آسام کے درانگ ضلع کے دھال پور میں مقامی انتظامیہ نے سینکڑوں لوگوں کے گھروں کومسمار کر دیا ہے، جس کے باعث وہ کورونا مہاماری کے بیچ قابل رحم حالات میں رہنے کو مجبور ہیں۔ گزشتہ تین مہینے میں ایسا دوسری بار ہوا جب دھال پور کے لوگوں کو بےدخل کیا گیا ہے۔یہاں زیادہ ترمشرقی بنگالی نژاد مسلمان رہتے ہیں۔
نئی دہلی:آسام حکومت نے گزشتہ سوموار کو درانگ ضلع کےدھال پور گاؤں میں غیرقانونی تجاوزات کا الزام لگاتے ہوئے تقریباً800خاندانوں کے گھروں کو مسمار کردیا،جس کےباعث وہ بےگھر ہو گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق،پچھلے تین مہینے میں ایسا دوسری بار ہوا جب دھال پور گاؤں کے کئی لوگوں کو بےدخل کیا گیا ہے۔ یہاں زیادہ ترمشرقی بنگالی نژاد مسلمان رہتے ہیں۔
پچھلے جون میں جب ضلع انتظامیہ نے اس طرح کی بےدخلی کارروائی کی تھی تو اس کے بعد ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے ان علاقوں کا دورہ کیا تھا،جس میں بتایا گیا کہ انتظامیہ نے 49مسلم خاندانوں اور ایک ہندو خاندان کو بےگھر کر دیا ہے۔
مقامی اخباروں کے مطابق ضلع انتظامیہ نے 120 بیگھہ زمین خالی کرائی تھی، جو مبینہ طور پر ماقبل تاریخی دور کے شیو مندر کی ہے۔
حالانکہ گزشتہ 20 ستمبر کو جو ہوا، وہ انتہائی خوفناک تھا۔ گوہاٹی کے ایک میڈیا سینٹینل کے مطابق ریاستی حکومت نے درانگ ضلع کے سپاجھار ریونیوبورڈکےتحت آنے والا دھال پور نمبر1 اور دھال پورنمبر3 علاقوں میں جو کارروائی کی، ویسی کارروائی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔
نیوز رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ضلع انتظامیہ نے ‘8000 بیگھہ زمین’ کو خالی کرایا ہے، جہاں 800خاندان رہ رہے تھے۔
دھال پور گاؤں کے کچھ لوگوں نے دی وائر کو بتایا کہ بےدخل کیے گئے خاندانوں کی تعداد900 سے زیادہ ہے، یعنی کہ کم از کم 20000 لوگوں کے متاثر ہونے کاامکان ہے۔
سوشل میڈیا پر ایسی کئی تصویریں اور ویڈیو کلپ دستیاب ہیں،جس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ شدید بارش سے خود کو بچانے کے لیے لوگوں نے عارضی پناہ گاہوں میں پناہ لے رکھی ہے۔
ریاستی حکومت نےان کے گھروں کوایسےوقت میں مسمار کیا ہے جب ابھی بھی کورونا مہاماری کو لےکر کئی پابندیاں عائد ہیں۔
متاثرین کے مطابق، مقامی انتظامیہ نے 1200سے زیادہ آسام پولیس اہلکاروں اور 14آسام پولیس بٹالین کے جوانوں کو اس کام میں لگایا تھا۔
ایک مقامی شخص نے بتایا،‘مجوزہ گورکھٹی کثیر المقاصد زرعی پروجیکٹ کے چیئرمین کی قیادت میں درانگ انتظامیہ کے ذریعے لوگوں کے گھروں کو گرایا گیا ہے۔ضلع انتظامیہ نے بےدخلی کے فوراً بعد صاف کی گئی کھیتی کی زمین کو جوتنے کے لیے 22 ٹریکٹروں کا استعمال کیا۔’
اس زرعی منصوبےکےصدرسوتیا سے بی جے پی ایم ایل اے پدما ہزاریکا ہیں۔وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے سات جون کو ضلع انتظامیہ کی جانب سے پہلی بےدخلی مہم چلائے جانے کے ایک دن بعد دھال پور کا دورہ کیا تھا، جس کے بعد اس منصوبے کااعلان کیا گیاتھا۔
