بی جے پی، رائےدہندگان کی توجہ اصل مدعوں سے بھٹکانے کے لئے بے چین ہے۔ ایسے میں این آر سی کا استعمال پولرائزیشن کے لئے اس طرح سے کیا جا سکتا ہے، جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتےہیں۔
اپنی ہر تقریر میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور
موہن بھاگوت جیسے سنگھ پریوار کے دوسرے رہنما اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ این آر سی کو پورے ہندوستان میں نافذ کرنے کی صورت میں کسی بھی ہندو کو ہندوستان سے باہر نہیں نکالا جائےگا۔ ایک اکتوبر کو کولکاتہ کی ایک سیاسی ریلی میں
شاہ نے کہا،’میں تمام ہندو، سکھ، جین، بدھ اور عیسائی پناہ گزینوں کو یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ان کو مرکز کے ذریعے ہندوستان چھوڑنے کےلئے مجبور نہیں کیا جائےگا۔ افواہوں پر بھروسہ مت کیجئے۔ این آر سی سے پہلے ہم شہریت ترمیم بل لائیںگے، جو یہ یقینی بنائےگا کہ ان لوگوں کو ہندوستانی شہریت مل جائے۔ ‘
اب اگر آپ کی پرورش بھی میری طرح ہندوستانی آئین کی قدروں کے مطابق ہوئی ہوگی تو آپ بھی یہ سوچکر اپنا سر پیٹ رہے ہوں گےکہ آخر کوئی وزیر ایسا بیان کیسے دے سکتا ہے؟ ٹھیک ہے کہ وہ ہندوستانیوں کےبارے میں نہیں پناہ گزینوں کے بارے میں بات کر رہے تھے، لیکن آخر کس اخلاقیات،قانون یا روایت کی کسوٹی پر وزیر داخلہ کا یہ کہنا مناسب ہے کہ ہندوستان کسی بھی طرح کے اور ہر طرح کے پناہ گزینوں کا استقبال کرےگا، بشرطیکہ وہ مسلمان نہ ہو!اصل میں پناہ گزینوں اور مہاجرین کی یہ ساری بحث الگ الگ گروپوں کو الگ الگ پیغام دینے کی سیاست کی بہترین مثال ہے۔اور یہ ہندوستانی شہریوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی مودی حکومت کی وسیع حکمت عملی کا حصہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امت شاہ جیسے رہنمامسلم شہریوں کو ڈرانے اور ان کو ان کے ہی ملک میں اپنی جگہ کو لےکر غیر محفوظ محسوس کرانے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ ہندوؤں کو یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ملک اصل میں ان کا ہے اور ان کو اپنی شہریت کو لےکر ڈرنے کی ضرورت نہیں اور ان کی حب الوطنی پر کبھی سوال نہیں اٹھایا جائےگا۔اس طرح کی سیاست نہ صرف آئین اوراس کی روح کے خلاف ہے، بلکہ یہ ہندتووادی تنظیموں کے تشدد آمیز ٹریک ریکارڈ کے لحاظ سے خطرناک موڑ کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ لیکن اس کے آگے، ہندو پناہ گزینوں کو (اورصرف ان کی ہی فکر کرنے والوں کو)شاہ کے ذریعے دیا گیا بھروسہ بڑے جھوٹ پر ٹکا ہواہے۔
2014 کےلوک سبھا انتخاب سے جب مودی اور بی جے پی نے پہلی بار غیر ملکیوں اور شہریت کو منضبط کرنے والے ہندوستانی قوانین پر خطرناک فرقہ وارانہ سیاست کرنی شروع کی تھی اورآخرکار ملک کے باشندوں کو مذہب کے نام پر بانٹنے کی سمت میں تیزی سے قدم بڑھائےتھے۔ ہم اس بھیانک سچائی کو لےکر اورصاف ہوجاتے ہیں، اگر ہم امت شاہ کے بیان کو لفظ بہ لفظ لیتے ہیں تو ضروری دستاویزنہ ہونے کی وجہ سے این آر سی جیسی قواعد سے ہندوستان بھر میں جن لوگوں کو جلاوطنی کا سامنا کرنا ہوگا، وہ مسلمان ہوںگے۔
