اروناچل پردیش کے نوجوان وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن ایبو ملی اور آسام کے معروف گرافٹی آرٹسٹ نیلم مہنت کو گزشتہ اتوار کو اروناچل پردیش پولیس نے حراست میں لے لیا۔ ایبو نےجہاں سرکارکی ڈیم تعمیر کی پالیسی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے آرٹ ورک کیاتھا، وہیں مہنت نے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق عالمی مہم کے تحت پلاسٹک کے بہت زیادہ استعمال کو تنقید کانشانہ بنایا تھا۔
ایبو ملی (بائیں) اور نیلم مہنت (دائیں)۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک)
نئی دہلی: اروناچل پردیش کے ایک نوجوان وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن اور آسام کے ایک معروف گرافٹی آرٹسٹ کو گزشتہ27 مارچ کو اروناچل پردیش پولیس نے اپنی حراست میں لے لیا۔
واضح ہو کہ انہیں ریاستی دارالحکومت ایٹہ نگر میں دو سرکاری عمارتوں کی دیواروں (باؤنڈری وال) پر ان کی طرف سے احتجاج کے طور پر بنائے گئے گرافٹی کی وجہ سے حراست میں لیا گیا ہے۔
مقامی خبروں کے مطابق، پہلے اروناچل کے وکیل اور کارکن ایبو ملی کو حراست میں لیا گیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ڈیموں کو فروغ دینے والی ریاستی حکومت کی طرف سے بنوائی گئی میورل کو مسخ کیا۔ یہ تصویر ریاستی اسمبلی اور سکریٹریٹ کی عمارت کی باؤنڈری وال پر بنی ہوئی تھی۔
ایبوملی کی اینٹی ڈیم گرافٹی۔ (تصویر: Twitter/ tongamrina)
مذکورہ تصویراروناچل پردیش کے 50 سال پورے ہونے پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کے جشن کا حصہ تھی۔تصاویر کے مختلف موضوعات اس شمال-مشرقی ریاست کے ورثے اور اس کی ترقیاتی مراحل کو پیش کرنے کے لیے تھے۔
ایک مقامی آرٹسٹ کے مطابق، ملی نے اروناچل میں ڈیموں کو فروغ دینے والے سرکاری گرافٹی کے اوپر ہی احتجاج کے طور پرایک گرافٹی بنادی اور ‘نو مور ڈیمز’ لکھ دیا۔
آرٹسٹ نے بتایاکہ حکومت ریاست میں ترقی کے نام پر بڑے ڈیم بنانے کے حق میں ہے، لیکن بہت سے لوگ اس کی حمایت میں نہیں ہیں، کیونکہ اروناچل ماحولیاتی لحاظ سے ایک حساس ریاست ہے۔
یہاں بتادیں کہ اروناچل پردیش کے وزیر اعلیٰ پیما کھانڈو کا خاندان ریاست میں تعمیرات (کنسٹرکشن)کے کاروبار سے وابستہ ہے اور ڈیم کی تعمیر سے متعلق
تنازعات کا حصہ رہا ہے، جس کو عوامی احتجاج کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
تاہم، مقامی خبریں بتاتی ہیں کہ ملی کو حراست میں لیے جانے کے چند گھنٹے بعد اروناچل پولیس کی ٹیم آسام کے لکھیم پورکےمشہور گرافٹی آرٹسٹ نیلم مہنت کو گرفتار کرنے پہنچی۔
آسام کی خبریں بتاتی ہیں کہ 27 مارچ کو مہنت کو آسام پولیس کی مدد سے ان کے گھر سے اٹھایا گیا تھا۔
حالاں کہ دی وائر کو موصولہ اطلاع کے مطابق، مہنت کو پولیس نے اس لیے اٹھایا کہ انہوں ضلع کمشنر کے دفتر کی دیوار پر آدم قد گرافٹی بنائی تھی، جوماحولیات سے متعلق عالمی مہم کا حصہ تھی، جس کا اہتمام 25 مارچ کو کئی ممالک میں کیا گیا تھا۔
ایک آرٹسٹ نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مہنت نے اروناچل کے ریاستی جانور متھن کا لائف سائز اسکیچ بنایا تھا، جو پلاسٹک کی بوتلوں کے ڈھیر پر چرتے ہوئے نعرے دے رہے تھے کہ’پلاسٹک نئی گھاس ہے’۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ گرافٹی موسمیاتی تبدیلی کے خلاف عالمی پیش رفت کے ایک حصے کے طور پر ریاستی انتظامیہ کی اجازت سے بنائی گئی تھی۔
دریں اثنا، اروناچل پولیس کے ذریعےحراست میں لیے جانے سے کچھ ہی گھنٹے پہلے ایبو نے مہنت کی گرافٹی کا ایک ویڈیو کلپ ٹوئٹ کیاتھا اور ان کےاسی نعرے کو دکھایا تھا۔
ایک مقامی صحافی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مہنت کے خلاف اس لیے بھی کارروائی کی گئی ہوگی کہ وہ جس مہم سے وابستہ تھے اس کی تشہیرماحولیاتی کارکن گریتا تُنبیر کرتی ہیں۔ اس سے پہلے2021 میں بی جے پی نے گریتا تُنبیرسے وابستہ بنگلورو میں مقیم ماحولیاتی کارکن
دشا روی کو گرفتار کیا تھا۔
اروناچل ٹائمز کے مطابق، مہنت اور ایبو کو پبلک پراپرٹی کو نقصان سے روک تھام کی ایکٹ 1984 کی دفعہ 3 کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
ملی اور مہنت کو 28 مارچ کو ایٹہ نگر کی ایک مقامی عدالت میں پیش کیا گیا اور انہیں دو دن کی پولیس حراست میں بھیج دیا گیا۔
دی وائر نے اس معاملےمیں مزید تفصیلات کے لیے اروناچل پولیس سے رابطہ کیا، لیکن ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
بتادیں کہ 2021 میں ایبومعذور افراد کی ٹیکہ کاری کو ترجیح دینے میں بی جے پی حکومت کی ناکامی پر تنقید کے لیے سرخیوں میں آئے تھے۔
ان کی عرضی پرگوہاٹی ہائی کورٹ کی اروناچل بنچ نے جولائی 2021 میں کھانڈو حکومت کو
گائیڈلائن جاری کی تھی کہ ٹیکہ کاری میں معذور افراد کو ترجیح دی جائے۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