اگنی پتھ اسکیم پر دی وائر کی جاری سیریز کے درمیان یہ بات سامنے آئی ہے کہ فوج ایک اندرونی سروے کر رہی ہے، جس کا مقصد فوج کی بھرتی کے عمل پر اس اسکیم کے اثرات کا جائزہ لینا ہے۔ فوج کے اس سروے میں تمام اسٹیک ہولڈروں سے ان کی رائے طلب کی گئی ہے۔
ایک فوجی دفتر کے باہر کی تصویر۔ (فوٹو: دیپک گوسوامی/دی وائر)
نئی دہلی: فوج میں قلیل مدتی بھرتی کا اہتمام کرنے والی ‘اگنی پتھ’ اسکیم کے زمینی تجزیے پر
دی وائر کی جاری سیریز کے درمیان
انڈین ایکسپریس نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ فوج اس اسکیم پر اندرونی سروے کر رہی ہے، جس کا مقصد فوج کی بھرتی کے عمل پر اس اسکیم کے اثرات کا جائزہ لینا ہے۔
رپورٹ میں حکام کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ فوج کے اس سروے میں تمام اسٹیک ہولڈر سے ان کی رائے طلب کی گئی ہے – جن میں اگنی ویر، فوج کے مختلف رجمنٹل مراکز کے بھرتی اور تربیتی اہلکار اور یونٹ اور سب-یونٹ کمانڈر (جن کے ماتحت اگنی ویر کام کرتے ہیں) شامل ہیں۔
بتادیں کہ جون 2022 میں شروع کی گئی ‘اگنی پتھ’ اسکیم کے تحت چار سال کی مدت کے لیے مسلح افواج – آرمی، ایئر فورس اور نیوی میں جوانوں کی بھرتی کی جا رہی ہے، جنہیں ‘اگنی ویر’ کا نام دیا گیا ہے۔ اسکیم کے مطابق، ایک بیچ کے تمام اگنی ویر جب اپنی چار سالہ مدت پوری کرلیں گے تو ان میں سے 25 فیصد کو ریگولو سروس میں شامل کیا جائے گا۔
اب تک 40000 اگنی ویروں کے دو بیچوں نے فوج میں تربیت مکمل کی ہے اور وہ تعیناتی پر ہیں۔ 20000 اگنی ویروں کے تیسرے بیچ نے نومبر 2023 میں ٹریننگ شروع کی ہے۔ بحریہ کی بات کریں تو 7385 اگنی ویروں کے تین بیچوں نے اپنی تربیت مکمل کر لی ہے۔ وہیں،4955 اگنی ویر ہندوستانی فضائیہ میں تربیت مکمل کر چکے ہیں۔
تاہم، اس اسکیم پر شروع سے ہی سوال اٹھتے رہے ہیں۔ اس اسکیم کے اعلان کے ساتھ ہی ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اپوزیشن جماعتیں مسلسل اسے بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کا فوج میں بھرتی ہونے کے خواہشمند نوجوانوں کے خوابوں پر حملہ قرار دے رہی ہیں اور کانگریس نے اقتدار میں آنے پر اس اسکیم کو ختم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
دی وائر نے بھی گزشتہ اپریل میں فوج میں شامل ہونے کے خواہشمند نوجوانوں کے درمیان ‘اگنی پتھ’ اسکیم کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ایک سیریز شروع کی تھی، جس کے تحت ایسے گاؤں کا دورہ کیا گیا ، جنہوں نے ‘سنیہ گرام’ (فوجیوں کے گاؤں)کے طور پر نسلوں سے اپنی پہچان برقرار رکھی ہے۔
ملک کو سینکڑوں جوان دینے والے ان گاؤں-دیہات میں فوج میں جانے کے خواہشمند نوجوان، ان کے اہل خانہ، سابق فوجی، فوج میں بھرتی ہونے کی تیاری کرنے والے تربیتی مراکز کے آپریٹر اور یہاں تک کہ ‘اگنی پتھ’ اسکیم میں تقرری کے بعد نوکری چھوڑ دینے والے اگنی ویروں سے بات چیت کی ۔
جس میں یہ بات سامنے آئی کہ اس سکیم کے متعارف ہونے کے بعد سے نہ صرف نوجوانوں کا فوج میں جانے کا رجحان کم ہوا ہے، بلکہ ان کے والدین بھی اپنے بچوں کو اس چار سالہ مختصر مدت کی نوکری میں جاتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔ نتیجتاً، ایک زمانے میں جہاں فوج میں بھرتی کے تربیتی مراکز میں فوج میں بھرتی ہونے کی تیاری کرنے والے نوجوانوں کی تعداد سینکڑوں اور ہزاروں تھی، اب سمٹ کر دوہرے ہندسے تک پہنچ گئی ہے۔
یہی نہیں، فوج میں بھرتی ہونے کا خواب چکنا چور ہونے کے بعد جہاں
ہریانہ میں نوجوان روشن مستقبل کی امید میں ڈنکی روٹ اختیار کر کے غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہیں
