ہاتھرس گینگ ریپ: علی گڑھ کے اسپتال کی ایم ایل سی رپورٹ پولیس کے ریپ نہ ہو نے کے دعوے کے برعکس  ہے

خصوصی رپورٹ: یوپی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ہاتھرس متاثرہ کی ایف ایس ایل رپورٹ کے مطابق ریپ نہیں ہوا ہے۔ حالانکہ دہلی لائے جانے سے پہلے متاثرہ کوعلی گڑھ کے جس اسپتال میں بھرتی کیا گیا تھا، وہاں کی ایم ایل سی رپورٹ‘وجائنل پینیٹریشن’ اور زبردستی کیے جانے کی بات کہتی ہے۔

خصوصی رپورٹ: یوپی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ہاتھرس متاثرہ کی ایف ایس ایل رپورٹ کے مطابق ریپ نہیں ہوا ہے۔ حالانکہ دہلی لائے جانے سے پہلے متاثرہ کوعلی گڑھ کے جس اسپتال میں بھرتی کیا گیا تھا، وہاں کی ایم ایل سی  رپورٹ‘وجائنل پینیٹریشن’ اور زبردستی کیے جانے کی بات کہتی ہے۔

ہاتھرس پولیس

ہاتھرس پولیس

نئی دہلی: اتر پردیش پولیس نے کہا ہے کہ 29 ستمبر کومبینہ گینگ ریپ اور بے رحمی سے مارپیٹ کے بعد جان گنوانے والی ہاتھرس کی19سالہ  لڑکی کے ساتھ ریپ نہیں ہوا۔حالانکہ دہلی لائے جانے سے پہلے انہیں علی گڑھ کے جس اسپتال میں بھرتی کیا گیا تھا، وہاں کی میڈیکو لیگل ایگزامینیشن(ایم ایل سی) بتاتی ہے کہ ڈاکٹروں نے اس بات کو درج کیا تھا کہ ‘وجائنل پینیٹریشن’ ہوا تھا اور پریلمنری رپورٹ میں زبردستی کیے جانے کے اشارے بھی ملے تھے۔

وجائنل پینیٹریشن کا مطلب ہے کہ اندام نہانی/ شرمگاہ  میں کسی طرح کی باہری چیز کادخول۔دی  وائر کو موصولہ جانکاری کے مطابق ایم ایل سی رپورٹ بتاتی ہے کہ علی گڑھ کے جواہر لال نہرو میڈیکل کالج اور اسپتال (جے این ایم سی ایچ)کے ڈاکٹروں نے یہ جانکاری درج کی تھی کہ متاثرہ نے وجائنل پینیٹریشن کی بات کہی تھی۔

واضح  ہو کہ جنسی تشدد کے متاثرین کے میڈیکل ٹیسٹ کے لیے وزارت صحت کی جانب سے دیاگیا پروٹوکال کہتا ہے کہ جانچ کر رہے ڈاکٹر کو جنسی تشددکی نہ ہی تردیدکرنی چاہیے اور نہ ہی اس کی تصدیق کرنی چاہیے۔اسی کے مطابق جے این ایم سی ایچ کے ڈاکٹروں نے متاثرہ کے ساتھ ریپ ہونے کے بارے میں اپنی رائے نہ دیتے ہوئے کیس کو آگے کی جانچ کے لیے آگرہ، سرکار کی ایک فارینسک لیب میں بھیج دیا۔

جے این ایم سی ایچ کے میڈیکل اگزامنر اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فیض احمد نے رپورٹ میں لکھا، ‘مقامی جانچ کی بنیاد پر مجھے لگتا ہے کہ زبردستی کیے جانے کی علامت ہیں۔ حالانکہ ایف ایس ایل رپورٹس زیر التوا  ہونےکی وجہ سے پینیٹریٹو انٹرکورس کے بارے میں کچھ کہہ پانا مشکل ہے۔’

واضح ہو کہ 54صفحات کی جے این ایم سی ایچ کی ایم ایل سی رپورٹ دی  وائر کے پاس ہے، جس میں اس 19سالہ لڑکی کے ساتھ ہوئے جرم  سے متعلق جانکاریاں ہیں، جو ‘انہدام نہانی میں عضوتناسل کے دخول’یعنی پینیٹریشن اور ‘دوپٹے سے گلا دبائے جانے جیسی بات کہتی ہے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ متاثرہ، جنہیں14ستمبر کو اسپتال میں بھرتی کیا گیا تھا، انہوں نے 22 ستمبر کو جنسی ہراسانی کی بات ڈاکٹروں کو بتائی تھی۔ اسی دن اسپتال نے معاملے کو آگرہ کی لیب میں بھیج دیا۔

