الزام ہے کہ 10 جولائی کو ہری دوار میں کانوڑیوں کے ایک گروپ نے ایک کار میں توڑ پھوڑ کرنے کے ساتھ ہی اس کے ڈرائیور کے ساتھ مارپیٹ بھی کی، کیونکہ ان کی کار غلطی سےایک کانوڑ سے ٹکرا گئی تھی۔ کار ڈرائیور نے بتایا کہ وہ بی جے پی آر اور ایس ایس کے ممبر ہیں اور کالی ٹوپی پہننے کی وجہ سے حملہ آوروں نے انہیں مسلمان سمجھ لیا تھا۔
نئی دہلی: اتراکھنڈ کے ہری دوار شہر میں کانوڑیوں کے ایک گروپ نے ایک کار میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے اس کے 63 سالہ کار ڈرائیور کے ساتھ مارپیٹ کی ۔ مارپیٹ اس لیے کی گئی کہ گاڑی غلطی سے ایک کانوڑ سے ٹکرا گئی تھی، جس میں کانوڑپوتر جل( مقدس پانی) لے کر جا تے ہیں۔
انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، کار ڈرائیور نے خود کو بی جے پی اورآر ایس ایس کا کارکن بتایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے سوچا کہ وہ مسلمان ہیں، کیونکہ انہوں نے داڑھی رکھنے کے ساتھ کالی ٹوپی پہن رکھی تھی اور ان کے ساتھ ایک برقع پوش خاتون بھی تھیں۔
گزشتہ 10 جولائی کو پیش آنے والے اس واقعےکا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا، جس میں مبینہ طور پر کانوڑیوں کو کار الٹتے اور لاٹھیوں سے مارنے سے پہلے اس کے مالک پرتاپ سنگھ کو زبردستی گاڑی سے باہر کھینچتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
سنگھ کے علاوہ کار میں ایک خاتون بھی تھیں، جس کے بارے میں ان کا کہناہے کہ وہ بی جے پی کے مقامی اقلیتی ونگ کی رکن تھیں۔ انہوں نے انڈین ایکسپریس کو بتایا،’انہوں نے خاتون کو جانے دیا، لیکن میرے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش کی۔’
بی جے پی کے ریاستی میڈیا انچارج مان ویر چوہان اور پارٹی کے ہری دوار ضلع صدر سندیپ گوئل نے کہا کہ انہیں کانوڑیوں اور بی جے پی کے کسی رکن کے درمیان جھگڑے کے کسی معاملے کی جانکاری نہیں ہے۔
کچھ مقامی خبروں اور سوشل میڈیا صارفین کے یہ دعویٰ کرنے کے بعد کہ ایک ‘مسلم جوڑے’ پر کانوڑیوں نے حملہ کیا تھا، ہری دوار پولیس نے دعویٰ کیا کہ اس واقعے کا کوئی فرقہ وارانہ پہلو نہیں ہے۔
اس واقعے کے سلسلے میں منگلور پولیس اسٹیشن میں آئی پی سی کی دفعہ 147 (فساد)، 148 (مہلک ہتھیاروں سے لیس ہو کرفساد کرنا)، 323 (ارادے کے ساتھ چوٹ پہنچانا) اور 427 (نقصان پہنچانے کے لیے شرارت کرنا) کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
اس سلسلے میں دو افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
ایک اور ایف آئی آر مبینہ طور پر فرضی جانکاری پھیلانے اور فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کر نے والوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 153 اے (مذہب، نسل، جائے پیدائش، رہائش، زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) کے تحت درج کی گئی تھی۔
سنگھ نے کہا کہ وہ خاتون کو ان بیٹے کو مدرسہ چھوڑنے میں مدد کر رہے تھے اور جب یہ واقعہ پیش آیا تو وہ واپس لوٹ رہے تھے۔
انہوں نے کہا،’راستے میں، ہم نے لنچ کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی کار سڑک کے کنارے کھڑی کر دی۔ جب میں نےگاڑی کھڑی تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا، لیکن جب میں واپس آیا تو گاڑی کے بالکل سامنے کسی نے کانوڑرکھ دی تھی۔
انہوں نے الزام لگایا،’جب میں نے کار اسٹارٹ کی تو وہ غلطی سے کانوڑسے ٹکرا گئی ، جس کے بعد وہاں ایک بھیڑ آگئی اور مجھے مسلمان کہہ کر باہر کھینچنے کی کوشش کی اور دوسروں سےمجھے پیٹنے کے لیے کہا۔‘
انہوں نے اور مقامی دکانداروں نے حملہ آوروں کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ ہندو ہیں اور بی جے پی اور آر ایس ایس کے ممبر ہیں۔
انھوں نے کہا، ‘ہم نے ان کے لیے تازہ گنگا جل لانے کی پیشکش بھی کی۔ لیکن وہ نہیں مانے اور گاڑی میں توڑ پھوڑ کی۔ انہوں نے خاتون کو توجانے دیا، لیکن میرے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش کی۔’
انہوں نے کہا، ‘میں نے کالی ٹوپی پہن رکھی تھی، میں برقع پوش خاتون کے ساتھ سفر کر رہا تھا اور میری داڑھی بھی ہے۔ ان سب نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ میں مسلمان ہوں۔’
انہوں نے کہا کہ بعد میں وہ مقامی پولیس اسٹیشن گئے اور شکایت درج کرائی، جس کے بعد انہوں نے دونوں افراد کو گرفتار کر لیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے انہیں گھر چھوڑ دیا، لیکن ان کا فون گم ہو گیا، جو ان کی گاڑی میں تھا۔