پولیس حراست میں ہرروز پانچ موت، ہلاک ہو نے والوں میں بیشتر غریب، پسماندہ، دلت، قبائلی اور مسلمان: رپورٹ

02:17 PM Jun 30, 2020 | ڈی ڈبلیو اُردو

یہ تشویش ناک رپورٹ ایسے وقت آئی ہے جب جنوبی ریاست تمل ناڈو میں پولیس کی طرف سے مبینہ تشدد کے نتیجے میں ایک شخص اور اس کے بیٹے کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کا اظہار کیا جارہا ہے۔

Representational image. Credit: Sudhamshu Hebbar/ Flickr, CC BY-NC 2.0

نئی دہلی: پولیس تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے والی ایک تنظیم نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ہندوستان میں سن 2019 میں پولیس حراست کے دوران 1731 لوگوں کی موت ہوئی گویا پولیس کی تحویل میں ہر روز پانچ افراد ہلاک ہوگئے۔یہ تشویش ناک رپورٹ ایسے وقت آئی ہے جب جنوبی ریاست تمل ناڈو میں پولیس کی طرف سے مبینہ تشدد کے نتیجے میں ایک شخص اور اس کے بیٹے کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کا اظہار کیا جارہا ہے۔

ایک رضاکارتنظیم یونائٹیڈ این جی او کمپین اگینسٹ ٹارچر(یواین سی اے ٹی)نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پولیس تحویل کے دوران تشدد سے ہلاک ہونے والے لوگوں میں بیشتر غریب، پسماندہ، دلت، قبائلی اور مسلمان تھے۔رپورٹ کے مطابق 2019 میں مجموعی طور پر1731 افراد کی پولیس تحویل میں موت ہوگئی اس طرح ہر روز تقریباً پانچ افراد پولیس کی تحویل میں ہلاک ہوئے۔ ان میں 1606افراد کی عدالتی تحویل کے دوران اور 125 لوگوں کی پولیس حراست میں موت ہوئی۔

سن 2018 میں حراست کے دوران 1966افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں عدالتی تحویل میں 1819افراد اور پولیس کی حراست میں 147 افراد کی موت ہوگئی تھی۔ یو این سی اے ٹی کا تاہم کہنا ہے کہ حراست میں ہونے والی اموات کی اصل تعداداس سے کہیں زیادہ ہوگی اور ٹارچر کی حقیقی صورت حال اس سے کہیں زیادہ شدید ہوگی کیوں کہ بیشتر واقعات کا اندراج ہی نہیں ہوتا اور پولیس ان اموات کورفع دفع کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

یو این سی اے ٹی کے ڈائریکٹر پریتوش چکما نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا،پولیس کی تحویل میں جن 125لوگوں کی موت ہوئی ہے ان میں سے 75 افراد یعنی 60 فیصد کا تعلق پسماندہ اور غریب طبقات سے تھا 13 افراد کا تعلق دلت اور قبائلی فرقوں سے، 15 کا تعلق مسلمانوں سے تھا۔ چکما کا کہنا تھا کہ 125افراد میں سے 93 افراد یعنی 74.4 فیصد کی موت حراست کے دوران اذیت دینے کی وجہ سے ہوئی جبکہ 24 افراد یعنی 19.2 فیصد کی مشتبہ حالت میں موت ہوگئی جس کے بارے میں پولیس کا دعویٰ ہے کہ 16 لوگوں نے خودکشی کرلی، سات افراد بیماری کی وجہ سے اور ایک شخص زخمی ہونے کی وجہ سے چل بسا جبکہ پانچ لوگوں کی موت کا سبب معلوم نہیں ہوسکا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس اذیت دینے کے ایسے ایسے طریقے استعمال کرتی ہے جن کے بارے میں سن کر ہی انسان لرز جاتا ہے۔  پولیس لوگوں سے اقرار جرم کے لیے ناخن اکھاڑنے، جسم میں کیل ٹھونکنے، پوشیدہ اعضا پر ضرب لگانے، ان میں مرچ پاؤڈر ڈالنے، منہ میں پیشاب کرنے، الٹا لٹکا کر تلووں پر ڈنڈوں سے مارنے جیسے غیر انسانی طریقے اپناتی ہے۔ اس کے علاوہ بجلی کے جھٹکے دینا، پوشیدہ اعضا میں پٹرول ڈالنا، گرم سلاخوں سے جسم کو داغنا، برہنہ کرکے پیٹنا، مقعد میں سخت چیز ڈالنے جیسے طریقے بھی اپنائے جاتے ہیں۔ قریبی رشتہ دارو ں کی موجودگی میں مارنا پیٹنا اور بے عزت کرنا تو عام بات ہے۔

رپورٹ کے مطابق پولیس بیشتر کیسز میں اذیت دینے کے ثبوت تلف کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ موت ہوجانے پر ان کا پوسٹ مارٹم نہیں کراتی اور کسی طرح ان کی آخری رسومات ادا کرکے معاملے پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ رپورٹ میں ایسے کئی واقعات کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ پولیس اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے مضحکہ خیز دلائل بھی دیتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تمل ناڈو پولیس نے سیتا راسو نامی شخص کی موت کے بارے میں دعوی کیا کہ اس نے پولیس تحویل میں اپنے زیر جامہ سے پھانسی لگالی تھی۔ اسی طرح اترپردیش پولیس کا دعویٰ تھا کہ بھانو پرتا پ نامی قیدی نے تولیہ کے ذریعہ پھانسی لگا کر خودکشی کرلی تھی حالانکہ تفتیش کے دوران پتہ چلا کہ اس کا داہنا ہاتھ تو تین برس پہلے ہی ایک حادثے میں ضائع ہوچکا تھا اور وہ پھانسی نہیں لگا سکتا تھا۔

حراست کے دوران عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات عام ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ نشانہ دلت، قبائلی اور غریب عورتیں بنتی ہیں۔ نابالغ بچوں کو بھی اکثر غیر قانونی طور پر قید میں رکھا جاتا ہے او رانہیں اذیت دی جاتی ہے۔

چکما نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہندوستان نے ٹارچر کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن پر اب تک دستخط نہیں کیے ہیں اور قومی حقوق انسانی کمیشن کی سفارشات کے باوجود آج تک اس سلسلے میں قانون سازی نہیں کی ہے۔ حالانکہ ہندوستان 2008، 2012 اور 2017 میں تین مرتبہ اقو ام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو اس سلسلے میں یقین دہانی کراچکا ہے۔ دوسر ی طرف حکومت اس معاملے پر سماعت کے دوران  سپریم کورٹ کو بھی 2017 میں جھوٹی یقین دہانی کراچکی ہے۔

قومی انسانی حقوق کمیشن کے مطابق سن 2017 اور 2018 کے درمیان تین ہزار سے زائد افراد پولیس کی تحویل کے دوران ہلاک ہوئے۔ لیکن اس طرح کے کیسز میں ملزمان کو شاذ ونادر ہی سزائیں ملتی ہیں۔