اسلام آسام کا دوسرا بڑا مذہب ہے جہاں 13ویں صدی میں سلطان بختیار خلجی کے دور میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔
ہندوستان کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی، جب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ترجمان اور جنرل سیکرٹری کے عہدے پر براجمان تھے، تو ایک دن اشوکا روڑ پر پارٹی صدر دفتر میں یومیہ پریس بریفنگ کے دوران وہ ہندوستان کی روایتی مہمان نوازی، ہندو کلچر کی بے پناہ برداشت اور تحمل پر گفتگو کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدیوں سے ہندوستان نے غیر ملکیوں کو پناہ دی اور ان کو سر آنکھوں پر بٹھا کر بلندیوں تک پہنچایا۔ دی ہندو کی پالیٹیکل ایڈیٹر نینا ویاس، جو بی جے پی کور کرتی تھیں، نے ان کو آڑے ہاتھوں لے کر سوال کیا کہ ان کی پارٹی پھر ہندو کلچر کے برخلاف، بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے مطالبہ کو انتخابی موضوع کیوں بناتی ہے؟
مجھے یاد ہے کہ مودی کا پارہ چڑھ گیا اور اسی کے ساتھ ہی انہوں نے پریس بریفنگ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی طرح جب ایک بار بی جے پی کی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں سیاسی قرارداد پر بحث ہو رہی تھی، تو ایک مسلمان ممبر، جو اٹل بہاری واجپائی حکومت میں وزیر بھی تھے، نے طنزیہ لہجے میں شکوہ کیا، کہ پارٹی کو دیگر فرقوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے، کیونکہ قرار داد صرف مسلمانوں کے ایشوز سے بھری پڑی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیشیوں کی شناخت کرکے ان کو ملک بدر کرنا، جموں و کشمیر کی خصوصی حثییت کو ختم کرنا، یونیفار سول کوڈ لاگو کرنااور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر، یہ سب مسلمانوں کے متعلق ہی ہیں۔
حال ہی میں جب شمال مشرقی صوبہ آسام میں غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے سے قبل ان کی شناخت کا مرحلہ سات سال بعد اختتام پذیر ہوگیا، تو اس کے نتائج حکمراں بی جے پی کے لیے ایک طرح سے سانپ کے منہ میں چھچھوندر والا معاملہ ہوگیا ہے۔ چونکہ یہ بی جے پی کا ہی مرکزی ایجنڈہ تھا، اس لئے این آر سی کی لسٹ، ان سے نگلتے نہ اگلتے بنتی ہے۔ نگلے تو اندھا، اگلے تو کوڑھی والی مثال ہندو فرقہ پرستوں پر صادق آرہی ہے۔ سپریم کورٹ کی نگرانی میں سات سال کی عرق ریزی کے بعد صوبہ کی 39.9ملین آبادی میں ایک تو محض 19لاکھ چھ ہزار افراد ہی ایسے پائے گئے جو شہریت ثابت نہیں کر پائے۔ دوسرا گراؤنڈ پر کام کرنے والے رضا کاروں کے مطابق ان میں سے11 لاکھ افراد ہندو ہیں اور صرف آٹھ لاکھ ہی مسلمان ہیں۔ اْن میں بھی بیشتر ایسے ہیں جن سے فارم وغیرہ بھرنے میں غلطیاں ہوگئی تھیں، خاندان کے متعدد افراد میں ناموں کی اسپیلنگ کا فرق ہے۔ ابھی چار ماہ کا وقت اپیل کے لیے اور ناموں کی تصحیح کے لئے دیا گیا ہے۔