ایم ایل سی میں کہا گیا ہے، ‘جانکاری دینے والوں کے مطابق متاثرہ نے بتایا کہ 14 ستمبر 2020 کو صبح نو بجے جب وہ کھیتوں میں کچھ کام رہی تھیں، تب ان کے گاؤں بول گڑھی کے چار پہچان کے لوگوں نے ان کے ساتھ جنسی تشدد کیا، اس معاملہ کے دوران ان کے بےہوش ہو جانے کی بات بھی سامنے آئی ہے۔’

یوپی پولیس کی جانب سےریپ نہ ہونے کا دعویٰ اس کے بعد آئی ایف ایس ایل رپورٹ کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے، جس کے لیے اسپتال سے متاثرہ کا سیمپل 25 ستمبر کو لیا گیا تھا۔ 25 ستمبر یعنی متاثرہ کو اسپتال میں آنے اور ان کی  پہلی بار میڈیکل جانچ کے 11 دن بعد۔

ایم ایل سی رپورٹ میں دی ہوئی اہم  جانکاریاں۔

ایم ایل سی رپورٹ میں دی ہوئی اہم  جانکاریاں۔

گزشتہ ہفتے یوپی پولیس کے اے ڈی جی(لاء اینڈ آرڈر)پرشانت کمار نے کہا کہ ریپ کے امکانات نہیں ہیں کیونکہ ایف ایس ایل کے لیے جو سیمپل لیا گیا تھا، اس میں اسپرم نہیں ملے ہیں اور معاملے کو ‘توڑمروڑکر پیش’ کیا جا رہا ہے۔

جمعہ کو دی  وائر سے بات کرتے ہوئے کمار نے بتایا کہ انہوں نے جب یہ دعویٰ کیا تھا، تب انہیں اسپتال کے ایم ایل سی رپورٹ کے بارے میں جانکاری تھی۔

فارینسک جانچ میں ہوئی تاخیر

ایم ایل سی رپورٹ کی شروعات میں بتایا گیا ہے کہ اسپتال میں متاثرہ کا پہلا ٹیسٹ14 ستمبر کو شام چار بج کر دس منٹ پر کیا گیا تھا، جہاں ان کی‘موجودہ حالت’کو ‘گلا گھونٹے جانا’بتایا ہے اور حملہ آوروں کے نامعلوم  ہونے کی بات کہی ہے۔

اس بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے کہ وہ ویڈیو ریکارڈنگ میں ان سے ریپ کیے جانے کی بات اور حملہ آوروں کا نام سب بتا چکی تھیں، ایسے میں شروعاتی ایم ایل سی میں اس بات کا ذکر نہ ہونا ان پولیس اہلکاروں اور اسپتال کے لوگوں کو شکوک کے دائرے میں لاتا ہے، جو شدید طورپرزخمی ایک خاتون  کو اسپتال لائے اور جنہوں نے ان کی جانچ کی۔

غور کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ بی جے پی رہنماؤں کی جانب سےریپ کی تردیدکے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کیے جا رہے ویڈیو میں وہ صاف طور پر ‘زبردستی’لفظ کا استعمال کر رہی ہیں، جس کا استعمال عام طور پر ریپ کے لیے کیا جاتا ہے، ساتھ ہی کچھ حملہ آوروں کے نام بھی بتا رہی ہیں۔

علی گڑھ کے اسپتال میں لائے جانے سے پہلے یہ ویڈیونامعلوم لوگوں کے ذریعےچندپا تھانے میں بنائے گئے ہیں۔

جے این ایم سی ایچ کی ایم ایل سی رپورٹ میں دو صفحات  میں اسپتال کے نیورو سرجری شعبہ کے ہیڈ نے 22 ستمبر 2020 کو سفارش کی ہے کہ ہاتھرس کی متاثرہ کا ‘ڈائنگ ڈکلیریشن’یعنی موت سے پہلے بیان لینے کے لیے مجسٹریٹ کو بلایا جانا چاہیے۔

یہ لڑکی کے ساتھ ہوئے مبینہ جنسی تشدد کے آٹھ دن بعد کی وہی تاریخ ہے، جب اسپتال کے مطابق انہیں اس واقعہ کے بارے میں پتہ چلا اور انہوں نے اس بارے میں فارینسک ٹیسٹ کیا۔ایم ایل سی رپورٹ میں اسپتال کے نیورو سرجری شعبہ کے ہیڈ ڈاکٹر ایم ایف ہڈا کا ایک نوٹ کہتا ہے کہ ‘مریض کی حالت نازک ہے، اس لیے مجسٹریٹ ڈائنگ ڈکلیریشن کا انتظام کیا جانا چاہیے۔’

اس کے بعد اسی دن اسپتال میں مجسٹریٹ نے متاثرہ کا بیان ریکارڈ کیا، جہاں انہوں نے ریپ کی بات کہی۔

اتفاق سے اسی دن اسپتال نے جنسی تشدد کی جانچ کے لیے فارینسک ٹیسٹ کیا اور دعویٰ کیا کہ ‘مریض نے اسپتال میں بھرتی ہوتے وقت کسی طرح کے جنسی تشدد کی بات نہیں کہی تھی۔ اس کے بارے میں انہوں نے پہلی بار 22 ستمبر کو بتایا۔’

ایم ایل سی رپورٹ میں اسپتال کے نیورو سرجری شعبہ  کے ہیڈکے ذریعے22 ستمبر کو مریض کی نازک  حالت کودیکھتے ہوئے موت سے پہلے مجسٹریٹ بیان لینے کی بات کہی گئی تھی۔

ایم ایل سی رپورٹ میں اسپتال کے نیورو سرجری شعبہ  کے ہیڈکے ذریعے22 ستمبر کو مریض کی نازک  حالت کودیکھتے ہوئے موت سے پہلے مجسٹریٹ بیان لینے کی بات کہی گئی تھی۔

اور کیا ہے ایم ایل سی رپورٹ میں

رپورٹ کے سیکشن 16میں ڈاکٹروں نے درج کیا ہے کہ جنسی تشدد کے دوران متاثرہ کی اندام نہانی میں عضوتناسل داخل(پینس پینیٹریشن)کیا گیا تھا۔ اس کے اگلے کالم میں ڈاکٹروں نے لکھا ہے کہ یہ ‘کمپلیٹ پینیٹریشن’ تھا یعنی پوری طرح عضوتناسل اندام نہانی میں تھا۔

اس کے آگے کے کئی سیکشن میں سی مین(اسپرم /منی)پھیلنے، کیا حملہ آوروں کے ذریعے کنڈوم استعمال کیا گیا تھا، کنڈوم کی کیفیت جیسے سوال ہیں جن کے آگے ڈی این کے(DNK) یعنی ڈو ناٹ نو (نہیں جانتے)لکھا ہے۔

ایک جگہ سوال ہے کہ کیا حملہ آوروں نے کسی ہتھیار کا استعمال کیا تھا، جس کے جواب میں‘نہیں’ کہا گیا ہے، لیکن ساتھ میں بتایا گیا ہے کہ متاثرہ کا منھ دبایا گیا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ متاثرہ کو واقعہ کے دوران قتل کرنےکی دھمکی بھی دی گئی تھی۔

اس رپورٹ میں ٹھاکر کمیونٹی  سے آنے والے ان چار ملزمین کے نام بھی ہیں، جو اسپتال کو متاثرہ کے اہل خانہ نے بتائے تھے۔

یوپی پولیس کے بیان

علی گڑھ کے اسپتال کے ریکارڈ بتاتے ہیں کہ کچھ رہنماؤں، صحافیوں اور پولیس کے ذریعےیوگی سرکار کے جرم  کی نوعیت کوکم کرنے کے دعوے درست ہیں۔رپورٹس بتاتی ہیں کہ جبراً کیے گئے آخری رسومات کے بعد ہاتھرس میں انتظامیہ کے ذریعےمتاثرہ فیملی کو دھمکانے اور میڈیا اور رہنماؤں سے نہ ملنے دینے کے الزا م  لگائے گئے ہیں۔

اےڈی جی کمار کے ریپ کی بات کی تردیدکی دوبنیادیں  ہیں۔ پہلا وہ ایف ایس ایل رپورٹ جو کہتی ہے کہ ‘وجائنل سویب کے سیمپل میں کوئی ا سپرم یا اووانہیں ملا ہے۔دوسرا، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موت کی وجہ  گردن پر آئی چوٹ کے باعث ہوا ٹراما ہے۔

حالانکہ علی گڑھ کے اسپتال کی رپورٹ کے ریپ کے امکانات  کی طرف اشارہ کرنے کے باوجود یوپی پولیس ریپ نہ ہونے کی بات کیوں کر رہی ہے، یہ صاف نہیں ہے۔

دی  وائر سے بات کرتے ہوئے جے این ایم سی ایچ کے ایک افسر نے بتایا،‘یہ(ایم ایل سی)رپورٹ وہ فائنل رپورٹ ہے جو ہم نے متاثرہ کی جانچ کے بعد تیار کی تھی۔ یہی دستاویز عدالت میں پیش کیا جائےگا۔’ایم ایل سی رپورٹ کی اسپتال کے سی ایم او ڈاکٹرعبیدامتیازالحق نے جانچ کی  ہے اور اس کواٹیسٹ کیا ہے۔

رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے ہاتھرس کے ایس پی وکرانت ویر نے پورا سچ نہیں بتایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ جے این ایم سی ایچ رپورٹ کہتی ہے کہ متاثرہ کو چوٹیں آئی ہیں لیکن جنسی تشدد کی تصدیق  نہیں ہوئی ہے۔ ڈاکٹروں کو فارینسک رپورٹ کا انتظار ہے اور انہوں نے ریپ کی تصدیق  نہیں کی ہے۔

جنسی تشددکے متاثرین کےمیڈیکو لیگل کیئر کے لیے دی گئی وزارت صحت  کی گائیڈلائن  کہتی ہےکہ ٹیسٹ  کر رہے ڈاکٹر کو عدالت میں یہ صاف کرنا چاہیے کہ کیانارمل جانچ کے نتیجےجنسی تشدد کی تصدیق یا تردید کرتے ہیں۔ انہیں یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ‘ریپ’ ہونے کے بارے کوئی میڈیکل رائے نہ دی جائے کیونکہ‘ریپ ایک قانونی لفظ ہے۔’

ایف ایس ایل میں ا سپرم کا نہ ملنا ریپ کی تردید نہیں

ایف ایس ایل رپورٹ کا سیمپل25 ستمبر یعنی مبینہ ریپ کے معاملےکے11دن بعد لیا گیا تھا۔ جے این ایم سی ایچ کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایسے میں یہ رپورٹ بہت قابل اعتماد نہیں ہے۔

اسپتال کے ایک جونیئر ریزیڈنٹ ڈاکٹر حمزہ  ملک بتاتے ہیں،‘اسپرم کا حیاتیاتی عرصہ2-3 دن کا ہوتا ہے، ایسے میں اس کے ملنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔ اگر سیمپل72 گھنٹے کے اندر بھی لیا جائے، وہ بھی تب، جب متاثرہ ٹوائلٹ وغیرہ کے لیے نہ گئی ہوں، نہائی نہ ہوں… تب یہ بات مانی جا سکتی ہے۔’

وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ریپ ہونے کی تصدیق کیے جانے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ انزال یعنی منی آیا ہی ہو۔اسی اسپتال کے فارینسک شعبہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اسرار الحق بھی اسی بات کا اعادہ کرتے ہیں، ‘اسپرم کاحیاتیاتی دائرہ تین دن ہی ہوتا ہے، تو یہ ناممکن ہی ہے کہ ایف ایس ایل رپورٹ میں یہ پایا جاتا۔’

ان کے مطابق ریپ کی جانچ کرنے کے لیےتمام سویب لیے جانے چاہیے۔ حالانکہ اس معاملے میں سیمپل 22 ستمبر کو لیا گیا، جو ان کے اعتبار اورمعیارپر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔

سیمپل لینے میں ہوئی تاخیرکے علاوہ ایک اور اہم پہلو ہے۔ ایم ایل سی میں لکھا ہے کہ لڑکی جب اسپتال پہنچی، تب تک انہوں نے خود کو پانی سے دھو لیا تھا، کپڑے بدل لیے تھے۔ انہوں نے بھرتی ہونے کے وقت دھلے، صاف کپڑے پہنے ہوئے تھے اور انڈرگارمنٹس بھی بدلے ہوئے تھے۔

حالانکہ قانون کے جان کار کہتے ہیں کہ پولیس کا بیان کہ ریپ کی تصدیق کے لیےاسپرم ہونا چاہیے موجودہ قانون کے برعکس ہے، جو بنارضامندی کے تھوڑے پینیٹریشن کو بھی ریپ کے خانے میں رکھتا ہے۔جہاں تک یوپی پولیس کی جانب سےمتاثرہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا حوالہ دینے کی بات ہے، تو بتا دیں کہ یہ دہلی کے صفدرجنگ اسپتال میں بنی ہے، جہاں متاثرہ کوواقعہ کے دو ہفتے بعد 28 ستمبر کو بھرتی کروایا گیا۔

اس رپورٹ میں ریپ ہونے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ حالانکہ اس میں یہ ضرور کہا گیا ہے کہ متاثرہ کے ہائمن (اندان نہانی  پر بنی ایک جھلی)پر پرانے اور ٹھیک ہو چکے چوٹوں کے کئی نشان ہیں۔ بچہ دانی  میں خون کے تھکے ہیں اور مقعدپر بھی پرانی ٹھیک ہو گئی چوٹوں کے نشان ہیں۔

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی اندام نہانی میں خون تھا، جس کو حیض  کا خون بتایا گیا ہے۔ متاثرہ کی ماں کی جانب سےشروعات میں الزام  لگایا گیا تھا کہ ریپ ہونے کی وجہ سے بلیڈنگ ہوئی تھی۔رپورٹ کے مطابق متاثرہ کی ریڑھ میں آئی چوٹ انہیں لقوہ ہونے اور آخرکار موت کی وجہ بنی۔

کیا کہتے ہیں قانون کے جان کار

جنسی تشددکےمعاملوں کو دیکھ چکے وکیل کہتے ہیں کہ متاثرہ کا بیان کہ ان کے ساتھ جنسی تشدد ہوا، کسی بھی لیب کی جانچ، جو ممکنہ طور پر غلط سیمپل سے کئے گئے ہیں، سے زیادہ اہم  ہے۔سینئر وکیل ریبیکا جان کہتی ہیں کہ یہ طے کرنے کے لیے کہ ریپ ہوا ہے، ایف ایس ایل رپورٹ کی کوئی قانونی ضرورت نہیں ہے، اس لیے یہ اہم نہیں  ہے۔

وہ کہتی ہیں،‘اس معاملے کےحقائق اور حالات  کو دیکھتے ہوئے موٹے طور پر تو ایف ایس ایل رپورٹ بے معنی ہے۔ اسپتال میں معاملے کے آٹھ دن بعد وجائنل سویب لیا گیا جب وہ پیشاب کے لیے جا چکی تھیں، اندام نہانی دھو چکی تھیں ایسے میں سی مین پائے جانے کا سوال ہی کہاں اٹھتا ہے؟ یہ ایک بے معنی  کام تھا، جو کیا گیا۔’

وہ کہتی ہیں کہ یوپی پولیس کے دعوے کے برعکس  ایف ایس ایل رپورٹ ریپ کے امکانات کی تردید کے لیے استعمال نہیں کی جا سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں،‘آپ ایف ایس ایل رپورٹ کی بنیاد پر ریپ کی تردید نہیں کرسکتے، لیکن اگر ایف ایس ایل میں کچھ ملتا ہے تو ریپ کی تصدیق  کی جا سکتی ہے۔’

انہوں نے آگے کہا کہ ایم ایل سی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زبردستی ہوئی ہے، یہ جنسی تشدد کے بارے میں اشارہ کرتا ہے۔انہوں نے کہا، ‘پولیس کی جانب  سے بس یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ریپ نہیں ہوا۔ جبکہ کوشش  اس کے الٹ ہونی  چاہیے۔ سپریم کورٹ میں اس بارے میں کبھی کوئی شک نہیں رہا کہ متاثرہ کا بیان ہی اصل بات ہے۔ آپ کو یہی امتحان پاس کرنا ہوتا ہے۔’

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)