اتر پردیش کےوزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے حال ہی میں کشی نگر میں کہا تھا کہ سال 2017 سے پہلے صرف ‘ابا جان’ کہنے والوں کو ہی راشن ملتا تھا۔اعداد وشماربتاتے ہیں کہ ایسا کسی بھی طرح سے ممکن نہیں ہے۔
یوگی آدتیہ ناتھ۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/@CMO UP)
نئی دہلی: اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ میں حال ہی میں ایک متنازعہ اورفرقہ وارانہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سال 2017 سے پہلے صرف ‘ابا جان’ کہنے والوں کو ہی راشن ملتا تھا۔
گزشتہ اتوار کو آدتیہ ناتھ نے کشی نگر میں کہا تھا، ‘وزیر اعظم(نریندر)مودی کی قیادت میں اپیزمنٹ کی سیاست کی کوئی جگہ نہیں ہے۔2017 سے پہلے کیا سب راشن لے پاتے تھے؟ پہلے صرف ابا جان کہنے والے ہی راشن ہضم کر رہے تھے۔ کشی نگر کا راشن نیپال اور بنگلہ دیش جاتا تھا۔ آج اگر کوئی غریب لوگوں کے راشن کو ہتھیانے کی کوشش کرےگا، تو وہ یقینی طو رپر جیل چلا جائےگا۔’
یوگی آدتیہ ناتھ کے اس بیان کی جہاں ہر طرف نکتہ چینی ہو رہی ہے، وہیں دوسری طرف اس طرح کی بیان بازی حقائق کی کسوٹی پر کسی بھی طرح سے صحیح نہیں اترتی ہے۔
نیشنل فوڈ سکیورٹی ایکٹ کی ویب سائٹ کے مطابق، اتر پردیش میں اس وقت کل 3.59 کروڑ راشن کارڈ ہولڈر اور اس کے 14.86 کروڑ مستحقین ہیں۔ سال 2011 کی مردم شماری کے مطابق یوپی کی آبادی19.98 کروڑ تھی۔
یوگی آدتیہ ناتھ نے 19 مارچ 2017 کو صوبے کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا تھا۔ اس سے تقریباً ایک سال پہلے ایک مارچ 2016 کو اتر پردیش کے اس وقت کے
وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے صوبے میں نیشنل فوڈ سکیورٹی ایکٹ، 2013 کو متعارف کرایا تھا۔
اس کےتقریباً آٹھ مہینے بعد(اور آدتیہ ناتھ کے حلف لینے سے چار مہینے پہلے)
15 نومبر 2016 تک 14.01 کروڑ لوگوں کواس کا فائدہ ملنے لگا تھا۔ یعنی کہ اس کے سےبعد صرف 85 لاکھ (14.86 کروڑ 14.01 کروڑ= 85 لاکھ)اضافی مستحقین صوبے میں جوڑے جا سکے ہیں۔
سال2011 کی مردم شماری کے مطابق صوبے میں 15.90 کروڑ ہندو اور 3.84 کروڑ مسلمان ہیں۔ اس طرح یہ بالکل ناممکن ہے کہ سماجوادی پارٹی سرکار میں سارا راشن کارڈ مسلمانوں کو ہی دیا گیا ہو۔اعداد وشمار خود اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
دوسری جانب لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ آدتیہ ناتھ کے اقتدار میں بھوک اورمحرومی جاری ہے۔
ایک آزاد صحافی سرشٹی نے اپنی ایک رپورٹ کے ذریعے ٹوئٹر پر بتایا کہ کس طرح راشن نہ ملنے سے کئی لوگوں ہندو اور مسلم دونوں کی موت ہوئی یا پھر شدید طور پر بیمار ہوئے۔
آدتیہ ناتھ نے ایس پی اور بی ایس پی سرکاروں پر یہ بھی الزام لگایا کہ دونوں پارٹی اپنی اپنی مدت کار کے دوران لوگوں کو مناسب بجلی فراہمی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے کانگریس کو ‘دہشت گردی کا موجد’ اور سماجوادی پارٹی کو ‘بچھو’قرار دیا۔ انہوں نے کہا، ‘کانگریس ملک میں ہر طرح کی دہشت گردی کی موجد ہے۔ ملک کو زخم دینے والوں کو برداشت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بی جے پی تمام مذاہب کا احترم کرتی ہے۔’
انہوں نے کہا تھا، ‘کیا آپ کو لگتا ہے کہ رام بھکتوں پر گولیاں چلانے والوں نے رام مندر بنایا ہوتا؟ گولی چلانے اور دنگے کرانے والوں نے کشمیر سے دفعہ370 ہٹایا ہوتا؟ طالبان کی حمایت کرنے والوں نے تین طلاق کو ختم کر دیا ہوتا؟اس صوبے کے لوگوں کو کبھی بھی اس ذات پات اور کنبہ پروری کی ذہنیت قبول نہیں کرنا چاہیے۔ یاد رکھیں، بچھو چاہے جہاں بھی ہو، ڈنک مارےگا۔’
