آسام اسمبلی انتخاب کے مدنظر بدرالدین اجمل کی اےآئی یوڈی ایف کے ساتھ کانگریس کے اتحاد کو بی جے پی‘فرقہ وارانہ ’ کہہ رہی ہے، حالانکہ پچھلے ہی سال ریاست کےتین ضلع پریشدانتخابات میں بی جے پی کے امیدوار اےآئی یوڈی ایف کی مدد سے ہی صدر کےعہدے پر فائز ہوئے ہیں۔
لوک سبھا کا انتخاب ہو یا پھر اسمبلی کا، ہر سیاسی پارٹی اپنی آئیڈیالوجی کے مطابق دوسری پارٹیوں سے سمجھوتہ کرتی ہے۔بنیادی مقصد ہوتا ہے کہ کسی بھی طرح سے انتخاب جیتا جائے۔
آج کل ملک کی سیاست میں ایک نئے چلن کی شروعات ہوئی ہے۔ اس چلن کے بارے میں تفصیل سے بات کریں گے لیکن پہلے یہ جان لیجیے کہ آسام میں اجمل بدرالدین کی پارٹی آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اےآئی یوڈی ایف) کا سمجھوتہ پہلے بی جے پی کے ساتھ رہا ہے۔
جموں وکشمیر میں بی جے پی نے محبوبہ مفتی کی پارٹی پی ڈی پی کے ساتھ سرکار بنائی تھی اور 2019 کے مہاراشٹر اسمبلی انتخاب سے پہلے شیوسینا بھی این ڈی اے کا حصہ تھی۔
اس بار آسام کے انتخاب میں کانگریس نے آٹھ جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرکے ‘مہاجوٹ’بنایا ہے۔ اس میں آسام کی اےآئی یوڈی ایف بھی ایک ہے۔ اب بی جے پی کو کانگریس اور اےآئی یوڈی ایف کے اتحاد پر سخت اعتراض ہے اور وہ ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے کہ کانگریس نے ووٹ کے لیے ایک ‘فرقہ پرست’پارٹی سے اتحاد کر لیا ہے حالانکہ بی جے پی کے رہنما بتا نہیں رہے کہ وہ پارٹی فرقہ وارانہ کیسے ہے۔
آسام میں بی جے پی کی حکمت ہے کہ کانگریس کو مسلم پرست بتاکر ہندو ووٹوں کا پولرائزیشن کیا جائے لیکن تاریخ کسی کے مٹائے مٹتی نہیں ہے اور یہ بات تو پرانی بھی نہیں ہے کہ بی جے پی نے خود اقتدار حاصل کرنے کے لیےاےآئی یوڈی ایف سے سمجھوتہ کیا تھا۔
لیکن تب اجمل کی پارٹی فرقہ پرست نہیں تھی!ٹھیک اسی طرح سے جس طرح سے پی ڈی پی پہلے ‘پاکستان پرست’پارٹی تھی پھر جموں وکشمیر میں سرکار بنانے کے وقت مقدس ہو گئی تھی اور بعد میں پھر سے گپکر ‘گینگ’ کا حصہ ہو گئی۔
مہاراشٹر میں بی جے پی کا 36 برس پرانا اتحاد چھوڑکر شیوسینا جب کانگریس اور این سی پی کے ساتھ آ گئی تو بی جے پی کو اتحاد‘ناپاک’دکھنے لگا۔سب سے پہلے بات آسام کی کرتے ہیں۔ سال 2020 میں ضلع پریشدانتخاب ہوا تھا، جس میں تین ضلع پریشد کے صدرکے عہدوں پر بی جے پی بنا اکثریت کے اےآئی یوڈی ایف کی مدد سے قابض ہوئی۔