رضا کاروں کا کہنا ہے کہ ا ن میں سے بھی بیشتر فہرست میں شامل ہوجائیں گے۔ چونکہ 2011کی مردم شماری کے مطابق آسام میں مسلمانوں کی آبادی 34.22فیصد ہے اور تناسب کے اعتبار سے ہندوستان میں جموں و کشمیر کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے، 9اضلاع میں ان کی واضح اکثریت ہے، جو فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھڑکتی آرہی ہے۔ گزشتہ سال این آرسی کی پہلی فہرست آئی تھی اْس میں تقریباً چالیس لاکھ افراد کے نام شامل نہیں تھے، فہرست میں بے شمار غلطیاں تھیں۔ بہت سے ایسے تھے جن کانام توشامل تھا ان کے لڑکوں کا نہیں تھا، کسی لڑکے کا تھا تو اْس کے والدین میں دونوں یا کسی ایک کا نام شامل نہیں تھا، ایسا بھی تھا کہ ماں کی جگہ بیوی کا نام، بیوی کی جگہ بہن کا نام درج کیا گیا تھا۔ اْس کے بعد دوبارہ مہلت دی گئی تاکہ جو شامل ہونے سے رہ گیا ہے وہ اپنے دستاویزات دکھا کر اپنا نام شامل کرائے۔ جن کا نام غلط درج ہوگیا ہے وہ تصحیح کرالیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے حتمی فہرست جاری کرنے کی تاریخ 31اگست رکھی گئی تھی۔
ابھجیت شرما، جن کی درخواست پر سپریم کورٹ نے شہریوں کی شناخت کرنے کا آپریشن شروع کیا تھا، کا کہنا ہے کہ نتائج ان کی توقع کے برعکس ہیں۔ گوہاٹی سے فون پر راقم سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ غیر ملکی افراد کی تعداد 40سے 50لاکھ کے قریب ہونی چاہئے تھی۔ فی الحال جن 19لاکھ افراد کی شہریت پر سوالیہ نشان لگا ہے، ان میں بیشتر ایسے لوگ ہیں، جو صدیوں سے آسام میں رہ رہے ہیں۔ شرما نے اب سپریم کورٹ میں شہریوں کی فہرست کی از سر نو تصدیق کی عرضی دی ہے۔ انہوں نے کورٹ سے یہ بھی درخواست کی ہے کہ اس پورے عمل کا احتساب بھی کیا جائے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس پورے پروسیس پر 13بلین روپے خرچ ہوئے ہیں۔ اسی طرح بھارتیہ گھورکھا پری سنگھ کی آسام شاخ کے سربراہ نتیانند اپادھیائے نے بتایا کہ ان کی کمیونٹی کے تقریباً ایک لاکھ افراد شہریت کی فہرست میں نہیں ہیں۔ یعنی ان کو غیر ملکی قرار دیا گیا ہے۔ نیپال نژاد گھورکھا بھارتی فوج میں کام کرتے ہیں۔ ان کی شہریت سے بے دخلی کے دورس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
آل آسام اسٹوڈنٹس یونین، جس نے 80ء کی دہائی میں آسامی بنام غیر آسامی کے ایشو کو لیکر ایجی ٹیشن کی قیادت کی، کا کہنا ہے کہ این آر سی کی فہرست ان کو منظور نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تعداد حکومت کے اپنے اعداد و شمار سے بھی کم ہیں۔ 2016میں وزیر مملکت برائے داخلہ نے پارلیامان کو بتایا تھا کہ ملک بھر میں تقریباً20ملین غیر قانونی بنگلہ دیشی مقیم ہیں۔ اس سے قبل 2004میں ایک اور وزیر داخلہ سری پرکاش جیسوال نے یہ تعداد12ملین بتائی تھی اور ان کا کہنا تھا اس میں پانچ ملین آسام میں مقیم ہیں۔ بی جے پی، جو آسام اور مرکز میں برسراقتدار ہے اب مطالبہ کر رہی ہے کہ برہمپتر ویلی کے سبھی ضلعوں اور بارک ویلی کے دو ضلعوں کی 20فیصد آبادی کی ازسر نو تصدیق ہونی چاہئے۔ جغرافیائی اعتبار سے صوبہ آسام تین حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ لور (نشیبی) آسام جو مغربی علاقہ ہے، اَپر (بالائی) آسام جو مشرقی علاقہ ہے اور بارک ویلی جو جنوب میں واقع ہے۔ 2019کے پارلیامانی انتخابات میں بی جے پی نے ریاست کی 14 میں سے نو پارلیامانی حلقوں میں کامیابی حاصل کی۔ آسام کی آبادی کے تناسب پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر ایک قبائلی ریاست ہے جہاں کی تقریباً40 فیصد آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہے، مگر ان کو زبردستی ایک تو ہندو بنا کر رکھا گیا ہے اور دوسرے مسلمانوں اور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے نام پر ان کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے بی جے پی صوبہ میں زمین اپنے حق میں ہموارکر نے میں کامیاب ہوگئی۔
