حکومت نے گزشتہ دو سالوں میں 7.4 لاکھ لوگوں کو بے دخل کیا، 1.53 لاکھ گھر توڑے: رپورٹ

ہاؤسنگ اینڈ لینڈ رائٹس نیٹ ورک (ایچ ایل آر این) کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2022 اور 2023 میں عدالتی احکامات کی وجہ سے تقریباً 3 لاکھ افراد کو بے دخل کیا گیا۔ 2022 میں عدالتی احکامات کی وجہ سے 33360 سے زیادہ لوگوں کو بے دخل کرنا پڑا، جبکہ 2023 میں یہ تعداد تقریباً 2.6 لاکھ تک پہنچ گئی۔

ہاؤسنگ اینڈ لینڈ رائٹس نیٹ ورک (ایچ ایل آر این) کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2022 اور 2023 میں عدالتی احکامات کی وجہ سے تقریباً 3 لاکھ افراد کو بے دخل کیا گیا۔ 2022 میں عدالتی احکامات کی وجہ سے 33360 سے زیادہ لوگوں کو بے دخل کرنا پڑا، جبکہ 2023 میں یہ تعداد تقریباً 2.6 لاکھ تک پہنچ گئی۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: Twitter/@leenadhankhar)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: Twitter/@leenadhankhar)

نئی دہلی: ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2022 اور 2023 میں مقامی، ریاستی اور مرکزی سطح پر ریاستی حکام نے دیہی اور شہری ہندوستان میں تقریباً 7.4 لاکھ لوگوں کو زبردستی ان کے گھروں سے بے دخل کیا۔

ایڈوکیسی گروپ ہاؤسنگ اینڈ لینڈ رائٹس نیٹ ورک (ایچ ایل آر این) کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق، اسی مدت کے دوران ریاستی ٹربیونلز نے ملک بھر میں 1.53 لاکھ سے زیادہ گھروں کو توڑا۔

چونکہ ڈیٹا صرف 23 ریاستوں اور چار مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں بنیادی اور ثانوی ڈیٹا کلیکشن کے توسط سے ایچ ایل آر این کے ذریعے درج کیے گئے معاملوں کی عکاسی کرتے ہیں، اس لیے اندازہ ہے کہ اس مدت میں  ہندوستان بھر میں بے دخل یا نقل مکانی کے شکار لوگوں کی اصل تعداد بہت زیادہ ہوسکتی ہے۔

ایچ ایل آر این نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ‘جبری بے دخلی کے تقریباً تمام درج معاملوں میں، ریاستی ٹربیونلز نے قومی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کے مطابق قائم کردہ ضابطے  پر عمل نہیں کیا’ اور درحقیقت انسانی حقوق کی متعدد اور سنگین خلاف ورزیوں کا باعث بنی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘انہدامی کارروائیاں، بہت سے معاملات میں پچھلے سالوں کے مقابلے میں زیادہ شدت اور بربریت کے ساتھ کی گئیں۔’

رپورٹ ‘ فورسڈ ایویکشنز ان انڈیا 2022 اینڈ 2023‘ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالتی احکامات اور ریاستی حکام کی جانب سے ان پر عملدرآمد کی وجہ سے جبری بے دخلی کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

ایچ ایل آر این اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے حوالے سےاقوام متحدہ کی کمیٹی کے جنرل کمنٹ 7 (1997) میں فراہم کی گئی ‘جبری بے دخلی’ کی تعریف کو استعمال کرتا ہے۔ اس کے مطابق، جبری بے دخلی ‘افراد، خاندانوں یا برادریوں کو ان کی مرضی کے خلاف، بغیر کسی قانونی یا دوسرے تحفظ یا قانون تک رسائی کے ان کے گھروں یا زمین سے مستقل یا عارضی طور پر نکال دینا ہے۔’

ایچ ایل آر این نے پایا کہ 2022 اور 2023 میں عدالتی احکامات کی وجہ سے تقریباً 3 لاکھ لوگوں کو بے دخل کیا گیا۔ عدالتی احکامات کے نتیجے میں 2022 میں 33360 سے زیادہ افراد کو بے دخل کیا گیا، جبکہ 2023 میں یہ تعداد تقریباً 2.6 لاکھ تک پہنچ گئی۔

رپورٹ کے مطابق، 2022 میں ملک کے دیہی اور شہری علاقوں میں انہدامی کارروائی کے تقریباً 178 واقعات ریکارڈ کیے گئے، جس کے نتیجے میں 46371 مکانات توڑے گئے اور 2.3 لاکھ افراد کو جبری بے دخل کیا گیا۔ 2023 میں، اعداد و شمار میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ایچ ایل آر این نے اس طرح  کے 146 کیسوں کا دستاویز تیار کیا ہے، جس کے نتیجے میں 107499 مکانات توڑے گئے اور کم از کم 5.15 لاکھ افراد کو جبری بے دخل کیا گیا۔