پہلا؛ درنگ ضلع پریشدانتخاب میں بی جے پی کو 6 کانگریس کو 5 اور اےآئی یوڈی ایف کو 2 سیٹیں ملی تھی وہیں کانگریس چھوڑکر آئے آزاد امیدوار ہمایوں کبیر نے ایک سیٹ جیتی تھی۔ کسی کو بھی اکثریت نہیں ملی لیکن خفیہ رائے شماری میں بی جے پی کے دھیریندر ڈیکا پنچایت اےآئی یوڈی ایف کی مددسے صدربنادیے گئے۔
دوسرا ضلع ہے ناگاؤں-ضلع پریشدانتخاب میں بی جے پی 3 سیٹوں سے اکثریت سے پیچھے تھی۔ 29 رکنی ضلع پریشد میں بی جے پی کو 12 سیٹوں پر جیت حاصل ہوئی تھی۔کانگریس 11 سیٹیں جیتی تھی جبکہ آسام گن پریشد اور اےآئی یوڈی ایف کو تین – تین سیٹیں حاصل ہوئی تھیں، اس ضلع پریشد میں بھی اےآئی یوڈی ایف کی مدد سے صدر اورنائب صدر دونوں بی جے پی کے ہی بنے۔
اور تیسرا ضلع ہے کریم گنج، جہاں ضلع پریشدانتخاب میں بی جے پی کو صرف 6 سیٹیں ملی تھی جبکہ کانگریس نے 10، اےآئی یوڈی ایف نے 2 اور آزاد امیدواروں نے بھی 2 سیٹ حاصل کی تھی۔ لیکن یہاں بھی اےآئی یوڈی ایف کی مدد سے بی جے پی کے آشیش ناتھ کو صدرچن لیا گیا۔
اس سے پہلے 2014 کے راجیہ سبھا انتخاب میں بھی بی جے پی اور اےآئی یوڈی ایف نے اتحاد کیا تھا۔ 2014 میں راجیہ سبھا کے لیے تین سیٹوں پر ہونے والے انتخاب میں کانگریس نے راجیہ سبھا ممبر بھوونیشور کالیتا، سلطان پور اتر پردیش سے رکن پارلیامان سنجے سنگھ اور آسام میں اپنی اتحادی پارٹی بی پی ایف کے وشوجیت دیماری کی امیدواری طے کی تھی۔
تب بی جے پی نے اےآئی یوڈی ایف اور آسام گن پریشد نے آزاد امیدوار حیدر حسین کوحمایت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔اس اتحاد پر تب کانگریس سرکار میں وزیررہے ہمنتا بسوا شرما نے کہا تھا کہ بی جے پی نے اپنی آئیڈیالوجی کو ترک کرکے اےآئی یوڈی ایف سے اتحاد کیا ہے۔
اب بی جے پی میں جانے کے بعد وہی ہمنتا کانگریس اور اےآئی یوڈی ایف کے اتحاد پر فرقہ پرستی کا الزام لگاتے ہیں۔
بی جے پی-پی ڈی پی اتحاد سرکار اوردفعہ 370
جنوری 2015 میں بنے اس اتحاد کوکامیاب بنانے میں سنگھ کے جانےمانے چہرے اور بی جے پی جنرل سکریٹری رام مادھو کااہم رول تھا۔
سرکار بنانے کے لیے سمجھوتہ ہونے پر اس وقت کےبی جے پی صدرامت شاہ نے کہا تھا کہ جموں وکشمیر میں ایک مقبول سرکار کاقیام ہونے جا رہا ہے، لیکن گھاٹی میں بگڑ رہے حالات کا حوالہ دےکر تین سال بعد ہی سرکار گرا دی گئی۔
سرکار گرنے کے بعد وزیر اعظم مودی نے کہا، ‘وہ ہماری ‘مہاملاوٹ’تھی اور ہمیں جمہوری مجبوری میں سرکار دینی تھی اگر نیشنل کانفرنس اس وقت مفتی صاحب کو تعاون دےکر کھڑی ہو جاتی تو ہم تواپوزیشن میں رہنے کے لیے تیار تھے، ہم نے انتظار کیا تھا۔
