این آر سی کی اشاعت کو آگے بڑھانے کی مانگ کرتے ہوئے اے بی وی پی نے کہا کہ موجودہ فہرست میں بہت سے اصل باشندوں کے نام چھوٹے ہیں اور غیر قانونی مہاجروں کے نام جوڑے گئے ہیں۔ جب تک اس کو دوبارہ تصدیق کر کے سو فیصد خامیاں دور نہیں کی جاتی، اس کی اشاعت نہیں ہونی چاہیے۔
گواہاٹی میں این آر سی کے خلاف اے بی وی پی کارکنوں کا مظاہرہ (فوٹو بہ شکریہ : نیٹورک 18 آسام)
نئی دہلی:ریاست میں جہاں این آر سی) کی اشاعت سے چند دن پہلے فہرست میں نام نہ آنے کو لےکر کشمکش کا ماحول ہے، وہیں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے جڑی تنظیموں نے شہریت سے متعلق اس فہرست کی اشاعت کے خلاف مہم چھیڑتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک ان کی ‘ دوبارہ تصدیق (ری ویری فکیشن) نہیں کی جاتی اور سو فیصد خامیاں دور نہیں کی جاتی ، اس کی اشاعت نہیں ہونی چاہیے۔
ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، سوموار کو اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) گواہاٹی میں این ار سی کوآرڈینیٹر کے دفتر کے باہر مظاہرہ کرتے ہوئے مانگ اٹھائی کہ فائنل فہرست کی اشاعت سے پہلے ہر درخواست کی دوبارہ تصدیق یعنی ری ویرفکیشن کی جانی چاہیے۔غور طلب ہے کہ آسام میں این آر سی تیار کرنے کا کام سپریم کورٹ کی نگرانی میں چل رہا ہے اور آخری فہرست اس مہینے کے آخر میں 31 اگست کو جاری ہونی ہے۔
ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق، تقریباًچار سو طلبا این آر سی کوآرڈینیٹر کے دفتر کے باہر اکٹھے ہوئے اور ‘ پرتیک ہجیلا ہاےہاے ‘ کے نعرے لگائے۔ ہجیلا این آر سی کوآرڈینیٹر ہیں۔اے بی وی پی کے اسٹیٹ جوائنٹ سکریٹری دیباشیش رائے نے سوموار کو کہا، ‘ جہاں تک ہمیں جانکاری ہے، بہت سے اصل باشندوں کے نام این آر سی میں نہیں آئے ہیں، بجائے اس کے غیر قانونی مہاجروں کے نام اس میں جڑ گئے۔ ہجیلا نے ری ویرفکیشن کے نام پر ایسی این آر سی بنائی ہے، جس میں غیر قانونی مہاجروں کے نام ہیں۔ یہ قبول نہیں کیا جائےگا۔ ‘
انہوں نے آگے کہا، ‘ این آر سی کو اپ ڈیٹ اس لئے کیا جا رہا تھا کیونکہ غیر قانونی مہاجروں کی وجہ سے ریاست کے زبانی، ثقافتی اور سماجی تانےبانے کے لئے خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ اگر اس کو کرنے کی وجہ سے ہی سمجھوتہ کیا جائےگا تو اپ ڈیٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں کہ سو فیصد صحیح دستاویزوں کے ساتھ ہی اصل باشندوں کے نام اس میں جوڑےجائیں اور تمام مشتبہ غیر ملکیوں کے نام ہٹائے جائیں۔ ‘
اس مظاہرہ کے بعد اے بی وی پی کے ممبروں نے بنا کسی خامی کے این آر سی کی اشاعت کے لئے پرتیک ہجیلا کو میمورینڈم بھی سونپا۔ریاستی اکائی کے خزانچی (گواہاٹی) شیلین کلتا نے کہا، ‘ ہم نے این آر سی اپ ڈیٹ کے لئے 30 سال انتظار کیا ہے۔ آسام کے لوگ ایک واضح اور بنا کسی خامی والے دستاویز کے لئے ایک سال اور انتظار کر لیںگے۔ ‘
ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، اس سے پہلے فائنل این آر سی میں بڑی تعداد میں ہندوؤں کے نام نہ آنے کے ڈرکی وجہ سے ہندو جاگرن منچ نے بھی گزشتہ ہفتہ ریاست کے 22 ضلعوں میں مظاہرہ کرتے ہوئے اشاعت کی تاریخ آگے بڑھانے کی مانگ کی تھی، جس سے کسی بھی ‘ غیر قانونی مہاجر ‘ کا نام اس میں شامل نہ ہو سکے۔
منچ کے صدر مرنال کمار لسکر نے کہا، ‘ جو این آر سی فہرست 31 اگست کو شائع ہونے جا رہی ہے، اس میں کئی جائز ہندوستانی شہریوں کے نام چھوٹیںگے۔ اگر فہرست اپنے موجودہ صورت میں شائع ہوتی ہے، تو ہم اس کے خلاف مہم چھیڑیںگے۔ کیونکہ لیگیسی (وراثت سے متعلق) ڈیٹا کے غلط استعمال کے واقعات سامنے آئے ہیں، اس لئے ری ویری فکیشن بہت ضروری ہے۔ ‘
ریاست کی سربانند سونووال حکومت نے مرکزی حکومت کے ساتھ ملکر ری ویری فکیشن کی مانگ اٹھائی تھی، لیکن سپریم کورٹ کے ذریعے اس کو خارج کر دیا گیا۔ گزشتہ دنوں اسمبلی میں پارلیامانی امور کے وزیر چندرموہن پٹواری نے این آر سی کی ضلع وار بیورہ شیئر کیا تھا اور ری ویری فکیشن کی بات پر زور دیا تھا۔حکومت کا کہنا ہے کہ شہریت کے دعووں کو بنا دوبارہ ویریفائی کئے ایک ‘ فول پروف ‘ این آر سی کی اشاعت ممکن ہی نہیں ہے۔
بی جے پی ایم ایل اے شلادتیہ دیو نے کہا، ‘ تقسیم کے کئی ہندو متاثرین اور ان کے آباواجداد کا نام شاید این آر سی میں شامل نہیں ہوگا۔ اگر فائنل این آر سی میں ان کا نام نہیں ہوگا، تو آسام کی پہچان اور تہذیب پر اس کا گہرا اثر پڑےگا۔ ہم دوسرا جموں و کشمیر نہیں چاہتے۔ اس لئے ہم ری ویری فکیشن کی مانگکر رہے ہیں۔ ‘
غور طلب ہے کہ 1985 میں آسام میں آل آسام اسٹوڈنٹس یونین کی قیادت میں چلی آسام تحریک، آسام سمجھوتہ پر ختم ہوئی تھی، جس کے مطابق، 25 مارچ 1971 کے بعد ریاست میں آئے لوگوں کو غیر ملکی مانا جائےگا اور واپس ان کے ملک بھیج دیا جائےگا۔ سمجھوتہ کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ 1966 سے 1971 کے بیچ جن لوگوں کے نام رائےدہندگان کی فہرست میں جڑے ہوںگے، ان کو ڈیلیٹ کرتے ہوئے اگلے 10 سالوں تک ان کا ووٹ کرنے کا حق چھین لیا جائےگا۔
اسی بنیاد پر این آر سی تیار کی گئی تھی، جس کو اب اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے۔ اس کے مطابق، ریاست کا کوئی بھی باشندہ اگر یہ ثابت نہیں کر سکا کہ اس کے آباواجداد 24 مارچ 1971 سے پہلے یہاں آکر نہیں بسے تھے، اس کو غیر ملکی قرار دے دیا جائےگا۔ آل آسام اسٹوڈنٹس یونین موجودہ مظاہرہ اور ری ویری فکیشن کی مانگ سے اتفاق نہیں رکھتا۔ وہ چاہتا ہے کہ این آر سی کی اشاعت طے تاریخ پر ہی ہو۔
آل آسام اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سکریٹری لورن جیوتی گگوئی نے کہا، ‘ سپریم کورٹ پہلے ہی ری ویری فکیشن کی مانگ خارج کر چکا ہے۔ جو این آر سی پروسیس کو وقت پر پورا نہیں ہونے دینا چاہتے، ان کے اپنے سیاسی مقاصد ہیں۔ موجودہ مظاہرہ این آر سی اپ ڈیٹ کے پروسیس کو بگاڑنے کی کوشش ہے۔ اگر غیر ملکیوں کا نام فہرست میں ہے، تو اس کے لئے حکومت کو ذمہ داری لینی چاہیے کیونکہ اس پروسیس میں لگے ہوئے اہلکار اس کے ہیں۔’