معروف تجزیہ کار کلیان بروا کا کہنا ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں نہایت کم افراد ہی غیر ملکیوں کی فہرست میں شامل کئے گئے ہیں۔ ان کے مطابق جب یہ ایکسرسائز شروع ہو گئی تھی، تو چونکہ لگتا تھا اس کا ٹارگیٹ مسلمان ہی ہونگے، اس لئے مسلم تنظیموں خاص طور پر جمیعۃ علماء ہند، اس کے مقامی لیڈر بد رالدین اجمل، ان کے ساتھیوں اور کئی غیر سرکاری تنظیموں نے مسلمانوں کو دستاویزات تیار کروانے اور قانونی مدد فراہم کروانے میں کلیدی رول ادا کیا۔ اجمل، جو آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف)کے سربراہ اور لوک سبھا کے ممبر بھی ہیں، نے پچھلے ایک سال سے دیہاتوں میں ہی ڈیرا ڈالا ہوا تھا، تاکہ علاقہ کے سبھی افراد کو مطلوبہ دستاویز تیار کروانے میں مدد کی جاسکے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڈھ مسلم یونیورسٹی اور کئی دیگر اداروں کے قانون کے طلبا نے بھی رضاکارانہ طور پر ان کی مدد کی۔ دور دراز کے علاقوں میں پہنچ کر ان نوجوانوں نے شہریت ثابت کرنے کے لیے مطلوبہ دستاویزات تیار کروانے میں لوگو ں کی مدد کی۔
بروا کے مطابق چونکہ ہندو اس عمل سے زیادہ خائف نہیں تھے، انہوں نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا، جس کی وجہ سے ان کی خاصی تعداد شہریت کی لسٹ سے باہر ہوگئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاست میں بی جے پی کی حالت اس وقت قابل رحم ہے۔ اب جبکہ ان کے ہی ووٹروں کی اچھی خاصی تعداد غیر ملکیوں کے زمرے میں آگئی ہے، بی جے پی کے لیڈران نے اس این آر سی کے پورے عمل پر ہی سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ آسام کے وزیر خزانہ اور شمال مشرق میں بی جے پی کے مقتدر لیڈر ہیمنتا بیسواسرما نے این آر سی کے عمل میں لگے افسران پر اپنا غصہ اتارا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان افسران نے 1971میں بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے آئے ہندوؤ ں کو دی گئی ریفیوجی اسناد کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کے مطابق بھگوان کرشنا اور بھگوتی درگا کے ماننے والوں کو غیر بھارتیہ قرار دیا گیا ہے۔ بی جے پی کے لیڈران اب اس این آر سی کے عمل کو پورے ملک میں نافذ کروانا چاہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ آسام میں غیر قانونی طورپر مقیم بنگلہ دیشی اب ملک کے دیگر علاقوں میں بس گئے ہیں۔ اب اگر آسام کی طرز کا آپریشن پورے ملک میں لاگو کیا جاتا ہے تو اس پر ایک اندازہ کے مطابق 17ٹریلین روپے درکار ہوں گے۔
