نفرت بنام امن: دہلی فسادات کے متعلق دو وہاٹس ایپ گروپ کی کہانی

02:07 PM Oct 01, 2020 | عصمت آرا

دہلی فسادات  معاملے میں سامنے آئے دو وہاٹس ایپ گروپ میں سے ایک‘ہندو کٹر ایکتا گروپ’ہے، جہاں‘ملوں کو مارنے’کے دعوے کیے گئے ہیں۔ دوسری جانب دہلی پروٹیسٹ سپورٹ گروپ میں سی اےاےمظاہرہ،تشدد نہ کرنے اورآئین میں بھروسہ رکھنے کی باتیں ہوئی ہیں۔ دہلی پولیس نے دوسرے گروپ کے کئی ممبروں  کو فسادات کی  سازش میں ملوث  بتایا ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: دہلی پولیس نے حال ہی میں شمال-مشرقی دہلی فسادات  کو لےکر ایف آئی آر نمبر 59/2020 کے تحت متنازعہ شہریت ترمیم قانون (سی اے اے)کے خلاف مظاہرہ کرنے والے 15 لوگوں کے خلاف چارج شیٹ دائر کیا ہے۔یہ دستاویز17000سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں قتل،قتل کی کوشش، فساد،یو اے پی اے سمیت25دفعات میں الزام لگائے گئے ہیں۔

قومی راجدھانی دہلی کے مختلف حصوں میں سی اے اے کے خلاف ہوئے مظاہروں کوفسادات کی‘بڑی سازش کا حصہ’بتاتے ہوئے پولیس نے تین اور گروپ کوتشدد کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا ہے، جس میں مسلم اسٹوڈنٹس آف جے این یو(ایم ایس جے)-جس کے ممبر شرجیل امام تھے، جامعہ کوآرڈنیشن کمیٹی(جےسی سی)- جس کی قیادت صفورہ  زرگر اور میران حیدر نے کی تھی ہیں۔

تیسرا گروپ دہلی پروٹیسٹ سپورٹ گروپ (ڈی پی ایس جی)ہے جس کے ممبروں  میں کئی نامور کارکن ہیں۔ ان میں فلمساز راہل رائے اور صبا دیوان،سیاسی کارکارکن کوتا کرشنن، یوگیندر یادو، عینی راجہ، سماجی کارکن ہرش مندر، اپوروانند، انجلی بھاردواج اور این ڈی جےپرکاش، ٹریڈ یونینسٹ گوتم مودی، یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ کےممبرندیم خان اورخالدسیفی،پنجرہ توڑ کی ممبرنتاشا نروال اورسابق جے این یو اسٹوڈنٹ عمر خالد اور بنجیوتسنا لاہری شامل ہیں۔

اس سے پہلے جون مہینے میں ہندو کٹر ایکتا گروپ کو لےکر چارج شیٹ فائل کی گئی تھی، جس کے ممبروں  پر الزام ہے کہ انہوں نے اس کے ذریعے مسلمانوں کو مارنے کی پلاننگ کی تھی۔اس میں کل 11ملزم ہیں، جس میں سے نو لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور ان پر قتل، فساد اور مجرمانہ سازش کا الزام لگایا گیا ہے۔

دی  وائر نے ڈی پی ایس جی وہاٹس ایپ گروپ کے 2306 پیج کے چیٹ کی کاپی حاصل کی ہے، جس میں 28 دسمبر 2019 سے ایک مارچ 2020 کے بیچ بھیجے گئے پیغامات کی تفصیلات ہیں۔ہندو کٹر ایکتا گروپ کے برعکس  ڈی پی ایس جی کے چیٹ میں متنازعہ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے، عدم تشددسے کام لینے اور ہندوستانی آئین میں یقین رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔

اس میں کہیں پر بھی تشدد بھڑ کانے کی بات نہیں دکھتی ہے، باوجود اس سچائی  کے اس گروپ  کے ممبروں  کویو اے پی اے جیسے سخت قانون کے تحت بھی گرفتار کیا گیا ہے۔دہلی پولیس کی چارج شیٹ میں ڈی پی ایس جی گروپ کو تشدد کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے، اس کے ممبروں  کو ‘نظریاتی طور پر راہ سے بھٹکا ہوا’بتایا گیا ہے۔

وہیں دو دیگر گروپ ایم ایس جے اور جے سی سی کے ممبروں کو‘نوآموزطلبا کارکن’قرار دیا گیا ہے، حالانکہ اس میں سے کچھ کو پولیس کی‘کانسپریسی تھیوری’ میں شامل بھی بتایا گیا ہے۔

