این آر سی معاملے پر سابق ججوں اور سول سوسائٹی گروپ نے سپریم کورٹ کی تنقید کی

06:39 PM Sep 09, 2019 | دی وائر اسٹاف

پیپلس ٹریبونل کے جیوری نے کہا کہ اتنے بڑے پیمانے پر چلائی گئی مہم کے باوجود عدلیہ کی معینہ مدت طے کرنے کی ضد نے کارروائی  اور اس میں شامل لوگوں پر دباؤ بڑھا دیا۔

فوٹو: پی ٹی آئی/nrcassam.nic.in

نئی دہلی: سپریم کورٹ کے سابق ججوں مدن بی لوکر اور کورین جوزف اور دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے پی شاہ سمیت سویلین جیوری نے آسام میں این آر سی کے مدعے سے نپٹنے میں عدالت کے طریقوں کی سخت تنقید کی ہے۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، جیوری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جس فیصلے نے این آر سی کی کارروائی کو شروع کیا وہ غیر مصدقہ اور غیر مستند ڈیٹا پر مبنی تھا، جس کے مطابق خارجی غصہ کی وجہ سے ہندوستان میں جلاوطنی ہو رہی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ عدالت نے مہاجروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا اور ان کی آزادی اور عزت کے ساتھ جینے کے حقوق کی خلاف ورزی کی۔

جیوری نے آگے کہا، ‘اتنے بڑے پیمانے پر چلائی گئی مہم کے باوجود عدلیہ کی معینہ مدت طے کرنے کی ضد نے کارروائی اور اس میں شامل لوگوں دونوں پر دباؤ بڑھا دیا۔ ‘جیوری کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب عدالت اس طرح کی کارروائی  کی’ذمہ داری’ سنبھالتی ہے، تو غلطیوں کو ٹھیک کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔واضح ہو کہ، پیپلس ٹریبونل عوامی سماعت کی  ایک ایسی کارروائی ہوتی ہے، جس میں آئینی کارروائی اور انسانی حقوق پر سماعت کے لئے سول سوسائٹی  کے لوگوں کو جیوری میں شامل کیا جاتا ہے۔

اس پیپلس ٹریبونل کا انعقادسول سوسائٹی  کے گروپس نے سنیچر اور اتوار کو کیا تھا۔ جیوری نے آسام کے لوگوں کی ذاتی گواہی اور قانونی ماہرین کو سنا جنہوں نے این آر سی کو اپ ڈیٹ کرنے کی کارروائی  میں حصہ  لیا تھا۔ اس میں وکیل امن ودود، گوتم بھاٹیا، ورندا گروور اور مہیر دیسائی شامل تھے۔جیوری نے زور دےکر کہا کہ شہریت، حقوق کے ہونے کا حق ہے اور یہ جدید سماج میں سب سے  بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک ہے۔جیوری نے کہا، ‘این آر سی سے باہر کئے جانے، غیر ملکی قرار دیے جانے اور آخر میں حراست  میں بھیجے جانے کے ڈر نے کمزور کمیونٹی، بالخصوص بنگالی نژاد  آسامی مسلم اور آسام میں رہنے والے بنگالی ہندوؤں کے درمیان مستقل صدمے  کی حالت پیدا ہو گئی ہے۔ ‘

جسٹس لوکر، جوزف اور شاہ کے علاوہ، ٹریبونل جیوری میں نالسار یونیورسٹی آف لا ء کے وائس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفیٰ، یوجنا آیوگ  کے سابق ممبر، سیدہ حامد، بنگلہ دیش میں سابق سفیر، دیب مکھرجی، انڈین رائٹرس فورم کی بانی-ممبر گیتا ہریہرن اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں سینٹر فار نارتھ ایسٹ اسٹڈیز اینڈ پالیسی ریسرچ کے صدر پروفیسر منیرالحسین شامل تھے۔