بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم سی اے اے اوراین آرسی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے اور بولنے والوں کے ساتھ کھڑے ہیں ۔آئین کے سیکولر اقدار کو بنائے رکھنے کے لیے ہم ان کی اجتماعی مخالفت کو سلام کرتے ہیں۔
نئی دہلی: معروف اداکار نصیرالدین شاہ، فلم ڈائریکٹر میرا نائر، گلوکار ٹی ایم کرشنا، قلمکار امیتاو گھوش، مؤرخ رومیلا تھاپر سمیت 300 سے زیادہ ہستیوں نے شہریت قانون (سی اے اے)اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنےوالے طالبعلموں اور دوسروں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔انڈین کلچرل فورم میں 13 جنوری کوشائع ہوئے بیان میں ان ہستیوں نے کہا کہ سی اے اے اور این آر سی ہندوستان کے لئے ‘خطرہ ‘ہے۔بیان میں کہا گیا ہے، ‘ ہم سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے اور بولنے والوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آئین کی کثیرجہتی اور متنوع سماج کےوعدے کے ساتھ ہندوستانی آئین کے اصولوں کو برقرار رکھنے کے لئے ہم ان کی اجتماعی مخالفت کو سلام کرتے ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے، ہم اس بات سے واقف ہیں کہ ہم ہمیشہ اس وعدےپر کھرے نہیں اترے ہیں، اور ہم میں سے کئی لوگ اکثر ناانصافی کو لےکر خاموش رہتےہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم سب اپنے اصولوں کے لئے کھڑے ہوں۔بیان پر دستخط کرنے والوں میں انیتا دیسائی، کرن دیسائی، رتنا پاٹھک شاہ، جاوید جعفری، نندتا داس، للیت دوبے، آشیش نندی، سہیل ہاشمی اور شبنم ہاشمی کے نام شامل ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت کی پالیسیاں اور اقدامات سیکولراقدار کے خلاف ہیں۔ یہ پالیسیاں لوگوں کو عدم اتفاق کا موقع دیے بغیر اور کھلے بحث و مباحثے کے بغیر پارلیامنٹ میں عجلت میں پاس کرائی گئیں۔بیان کے مطابق، ہندوستان کی روح خطرے میں ہے۔ ہمارے لاکھوں ہندوستانیوں کی روزی اور شہریت خطرے میں ہے۔ این آر سی کے تحت، جو کوئی بھی اپناشجرہ (جو کئی کے پاس ہے بھی نہیں)ثابت کرنے میں ناکام رہےگا، اس کی شہریت جاسکتی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ این آر سی میں جس کو بھی ‘غیر قانونی ‘مانا جائےگا، اس میں مسلمانوں کو چھوڑکر سبھی کو سی اے اے کے تحت ہندوستان کی شہریت دے دی جائےگی۔ان شخصیات نے کہا کہ حکومت کے اعلانیہ مقصد کے برعکس، سی اے اے سے عياں نہیں ہوتا ہے کہ اس قانون کا مطلب صرف مظلوم اقلیتوں کو پناہ دینا ہے۔انہوں نے سری لنکا، چین اور میانمار جیسے پڑوسی ممالک کو سی اے اےسے باہر رکھنے پر سوال کیا۔
بیان میں کہا گیا ہے، کیا ایسا اس لئے ہے کہ ان ممالک میں حکمراں مسلمان نہیں ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ قانون کا ماننا ہے کہ صرف مسلم حکومتیں مذہبی استحصال کی مجرم ہو سکتی ہیں۔ اس شعبے میں سب سے زیادہ مظلوم اقلیتوں، میانمار کےروہنگیا یا چین کے اوئیگروں کو باہر کیوں رکھا گیا ہے؟ یہ قانون صرف مسلمانوں کو مجرم مانتا ہے، مسلمانوں کو مظلوم نہیں مانتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مقصد صاف ہے کہ مسلمانوں کا استقبال نہیں ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ نیا قانون نہ صرف اقتدار کی طرف سے مذہبی استحصال کو لےکر نہیں ہے، بلکہ آسام، شمال مشرق اور کشمیر میں ‘اصل باشندوں کی پہچان اور ذریعہ معاش ‘کے لئے بھی خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ وہ اس کو معاف نہیں کریںگے۔
بیان میں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسی ملک بھرکی یونیورسٹیوں کے طالب علموں پر پولیس کی کارروائی کی بھی تنقید کی گئی۔انہوں نے کہا، ‘ پولیس کی بربریت نے سینکڑوں لوگوں کو زخمی کردیا ہے، جس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کئی طالب علم شامل ہیں۔ مخالفت کرتے ہوئے کئی شہری مارے گئے ہیں۔ کئی اور لوگوں کو عارضی طورپرحراست میں رکھا گیا ہے۔ مخالفت کو روکنے کے لئے کئی ریاستوں میں دفعہ 144 لگائی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بہت ہو چکا اور وہ ہندوستان کے سیکولر اقدار کے لئے کھڑے ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے، ہم ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو مسلم مخالف اور تقسیم کرنےوالی پالیسیوں کی بہادری سے مخالفت کرتے ہیں۔ ہم ان لوگوں کےساتھ کھڑے ہیں جو جمہوریت کے لئے کھڑے ہیں۔ ہم سڑکوں پر اور تمام پلیٹ فارم پر آپ کے ساتھ رہیںگے۔ ہم متحد ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)