ریفیوجی ایشوز پر کام کرنے والے سہاس چکمہ کا کہنا ہے آسام میں آبادی کو یہ ثابت کرنا تھا کہ 24مارچ1971سے قبل وہ اسی صوبہ میں مقیم تھے۔ ان کے مطابق 1971میں آسام کی 66فیصد آبادی ناخواندہ تھی۔ ان کے پاس تعلیمی اسناد تو تھی ہی نہیں، تو آخر کہاں سے پیدائشی سند حاصل کرتے۔ اس عمل میں اکثر بے زمین مزدور شہریت ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ چکمہ کا کہنا ہے کہ چائے کے باغان میں کام کرنے والے قبائلیوں کو چھوڑ کر کوئی بھی کمیونٹی آسام کی اصل رہائشی ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے جنرل سیکرٹری امین الاسلام کا کہنا ہے کہ پچھلے 40سالوں سے مسلمانوں کے سروں پر شہریت کی جو تلوار لٹک رہی تھی، وہ ہٹ گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق شہریت کا پیمانہ مذہب نہیں، بلکہ 1985کا آسام ایکارڈ تھا، جس کی رو سے مارچ1971تک آسام میں رہنے والوں کو شہری تسلیم کرنا تھا۔ سپریم کورٹ نے تین مرحلوں کی جس ایکسرسائز کا حکم دیا تھا، اس میں پہلا مرحلہ یعنی شناخت کا مرحلہ ختم ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : آسام: این آر سی کو لےکر بی جے پی کے سر کیوں بدل گئے ہیں؟
دوسرا مرحلہ ووٹر اور شہریت کی لسٹ سے ایسے افراد کا اخراج کرنا ہے۔ تیسرے مرحلے میں ملک بدر کرنا۔ حکومت کو اب یہ غم ستا رہا ہے کہ ہندوؤں کی اتنی بڑی تعداد کو کہاں بھیجیں۔ اس لئے پارلیامان کے اگلے اجلاس میں مودی حکومت شہریت کے قانون میں ترمیم کرنے کا ایک بل دوبارہ پیش کر رہی ہے۔ یہ بل 2016کو لوک سبھا میں پیش ہوا تھا، اور بعد میں منظور بھی ہوا تھا۔ مگر راجیہ سبھا نے اس کو رد کردیا۔ اس کے مطابق بنگلہ دیش، پاکستان،ا ور افغانستان سے ہندوستان آنے والے ہندو، سکھ، جین اور پارسی ہندوستانی شہریت کے حقدار ہوں گے، اس کے لئے ان کو کوئی بھی ڈاکومینٹ پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یعنی اگر ملک بدر یا نظر بند ہوں گے تو، صرف مسلمان ہی ہوں گے۔ مگر اس مجوزہ قانون پر پہلے ہی آسامی ہندو ں کی طرف سے مزاحمت ہو رہی ہے۔
تقسیم ہند اور 1971 میں سقوط مشرقی پاکستان کے وقفہ کے دوران تقریباً ایک کروڑ افراد ہجرت کرکے شمال مشرقی ریاستوں میں بس گئے تھے۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر زچ کرنے کے لیے سرحدیں کھول دی گئیں تھیں اور اس طرح کی ہجرت کی حوصلہ افزائی بھی کی جارہی تھی۔ جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو اکثر لوگ واپس چلے گئے۔ 1978سے 1985 کے درمیان آل آسام اسٹوڈنٹس (آسو) سمیت کچھ تنظیموں نے پروپیگنڈہ شروع کیا کہ بہت سے پناہ گزین بنگلہ دیش جانے کے بجائے آسام میں بس گئے ہیں۔ 1978ء میں ہوئے اسمبلی کے انتخابات میں 17 مسلمان منتخب ہو گئے تھے۔ بس پھرکیا تھا، آسمان سر پر اٹھا لیا گیا کہ آسام کو ‘اسلامی ریاست’ میں تبدیل کرنے کے لئے بنگلہ دیشی مسلمانوں کا ایک ریلا چلا آرہا ہے۔پہلے تو غیر آسامیوں یعنی ہندی بولنے والوں کے خلاف تحریک شروع کی گئی، پھر اس کا رخ غیر ملکیوں اور خاص کر بنگلہ دیشیوں کے خلاف موڑد دیا گیا بعدازاں اسے آر ایس ایس اور دیگر فرقہ پرستوں کی شہ پر خونریز مسلم مخالف تحریک میں تبدیل کردیا گیا۔