جہاں ایک طرف کٹر ہندو ایکتا گروپ میں‘تمہارے بھائی نے ابھی نو بجے کے قریب بھاگیرتھی وہار میں دو ملوں کو مارا ہے’اور ‘گنگا وہار، گوکل پوری، جھوری پور، ان سب جگہ گھوما ہوں اور 23 ملوں کے سر پھاڑے ہیں’، جیسے بھڑکاؤ اوراشتعال انگیز پیغامات پھیلائے جا رہے تھے، وہیں دوسری طرف ڈی پی ایس جی گروپ میں امن وامان کی بات کی جا رہی تھی۔

فسادات سےتقریباً ایک مہینے پہلے 26 جنوری کو یوم جمہوریہ کے موقع پر ڈی پی اےجی گروپ کے ممبر قومی ترنگا پھہرانے، لوگوں کو سی اے اے کے بارے میں بیدار کرنے اور ہندوستانی آئین  کے تحفظ کی بات کر رہے تھے۔یوم جمہوریہ کے موقع پر ایک پیغام  میں کہا گیا کہ اگر آپ سی اے اے کے ذریعےآئینی قدروں  کے کمزور پڑنے سے فکرمند ہیں اوراگرآپ آئین کی سالمیت  کے لیے اپنی وابستگی درج کرانا چاہتے ہیں، تو اپنے ساتھی شہریوں  کے ساتھ جڑیں۔

اس گروپ میں انڈین سوشل انسٹی ٹیوٹ میں ممبروں  کے ساتھ ہوئی ایک میٹنگ کو لےکر چرچہ کی گئی ہے، جس میں سی اے اے کے خلاف مظاہروں  کو لےکر طلبہ تنظیموں کا شکریہ  ادا کیا گیا ہے۔فلمساز صبا دیوان کی جانب سے بھیجے گئے ایک پیغام  میں واضح طور پر کہا گیا ہے،‘احتجاجی مظاہرہ کو پرامن بنائے رکھنے کے لیے ہرممکن کوشش کی جانی چاہیے۔’

اس کے علاوہ اس میں مظاہرہ کو لےکر سرکار کے ممکنہ  جوابی حملے جیسے کہ ہندو مسلم کو لڑانا،مظاہرہ کو اربن نکسل بتانا اور فورس کے ذریعے احتجاج  پرجبر وغیرہ  کی بات کی گئی ہے۔ڈی پی  ایس جی ممبروں  کی پہلی میٹنگ 26 دسمبر 2019 کو ہوئی تھی، جس کے بعد ایک وہاٹس ایپ گروپ بنا اور اس کے ایڈمن راہل رائے اور صبا دیوان بنائے گئے۔

اگلی میٹنگ دو جنوری 2020، اس کے بعد 11 جنوری اور پھر 22 جنوری کو بیٹھک ہوئی۔ ایک میٹنگ تین فروری کو بھی ہوئی تھی۔

ان اجلاس میں بنیادی طور پر سی اے اے/این پی آر/این آرسی کو فوراً واپس لینے کی مانگ کی گئی۔ اس کے علاوہ اس میں سی اے اے/این آرسی پر تخلیقی مواد بنانے، غیر بی جے پی مقتدرہ ریاستوں کے رہنماؤں سے ملاقات کرنے، این پی آر پر فیکٹ شیٹ بنانے، نیوز رپورٹ مہیا کرانے وغیرہ کو لےکر ایکشن پلان بنایا گیا۔

چکہ جام کی سازش؟

دہلی پولیس لگاتار یہ دعویٰ کرتی آ رہی ہے کہ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والے لوگوں نے جعفرآباد میں‘چکہ جام’ کرنے کی سازش کی تھی تاکہ اس سے تشددبھڑکے، حالانکہ وہاٹس ایپ پیغام کے مطابق یہ دعوے حقیقت پر کھرے نہیں اترتے ہیں۔ایک بات یہاں صاف ہے کہ ڈی پی ایس جی احتجاجی مظاہروں  کاانعقاد نہیں کر رہا تھا، کم سے کم جعفرآباد میں تو بالکل بھی نہیں۔پیغامات بتاتے ہیں کہ گروپ ان واقعات پرردعمل دے رہا تھا، جو آس پاس رونما ہورہے تھے۔

پیغام  سے پتہ چلتا ہے کہ گروپ کے کئی ممبروں نے چکہ جام کی مخالفت کی، ایک نے کسی دوسرے ممبر پر اس بات کو حمایت  دینے کا الزام بھی لگایا، لیکن کسی کا بھی کوئی میسیج یہ نہیں دکھاتا کہ چکہ جام کی حمایت کی گئی  تھی۔

