آسام: 10ویں جماعت کے امتحان میں پوچھے گئے سوال پر تنازعہ، فرقہ پرستی کا الزام

03:39 PM Mar 01, 2025 | دی وائر اسٹاف

آسام سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ کے 10 ویں کلاس کے سوشل سائنس کے امتحان میں ایک سوال پوچھا گیا تھا؛ ‘فرض کریں کہ حکومت کسی گاؤں میں ایک اسپتال بناتی ہے جہاں ہندوؤں کا مفت علاج ہو اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اس کا خرچ خود اٹھانا پڑے۔ کیا ہندوستان جیسے ملک میں حکومت ایسا کر سکتی ہے؟ اپنی رائے دیں۔’ کئی لوگوں نے اسے تفرقہ انگیز قرار دیا ہے۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: فیس بک/وزارت ریلوے)

نئی دہلی: آسام بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کے 10 ویں کلاس کے سوشل سائنس کے امتحان میں پوچھے گئے ایک سوال نے جمعہ کو تنازعہ کھڑا دیا۔ سوشل میڈیا صارفین کے ایک حصے نے اسے تفرقہ انگیز قرار دیا۔ اس کے جواب میں ریاستی وزیر تعلیم نے دعویٰ کیا ہے کہ سوال کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ کیا طلبہ جانتے ہیں کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، جمعرات کو ہوئےایس ای بی اے کے  کلاس 10 کے طلباء کے لیے سوشل سائنس کے امتحان میں سوال پوچھا گیا،’فرض کریں، حکومت نے ڈمبوک نامی گاؤں میں ایک اسپتال بنایا ہے۔ اس اسپتال میں ہندوؤں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو علاج کا خرچ خود برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کیا ہندوستان جیسے ملک میں حکومت ایسے اقدامات کر سکتی ہے؟ اپنی رائے دیں۔’

اس سوال کے لیے تین نمبر دیے گئے تھے۔ سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا کہ یہ مذہبی تقسیم کو فروغ دیتا ہے، جس پر آسام کے وزیر تعلیم رنوج پیگو نے بحث کو ‘غیر ضروری’ قرار دیتے ہوئے جواب دیا۔

انہوں نے کہا، ‘آئین کی تمہید کسی طرح کے امتیاز کی اجازت نہیں دیتی۔ کسی کے ساتھ امتیاز کیے بغیر، ہم ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس’ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ طالبعلم اس بات سے واقف ہیں یا نہیں کہ آسام میں مذہب، ذات یا زبان کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں ہے۔اس میں  ناراض ہونے یا بحث کرنے کی  جیسی کوئی بات نہیں ہے۔’