اس خوفناک اور خوں آشام تحریک نے ہزاروں بے گناہوں کی جانیں لیں اورکروڑوں روپے مالیت کی جائیدادیں تباہ و برباد کی گئیں۔ آسام کی تاریخ گواہ ہے کہ غیر ملکی اور خاص کر بنگلہ دیشی ہونے کا الزام لگا کر مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی جس میں 1983کا نیلی اور چولکاوا کے قتل عام کے روح فرسا واقعات کبھی فراموش نہیں کئے جاسکتے جس میں تقریباً تین ہزار (غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دس ہزار)افراد کو محض چھ گھنٹوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیاتھا مگر متاثرین کو آج تک انصاف نہیں مل سکا۔ 1985 میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کی نگرانی میں مرکزی حکومت، آسام حکومت او ر احتجاجی طلبہ لیڈروں کے درمیان باہمی رضامندی سے آسام ایکارڈ وجود میں آیا اور اس وقت کی تمام سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں نے اسے قبول کیا تھا۔پولیس نے نیلی قتل عام میں ملوث کئی سو افراد کے خلاف فرد جرم عائد کی مگرآسام ایکارڈکی ایک شرط کے تحت کیسز واپس لئے گئے‘ اور آج تک اس نسل کشی کے لئے کسی کو سزا ملی نہ ہی کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
اس واقعے کو ایسے دبا دیا گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ بنگالی مسلمانوں کے خلاف یہ مہم چلانے والی آل آسام سٹوڈنٹس یونین کے بطن سے نکلی آسام گن پریشد کو بطور انعام اقتدار سونپ دیا گیا۔ایکارڈ کے مطابق مارچ 1971 (Cut off date) بنیاد مان کر اس سے پہلے آسام آکر بس جانے والوں کو شہری تسلیم کیا گیا تھا۔چنانچہ اس معاہدہ کے بعدمر کزی حکومت نے پارلیامنٹ میں ایک ترمیمی بل کے ذریعہ Citizenship Act -1955 میں section 6-A داخل کر کے اسے منظوری دی جس پر اس وقت کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ تمام سیاسی جماعتوں بشمول کانگریس، بی جے پی،کمیونسٹ جماعتوں نیز تمام غیر سیاسی وسماجی تنظیموں نے بھی اسے تسلیم کیا تھا۔مگرچونکہ یہ مسئلہ ریاست میں مسلمانوں ایک سیاسی قوت بننے سے روکنے کی غرض سے کھڑا کیا گیا ہے۔ اس لئے 2009 میں اور پھر 2012 میں آسام سنمیلیٹا مہا سنگھ سمیت مختلف فرقہ پرست اور مفاد پرست افراد اور تنظیموں نے سپریم کورٹ میں اس معاہدہ کے خلاف مفاد عامہ کی ایک عرضداشت داخل کرکے 5 مارچ 1971 کی بجائے 1951 کی ووٹر لسٹ کو بنیاد بناکر آسام میں شہریت کا فیصلہ کرنے کی استدعا کی نیز اس معاہدہ کی قانونی حیثیت اور پارلیامنٹ کے ذریعہ Citizenship Act -1955 میں Section 6-A کے اندراج کو بھی چیلنج کیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے 1971کو بنیاد تسلیم کرتے ہوئے شہریوں کی ایک نئی لسٹ تیار کرنے کا فرمان جاری کیا۔
ممبر پارلیامنٹ اجمل نے جو ریاست کی ڈھبری حلقہ سے پارلیامنٹ میں نمائندگی کرتے ہیں اور ان کی جماعت کے ریاستی اسمبلی میں 13 ارکان ہیں، سابق کانگریسی وزیر اعلیٰ ترون گگوئی کو خاص طور سے نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے اپنے پندرہ سالہ دور حکومت میں (2001-2016) ریاست کی لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو تین کاری ضربیں لگائیں۔ پہلے انہوں نے 2005میں آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ کا سپریم کورٹ میں کمزور دفاع کرکے اس کو منسوخ کرایا جس کے تحت کسی شخص کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری انتظامیہ پر تھی۔ بنگلہ دیشی دراندازوں کا پتہ لگانے اور شناخت کرنے کی غرض سے آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ 1983 میں پاس کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت کسی فرد کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری استغاثہ پر تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد اس کو ختم کردیا گیا۔ اس کے بعد ان کی حکومت نے آسام میں ‘بارڈر پولیس ڈپارٹمنٹ’ تشکیل دے کر اسے اس بات کا مکمل اختیا دے دیا کہ وہ جسے چاہے غیر ملکی قرار دےکر گرفتار کر سکتا ہے۔ ہزاروں معصوم لوگ اس ڈپارٹمنٹ کے ظلم و ستم کا شکار ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں اس طرح کا کوئی محکمہ نہیں ہے۔ مزید ستم یہ کیا گیا کہ جن لوگوں کو گرفتار کرکے حراستی مراکز میں ڈالا گیا ان سے راشن کار ڈ چھین لیئے گئے۔ خواتین کے معاملے میں شہریت کے ثبوت کے طور پر گاؤں پنچایت کے سرٹیفکیٹ کو تسلیم نہ کئے جانے کا فیصلہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہوا۔جس کو بعد میں سپریم کورٹ کے حکم پر بحال کر دیا گیا۔
مسلمانوں کو کس حد تک پاور اسٹرکچر سے باہر رکھنے کا کام کیا گیا، اس کی واضح مثال ہندوستانی حکومت اور بوڈو لبریشن ٹائیگرز کے درمیان2005 کا معاہدہ ہے، جس کی رو سے آسام کے کھوکھرا جار اور گوپال پاڑہ میں بوڈو علاقائی کونسل قائم کی۔ یہ معاہدہ جنوبی افریقہ کی سفید فام اقلیت کے نسلی حکمرانی (اپارتھیڈ رول) کی یاد دلاتا ہے کیونکہ جن اضلاع میں یہ کونسل قائم کی گئی‘ ان میں بوڈو قبائل کی تعداد محض 28 فیصد ہے۔ بنگالی بولنے والی آبادی نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے 80ء کی دہائی میں یونائیٹیڈ مائنارٹیز فرنٹ کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنائی تھی لیکن یہ تجربہ باہمی اختلافات کی وجہ سے زیادہ کامیاب نہ ہو سکا‘حالانکہ اسے اسمبلی اور پارلیامنٹ میں قابل ذکر کامیابی ملی تھی۔ فرنٹ سے منتخب ہونے والے رکن پارلیامان بیرسٹر ایف ایم غلام عثمانی (مرحوم)اور دیگر لیڈر کانگریس میں چلے گئے۔ ریاست کے حالات اور کانگریسی حکومت کے رویے سے مایوس ہو کر اکتوبر 2005ء میں اس تجربے کا احیا کیا گیا: چنانچہ صوبے کی 13 ملی تنظیموں نے ایک نیا سیاسی محاذ آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے نام سے تشکیل دیا۔ اس کی تشکیل میں ایڈووکیٹ عبدالرشید چودھری کا اہم رول رہا، لیکن انہوں نے اس کی قیادت قبول نہیں کی کیونکہ کوئی سیاسی جماعت چلانے کے لئے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔چنانچہ قرعہ فال عْود اور عطر کے بڑے تاجر مولانا بدرالدین اجمل قاسمی کے نام نکلا۔ ان کی قیادت میں فرنٹ ریاست میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔ ویسے آسام میں ابتدا سے جمعیۃ العلماء ہند کا خاصا اثر رہا ہے اور ہر چپے پر مدارس نظر آتے ہیں۔
