اگر حکومت نے جلد ہی کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا تو ملک کے 21 شہر کیپ ٹاؤن کی طرح ہوجائیں گے جہاں پانی بالکل نہیں ہے۔ ان شہروں میں دہلی ، گڑگاؤں ، میرٹھ اور فریدآباد سب سے زیادہ متاثر ہوں گے ۔
نئی دہلی : پورے ملک میں پانی کی قلت کے معاملے سامنے آرہے ہیں ۔ بتایا جاریا ہے کہ اگر ضروری اقدام نہیں کیے گئے تو آنے والے دنوں میں ملک کے 21 شہروں میں واٹر ایمرجنسی کا اندیشہ ہے۔ پانی کی قلت سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہروں میں دہلی ، گروگرام ، میرٹھ اور فریدآباد کے نام قابل ذکر ہیں ۔ ریڈیف ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے میگسیس ایوارڈ یافتہ راجیندر سنگھ نے ان اندیشوں کا اظہار کرتے ہوئے آبی بحران کے کئی پہلوؤں کے بارے میں بتایا ۔ انہوں نے کہا کہ ، آج ناگپور میں ایک فرنچ کمپنی ویلولیا انڈیا کمپنی پانی فراہم کر رہی ہے ۔ یہ کمپنی ملک کے 18 شہروں میں پانی کی فراہمی کی خواہاں ہے ۔ جلد ہی وہ ملک کے پانی پر قبضہ کر لیں گے ۔
آبی بحران پر سیاسی پارٹیوں کے رخ کو لے کر راجیندر سنگھ نے کہا کہ ، آپ کسی بھی پارٹی کا منشور اٹھاکر دیکھیں گے تو پائیں گے کہ پانی ان کے لیے کوئی مدعا ہے ہی نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ان کی آنکھوں کا پانی سوکھ چکا ہے۔ وہ پانی کے بارے میں اسی وقت بات کرتے ہیں جب وہ اس کو پرائیویٹ کمپنیوں کے ہاتھوں میں دینا چاہتے ہیں۔
راجیندر سنگھ نے اپنی اس بات چیت میں کہا کہ ، جب پانی حکومت کی ترجیحات میں شامل تھا تو بڑے بڑے ڈیم بنائے جاتے تھے ۔ صرف مہاراشٹر میں 42 بڑے ڈیم ہیں ۔ آج ملک کے رہنماؤں کے پاس پانی کے لیے کوئی وژن نہیں ہے۔ وہ صرف اس کے نام پر ووٹ لینا چاہتے ہیں ۔ جب تک لوگ اس کے حل کے لیے نہیں سوچیں گے ، پانی کا مسئلہ دور نہیں ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ جلد ہی ملک کے 21 شہروں میں زیرو واٹر ڈے ہوجائے گا۔ نلوں سے پانی آنے بند ہوجائیں گے ۔ لوگوں کو پانی کے لیے لمبی قطاروں میں انتظار کرنا ہوگا۔اگر حکومت نے جلد ہی کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا تو ان شہروں کا حشر کیپ ٹاؤن جیسا ہوگا ، جہاں پانی ہی نہیں ہے۔ دہلی ، گروگرام ، میرٹھ اور فریدآباد پانی کے مسئلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے ۔
انہوں نے مہاراشٹر جل یکت شیور پر وگرام کو لے کر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ ایک کلاسک مثال ہے۔اس کے پہلے دو سال ایک مثالی ماڈل پروگرام کی طرح تھے۔اس ماڈل میں ایک سائنسی سوچ تھی۔مہاراشٹر کے گاؤں والوں نے پانی کی دشواری کو حل کرنے کے لئے اپنی جیبوں سے 350 کروڑ روپے لگائے تھے ۔تاہم، بعد میں، جب حکومت نے اس ماڈل کونجی ٹھیکیداروں کو دینا شروع کیاتو لوگوں نے پیسہ دینا اور کام کرنا بند کردیا۔انہوں نے سمجھ لیا کہ ٹھیکیداروں کو پانی کے نام پر پیسہ کمانے کے لئے لایاجا رہا ہے۔اس لیے یہ ماڈل اب ناکام ہوچکا ہے۔
دریں اثناشدید گرمی کے درمیان ملک کے کئی حصوں میں پانی کی قلت ہے۔ تمل ناڈو کی راجدھانی چنئی میں بھی لوگوں کو آبی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ کئی ہفتوں سے پانی کی کمی کا سامنا کر رہے چنئی میں نہ صرف پانی بھرنے اور جمع کرنے کے لئے تشددکے واقعات سامنے آرہے ہیں بلکہ شہر کے ہوٹل، مال اور دیگر تجارتی مقامات بھی متاثر ہو رہے ہیں۔چنئی کے ایک نواحی شہر میں تمل ناڈو اسمبلی کے اسپیکر پی دھن پال کے ڈرائیور رام کرشنن کو گزشتہ جمعرات ان کی پڑوسی سہاسنی پر حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ بتایا گیا کہ رام کرشنن نے سہاسنی کے شوہر کو پانی بھرنے کے لئے موٹر چلانے سے روکا تھا۔
اس بات پر رام کرشنن نے ایک نکیلے ہتھیار سے سہاسنی پر حملہ کر دیا۔ ایک پولیس افسر نے بتایا کہ سہاسنی چنئی کے ایک ہاسپٹل میں ہیں اور ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ واقعہ شہر میں شدید آبی بحران کی ایک مثال محض ہے۔ مانسون کے انتظار میں چنئی گزشتہ دو ہفتوں سے پانی کی خوفناک کمی سے جدوجہد کر رہا ہے۔حال یہ ہے کہ اب شہر کی کئی آئی ٹی کمپنیوں نے اپنے ملازمین سے گھر سے کام کرنے کو کہا ہے، ہوٹل-ریستوراں میں کام کے گھنٹے کم کر دئے گئے ہیں، مقامی باشندےپانی کے ٹینکر بک کرنے کے لئے جدوجہد کر تے نظر آ رہے ہیں، وہیں ریاستی حکومت غیر قانونی طور پر پانی بھرنے کے لئے گھروں سے پانی کے کنیکشن کاٹ رہی ہے۔