سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹرآلوک ورما کی جانب سے سینٹرل انفارمیشن کمیشن کو رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت دی گئی دو درخواستوں سے پتہ چلا ہے کہ کس طرح اچانک ان کے کیرئیر کے خاتمے کے بعد سے حکومت نے ان کی سابقہ سروس کی مکمل جانکاری کو ضبط کر لیا۔ اس کے بعدان کی پنشن، طبی اہلیت اور گریجویٹی سمیت ریٹائرمنٹ کے تمام واجبات حتیٰ کہ پراویڈنٹ فنڈ کی ادائیگی سےبھی انکار کر دیا گیا۔
نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی والی ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے آلوک کمار ورما کو تین سال قبل سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کے ڈائریکٹر کے عہدے سے ہٹا دیا تھا اور ان کے خلاف بدعنوانی کے معاملات میں دو چارج شیٹ دائر کی گئی تھیں۔
لیکن،آج تین سال گزرنے کے بعد بھی ورما ان معاملوں سے متعلق معلومات آر ٹی آئی کے ذریعےحاصل کرنے کے لیےجدوجہد کر رہے ہیں۔
ورما کا معاملہ اس بات کی ایک اور مثال ہے کہ کیسےحکومت کے خلاف جانے والے افسروں کے لیے انصاف پانا مشکل ہے، یہاں تک کہ مختلف اداروں سے معلومات حاصل کر نا بھی۔
آلوک کی جانب سےسینٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی) میں دیے دو درخواستوں سے پتہ چلا ہے کہ کیسے اچانک کیریئر کے اختتام کے بعد سے حکومت نےان کی تمام سابقہ سروس معلومات کو ضبط کر لیا ہے۔
جس کے بعد ان کی پنشن، طبی اہلیت اور گریجویٹی سمیت ریٹائرمنٹ کے تمام واجبات،حتیٰ کہ پراویڈنٹ فنڈ کی ادائیگی سے انکار کر دیا گیا۔ بعد میں ان کے فعال ہونے کے بعد ان کے پراویڈنٹ فنڈ کو جاری کردیا گیا۔
اٹھارہ مہینے کے بعد سی آئی سی نے معاملے کو متعلقہ بنچ کو منتقل کرنے کی ہدایت دی
سی آئی سی نےحال ہی میں ورما کی طرف سے دائر کی گئی دو اپیلوں میں عبوری فیصلے دیتے ہوئے صرف یہ ہدایت دی کہ معاملے کو ‘آگے فیصلے کے لیے متعلقہ بنچ کو منتقل کیا جائے۔’
یہ فیصلہ چیف انفارمیشن کمشنر وائی کے سنہا نے دیا، جو ورما کی جانب سے کمیشن میں دوسری اپیل دائر کرنے کے دو سال بعد دیا گیا۔
ورما نے 2016 سے عرضی داخل کرنے کی تاریخ تک وزارت داخلہ (ایم ایچ اے) کی فہرست میں شامل تمام تفتیشی افسران اور تفتیشی حکام کی فہرست مانگی تھی۔ ساتھ ہی، ورما نے وہ تمام دستاویز بھی مانگے تھے جو وزارت داخلہ میں تفتیشی افسر یا اتھارٹی کے طور پر کسی شخص کی تقرری کی شرائط کو بیان کرتے ہیں۔
انہوں نے ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر پی کے بسو کی طرف سے وزارت داخلہ میں انکوائری آفیسر یا تفتیشی اتھارٹی کے طور پر تقرری کے لیے جمع کرائی گئی درخواست کی تصدیق شدہ کاپی بھی مانگی تھی اوراس تاریخ کی جانکاری مانگی تھی جس دن بسو نے یہ درخواست جمع کی تھی۔
انہوں نے ان کے خلاف تفتیشی اتھارٹی کے طور پر بسو کی تقرری سے متعلق شرائط کے بارے میں بھی جانکاری مانگی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ان تحقیقات کے لیے بسو کو دی گئی مدت، تنخواہ اور دیگر مراعات کے بارے میں بھی پوچھا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ21 اپریل 2020 کو وزارت داخلہ کے سینٹرل پبلک انفارمیشن آفیسر (سی پی آئی او) نے آر ٹی آئی درخواست کے پانچ میں سے چار نکات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ،آپ کے خلاف جانچ زیر غور ہے، معلومات فراہم کرنے سے ان پر اثر پڑے گا۔ لہذا آر ٹی آئی ایکٹ-2005 کی دفعہ 8(1) کے تحت معلومات فراہم نہیں کی جا سکتی ہیں۔
سی پی آئی او سے ملے جواب سے غیرمطمئن ورما نے 12 مئی 2020 کو پہلی اپیل دائر کی۔ وزارت داخلہ کے جوائنٹ سکریٹری جوفرسٹ اپیلٹ آفیسر تھے، انہوں نے بھی 11 جون 2020 کو سی پی آئی او کے جواب کی توثیق کی۔
ناراض اورغیر مطمئن ورما نے اپنی دوسری اپیل کے ساتھ فوری طور پر سی آئی سی سے رجوع کیا۔
وزارت داخلہ نے تسلیم کیا کہ ورما کی ‘پوری پچھلی سروس ضبط’ کی گئی ہے
اپنی دوسری درخواست میں ورما نے پوچھا تھا کہ،آئی پی ایس افسران کے کتنے معاملات میں تفتیش کے بعد افسران کی پوری سروس ضبط کی گئی ہے۔
انہوں نےایسے افسران کے نام اور افسران کی سروسز کو ضبط کرتے ہوئے نافذ کیے گئے قوانین کے بارے میں بھی معلومات طلب کی۔ ساتھ ہی انہوں نے پوچھا کہ ،آئی پی ایس افسران سے متعلق کتنے معاملات میں بنا جانچ کیے افسروں کی پوری سروس ضبط کی گئی ہے۔