ہندوستان کی آبادی 1.3 ارب سے زیادہ ہے، جن میں سے زیادہ تر شہری ہیں۔ اس آبادی کا ایک بہت ہی چھوٹا حصہ غیرملکیوں کا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر غالباً لمبےعرصے سے ملک میں رہائش پذیر ہیں اور یہ مانا جا سکتا ہے کہ ان میں سے زیادہ ترلوگوں کے پاس آمد یا رہائش کے مناسب دستاویز نہیں ہیں، کیونکہ ایک کے بعد ایک آئی حکومتوں نے کبھی بھی ایک منطقی مہاجر اور پناہ گزیں پالیسی بنانے کی زحمت نہیں اٹھائی۔ ان غیر ملکیوں اور پناہ گزینوں میں سب سے زیادہ بنگلہ دیشی نژاد ہیں، لیکن ان میں تبت، سری لنکا اور میانمار،افغانستان اور پاکستان کے بھی لوگ ہیں، جن میں سے زیادہ تر ہندوستان میں سالوں سےرہ رہے ہیں اور جن کے بچے پوری طرح سے ہندوستانی شہری ہیں۔
جنوبی ایشیا سمیت پوری دنیا میں مزدوروں کی نقل مکانی ایک سچائی ہے۔ یہ اس اقتصادی حرکت پذیری کی پیداوار ہے، جس میں مزدوروں کی کمی ان کو ایک علاقے سے دوسرے علاقوں میں لے جاتی ہے۔ مثال کے طورپر شمالی امریکہ میں پیدا ہوئے اقتصادی مواقع پنجابی کمیونٹی کے لوگوں کے لئے ہندوستان سے نقل مکانی کرنےکی وجہ بنی۔ ان کی کمی پورا کرنے کے لئے اورکھیتوں میں کام کرنے بہار سے لوگ پنجاب گئے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مغربی بنگال اور دہلی میں کام کرنےکے لئے بہار کے کم لوگ ہیں، جہاں بنگلہ دیش سے بھی مزدور آتے ہیں۔
ہندوستانیوں کی طرح ہی بنگلہ دیش کے لوگ بھی مغرب کی طرف سفر کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہاں مہارت کی کمی کی حالت پیدا ہوتی ہے۔ کچھ سال پہلے ورلڈ بینک نے ایک اعداد و شمار شائع کیا تھا، جس کے مطابق بنگلہ دیش میں کام کر رہے ہندوستانیوں نےاس سال 3.7 ارب ڈالر کی رقم ڈاک کے ذریعےہندوستان بھیجی تھی۔یہ رقم ہندوستان میں کام کر رہے بنگلہ دیشی مزدوروں کے ذریعےہرسال اپنے ملک بھیجی گئی رقم کی تقریباً
آدھی تھی۔دنیا بھر میں رہ رہے ہندوستانی مہاجروں، چاہے وہ بنا کاغذات والے ہی کیوں نہ ہوں، کے ساتھ کئے جانے والی بد سلوکی کے تئیں ہندوستان اور ہندوستانی کافی حساس ہیں-جو صحیح بھی ہے۔
لیکن بات جب ہندوستان میں رہ رہےبنا ضروری دستاویز والے مہاجروں کی آتی ہے، تب ہم مغربی نسل پرستوں کی طرح ہی برتاؤ کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت دیکھنا ہے تو آپ حکومت، میڈیا اور یہاں تک کہ عدالتوں کے ذریعے بنا دستاویز والے مہاجروں کے لئےاستعمال کی جانے والی زبان کی طرف دھیان دیجئے-ہم ان کو ‘گھس پیٹھیا’ کہہکرپکارتے ہیں۔ جب ہم اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں، تو ہمارے دل میں بندوق لےکر لوگوں کا قتل کرنے کے لئے آنے والے آدمی کی امیج بنتی ہے۔ لیکن ایک بنا دستاویز کے سرحد پار کرنے والا مہاجر اکثر مزدوری کماکر اپنا گزر بسر کرنے والا آدمی ہوتا ہے۔
اب ہمارے سامنے امت شاہ ہیں، جوبنگلہ دیشی مہاجروں کو
