اس سال 10 اکتوبر سے 14 نومبر کے درمیان مرکزی حکومت کی دیہی روزگار اسکیم، منریگا کے ڈیٹا بیس سے تقریباً 27 لاکھ مزدوروں کے نام ہٹا دیے گئے، جو اسی مدت کے دوران شامل کیے گئے 10.5 لاکھ نئے ناموں سے کہیں زیادہ ہیں۔ ڈیٹا بیس سے نام ہٹانےکی اس ‘غیر معمولی’ شرح پر کارکنوں اور ماہرین تعلیم کی ایسوسی ایشن لب ٹیک نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس سال 10 اکتوبر سے 14 نومبر کے درمیان مرکزی حکومت کی دیہی روزگار اسکیم منریگا کے ڈیٹا بیس سے تقریباً 27 لاکھ مزدوروں کے نام ہٹا دیے گئے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ اس سال 10 اکتوبر سے 14 نومبر کے درمیان مرکزی حکومت کی دیہی روزگار اسکیم منریگا کے ڈیٹا بیس سے تقریباً 27 لاکھ مزدوروں کے نام ہٹا دیے گئے، جو اسی عرصے کے دوران شامل کیے گئے 10.5 لاکھ نئے ناموں سے کہیں زیادہ ہیں۔
نام ہٹانے میں یہ اضافہ مرکزی حکومت کی جانب سے تمام مزدوروں کے لیے ای-کے وائی سی(اپنے گاہک کو جانیں) نامی الکٹرانک عمل کو نافذ کرنے کی کوششوں کے موافق ہے، تاکہ نااہل استفادہ کنندگان کو ہٹایا جا سکے۔
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ(منریگا)ڈیٹا بیس سے نام ہٹانےکی اس ‘غیر معمولی’ شرح کے بارے میں کارکنوں اور ماہرین تعلیم کی ایک ایسوسی ایشن لب ٹیک نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ چھ مہینوں میں نام ہٹانے کی تعداد تقریباً 15 لاکھ تک پہنچ گئی۔ لیکن صرف ایک ماہ میں یہ تعداد بڑھ کر 27 لاکھ ہو گئی، جو پچھلے چھ مہینوں کی کل تعداد سے تقریباً دوگنی ہے۔
لب ٹیک کے تجزیے کے مطابق، اسکیم میں مالی سال 2025-26 کے پہلے چھ مہینوں میں 83.6 لاکھ مزدوروں کا اضافہ درج کیا گیا، جس میں 98.8 لاکھ ملازمین شامل ہوئے اور 15.2 لاکھ مزدورہٹا دیے گئے۔ تاہم، نومبر کے وسط تک یہ اضافہ کم ہو کر 66.5 لاکھ ہو گیا، جس سے ایک ہی مہینے میں 17 لاکھ مزدور مؤثر طریقے سے ختم ہو گئے۔
تجزیہ سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ان مستفید ہونے والوں میں سے 6 لاکھ فعال مزدورتھے، جن کی تعریف ایسے لوگوں کے طور پر کی گئی ہے جنہوں نے پچھلے تین سالوں میں کم از کم ایک دن کام کیا ہے۔
آندھرا پردیش میں سب سے زیادہ مزدور ہٹائے گئے
آندھرا پردیش ایک اعلی ای-کے وائی سی کی تکمیل کی شرح کے ساتھ مزدوروں کو ہٹانے میں سب سے آگے ہے، 78.4فیصد مزدوروں نے ای-کے وائی سی مکمل کر لیا ہے، 15.92 لاکھ کارکن ہٹا گئے۔ تمل ناڈو (67.6فیصد) نے 30,529 کارکن ہٹا گئے اور چھتیس گڑھ (66.6فیصد) میں 1.04 لاکھ مزدور ہٹا ئے گئے۔
تاہم، اخبار کے مطابق، مرکزی دیہی ترقی کی وزارت کے سینئر حکام نے ای-کے وائی سی مہم اور نام ہٹانے کے درمیان کسی بھی تعلق سے انکار کیا ہے۔ ایک سینئر عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار نے کہا کہ منریگا جاب کارڈ کی تصدیق ایک جاری عمل ہے اور اسے مکمل کرنے کی ذمہ داری ریاستی حکومتوں اور بالآخر گرام پنچایتوں پر عائد ہوتی ہے۔
مزید برآں، جاب کارڈز کی ہر پانچ سال بعد تجدید ہونی ضروری ہے۔ یہ عمل فی الحال جاری ہے۔ وزارت کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا،’ہم نے کسی بھی جاب کارڈ کو حذف کرنے کے لیے ایک معیاری آپریٹنگ طریقہ کار (ایس او پی) بھی جاری کیا ہے، جس میں حذف کرنے کے لیے منتخب کیے گئے جاب کارڈز کو عام کرنا، فائدہ اٹھانے والوں کو اپیل دائر کرنے کے لیے وقت دینااور گرام سبھا سے حتمی منظوری حاصل کرنا شامل ہے۔’
غلط استعمال کو روکنے کے لیے ای-کے وائی سی
ای-کے وائی سی کے عمل کے تحت منریگا کے نگرانی کرنے والوں یامیٹوں کو ہر کارکن کی تصاویر لینا ہوں گی اور انہیں منریگا کی ڈیجیٹل اٹینڈینس اپلی کیشن، نیشنل موبائل مانیٹرنگ سسٹم (این ایم ایم ایس) پر اپلوڈ کرنا ہوگا، تاکہ ان تصاویر کو ان کے آدھار ڈیٹا سے ملایا جاسکے۔
حکومت کی جانب سے ای-کے وائی سی کو تصدیق کی ایک اضافی پرت کے طور پر متعارف کرانے کی ایک وجہ یہ معلوم کرنا تھی کہ آیا این ایم ایم ایس پلیٹ فارم کا ‘غلط استعمال’ ہو رہا ہے یا نہیں۔ 8 جولائی کو، وزارت نے اس معاملے پر ریاستی حکومتوں کو 13 صفحات پر مشتمل ایک نوٹ جاری کیا تھا۔
این ایم ایم ایس کے تحت مزدوروں کی جیو ٹیگ شدہ تصاویر کو دن میں دو بار اپ لوڈ کیا جانا ہے۔ پایا گیا کہ ‘غیر متعلقہ یا غیر متعلقہ تصاویر’ اپ لوڈ کی جا رہی تھیں۔ بہت سے معاملات میں’لائیو کام کی تصاویر کے بجائے فوٹو-ٹو-فوٹو کیپچرنگ کی جا رہی تھی۔ وزارت کے نوٹ کے مطابق ‘حقیقی بمقابلہ ریکارڈ شدہ نمبروں میں مماثلت’ نہیں تھی۔
اس میں کہا گیا ہے کہ متعدد کام کی جگہوں پر کارکنوں کی صنفی ساخت میں مماثلت نہیں پائی گئی۔ متعدد مسٹر رول میں مزدوروں کی ایک ہی تصویر، صبح اور دوپہر کی تصویروں میں مزدروں کابے میل ہونا اور دوپہر کے سیشن کے لیے تصاویر اپلوڈ کرنے میں ناکامی کو بھی مسائل کے طور پر نشان زد کیا گیا۔ وزارت نے ریاستوں کو ہدایت دی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ گرام پنچایت، بلاک، ضلع اور ریاستی سطح پر ان تصاویر اور کارکنوں کی حاضری کی تصدیق کی جائے۔
تصدیق یا حذف؟
وزارت نے 2023 کے آغاز سے آدھار پر مبنی ادائیگی کے نظام (اے بی پی ایس) کو بھی لازمی قرار دیا تھا۔ کسیمزدور کے منفرد 12 ہندسوں کے آدھار نمبر کو ان کے مالی پتہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس نظام کے لیے کارکن کا نام اور دیگر آبادیاتی تفصیلات ان کے آدھار، جاب کارڈ، اور بینک اکاؤنٹ سے بالکل میل کھانا ضروری ہے۔ اسے ‘غیر قانونی اور جعلی جاب کارڈز’ کو ختم کرنے کے لیے بھی شروع کیا گیا تھا، لیکن اس کی وجہ سے کئی حقیقی کارکن بھی اس سے باہر ہوگئے۔
لب ٹیک کے سینئر محقق چکردھر بدھ نے کہا، ‘موجودہ ہٹائے جانے کا پیٹرن آدھار پر مبنی ادائیگی کے نظام کے متعارف ہونے کی یاد دلاتا ہے، جس میں 2021-22 اور 2022-23 کے درمیان ہٹائے گئے مزدوروں میں 247فیصد اضافہ دیکھا گیا۔’
انہوں نے کہا،’ ہر بارجب بھی کوئی نئی آدھار لنکڈ ٹیکنالوجی متعارف کرائی جاتی ہے – چاہے وہ پہلے اے بی پی ایس ہو یا اب ای- کےوائی سی – تواسے تصدیق کو مضبوط بنانے کے لیے متعارف کرایا جاتا ہے، لیکن اس سے حقیقی مزدوروں کے لیے نئی رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں اور بڑے پیمانے پر لوگ باہر ہو جاتے ہیں۔ نئی تکنیکوں سے نام ہٹانے کی یہ تیزی ظاہر کرتی ہے کہ مزدوروں پر ان کے اثرات کا اندازہ کیے بغیر ، انہیں اندھادھند طریقے لاگو نہیں کیا جانا چاہیے۔’