یوگی آدتیہ ناتھ کے ان بیانات کو آئندہ اسمبلی انتخاب کے مد نظر صوبے میں فرقہ واریت کو اور ہوا دینے اور پولرائزیشن کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ادھر آدتیہ ناتھ کی‘ابا جان’والے تبصرے کی سیاسی پارٹیوں نے شدید نکتہ چینی کی ہے اور اسے غیرپارلیامانی زبان قرار دیا ہے۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نےاتوار کو ایک ٹوئٹ میں کہا، ‘میرا ہمیشہ سے ماننا رہا ہے کہ بی جے پی کی منشا شدید فرقہ واریت اور نفرت کے علاوہ کسی دوسرے ایجنڈے پر انتخاب لڑنے کی نہیں ہے اور اس کا سارا زہر مسلمانوں کے لیے ہوتا ہے۔ یہاں ایک وزیر اعلیٰ ہیں جو دوبارہ یہ دعویٰ کرکے انتخاب جیتنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہندوؤں کے حصے کا پورا راشن کھا لیا۔’
سماجوادی پارٹی(ایس پی)کے قانون ساز کونسل کے رکن آشوتوش سنہا نے اپنے ردعمل میں کہا، ‘وزیر اعلیٰ کے طور پر انہیں(یوگی آدتیہ ناتھ)غیرپارلیامانی زبان کا استعمال زیب نہیں دیتا، اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کم پڑھے لکھے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ جو پڑھے لکھے ہیں، وہ مناسب اور قابل احترام زبان کا استعمال کرتے ہیں۔آئینی عہدے پر بیٹھےشخص کو ایسی زبان کے استعمال سے بچنا چاہیے۔ ایسی زبان کا استعمال جمہوریت کے لیے بھی افسوسناک ہے۔’
وہیں کانگریس نے
آدتیہ ناتھ کونشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ورونا مہاماری کے دوران جب گنگا میں لاشیں تیررہی تھیں ،تب یوگی کہیں نظر نہیں آئے، لیکن اب انتخاب نزدیک آتے ہی اپنے پرانے ڈھرے پر جاکر ‘ابا جان’کو یاد کرنے لگے ہیں۔
پارٹی ترجمان گورو ولبھ نے یوگی پر ‘چھوٹی ذہنیت’ رکھنے کا الزام لگایا اور کہا کہ لوگوں کو تقسیم کرنے کی یہ ترکیب نہیں چلنے والی ہے۔انہوں نے صحافیوں سے کہا، ‘جس وزیر اعلیٰ کو لکھنؤ اور کلکتہ کافرق پتہ نہ ہو، جس وزیر اعلیٰ کو ہندوستان اور امریکہ کافرق پتہ نہ ہو، اس وزیر اعلیٰ کی باتوں کو سنجیدگی سے لینا،سنجیدگی کی توہین ہے۔’
کانگریس کے ترجمان ولبھ نے بی جے پی کو نشانہ بناتے ہوئے طنزیہ لہجےمیں مزید کہا کہ ،‘ابا جان بھائی جان کرتے کرتے ہو گئے ستہ میں وراجمان، چناؤ نزدیک آتے ہی واپس سے شروع کر دیا، شمشان قبرستان۔ کورونا کے دوران آپ کے ناقص نظام نےلے لی لاکھوں لوگوں کی جان، اب آپ کو پوری طرح سے اتر پردیش گیا ہےپہچان۔’
انہوں نے سوال کیا،‘جب لوگوں کی لاشیں گنگا میا میں تیر رہی تھیں، تب یوگی کہاں تھے؟ اس وقت آپ کیا کر رہے تھے؟ جب اتر پردیش کے لوگ دہلی اور ممبئی سے پیدل آ رہے تھے، تب آپ چھپ کر کہاں بیٹھے تھے؟ اس وقت آپ کا کیا گورننس ماڈل تھا؟’
کانگریس رہنما نے دعویٰ کیا کہ اسمبلی نزدیک آنے پر‘ابا جان’کی یاد آ گئی تاکہ پولرائزیشن ہو، لیکن اس بار یہ ترکیب نہیں چلنے والی ہے۔واضح ہو کہ یوگی نے اتوار کو کشی نگر میں ایک اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے ‘ابا جان’والاتبصرہ کیا تھا۔
ولبھ نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعلیٰ کو پتہ ہونا چاہیے کہ انہوں نے کہا،‘آزادی کے بعد ملک کے پہلے دہشت گرد ناتھورام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا۔ اس کے بعد ہم نے اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، سردار بے انت سنگھ، ودیاچرن شکل، مہیش کرما، نند کمار پٹیل اور کئی دوسرےرہنماؤں اور کارکنوں کو دہشت گردی اورانتہا پسندی کے خلاف لڑائی میں کھویا۔ لیکن وہ لوگ اس قربانی کو نہیں سمجھ سکتے جن کےآباواجدادانگریزوں کی مخبری کرتے تھے۔’
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)