‘دیمک‘کا نام دیتے ہیں اور ان کو ہندوستان سے باہرکھدیڑنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ حالانکہ، یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت جن کی شناخت غیر قانونی مہاجروں کے طور پر کر رہی ہے، ان کو وہ کہاں بھیجناچاہتے ہیں۔ شاید بنگال کی کھاڑی میں؟ کیونکہ بنگلہ دیش نے یہ بار بار کہا ہے کہ اس کو یہ نہیں لگتا ہے کہ ہندوستان جن لوگوں کو ملک سے باہر کرنا چاہتا ہے، وہ بنگلہ دیشی ہیں، اس لئے وہ ان کو قبول نہیں کرےگا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نریندرمودی کو بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کو یہ بھروسہ دلانے پر مجبور ہونا پڑاہے کہ ان کو این آر سی کو لےکر فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے بھی کہا کہ اس قواعد کا نتیجہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہوگا۔
آسام میں این آر سی کی قواعد نےپہلے ہی 19 لاکھ لوگوں کو ایک طرح سے عدم شہریت والے شہری میں تبدیل کر دیا ہے۔ اب امت شاہ مغربی بنگال اور ہندوستان کے دوسرےحصوں میں اس قواعد کو دوہراکر آسام میں پیدا ہوئے مسئلہ کو اور بڑا کرنا چاہتےہیں۔ چونکہ اس فہرست میں کئی ہندوؤں کے بھی نام ہیں، اس لئے وزیر داخلہ اب بنگال اور دوسری جگہوں کے ہندوؤں کو یہ بھروسہ دلانے میں مصروف ہیں کہ مناسب دستاویز نہیں پیش کر پانے کی حالت میں ان کی ہندوستانیت شک کے گھیرے میں نہیں آئےگی۔
ان کا ایسا کہنا وزیر داخلہ کےعہدےکے لئے لیے گیے ان کے حلف کی کھلی خلاف ورزی ہے، جو ان پر ڈر یا جانبداری، محبت یانفرت کے بغیر تمام طرح کے لوگوں کے ساتھ آئین اور قانون کے حساب سے سلوک کرنے کی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ شاہ کا یہ منصوبہ نہ صرف فرقہ پرستی، ڈر اور لوگوں کو بانٹنے پر مبنی ہے، بلکہ یہ جھوٹ پر بھی ٹکا ہے۔ ایسا اس لئے ہے، کیونکہ بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کے ہندو، بدھ، جین، عیسائیوں کوشامل کرنے کی حکومت کا منصوبہ کی ایک طےشدہ تاریخ(کٹ-آف ڈیٹ) ہے، جو کہ 31 دسمبر،2014 ہے۔
2015 اور2016 میں حکومت نے
پاسپورٹ (ہندوستان میں داخلہ) اصول اور غیر ملکیوں سے متعلق
ایکٹ میں ترمیم کرکے یہ اعلان کیا تھا کہ ان تین ممالک کے ان خاص مذاہب کے لوگوں کو ہندوستان کے قانون کے حساب سے کبھی بھی’غیر قانونی مہاجر’ نہیں مانا جائےگا، بشرطیکہ وہ31 دسمبر، 2014 سے پہلے ہندوستان آ گئے ہوں۔
مجوزہ شہریت ترمیم بل ان گروہوں کے لئے ہندوستانی شہریت حاصل کرنا آسان کر دےگا، بشرطیکہ وہ دسمبر 2014 سےپہلے ہندوستان آ گئے ہوں۔اسلام کے علاوہ باقی تمام مذاہب کے لئے اس قدم کی محدود جغرافیائی سرحد اور طےشدہ تاریخ نہ صرف حکومت کی فرقہ پرستی کا، بلکہ پوری طرح سے اس کی دھوکے بازی اور غیر-ایمانداری کا ثبوت ہے۔اگر ہندوستان پڑوسی ممالک کے پناہ گزینوں کے تئیں ایک ایماندار انسانی پالیسی اپنانا چاہتا ہے تو اس کو مذہبی جبرواستبداد کے ہر شکار کے لئے اپنا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے، نہ کہ صرف غیرمسلموں کےلئے۔
