فارنرز ٹریبونل کے سامنے پولیس نے یہ قبول کیا کہ انہوں نے 2016 میں ٹریبونل کے ذریعے غیر ملکی قرار دی گئی مدھومالا داس کی جگہ مدھو بالا منڈل کو حراست میں بھیج دیا تھا۔
مدھو بالا منڈل (فوٹو بہ شکریہ : دی ٹیلی گراف)
نئی دہلی: آسام میں ‘ غیر ملکی ‘ سمجھکر حراست میں رکھی گئی 59 سالہ خاتون کو تین سال بعد رہا کر دیا گیا۔ پولیس نے قبول کیا ہے کہ وہ غلط شناخت کا شکار ہوئیں۔ افسروں نے غلط آدمی کو حراست میں لیا تھا۔مدھو بالا منڈل کوکراجھار کے غیر قانونی مہاجر کیمپ سے رہا ہونے کے کچھ دیر بعد بدھ کی شام کو اپنی معذور بیٹی کے گھر لوٹ آئیں۔
مدھو بالا کی رہائی فارنرز ٹریبونل کے سامنے پولیس کے یہ قبول کرنے کے بعد ہوئی کہ انہوں نے 2016 میں ٹریبونل کے ذریعے غیر ملکی قرار دی گئی مدھومالا داس کی جگہ مدھو بالا منڈل کو حراست میں بھیج دیا تھا۔ دونوں خواتین چرانگ ضلع کے وشنو پور سے تعلق رکھتی ہیں۔چرانگ ضلع کی پولیس سپرنٹنڈنٹ سدھاکر سنگھ نے میڈیا کو بتایا، ‘ مجھے جب یہ شکایت ملی کہ مدھو بالا منڈل غلط شناخت کا شکار ہوئی ہیں اور انھیں حراست میں بھیج دیا گیا ہے تو میں نے جانچ کروائی اور حقیقت سامنے آ گئی۔ یہ غلط شناخت کا معاملہ تھا۔ ‘
سدھاکر نے پولیس ہیڈکوارٹر کو اس کی اطلاع دی اور اس کارروائی میں اصلاح کے لئے فارنرز ٹریبونل گئے۔ انہوں نے کہا، ‘ ٹریبونل نے 25 جون کو ان کو رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔
‘دی ہندو کے مطابق، آسام پولیس کی بارڈر ونگ کے افسروں نے اس بارے میں کچھ بھی کہنے سے انکار کر دیا کہ ان افسروں پر کوئی کارروائی ہوگی جنہوں نے یہ غلطی کی اور ان کی غلطی کی سزا ایک خاتون کو بھگتنی پڑی۔
غور طلب ہے کہ، مشتبہ غیر ملکیوں کی شناخت کرنے کی ذمہ داری آسام پولیس کی بارڈر ونگ پر ہوتی ہے۔وہیں، یہ بات بھی صاف نہیں ہو سکی کہ مدھو بالا منڈل کو غلط طریقے سے حراست میں رکھے جانے کی وجہ سے کوئی معاوضہ دیا جائےگا یا نہیں۔منڈل کا مقدمہ لڑنے والے ان کے رشتہ داروں اور این جی او نے غلط شناخت کہہکر مانگی گئی معافی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
آل آسام بنگالی یوتھ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے ایک ترجمان نے کہا، ‘ پولیس جس مدھومالا داس کو پکڑنے کے لئے آئی تھی ان کی موت بہت پہلے ہو گئی تھی۔ لیکن انہوں نے پھر بھی الگ نام والی ایک دیگر خاتون کو پکڑ لیا کیونکہ ان کو لگا کہ کوئی بھی غریب، غیرتعلیم یافتہ خاتون کی پرواہ نہیں کرےگا، جس کے پاس اس کا مقدمہ لڑنے کا وسیلہ نہیں ہے۔ ‘
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)