اسلام آسام کا دوسرا بڑا مذہب ہے جہاں 13ویں صدی میں سلطان بختیار خلجی کے دور میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس وقت تک آہوم سلطنت وجود میں بھی نہیں آئی تھی۔جب برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1757کی جنگ پلاسی کے بعد بنگال پر قبضہ کیا تو اس کے زیر تسلط آسام کا علاقہ بھی آیا۔ کمپنی نے یہاں بڑے پیمانے پر بنگالیوں کو لاکر بسانا شروع کیا اوران لوگوں نے معاشی وجوہات سے اپنے رشتہ داروں کو یہاں بلانا شروع کیا۔ کیونکہ آسام میں زمینیں زرخیز تھیں۔مشرقی بنگال سے بڑی تعداد میں بے زمین کسان یہاں آکر آباد ہوگئے جن میں 85 فی صد مسلمان تھے۔ آج انہی صدیوں سے آباد مسلمانوں کو غیر ملکی یا بنگلہ دیشی قرار دے کر ان کے لیے زمین تنگ کی جارہی ہے۔ مزید برآں یہ کہ ریاست میں دراصل اکثر یت قبائلی فرقوں کی ہے جو کل آبادی کا لگ بھگ40 فی صد ہیں۔ قبائلیوں کی کل ہند تنظیم راشٹریہ آدیواسی ایکتا پریشد کے نیشنل کو آرڈی نیٹر پریم کمار گیڈو کہتے ہیں کہ آئین ہندکی رو سے قبائلی ہندو نہیں ہیں۔
گیڈم کہتے ہیں کہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے جس نے قبائلیوں کو غیر ہندو قرار دیا ہے۔ چنانچہ ریاست میں ہندوحقیقی معنوں میں اکثریت میں نہیں ہیں۔یہ چیز بھی فرقہ پرستوں کو کھٹکتی ہے۔انہوں نے مسلمانوں کی شہریت چھیننے اور ان کو بے حیثیت کر نے کی قواعد شروع کی تھی۔ اور یہ معاملہ برما سے بھی سنگین تر ہوتا جا رہا تھا۔ مقتدر کانگریسی لیڈر اور صوبائی اسمبلی کے پہلے ڈپٹی اسپیکر محمد امیرالدین کا خاندان ہو یا سابق فوجی افسر محمد اعظم الحق، ان کو پہلے ووٹر لسٹ سے خارج کر دیا گیا، اور بعد میں انہیں فارن ٹریبونل کی ایک اسپیشل بنچ کے سامنے شہریت ثابت کرنے کے لیے کہا گیا۔گوہاٹی سے 90کلومیٹر دور بارپیٹہ میں جلد سازی کے ایک کاریگر معین ملا کسی کام کے لیے گھر سے باہر گئے ہوئے تھے، کہ شاہراہ پر پولیس نے ان سے شناختی کارڈ مانگا، جو وہ گھر پر بھول گئے تھے۔بس انہیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرکے، پولیس نے غیر ملکی قرار دے کرحراست میں لیا۔ تلاش بسیار کے بعد ان کے خاندان کو پتہ چلا کہ ملا 100کلومیٹر دور حراستی کیمپ میں نظر بند ہیں اور ان کو بنگلہ دیش بارڈر کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ سرکار ی اعداد و شمار کے مطابق اگست 2017سے جاری اس کاروائی میں اب تک 89395 افراد کو غیر ملکی قرار دیکر حراستی کیمپوں میں نظر بند کیا جا چکا تھا۔
انصاف کے دوہرے معیار کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے۔ ایک طرف آسام میں مذہب کی بنیاد پر شہریت میں تفریق کی جارہی ہے تو دوسری طرف ہندوستان کی مرکزی حکومت لاکھوں غیر ملکی ہندو پناہ گزینوں کو شہریت دلانے کے لیے قانون سازی کر رہی ہے۔اس سے بڑی اور کیا ستم ظریفی ہوسکتی ہے کہ آسام میں تو مقامی ہندو آبادی کی نسلی اور لسانی برتری قائم رکھنے کے لیے لاکھوں افراد کو بنگلہ دیشی بتا کر شہریت سے محروم کر نے کو کوشش ہو رہی ہے، وہیں دوسری طرف جموں و کشمیر کی نسلی، لسانی و مذہبی شناخت کو ختم کرنے کے لیے ا علانیہ دوہرے پیمانے صرف اس لئے اختیار کئے جا رہے ہیں کہ آسام کی 35 فیصد اور جموں و کشمیر کی 68فیصد مسلم آبادی ہندو فرقہ پرستوں اور موجودہ ہندوستانی حکومت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ حکومت کے حالیہ اقدامات عندیہ دے رہے ہیں کہ ہندو فرقہ پرست دیگر ریاستوں سے ہندو آبادی کو کشمیر میں بساکر مقامی کشمیری مسلمانوں کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کروانے کے فراق میں ہیں۔