‘فورفیٹنگ سروس’ کا مطلب ہے کہ جب کسی سرکاری افسر کو نوکری یا عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے تو پنشن، چھٹی وغیرہ جیسے فوائد کے ساتھ ان کا سابقہ مکمل سروس ریکارڈبھی ضبط کر لیا جاتا ہے۔
ورما کی طرف سے پوچھے گئے ان دو نکات کا جواب دیتے ہوئے وزارت داخلہ کے سی پی آئی او نے جواب دیا کہ،دستیاب ریکارڈ کے مطابق،گزشتہ پانچ سالوں کے دوران وزارت داخلہ کی جانب سے2019 میں آلوک کمار ورما کی پوری سروس ضبط کی گئی۔
مزید کہا گیا ہے کہ ‘سروس ضبط کرنے’ سے پہلے ان کا موقف جاننے کے لیے انہیں وجہ بتاؤ نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا۔
وزارت داخلہ نے کہا کہ جانچ کی تفصیلات کا اشتراک تفتیشی عمل میں رکاوٹ بن سکتا ہے
ورما نے محکمہ پرسنل اینڈ ٹریننگ (ڈی او پی ٹی) کےسکریٹری کو لکھے اپنے دو خطوط اور وزارت داخلہ کو بھیجے گئے ایک خط پر کی گئی کارروائی کی تفصیلات بھی مانگی تھیں۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے ان کے خلاف دو چارج شیٹوں کے سلسلے میں شروع کی گئی تحقیقات سے متعلق فائلوں اور تبصروں کی کاپیاں بھی مانگیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے خلاف تحقیقات کے حوالے سےوزارت داخلہ اور ڈی او پی ٹی کے درمیان خط و کتابت کی کاپیاں بھی مانگی تھیں۔
ورما نے تمام وزارتوں اور محکموں کے درمیان ہونے والے تمام خط و کتابت کی کاپیاں بھی مانگی ہیں، جن کی بنیاد پر ان کے ریٹائرمنٹ کے واجبات (پنشن، طبی اہلیت اور گریجویٹی وغیرہ) ادا نہیں کیے گئے تھے۔
ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے وزارت نے کہا کہ ان کے خلاف دو تادیبی کارروائیاں/تفتیش شروع کی گئی تھیں اور اس لیے معلومات فراہم کرنے سے اس عمل (تفتیش) میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔
ورما کا آخری سوال اپنے جی پی ایف (پراویڈنٹ فنڈ) کے واجبات کی ادائیگی میں تاخیر کی وجوہات سے متعلق تھا، جس پر وزارت داخلہ نے کہا کہ یہ معاملہ زیر سماعت ہے۔
سال 2021 میں وزارت داخلہ نے ورما کے خلاف تادیبی کارروائی کی سفارش کی تھی
اتفاق سے وزارت داخلہ نے اگست 2021 میں ورما کے خلاف تادیبی کارروائی کی سفارش کی تھی۔ یہ فیصلہ ان کے گجرات کیڈر کے آئی پی ایس افسر راکیش استھانہ کی سی بی آئی میں دہلی پولیس کمشنر کے طور پر تقرری کے چند دن بعد آیا تھا۔
استھانہ سی بی آئی میں ورما کے دور میں اسپیشل ڈائریکٹر کے عہدے پر تھے۔ ورما اور استھانہ کے درمیان بدعنوانی کے الزامات کو لے کر لڑائی ہوئی تھی جس کے نتیجے میں ورما کو باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔
اس دوران ورما اور استھانہ نے ایک دوسرے پر بدعنوانی کے الزامات لگائے تھے۔
وزارت داخلہ نے ورما پر اپنے سرکاری عہدے کا غلط استعمال کرنے اور متعلقہ سروس رولز کی خلاف ورزی کا الزام لگایا تھا اور ورما کے خلاف تادیبی کارروائی کے لیے ڈی او پی ٹی کو لکھا تھا۔
رافیل سودے سے متعلق
ورما یکم فروری 2017 کو دو سال کی مدت کے لیے سی بی آئی ڈائریکٹر بنےتھے، لیکن اکتوبر 2018 میں انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اس مہینے کئی اہم واقعات رونما ہوئے تھے۔
سب سے پہلے سابق وزراء ارون شوری اور یشونت سنہا اور وکیل پرشانت بھوشن کے ایک وفد نے رافیل طیارے کی خریداری کے سودے میں ایف آئی آر درج کرانے کےلیے 4 اکتوبر کو ورما سے ملاقات کی۔
کچھ دن بعد، 15 اکتوبر کو ورما نے اپنے ماتحت افسر استھانہ کے خلاف بدعنوانی کے الزام میں سی بی آئی میں مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔
اس کے بعد 23 اکتوبر کو وزیر اعظم نے آدھی رات کو ہی ورما کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا۔
ورما نے اس کے بعد سپریم کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کیا، جس نے جنوری 2019 میں حکومت کے فیصلے کو رد کر دیا اور انہیں اس شرط کے ساتھ بحال کر دیا کہ اعلیٰ اختیاراتی سلیکشن کمیٹی ایک ہفتے میں ان کی تقدیر کا فیصلہ کرے گی۔
ورما نے زبردستی ہٹائے جانے کے 77 دن بعد 9 جنوری 2019 کو دوبارہ عہدہ سنبھالا۔ تاہم اگلے ہی دن 10 جنوری کو انہیں ان کے عہدے سے ہٹا کر ایک کم اہم محکمے میں تبدیل کر دیا گیا۔
پچھلے سال دی وائر نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ ورما بھی پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے جاسوسی کی فہرست میں شامل تھے۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