دہلی، مہاراشٹر، بہار اور تلنگانہ کی شہری جھگیوں میں گزشتہ سال فروری میں ‘سیو دی چلڈرن’ نامی غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق، کورونا کی وجہ سے 2020 میں لگائے گئے لاک ڈاؤن کے دوران 67 فیصد لڑکیاں آن لائن کلاسز میں شرکت نہیں کر سکیں۔اس سروے میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ 10 سے 18 سال کی عمر کے بیچ کی68 فیصد لڑکیوں کو ان ریاستوں میں صحت اور غذائیت کی سہولیات حاصل کرنے میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔
(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: دہلی، مہاراشٹر، بہار اور تلنگانہ میں شہری جھگیوں میں کیے گئے ایک سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کووڈ-19 وبائی امراض کی وجہ سے 2020 میں نافذ لاک ڈاؤن کے دوران 67 فیصد لڑکیاں آن لائن کلاسز میں شرکت نہیں کر سکیں۔
پچھلے سال فروری میں غیر سرکاری تنظیم ‘سیو دی چلڈرن’ کی طرف سے کیے گئے اس سروےمیں یہ بھی پتہ چلا کہ 10 سے 18 سال کی عمر کے بیچ کی 68 فیصد لڑکیوں کو ان ریاستوں میں صحت اور غذائیت کی سہولیات تک رسائی حاصل کرنےمیں چیلنجزکا سامنا کرنا پڑا۔
دہلی، مہاراشٹر، بہار اور تلنگانہ ملک کے چار جغرافیائی خطوں – مشرق، مغرب، شمال اور جنوب کی نمائندگی کرتے ہیں۔
ان ریاستوں کا انتخاب ایک جامع اسٹینڈرڈ کے ذریعے کیا گیا تھا، جن میں کورونا کے معاملے، بچوں کا جنسی تناسب، 18 سال کی عمر سے پہلے لڑکیوں کی شادی، پڑھائی درمیان میں چھوڑنے کی سالانہ اوسط اور 15 سے 24 سال کی عمر کی لڑکیوں اور خواتین کے لیے حفظان صحت کی سہولیات کا استعمال شامل ہے۔
ہر ریاست میں دو اضلاع یا شہروں کا انتخاب کیا گیا۔
‘ونگس 2022: ورلڈ آف انڈیازگرلز: اسپاٹ لائٹ آن ایڈولیسنٹ گرلز ایمڈ کووڈ 19’کے عنوان سے شائع اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020 کے لاک ڈاؤن کے دوران انفیکشن کے امکانات، اسکولوں اور صحت کے مراکز کا بندہونا، ہیلتھ ورکرز کی عدم دستیابی نے لڑکیوں کے لیے صحت اور غذائیت کی سہولیات تک رسائی کو مشکل بنا دیا تھا۔
اس میں کہا گیا کہ لاک ڈاؤن کے بعد 51 فیصد بچیوں کو صحت کی خدمات تک رسائی حاصل کرنے میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔
رپورٹ میں کہا گیا،چار ریاستوں میں لاک ڈاؤن کے دوران تین میں سے صرف ایک لڑکی آن لائن کلاسز میں شریک ہوئی۔ چار میں سے تین ماؤں (73 فیصد) نے اشارہ دیا کہ وبائی مرض نے ان کی بیٹی کی پڑھائی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ اسکولوں کے بند ہونے کی وجہ سے ہر پانچ میں سے دو لڑکیوں (42 فیصد) سے اسکول نے رابطہ نہیں کیا، جیسا کہ ماؤں نے دعویٰ کیا ہے۔
لاک ڈاؤن نے کھیل کود اور تخلیقی سرگرمیوں کو کم کر دیا، کیونکہ اسکول وہ جگہیں ہیں جہاں لڑکیاں پڑھائی کے علاوہ دیگر سرگرمیوں میں شامل ہوتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر دو میں سے ایک لڑکی نے کہا کہ انہیں اپنے بہن بھائیوں اور دوستوں کے ساتھ اسکول نہیں جانے کی کمی کھلی۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وبا کے دوران نوکریاں چلی جانے اور گھر کی آمدنی میں کمی کی وجہ سے چائلڈ میرج کا امکان بھی بڑھ گیا۔
اس میں کہا گیا ہے، ہر سات میں سے ایک ماں کو لگتا ہے کہ اس وبا نے مقررہ عمر کی حد سے پہلے لڑکیوں کی شادی کا جوکھم بڑھا دیا ہے۔
انڈیا ٹوڈے کے مطابق،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہلی میں سب سے زیادہ اثر لڑکیوں کی غذائیت پر پڑا ہے جس میں ماہواری کی صفائی اور تعلیمی تسلسل بھی شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق، پانچ میں سے چار خاندان (79 فیصد) غذائی قلت کا شکار تھے۔ تین میں سے دو ماؤں (63 فیصد) نے بتایا کہ ان کی بچیوں کو لاک ڈاؤن کی مدت کے دوران سینیٹری نیپکن حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
دس بچیوں میں سے نو (93 فیصد) نے بتایا کہ ان کے پاس صحت اور غذائیت کی خدمات تک رسائی نہیں تھی یا انہیں نہیں ملا۔
وبائی امراض کے دوران دو بچیوں میں سے ایک (45 فیصد) کے پاس جنسی اور تولیدی صحت کے حقوق (ایس آر ایچ آر) کے بارے میں جانکاری نہیں تھیں۔
اسکول بند ہونے سے پڑھائی کے تسلسل کو بڑا جھٹکا لگا۔
سیکھنے کی سہولیات کی بندہو نے سے320 ملین سے زیادہ بچوں کی زندگی متاثر ہوئی، جن میں سے اکثر پرائمری اور سیکنڈری میں(86 فیصد) نامزد تھے۔
سیو دی چلڈرن کے سربراہ سدرشن سوچی نے کہا، مسئلہ پریشانی کے تناسب میں ہے، حل چھوٹا ہے۔ ہم اس بات سے بے خبر ہیں کہ بچیوں کو کس قسم کے نفسیاتی سماجی صدمے سے گززنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ذمہ داری قبول کرنے اور مسائل کو حل کرنے کے لیےریاست کے اجتماعی شعور سے ہی اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے ۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)