اس کا مطلب ہے کہ بنگلہ دیش یاپاکستان کے ہندوؤں کا استقبال کرنا چاہیے، لیکن ساتھ ہی احمدیہ یا ہزارہ یا کسی دوسرے کے لئے بھی اپنے دروازے کھلے رکھنے چاہیے۔ دوسری بات، یا تو آپ کے پاس پڑوس کےلئے کوئی پالیسی ہونی چاہیے یا نہیں ہی ہونی چاہیے۔ کیوں مودی اور شاہ بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان سے مذہبی استحصال جھیلنے والوں کے تئیں ہی انسانیت دکھارہے ہیں؟ میانمار اور سری لنکا کے ایسے ہی لوگوں کے تئیں کیوں نہیں؟ کس دلیل سے حکومت میانمار میں مذہبی جبر و استبدادکا شکا رہونے والے روہنگیا مسلمانوں کو یا خدا نہ کرے حالات اگر اوربگڑے تو سری لنکا میں مذہبی جبر واستبداد سے بھاگنے والے تمل مسلمانوں اور ہندوؤں کو اس سے الگ رکھ رہی ہے؟
اب امت شاہ اور ان کا بچاؤ کرنےوالوں کو یہ اعتراضات ناگوار گزرے گا، کیونکہ جیسا کہ ان کے گرو موہن بھاگوت نےہمیں حال ہی میں یاد دلایا کہ ہندوستان ایک’ہندو راشٹر’ہے، اس لئے اس کو اپنےدروازے ان تمام ہندوؤں کے لئے کھول دینے چاہیے، جن کے پاس اور کہیں جانے کے لئےنہیں ہے، جبکہ مسلم پناہ گزینوں کے پاس جانے کے لئے کئی درجن مسلم ممالک ہیں۔ ظاہری طور پر یہ ایک بیوقوفی بھری دلیل ہے، لیکن اگر ان کا دل سچ مچ میں ہندو پناہ گزینوں کے لئے زار و گریہ کرتا ہےتو انہوں نے 2014 سے پہلے کی تاریخ کیوں طے کی ہے؟ آخر نئی شہریت ترمیم میں پاکستان یا بنگلہ دیش میں 2015 سے مذہبی جبرواستبداد کے شکارلوگوں کو ہندوستان آنے یا آنے کی خواہش رکھنے والوں کے لئے کوئی جگہ کیوں نہیں ہے؟
ان کے لئے نریندر مودی اور امت شاہ کے منصوبہ میں کوئی جگہ اس لئے نہیں ہے، کیونکہ وہ پناہ گزینوں سے زیادہ اقتدار سے پیار کرتے ہیں، بھلےہی وہ پناہ گزین ہندو ہی کیوں نہ ہوں۔ ان کو یہ پتہ ہے کہ اگر ان کو کٹ-آف ڈیٹ کو ختم کرنا پڑے-جو پہلے ہی آسام معاہدہ میں دی گئی 1971 کی کٹ-آف ڈیٹ کی خلاف ورزی کرتی ہے-تو آسام کے رائےدہندگان وہاں ان کو یقینی طور پر اقتدار سے باہر پھینک دیںگے۔ ایسے میں سوال ہے کہ آپ باقی ہندوستان میں ہندوؤں کے جذبات کو مطمئن کرتے ہوئے ‘آسامیا’ جذبات کو بھی مطمئن کیسےکر پائیںگے؟
مودی اور شاہ کی ریاضی میں 2014 کی کٹ-آف ڈیٹ انھیں آسامیا جذبات-جو کہ کسی بنگلہ دیشی کو ہندوستانی شہریت دینے کےپوری طرح سے خلاف ہے، بھلےہی وہ ہندو کیوں نہ ہوں-کو مطمئن کرنے کے ساتھ شہریت اوراین آر سی کارروائیوں کے استعمال سے پورے ہندوستان میں پولرائزیشن کرنے اور اپنے ہندوووٹ بینک کو پختہ کرنے کے بیچ توازن قائم کرنے میں مدد کرےگی۔یہ ایک کریہہ سیاست ہے، جس میں شاہ الجھے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس میں تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اس کریہہ سیاست کو ‘گھس پیٹھیے’ اور ‘دیمک’ جیسے بیہودہ اور فحش الفاظ کی ضرورت ہے۔ بی جے پی، رائےدہندگان کی توجہ اصل مدعوں سے بھٹکانے کے لئے بے چین ہے۔ ایسے میں این آر سی کا استعمال ہندوستان کاپولرائزیشن کرنے کے لئے اس طرح سے کیا جا سکتا ہے، جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتےہیں۔
دکھ کی بات ہے کہ آج کوئی بھی،یہاں تک کہ سپریم کورٹ بھی، ان کو روکنے کے لئے تیارنظر نہیں آتا۔