مدھیہ پردیش میں انہیں فوج کے بجائے نیم فوجی دستوں یا پولیس کی تیاری کرتے یا کم عمری میں ہی روزگار کے طور پر کریانہ، لوہے یا فرنیچر کی دکان چلاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسری ریاستوں میں بھی ایسی ہی کہانیاں سامنے آئیں۔ یہ بھی سامنے آیا کہ اگنی پتھ اسکیم نے
اتراکھنڈ کی شاندار فوجی روایت اور اس کی معیشت کو گہرا نقصان پہنچایا ہے ۔
وہیں،
اتر پردیش میں سابق فوجیوں نے مانا کہ اس قلیل مدتی بھرتی اسکیم کا فوج کی صلاحیت پر طویل مدتی منفی اثر پڑے گا۔ فوج میں بھرتی ہونے کو لے کر
بہار میں نوجوانوں میں بے حسی کے احساس کے درمیان اسکیم کے تحت منتخب ہونے کے بعد بھی نوکری چھوڑنے کا معاملہ سامنے آیا۔
ایک سوال جو سب کو یکساں طور پر پریشان کر رہا تھا، وہ تھا – ‘ چار سال کی سروس کے بعد فوج میں ریگولر نہ ہونے والے 75 فیصد اگنی ویروں کا مستقبل کیا ہوگا؟’
دی وائر کے ذریعے اجاگر کی گئی ان خامیوں کی تصدیق اب ‘اگنی پتھ’ اسکیم پر فوج کے سروے میں شامل کیے گئے نکات سے بھی ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر، انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، سروے میں مختلف یونٹ اور سب-یونٹ کے کمانڈروں کے ان پٹ کو بھی شامل کیا جائے گا کہ ‘کیا اگنی ویر فوجی کارروائیوں میں اور انسانی وسائل کے دیگر مسائل میں ایک اثاثہ ہیں یا بوجھ ہیں؟’ انہیں اگنی پتھ اسکیم کے آغاز سے پہلے بھرتی کیے گئے جوانوں کے مقابلے میں اگنی ویروں کے تقابلی مظاہرے، ان کے درمیان مسابقت کے اثرات اور اگنی ویروں میں پائی جانے والی مثبت/منفی خصوصیات کے بارے میں بھی رائے دینا ہوگی۔ بھرتی کرنے والوں کو اسکیم کے نفاذ کے بعد فوج کی بھرتی پر مجموعی اثرات سے متعلق سوالات کے جوابات بھی دینے ہوں گے۔ فوج کے رجمنٹل مراکز کے تربیتی اہلکاروں کو پہلے بھرتی ہونے والے جوانوں کے مقابلے میں اگنی ویروں کی جسمانی صحت کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہوں گی۔
یہ کہیں نہ کہیں اتر پردیش سے کی گئی دی وائر کی اس رپورٹ میں سامنے آنے والے حقائق کی جانب اشارہ کرتا ہے، جہاں سابق فوجیوں نے کہا تھا؛
‘اگنی ویروں کو بھروسے مند نہیں سمجھا جاتا، انہیں ہتھیاروں کی ٹریننگ نہیں دی جاتی اور ان کے ساتھ باقاعدہ فوجیوں کی طرح بہتر سلوک نہیں کیا جاتا… جب آپ لڑکوں کو چار سال کے معاہدے پر بھرتی کریں ے، تو ممکن ہے کہ کہیں کم اور کمتر لڑکے فوج میں جائیں گے، جن کے اندر جنون کم ہو گا اور ملک کے لیے جذبہ ایثار و قربانی بھی نہیں ہوگا۔ اس طرح کیا فوج کو اس سطح اور معیار کے سپاہی مل سکیں گے جو انہیں مطلوب ہے؟’
اسی طرح، اگنی ویروں سے بھی رائے مانگی گئی ہیں کہ کیا وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان سب کو مستقل طور پر مسلح افواج میں شامل کیا جانا چاہیے۔ وہ اپنے ترجیحی کیریئر کے آپشن یا چار سال کے بعد ان کے لیے دستیاب دیگر آپشن کے بارے میں بھی ان پٹ فراہم کریں گے، اور بتائیں گے کہ کیا وہ وہیں رہ کر فوج میں خدمات انجام دینا چاہیں گے یا نیم فوجی دستوں سمیت کہیں اور نوکری کے مواقع تلاش کرنا چاہیں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘ان تفصیلات کی بنیاد پر امکان ہے کہ فوج اگنی ویروں کی شرکت، اگنی ویروں کو طویل مدت تک برقرار رکھنے کے فیصد وغیرہ کے حوالے سے اسکیم میں ممکنہ تبدیلیاں تجویز کرے گی۔’
سروے میں اگنی ویروں سے یہ جاننے کی بھی کوشش کی جائے گی کہ کیا وہ اپنے دوستوں اور خاندان کے افراد کو اگنی ویر کے طور پر فوج میں شامل ہونے کی ترغیب دیں گے۔
رپورٹ کے مطابق، حکام نے کہا ہے کہ ہر گروپ کے لیے مخصوص سوالات کے جوابات جمع کیے جائیں گے اور اس ماہ کے آخر تک مزید جائزے کے لیے پیش رفت کی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ 10 سوالوں کے جواب طلب کیے گئے ہیں۔
( اس سیریز کی تمام رپورٹس پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )