جولوگ اس علاقہ کو ہندو زائرین کے لیے کھولنے کی وکالت کرتے ہیں، انہیں جنوبی کشمیر میں امرناتھ اور شمالی ہندوستان کے صوبہ اترا کھنڈ کے چار مقدس مذہبی مقامات بدری ناتھ،کیدارناتھ، گنگوتری اوریمنوتری کی مذہبی یاترا کو سیاست اور معیشت کے ساتھ جوڑنے کے مضمرات پر بھی غور کرنا چاہیے۔ایک دہائی قبل تک امرناتھ یاترا میں محدودتعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے لیکن اب ہندو قوم پرستوں کی طرف سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ اس کی یاتراکو فروغ دینے کے پیچھے کشمیر کو ہندوؤں کے لیے ایک مذہبی علامت کے طور پر بھی ابھار نا ہے، تاکہ ہندوستان کے دعویٰ کو مزید مستحکم بناکر جواز پیدا کرایا جاسکے۔
ابھی حال ہی میں جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول سے متصل ٹیٹوال،کرناہ میں ہندوستانی وزیر داخلہ امت شاہ نے شاردا دیوی کے مندر کا کیا
افتتاح کیا کہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے آوازیں اٹھنی لگیں کہ کرتار پور کی طرز پر اس علاقے میں بھی ایک کاریڈور کا قیام عمل میں لایا جائے، تاکہ ہندو زائرین اصلی شاردا پیٹھ کے درشن کر سکیں اور اس علاقے کی آمد ن کے ذرائع پیدا ہوں۔
ا مت شاہ نے کہا کہ یہ ایک نئی صبح کا آغاز ہے جو ماتا شاردا دیوی کے آشیرواد اور لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب سول سوسائٹی سمیت لوگوں کی مشترکہ کوششوں سے ممکن ہوا ہے۔ اس کے دیکھتے ہی دیکھتے پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی اسمبلی نے متفقہ طور پر ایک قرار داد بھی پاس کی، جس میں کاریڈور بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ گو کہ بعد میں حیرت انگیز طور پر حکومت نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا، مگر جو نقصان ہونا تھا، وہ ہو چکا تھا۔
سال 2019 میں پنجاب میں کرتار پور گوردوارہ کے درشن کی خاطر سکھ عقیدتمندوں کے لیے ایک راہداری کی منظوری کے فوراً بعد بھی خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں کہ اسی طرز پر اب پاکستانی حکومت لائن آف کنٹرول کے پاس ہندو زائرین کے لیے شاردا پیٹھ جانے کے لیے بھی ایک کاریڈور کھولنے پر غور کر رہی ہے۔
لائن آف کنٹرول کو کھولنے، آمد و ررفت کو سہل بنانے اور آر پار کشمیری عوام کے ملنے جلنے جیسے عوامی اقدامات کی کون مخالفت کرسکتا ہے۔ 2005 میں سرینگر–مظفر آباد بس سروس اور پھر 2008میں تجارت کے لیے اس کو کھولنے سے دونوں طرف کے عوام کو خاصی راحت ملی تھی، مگر وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے آنے کے بعد اس میں رکاوٹیں کھڑی ہونا شروع ہوگئی تھیں، تاآنکہ اس کو بند ہی کردیا گیا۔
ویسے تو پاکستان میں ہندوستان کے ساتھ تجارتی روابط بحال اور استوار کرنے والا ایک طبقہ ہر لمحہ پنجاب میں واگہ اور سندھ میں کھوکھراپار کے راستے تجارتی راہداریاں کھولنے کا مطالبہ کرتا آیا ہے،کاش وہ اتنی سنجیدگی کے ساتھ لائن آف کنٹرول کے اطراف بھی راہداریاں کھولنے پر اصرار کرتے۔
پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد سے 221 کلومیٹر دور شمال میں آٹھ مقام اور دودنیال کے درمیان، شاردا کھنڈرات، کشمیر کی قدیم تہذیب اور علم و فن کے گواہ ہیں۔ بدھ مت کی عظیم دانشگاہوں نالندہ اور ٹیکسلا کی طرح شاردا بھی ایک قدیم علمی مرکز تھا۔ نیلم اور مدھومتی کے سنگم پر واقع ان یادگاروں کو صرف ایک مندر یا عبادت گاہ کے طور پر فروغ دینا، تاریخ اور اس دا نشگاہ کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے۔
اس جگہ پر اب بغیر چھت کے پتھروں کی ایک عمارت کھڑی ہے اور یہ علاقہ لائن آف کنٹرول سے دس کلومیٹر دور ہے۔ چند برسوں سے ہندو خاص طور پر کشمیری پنڈتوں کا ایک طبقہ اصرار کر رہا ہے کہ یہ ان کا مقدس مقام ہے اور 1947 تک یہاں شاردا یا علم کی دیوی سرسوتی کے نام پر ایک مندر قائم تھا اور کشمیر کے پہلگام علاقے میں امرناتھ کی طرز پر، اس مندر کی زیارت کے لیے بھی ہر سال ہزاروں ہندو عقیدت مند اس علاقے میں آتے تھے۔
دونوں اطراف خصوصاً پاکستانی زیر انتظام کشمیرمیں اپنی روشن خیالی ثابت کروانے والے کئی احباب بھی بغیر تحقیق کے اسی مسخ شدہ تاریخ کو تسلیم کرتے ہوئے اس یاترا کی بحالی کا مطالبہ کرنا شروع کرتے ہیں۔ ہندوستان میں ہندو قوم پرست آرایس ایس کی طرح پاکستان میں بھی تاریخ کو توڑ مروڑ کر از سر نو لکھنے کی دوڑ لگی ہے۔
ہندوستان میں یہ کام ہندو انتہا پسندوں کا خاصہ ہے، پاکستان میں یہ کام وہ افراد کررہے ہیں، جن کو اپنے آپ کو اعتدال پسند اور روشن خیال کہلوانے کا خبط ہے۔
چارلس الیسن بیٹس نے 1872ء میں جب گزٹ آف کشمیر ترتیب دیا، تو اس مقام پر ایک قلعہ کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قلعہ سے 400گز کی دوری پر ایک عبادت گاہ کے کھنڈرات اس کو ملے۔ اس نے لکھا ہے کہ یہ عمارت نہایت خستہ اور ویران حالت میں ہے۔ یاد رہے یہ ہندو ڈوگرہ حکمرانوں کا دور تھا، لہذا یہ دعوی ٰ کرنا کہ اس علاقہ میں ایک عالیشان مندر واقع تھا اور وہاں 1947تک جوق در جوق یاتری آتے تھے، لغو اور غلط بیانی کی انتہا ہے۔
بیٹس اورانگریز سرویر جنرل والٹر لارنس نے اس دور میں کشمیر کے قریہ قریہ گھو م کر معمولی واقعات تک قلم بند کیے ہیں۔ ان کی نگارشات میں کہیں بھی شاردا مندر کی یاترا کا تذکرہ نہیں ہے۔کہتے ہیں کہ 19ویں صدی میں آدھے ادھورے من سے ڈوگرہ حکمرانوں نے اس کی تزئین کی کوشش کی تھی، مگر اس کو ادھور چھوڑ دیا گیا۔ بس اس عبادت گاہ کے ارد گرد مٹی کی ایک دیوار بنائی گئی۔ اگر اس جگہ پر عقیدت مند وں کا تانتا بندھا ہوتا، تو ہندو حکمرانوں نے اس جگہ پر عالیشان مندر یقیناً تعمیر کرایا ہوتا۔
تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ جگہ بدھ مت کے عروج کے دوران ایک یونیورسٹی کا درجہ رکھتی تھی۔نالندہ اور ٹیکسلا کے برعکس یہاں بدھ اشرافیہ یا چیدہ اسکالرز فلسفہ، سائنس اور بدھ مت کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے آتے تھے ۔
مشہور چینی سیاح و محقق ہیون سانگ نے ساتویں صدی میں جب اس علاقے کا دورہ کیا، تو اس کے مطابق اس یونیورسٹی میں بدھ بھکشو انتہا درجہ کی ریاضت اور تعلیم حاصل کرتے تھے۔ شاردا سے سرینگر تک اپنے سفر کے دوران اس نے کئی سو بدھ خانقاہیں دیکھیں، جن میں ہزاروں بھکشو مقیم تھے۔
اس دور میں یہاں ہر سال 50ہزار کے قریب عقیدت مند آتے تھے اور اس دانشگاہ کے قلب میں واقع عبادت گاہ میں جانے سے قبل پاس کے شاردایا مدھومتی یا کھوچل دریا میں ڈبکی لگاتے تھے۔
شاردا کے کھنڈرات دراصل تاریخ کی اس کڑی کی نشاندہی کرتے ہیں، جب ہندو مت کو دوبارہ عروج حاصل ہوا اور بد ھ مت کو نشانہ بناکر ان کی عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرایا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ آٹھویں صدی میں جب کیرالا سے ہندو برہمن آدی شنکر آچاریہ نے بدھ مت کے خلاف محاذ کھول کر پورے جنوبی ایشیاء کا دورہ کیا، اس نے شاردا یعنی علم کی دیوی کے نام پر مندر تعمیر کروائے، جن میں سب سے بڑا مندر کرناٹک میں دریائے تنگ کے کنارے سرنگری میں واقع ہے۔
جب وہ کشمیر آئے اور اس جگہ پر ان کا بد ھ بھکشوں کے ساتھ مکالمہ ہوا۔ ہندو تاریخ کے مطابق انہوں نے بدھ بھکشوں کو مکالمہ میں چت کردیا۔ چونکہ اس دور میں اکثر راجے مہاراجے دوبارہ ہندو مت میں داخل ہو گئے تھے، شنکر آچاریہ نے ان کی مدد سے بھکشوں کا ناطقہ بند کرادیا اور ان کی عبادت گاہوں کو تہس نہس کرکے ان کی جگہوں پر مندروں کی عمارات کھڑی کردی۔ یہی کچھ شارد ا پیٹھ کے ساتھ بھی ہوا ہے۔
سن 1372ء میں میر سید علی ہمدانی کی آمد تک کشمیر میں وقتاً فوقتاً بدھ مت اور ہندو شیوازم کے درمیان انتہائی کشیدگی جاری تھی۔ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنا ایک طرح سے معمول تھا۔ شاید اسلام کو جس طرح اس خطے میں عوامی پذیرائی ملی، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔
کشمیر میں 1260ء قبل مسیح میں سریندرا پہلا بدھ بادشاہ تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ بدھ بھکشووٗں نے ہی زعفران کی کاشت کو متعارف کروایا۔ 232قبل مسیح اشوکا کی حکومت کے خاتمہ کے بعد راجہ جالو نے ہندو شیوا زم قبول کیا اور بدھ مت پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ بدھ اسٹوپوں، وہاروں کو تاراج کیا گیا۔ بدھ مت کی دانشگاہوں پر شیو مندر بنائے گئے۔ 63 ء میں دوبارہ بدھ مت کو عروج حاصل ہوا۔
راجہ کنشک کے عہد میں بارہمولہ کے کانس پورہ میں چوتھی بدھ کونسل منعقد ہوئی اور بدھ مت کے ایک لبرل مہایانہ فرقہ کی بنیاد ڈالی گئی، جو چین اور کوریا میں فی الوقت رائج ہے۔
جولوگ اس علاقہ کو ہندو زائرین کے لیے کھولنے کی وکالت کرتے ہیں، انہیں چند منٹ جنوبی کشمیر میں امرناتھ اور شمالی ہندوستان کے صوبہ اترا کھنڈ کے چار مقدس مذہبی مقامات بدری ناتھ،کیدارناتھ، گنگوتری اوریمنوتری کی مذہبی یاترا کو سیاست اور معیشت کے ساتھ جوڑنے کے مضمرات پر بھی غور کرنا چاہیے۔ایک دہائی قبل تک امرناتھ یاترا میں محدودتعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے لیکن اب ہندو قوم پرستوں کی طرف سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ اس کی یاتراکو فروغ دینے کے پیچھے کشمیر کو ہندوؤں کے لیے ایک مذہبی علامت کے طور پر بھی ابھار نا ہے، تاکہ ہندوستان کے دعویٰ کو مزید مستحکم بناکر جواز پیدا کرایا جاسکے۔
ہندوستان کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال تو کشمیر کو سیاسی مسئلہ کے بجائے تہذیبی جنگ قرار دیتے ہیں اور ان کے مطابق اس مسئلہ کا حل ہی تہذیبی جارحیت اور اس علاقہ میں ہندو ازم کے احیاء میں مضمر ہے۔ ایک باضابطہ منصوبہ کے تحت کشمیر کی پچھلی 647سال کی مسلم تاریخ کو ایک تاریک دور کے بطور پیش کیا جاتا ہے۔ خطرہ تو بس یہ ہے کہ اعتدال پسندی کا دکھاوا کرکے وادی نیلم یا شاردا کا علاقہ حقیر مفادات کے لیے کہیں دوسرا پہلگام اور بال تل نہ بن جائیں اور حریص طاقتیں ان کو سیاست ومعیشت کے ساتھ جوڑ کرکسی سانحہ کا سامان پیدا نہ کریں۔روشن خیالی تو ٹھیک ہے، مگر اس کے ساتھ اگر بے ضمیری شامل ہے تو یہ زہر ہلاہل ہے۔