اتفاق سےدوسرے افسران کے علاوہ شرما کے بھائی سشانت بسوا شرما بھی ضلع پولیس سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت سے بے دخلی مہم میں شامل تھے۔ ہمنتا بسوا شرما کے وزارت داخلہ سنبھالنے کے فوراً بعد سشانت بسوا شرما کو اس عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔
پہلی مہم کے فوراًبعد جون کے دوسرے ہفتے میں شرما کی کابینہ نے ہزاریکا کےصدر کی حیثیت سے ایک کمیٹی کی تشکیل کو منظوری دی تھی، جس کا کام ‘درانگ میں سپاجھار کے گورکھٹی میں تجاوزات سے خالی کرائی گئی77 ہزار بیگھہ سرکاری زمین کازرعی مقاصدکے لیے استعمال کرنا ہے۔’
اسی کی وجہ سےگزشتہ20 ستمبر کو یہاں پر کئی لوگوں کے گھروں کو توڑکر انہیں بےگھر کر دیا گیا۔
یہ منصوبہ سونپنے کے ساتھ ساتھ ہزاریکا کو کابینہ وزیر کے عہدے پر بھی پرموٹ کیا گیا ہے۔کمیٹی میں بی جے پی ایم پی اورقومی جنرل سکریٹری دلیپ سیکیا اور پارٹی ایم ایل اے مرنال سیکیا اور پدمانند راجبونگشی بھی شامل ہیں۔
شرما حکومت نے اس پروجیکٹ کے لیے9.60 کروڑ روپے مختص کیا ہے۔
مقامی نیوز رپورٹس کے مطابق، پروجیکٹ گورکھٹی کو آل آسام اسٹوڈنٹس یونین(آسو)کی درانگ اکائی کی حمایت حاصل ہے۔
جون میں متاثرہ گاؤں کا دورہ کرنے والی فیکٹ پھائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق، یہ لوگ1980 کی دہائی کی شروعات میں یہاں بسے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سال 1983میں آسام تحریک کے دوران ہوئےتشدد کے بیچ اس سرزمین پر آئے تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے،‘گاؤں والوں کو تین بار بےدخل کیا گیا ہے، پہلی بار نومبر 2016 میں، دوسری بارجنوری2021 میں اور تیسری بار جون 2021 میں۔’
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم میں کارکن پوجا نرالا، مہ جبیں رحمٰن اور پرسون گوسوامی،کشیپ چودھری کے ساتھ ہیومن رائٹس لاء نیٹ ورک (ایچ آر ایل این)کے وکیل شورادیپ ڈے شامل تھے۔
کسانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ کرشک مکتی سنگرام سمیتی(کے ایم ایس ایس)اور آل آسام مائنارٹی اسٹوڈنٹس یونین(اے اے ایم ایس یو)کے ممبروں نے ٹیم کی مدد کی تھی۔
کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ بی جے پی حکومت گورکھٹی پروجیکٹ کے توسط سے تین متنازعہ زرعی قوانین کے ذریعے اپنے کارپوریٹ حمایتی ایجنڈہ کو دکھا رہی ہے اور لوگوں کوتقسیم کرنے کے لیے فرقہ وارانہ ایجنڈہ سے کھیل رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی لوگوں میں یہ جھوٹی جانکاری دے رہی ہے کہ خالی کرائی گئی زمین کا زیادہ تر حصہ شیو مندر کا تھا۔
رپورٹ کے مطابق، ‘ماقبل تاریخی دور’کے مندر کاقیام ان ہندو خاندانوں میں سے ایک نے کیا تھا جو 1980کی دہائی میں اس سرزمین پر بس گئے تھے۔
کمیٹی کی رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جب متاثرین ممبروں سے ملنے آئے تو وہ اپنے ساتھ اپڈیٹیڈنیشنل رجسٹر آف سٹیزنز(این آر سی)میں اپنے نام کا ثبوت لےکر آئے تھے۔