لیکن سچ یہ ہے کہ بی جے پی ہمیشہ سے ہی پی ڈی پی کو پاکستان پرست پارٹی کے طورپر دیکھتی آئی تھی اور اس کے بارے میں بی جے پی کے رہنماؤں کا خیال تھا کہ اس کا پاکستان کے لیے نرم رخ ہے۔بی جے پی کی نظر میں پی ڈی پی ہندوستان کے مفادات کے لیے ٹھیک پارٹی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود اقتدارحاصل کرنے کے لیے بی جے پی نے پی ڈی پی سے اتحاد کیا تھا۔
اتحاد توڑنے کے لیے دلیل دی گئی کہ پی ڈی پی کی قیادت میں چل رہی سرکار دہشت گردی کو قابو میں نہیں کر پا رہی ہے۔ ادھر کشمیر میں سرکار گری اور ادھر مرکزی حکومت نے آرٹیکل 370 کو ہٹانے کی تیاری کر لی۔جب کشمیر کے رہنما اس کے خلاف کھڑے ہو گئے تو اسی بی جے پی کے لیے پی ڈی پی پھر سے دشمن ہو گئی۔ اقتدار کے لیے ہوئی دوستی یکایک دشمنی میں بدل گئی۔ پہلے جو اتحادی تھے وہ اب اب گپکر ‘گینگ’ ہو گئے۔
سری نگر کے گپکر روڈ پر نیشنل کانفرنس کے چیف فاروق عبداللہ کا گھر ہے۔ جموں وکشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹانے کے ایک دن پہلے 4 اگست 2019 کو آٹھ علاقائی پارٹیوں نے یہاں بیٹھک کی تھی۔
اس میں ایک تجویز پاس کی گئی تھی۔ اس کو ہی گپکر ڈکلیریشن کہا گیا۔ گپکر ڈکلیریشن میں آرٹیکل 370 اور 35 اے کی بحالی کے ساتھ ہی جموں وکشمیر کے لیے ریاست کا درجہ مانگا گیا ہے۔اتحادی پارٹیوں کے سب سے سینئررہنما ہونے کے ناطے فاروق عبداللہ کو اس کا صدر بنایا گیا ہے۔
ان میں عبداللہ کی سربراہی والی نیشنل کانفرنس، محبوبہ مفتی کی سربراہی والی پی ڈی پی کے علاوہ سجاد غنی لون کی پیپلس کانفرنس، عوامی نیشنل کانفرنس، جموں وکشمیر پیپلس موومنٹ اورسی پی آئی (ایم )کی مقامی اکائی شامل ہے۔
آج بی جے پی انہیں گپکر گینگ کہہ کر مخاطب کرتی ہے۔ پی ڈی پی رہنما محبوبہ مفتی نے بی جے پی کی مخالفت پر کہا بھی تھا کہ جب بی جے پی سے اتحاد کرو تو ٹھیک اور اگر دوسروں سے کر لو تو بی جے پی کو وہ پارٹی غلط دکھنے لگتی ہے۔
بی جے پی اور شیوسینا
چھتیس سال پرانا یہ اتحاد بی جے پی کی چالاکیوں کی وجہ سے ٹوٹ گیا۔ وزیر اعظم مودی نے 2019 کے اسمبلی انتخاب سے قبل کہا تھا کہ شیوسینا کے ساتھ بی جے پی کا اتحاد سیاست سے پرے ہے اور مضبوط ہندوستان کی خواہش سے متاثرہے۔
حالانکہ جب شیوسینا کسی بھی قیمت پر سرکار نہ بنا سکے اس لیے بی جے پی نے پہلے گورنر کے ساتھ مل کرعجلت میں فڈنویس کو حلف دلوا دیا، پھر گورنر رول لگوا دیا گیا۔ اب جب وہاں پر کانگریس، این سی پی اور شیوسینا کی ملی جلی سرکار بن گئی ہے تو بی جے پی کے بول بدل گئے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)