لوگوں سے سڑک کے دونوں طرف اکٹھا ہونے کی ایک اپیل پر اس کے ایک ممبر نے کہا، ‘برائے مہربانی  دھیان رکھیں یہ قدم اپنے آپ میں ہمیں ہرانے والا ہے۔ آئی ٹی او پر ایک دوسرا شاہین باغ  بنانا ٹھیک نہیں ہوگا۔ چکہ جام مظاہرہ  کو آگے بڑھانے میں رول ادا نہیں کرےگا۔ یہ ایک لمبا چلنے والا احتجاج ہے، عوام کی رائے بنانے کی اسٹریٹجی ہونی چاہیے۔ ایسا کوئی قدم جس سے لوگ ناراض ہو سکتے ہوں، اس کی مخالفت  کی جانی  چاہیے۔’

ایک دوسرے ممبر نے پوچھا، ‘ہم اس ناکہ بندی کے ساتھ کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اگر یہ ناکہ بندی ایک دن بھی جاری رہتی ہے تو عوام کی رائے بہت تیزی سے بدل جائےگی۔’ایک دوسرے شخص نے کہا کہ ٹریفک کی آمد ورفت کے لیے روڈ کےایک سائیڈ کوکھلا رکھنا ضروری ہے۔

اس کے ساتھ ہی ایک مقامی مظاہرہ کرنے والے نے کہا کہ کسی بھی مظاہرہ  میں مقامی  لوگ روڈ بلاک کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ چونکہ وہ لوکل ہیں، تو انہیں ہی پریشانی  ہوگی۔ کچھ باہری لوگ ایسا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں۔

اس طرح یہاں صاف ہے کہ گروپ میں اس کو لےکر بحث ہو رہی تھی‘چکہ جام’صحیح  قدم ہے یا نہیں۔ لیکن دہلی پولیس کی اس بھاری بھرکم چارج شیٹ میں کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس گروپ کے لوگ چکہ جام میں شامل تھے۔

جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے نیچے سی اے اے مخالف مظاہرہ۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

وہاٹس ایپ چیٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کسی ایک قدم پر اتفاق ہونے کے بجائے بات چیت میں کافی کنفیوزن تھا۔ گروپ کے ممبروں  نے کئی بار اس پر چرچہ کی کہ کس طرح تشدد نہیں ہونے دینا ہے۔راہل رائے نے اپنے ایک پیغام  میں کہا، ‘انتظامیہ کے ذریعےممکنہ تشدد بھڑ کانے کے بارے میں لوگوں کو وارننگ دینے کے علاوہ ہمیں کچھ آئیڈیا پیش کرنا ہوگا کہ لوگ کیا کر سکتے ہیں۔ اگرپرامن  اورمؤثر راستہ لوگوں کے سامنے ہوگا، توتشدد کے امکان کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ’

حالانکہ دہلی پولیس نے امن وامان قائم  رکھنے کی ممبرو ں  کی کوشش کو بالکل درکنار کر دیا۔ پولیس نے ڈی پی ایس جی گروپ کو ‘مقامی سپروائزر’اور شمالی دہلی میں ہوئے مختلف مظاہروں  کے ‘مقامی رہنماؤں’ کا نام  دیا ہے۔چارج شیٹ میں کہا گیا،‘سازش کے دائرے کو بڑھانے کے لیے جے سی سی کو الرٹ کیا گیا کہ وہ چکہ جام اور تشدد کے ذریعے 24×7 مظاہرہ  کو اعلیٰ سطح  پر لے جائیں۔’

گروپ میں مقامی  لوگوں کے ذریعے روڈ بلاک کے قدم کو لےکر چرچہ کرنے کو دہلی پولیس نے ‘روڈ بلاک اور تشدد بھڑ کانے کا پلان’بتایا ہے، جبکہ وہاٹس ایپ چیٹ میں کہیں بھی چکہ جام کی پلاننگ ثابت نہیں ہوتی ہے، جو دہلی پولیس کے مطابق دنگا بھڑکنے کی وجہ تھا۔

پیغام  سے ایسامعلوم  ہوتا ہے کہ گروپ کے دو سب سے اہم  مقاصد مخالفت کر رہے مختلف گروپوں  کے بیچ عام اتفاق  بنانا اور میڈیا کے ذریعےعوام  کی رائے کو شکل دینا تھا۔معاملے میں‘کلیدی سازشی’بتائے گئے عمر خالد نے اس گروپ میں زیادہ سے زیادہ دو یا تین میسیج بھیجے تھے۔ ایک جنوری کو گروپ کے ممبروں  نے ‘آئین  کو بچانے’ کا حلف لیا تھا۔

ہندوتواحمایتی اور اینٹی سی اے اے مظاہرین کے وہاٹس ایپ گروپ کے لیے الگ الگ رویہ اپنانا دہلی دنگے کی جانچ کو لےکر دہلی پولیس کے متعصب  رویے کو دکھاتا ہے۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)