سال 2023 کی تعداد پچھلے سات سالوں میں ریکارڈ کی گئی سب سے زیادہ تعداد ہے۔

ایچ ایل آر این نے حساب لگایا ہے کہ 2023 میں روزانہ کم از کم 294 مکانات گرائے گئے اور ہر گھنٹے میں 58 افراد کو بے دخل کیا گیا، جبکہ 2022 میں روزانہ کم از کم 129 مکانات گرائے گئے اور ہر گھنٹے میں 25 افراد کو بے دخل کیا گیا۔ 2017 سے 2023 تک 16.8 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا اور تقریباً 1.7 کروڑ لوگ بے دخلی اور بے گھر ہونے کے اندیشے کے ساتھ رہ رہے ہیں۔

انہدام کی جن بڑی کارروائیوں نے لوگوں کے بڑے گروہوں کو متاثر کیا ان میں تغلق آباد (دہلی)، رام پیر نو ٹیکرو (احمد آباد) اور فیض آباد-نیا گھاٹ (ایودھیا) شامل ہیں۔ میٹرو سٹی ، چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں شہری اور دیہی غریبوں کو زبردستی بے دخل کیا گیا، جن میں گڑگاؤں، دہلی، احمد آباد، ایودھیا، سورت اور نوی ممبئی سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔

ایچ ایل آر این کے مطابق، پچھلے دو سالوں میں 59 فیصد یا اکثر بے دخل لوگوں کو ‘جھگی یا زمین کی صفائی’ یا ‘تجاوزات ہٹانے’ یا ‘شہر کی  تزئین و آرائش’ کی مہم کی آڑ میں بے دخل کیا گیا۔ 2023 میں 2.9 لاکھ سے زیادہ اور 2022 میں 1.43 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو اس طرح بے دخل کیا گیا۔

ایچ ایل آر این نے کہا، ‘جبری بے دخلی کئی وجوہات سے کی گئی ، جن میں بنیادی ڈھانچے اور سیڈو ‘ڈیولپمنٹ’ کے منصوبے، ‘اسمارٹ سٹی’ پروجیکٹ، ماحولیاتی پروجیکٹ، جنگلات کے تحفظ اور جنگلی حیات کے تحفظ، ‘ڈیزاسٹر مینجمنٹ’ کی کوشش اور دیگر وجوہات شامل ہیں۔ ‘

جبری بے دخلی کے زیادہ تر معاملات میں متاثرہ افراد اور کمیونٹی کو ان کی بے دخلی یا ان کے گھروں کو مسمار کرنے کی وجوہات سے آگاہ نہیں کیا جاتا ہے۔ تاہم، دستیاب اعداد و شمار کی بنیاد پر، رپورٹ پانچ وسیع زمروں کی نشاندہی کرتی ہے جن کے تحت جبری بے دخلی ہوئی۔

جھگی —جھونپڑی  ہٹانے کے بعد، سڑک کی توسیع، ہائی وے کی توسیع، پلوں کی تعمیر اور اسمارٹ سٹی پروجیکٹ سمیت انفراسٹرکچر اور براہ راست ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے 35 فیصد لوگ متاثر ہوئے۔ مزید 4.7 فیصد ماحولیاتی منصوبوں، جنگلات کے تحفظ اور جنگلی حیات کے تحفظ کی وجہ سے بے دخلی کا شکار ہوئے۔باقی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی کوششوں، سیاحتی منصوبوں اور حکومت کی طرف سے بنائے گئے کم آمدنی والے ہاؤسنگ یونٹس کو رہنے کے لیے ‘غیر محفوظ’ قرار دیے جانے کی وجہ سے ہوئے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لگتا ہے کہ بے دخلی کے بہت سے واقعات ‘تعزیتی اقدامات’ کے طور پر انجام دیے گئے، مثال کے طور پر کھرگون (مدھیہ پردیش)، الہ آباد اور سہارنپور (اتر پردیش)، نوح (ہریانہ) اور جہانگیر پوری (دہلی) میں۔

پچھلے دو سالوں میں قومی راجدھانی دہلی میں سب سے زیادہ بے دخلی کے واقعات ریکارڈ کیے گئے، صرف 2023 میں تقریباً 2.8 لاکھ لوگوں کو بے دخل کیا گیا۔

بے گھر اور بے دخل افراد کی بازآبادی یا بحالی  کا سوال اب بھی تشویش کا باعث ہے۔ ایچ ایل آر این کے مطابق، 2023 اور 2022 میں درج کیے گئے جبری بے دخلی کے کل 324 معاملوں میں سے باز آبادی پر جانکاری صرف 122 معاملوں میں دستیاب تھی۔ ان میں سے، ریاست نے صرف 25 متاثرہ جگہوں (کل معاملوں کا 20.5 فیصد) میں کسی طرح کی باز آبادی یا متبادل رہائش کی پیشکش کی؛ سات مقامات پر جزوی بحالی (1.6 فیصد) اور صرف سات مقامات (5.7 فیصد)پر مالی معاوضہ دیا گیا۔

ایچ ایل آر این نے کہا،’اس کا مطلب یہ ہے کہ 72 فیصد معاملات میں، جہاں معلومات دستیاب ہیں، حکومت متاثرہ افراد کو دوبارہ آباد کرنے یا ان کی بحالی میں ناکام رہی۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )