیں، یہ اس کے بعد کی کئی عرضیوں کو خارج کرکے عدالت نے صاف کر دیا۔
اگر سرکار یا انتظامیہ کو سب معلوم ہے تو یہ جو موتیں ہوئیں، ان کا احساس اسے کیوں نہیں ہوا؟ کیا اس کے لیے ٹرین کے ہوٹر کی چیخ کی ضرورت تھی اسے؟ہمارے جج صاحبان غیر ضروری خبریں نہیں پڑھتے، اس لیے انہیں قصور نہیں دیا جا سکتا لیکن جس کا ووٹ لےکر اقتدار حاصل کیا ہے، وہ ووٹر کہاں ہے، اس کی خبر اگر سرکار کو نہیں ہے تو اسے اپنی اس بے خیالی کا جواب دینا ہی پڑےگا۔
اپوزیشن کے رہنما راہل گاندھی نے ان مارے گئے لوگوں کو ملک کا معمار کہا۔ مرنے کے بعد دیے گئے اس اعزاز کا کھوکھلا پن ظاہر ہے۔ملک ابھی ان محنت کشوں کے سامنے اور ان کے خلاف کھڑا ہے۔ پرانی کہاوت ہے کہ جو وقت ضرورت کام آئے، وہ آپ کادوست ہے یادوست کی پہچان ضرورت کے وقت ہوتی ہے۔
جس گھڑی ان لوگوں کو، جنہیں ہندوستانی بھی کہا جا سکتا ہے لیکن جو انسان ضرور تھے، ساتھ کی ضرورت تھی، ملک نے ان کا دامن چھوڑ دیا۔ جو روٹیاں پٹریوں پر بکھری پڑی ہیں، ان کی صورت سے ہی اس انسانیت کا پتہ چل جاتا ہے جو ملک ان سے محسوس کرتا ہے۔
کارل مارکس نے 175 سال پہلے لکھا کہ محنت کش جس چیزکو بناتےہیں، وہ چیز جتنی عظیم یا طاقتور ہوتی جاتی ہے، محنت کش کی طاقت اسی تناسب میں گھٹتی چلی جاتی ہے۔ اگر ریل کی پٹریوں پر مرنے والے یہ محنت کش ملک کے معمار ہیں اور یہ ملک لگاتار طاقتور ہوتا گیا ہے، تو یہ اتنے ہی کمزور ہوتے گئے ہیں۔
ان موتوں پر رلانے والے بیان دینے کی جگہ بہتر ہو کہ اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کی سرکاروں نے ان مارے گئے محنت کشوں کی برادری کو اور کمزورکرنے کی جو تدبیرکی ہیں، جنہیں ان کی سستی محنت کے لیے لار ٹپکاتے سرمایہ کاروں اور ان کے چاکر اکانومسٹ لیبرقوانین میں سدھار کہہ رہے ہیں، انہیں رد کرنے کے لیے ہم آواز اٹھائیں۔
جیسے کرناٹک سرکار کو واپس مزدوروں کے لیے ریل چلانی پڑی، ویسے ہی سرکاروں کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ مزدوروں کو ملک کی معیشت کوبندھوا بنانے کے قانون رد کریں۔مارکس نے تہذیب کو انسانی بنانے کی اپیل کی تھی۔ کہا تھا کہ ان مزدوروں کو جب تک ملک کے لیے جائیداد پیدا کرنے کی وجہ سے ہی مفید مانا جاتا رہےگا، ایسے حادثے اصول ہوں گے۔ پونجی کی دیوی اور ملک کا پرساد بنا اس قربانی کے ملنا ممکن نہیں۔
یہ سب کچھ سوچنا اپنی مذمت کے لیے نہیں، کیونکہ وہ ایک طرح کی تصدیق ہے۔ یہ اس آفت میں انسانیت کی سیاست کی زبان کی تلاش کے لیے ہے۔یہ مشترکہ شہریت کی تعمیر کے لیے لازمی ہے، ورنہ ان موتوں پر ہماری آہ ایماندار نہیں۔
( مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)